اس وقت ملک کے بیشتر شہر اور دیہات ہیٹ ویو کی لپیٹ میں
ہیں۔سندھ کے کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ چکا ہے پنجاب کے
تمام شہر اور دیہات بھی گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔دراصل گلوبل وارمنگ کے باعث
سطح سمندر گرم ہونے سے لو پریشر بنتا ہے جس سے سمندری ہوائیں شہر کی طرف
آنا بند ہوجاتی ہیں اور لو پریشر کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے میدانی
علاقوں کی ہوا کراچی کو چھوتے ہوئے سمندر کی جانب چلنے لگتی ہے جس کے باعث
ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔اس دوران بجلی کی کھپت میں اضافے کے باعث لوڈ
شیڈنگ عام بات ہے اور جس کے بعد بلند و بالا عمارتوں میں پانی نہیں آتا، اس
لیے کراچی میں ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔ دریا خشک ہونے، آبادی میں
ہوشربا اضافے، دریا کے گرد جنگل کا خاتمہ ہونے اور شہر کی شاہراہوں پر قائم
درختوں کی کٹائی کی وجہ سے لاہور شہر بھی ان دنوں شدید لو اور دھوپ کی لپیٹ
میں ہے۔ہیٹ ویو کو پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھا جارہاہے۔ ماہرین کے
مطابق کہ گلوبل وارمنگ کئی گنا خطرناک ہے اور یہ پوری انسانیت کا اوّلین
مسئلہ ہے۔ ہم اس گھمبیر مسئلے سے آنکھیں نہیں چر ا سکتے۔ المیہ تو یہ ہے کہ
ملک بھر کے دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث غذائی قلت اور
زمینی حالات کی تبدیلی کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ
ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہاں ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمدات
کا انحصار زرعی شعبے پر ہی ہے، جس وقت تک حکومت کو ہوش آئے گا۔وفاقی وزیر
برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے چند روز بیشتر قومی اور صوبائی
ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام اور متعلقہ مقامی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ مون سون
کی معمول سے زیادہ بارشوں کے ممکنہ تباہ کن اثرات اور موسمی تغیرات سے
نمٹنے کے لیے تمام تر پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، کیونکہ خاص
طور پر موسم گرما کے مون سون کے اوقات میں سیلاب اور تیز بارشوں سے لوگوں
کی زندگیوں اور معاش کے ساتھ ساتھ عوامی انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید خطرہ
لاحق ہوتا ہے۔ موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی
منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی
کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا۔ وہ سیلاب جو کبھی 10 سال میں ایک مرتبہ
آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں ان جگہوں پر
پودے لگائیں جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہو، گھروں اور دفاتر میں نصب اے سی
فلٹرز کو صاف رکھیں، گیزر کو کور سے ڈھانپ کر رکھیں، کپڑے دھونے کے لیے
ٹھنڈے پانی کا استعمال کریں، گاڑیوں کا کم سے کم استعمال کریں اور یقینی
بنائیں کہ انجن اچھی حالت میں ہو، واک، بائی سیکل یاپبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں
کوترجیح دیں۔
پیرس معاہد ہ میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کے
صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کی بقا کو
درپیش انتہائی سنگین خطرہ ہیں جن کے حل پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔ ان کا
کہنا تھا کہ اگر اس مسئلہ سے نمٹنے میں ناکام ہوگئے تو دنیا کو اس کی بہت
بڑی قیمت ادا کرنی ہو گی۔اورسائنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ درجہ حرارت میں
اضافہ کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں
2030 ء تک 45 فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی
جانے والی کوششیں تاحال انتہائی ناکافی ہیں۔ انتہائی تشویش کی بات یہ ہے کہ
ماہرین نے اگلے 5 سال میں گرمی کا نیا ریکارڈ قائم ہونے کا امکان ظاہر کیا
ہے۔ موسمیات کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 40 فیصد یہ امکان موجود ہے
کہ اگلے 5 برسوں میں دنیا کا درجہ حرارت اس حد سے آگے بڑھ جائے گا جس سے آب
و ہوا سے متعلق پیرس معاہدہ کے ذریعہ بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موسمیاتی
ماہرین کی عالمی تنظیم نے اپنی تازہ پیش گوئی میں کہا ہے کہ دنیا میں 2025
ء کے اختتام تک گرم ترین سال کا نیا ریکارڈ بننے کا امکان 90 فیصد ہے۔ اور
یہ کہ بحر اوقیانوس میں آئندہ برسوں میں جنم لینے والے سمندری طوفان زیادہ
خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سال شمالی نصف کرۂ ارض پر خشکی کے زیادہ تر
حصوں میں درجہ حرارت حالیہ عشروں کے مقابلے 1.4 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ ہو
گا جو تقریباً 0.8 ڈگری سینٹی گریڈ کے مساوی ہے۔ امریکہ کے جنوب مغربی حصوں
میں خشک سالی جاری رہے گی۔ 40 فی صد امکان یہ ہے کہ اگلے 5 برسوں میں کم
ازکم ایک سال ایسا ہو سکتا ہے جس میں درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے عالمی
درجہ حرارت کے مقابلے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 2.7 ڈگری فارن ہائیٹ سے
زیادہ ہو۔ حالانکہ گزشتہ سال ماہرین کی ایک ٹیم نے اپنی پیش گوئی میں کہا
تھا کہ درجہ حرارت میں اضافہ کا امکان تقریباً 20 فیصد ہے۔ آئندہ چند برسوں
میں کرۂ ارض کم از کم ایک بار پیرس معاہدہ میں گرمی کی مقرر کردہ حد سے آگے
نکل جائے گا۔کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے سمندری طوفانوں کی تعداد اور
شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سبب بن
رہے ہیں۔ دنیا بھر میں موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے
فوڈ پروگرام نے دعویٰ کیا ہے کہ شدید موسمی حالات اور کووڈ19- وائرس کے
پھیلاو کی وجہ سے صرف وسطیٰ امریکی ممالک میں تقریباً 80 لاکھ افراد بھوک
اور قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ کاربن گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ
سے کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس سے موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا
ہے۔ حالیہ برسوں میں طوفانوں، سیلابوں، شدید بارش اور افریقہ سمیت دنیا کے
کئی علاقوں میں خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے جس سے خوراک اور پانی کی دستیابی
میں قلت کے باعث لاکھوں افراد کو عالمی امداد کی شدید ضرورت ہے۔ قحط کی وجہ
سے خاص طور پر یمن میں لاکھوں بچوں کے ہلاک ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ورلڈ
فوڈ پروگرام کے کرائے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ لاطینی امریکہ میں
تقریباً 15 لوگ دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ٹھوس منصوبہ بندی کر چکے
ہیں جہاں انہیں خوراک دستیاب ہو۔گلوبل وارمنگ سے متعلق پیرس معاہدہ میں
2050 ء تک کاربن گیسوں کے اخراج کی سطح صفر پر لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے
لیکن سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو معاہدہ سے نکالنے کے بعد
اس ہدف کا حصول نہ صرف مشکل ہو گیا تھا بلکہ یہ خدشات بھی پیدا ہو گئے تھے
کہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ سے موسموں کی شدت جانی اور مالی
نقصانات میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ بہرحال بائیڈن انتظامیہ کی پیرس
معاہدہ میں واپسی کو جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اقوام متحدہ نے اسے آب و
ہوا میں تبدیلی کو روکنے کے سلسلے میں اہم پیش رفت اور امید کا موقع قرار
دیا ۔تاہم آب و ہوا میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ
کی ایک تازہ ترین رپورٹ نے بھی اس سلسلے میں موجودہ کوششوں کو ناکافی قرار
دیتے ہوئے خبردار کیا کہ مناسب اقدامات کرنے میں مزید تاخیر کرۂ ارض کے لیے
خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ بلا شبہ گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف
دعوے کرنے یا سیاسی رسہ کشی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے بلکہ ملکوں کو
عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سائنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ درجہ حرارت میں
اضافہ کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں
2030 ء تک 45 فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی
جانے والی کوششیں تاحال انتہائی ناکافی ہیں۔ اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں
کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجہ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا
سامنا کرنا پڑے گا ۔ |