ڈاکٹر صابرؔ سنبھلی، سیف خاں
سراے، سنبھل مرادآباد
حسن نعت و چنیں شیریں بیانی
تو خوش باشی کہ کر دی وقت نا خوش
نعت گوئی اپنے آپ میں ایک مکمل صنف ہے اور اس کا میدان بھی کافی وسیع ہے
لیکن اردو تنقید نگاروں نے جتنی بے اعتنائی اس صنف کی طرف سے برتی ہے وہ
قابل افسوس ہے ماناکہ وہ ایک مخصوص حلقے کی چیز ہے ۔ لیکن مرثیہ جس حلقے سے
تعلق رکھتا ہے نعت کا حلقہ اس کے مقابلے میں وسیع تر ہے شاید یہ کہا جائے
کہ مرثیے میں مذہبیت کے علاوہ کچھ دیگر خصوصیات ایسی ملتی ہیں جنہوں نے
لکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ لیکن اردو نعتوں میں ادبی خوبیاں اگر
مرثیے کے برابر نہیں ہیں تو اس سے کم سہی ہیں ضرور ۔ بہر حال یہ صنف ادبیت
سے اس قدر تہی داماں نہیں ہے کہ اس کی طرف توجہ ہی نہ کی جائے ۔
عرف عام میں نعت اس نظم کو کہا جاتا ہے جو اسلام کے پیغمبر حضرت احمد
مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں کہی جائے ۔ لیکن
قاعدے میں مدح مذکورہ نظم میں ہو یا نثر میں ، نعت ہی کہی جائے گی ۔ پیغمبر
آخر الزماں سے منسوب ہونے کے باعث یہ صنف اپنے اندر تقدس تور کھتی ہی ہے
لیکن اس کی تاریخ بھی طویل ہوگئی ہے جو چودہ سو برس سے زیادہ عرصے میں
پھیلی ہوئی ہے ۔ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں حضرت حسان بن
ثابت رضی اللہ عنہ ایک اچھے شاعر تھے وہ نعتیں کہہ کہہ کر حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کو سنایا کرتے تھے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان کو
پسند فرماتے تھے ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے کہے ہوئے نعتیہ اشعار
آج بھی موجود ہیں ۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے بعد سے آج تک کوئی زمانہ ایسا نہیں رہا جس میں
نعت گوئی نہ کی جاتی رہی ہو ۔ بعض اوقات تو شعراء نے بڑے شدومد کے ساتھ
نعتیں کہی ہیں ۔ گیارہویں صدی ہجری کے اختتام تک شاید ہی کوئی مسلمان شاعر
ایسا ہو جس نے اپنی زبان سے نعت رسول نہ کہی ہو۔ بعض بعض شعراء نے اپنی
ساری عمریں ہی نعت گوئی میں صرف کردیں ۔ علامہ بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا
قصیدہ بردہ شریف اس فن کی معراج ہے ۔ روایت کے مطابق اس کو ( امام صاحب کے
خواب میں ہی) حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا اور پسند فرمایا۔ امام
صاحب کے مفلوج جسم پر شفا کے لیے ہاتھ پھیرا۔ اور چادر انعام میں عطا
فرمائی ۔ جس کو امام صاحب نے جاگنے پر اپنے اوپر پڑا ہوا پایا ۔ اور جسم
حیرت انگیز طور پر صحت مند ہوگیا ۔ مولوی معنوی کی مثنوی شریف بھی نعتوں کا
خوشنما گلدسۃ ہے ۔ اگر چہ مثنوی شریف پندو مو عظت کی حکایات پر مشتمل ہے
مگر وہ حکایات بھی نعت گوئی سے خالی نہیں۔ ایرانی شعراء نے نعت گوئی میں وہ
کمال بہم پہنچایا کہ حسان العجم کہلائے ۔ حسنؔ غزنوی ، نظامی ؔ گنجوی ،
عرفی ؔ ، سعدیؔ ، جامیؔ نے بھی اس صنف میں کافی طبع آزمائی کی ۔ مولانا
جامیؔ کی نعت کا شعر
ببرایں جان مشتاقم بآنجا
فدائے روضہ خیرالبشر کن
آج بھی اہل حال کی مجلس میں پڑھا جاتا ہے ۔ تو سامعین پر وجد کی کیفیت طاری
ہوجاتی ہے ۔
اردو نعت گوئی کے جسد میں عربی کے بجائے فارسی نعت گوئی کا خمیر پڑا ہے ۔
اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ عربی میں نعت گوئی چلتی تو رہی لیکن اس فن کو
جو ترقی فارسی زبان میں میسرآئی چند مستثنیات کے علاوہ عربی نعتیہ شاعری
مقابلۃً پیچھے ہی رہی جہاں تک اردو میں نعت گوئی کا سوال ہے اس کے بارے میں
یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے ۔ اردو کا سب سے پہلا نعت گوشاعر کون تھا۔
اس کا جواب ایسی حالت میں دینا انتہائی مشکل ہے جب کہ ہنوز اس پر کوئی
تحقیقی کام نہیں ہوا ہے البتہ اتنا یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اردو کی
ابتداء کے ساتھ ہی نعت گوئی کی ابتداء کا دامن بھی بندھا ہوا ہے ۔ اردو
صوفیہ اور عرفاء کے ملفوظات کے ساتھ پر وان چڑھی اس لیے ابتداء میں بھی اس
کا دامن نعت سے خالی ہوناناقابل تسلیم ہے ۔ ہمارے ادب کی ابتداء دکن سے
مانی جاتی ہے اور دکنی ادب میں نعتیں بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ۔
اس لیے اردو میں بھی اس کی قدامت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
اردو زبان میں نعت گوئی پھلتی پھولتی رہی آگے بڑھتی رہی ۔ میلاد خواں
جماعتیں اس کی ترقی کے لیے برابر کوشاں رہیں ۔ میلاد ناموں کے مصنف اپنے
اشہب فکر کی تمام ترقوت پر واز نعت گوئی کے مضامین پر صرف کرتے رہے لیکن
انیسویں صدی عیسوی میں چند ایسی شخصیتیں اُفق نعت پر نمودار ہوئیں کہ یہ فن
نقطۂ عروج پر پہنچ گیا ان شخصیتوں کی فہرست یوں تو طویل بھی ہوسکتی ہے مگر
اہم نام ہیں : اعلیٰ حضرت مولانا مولوی امام احمد رضا خاں رضاؔ بریلوی ،ان
کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی ، اور حسان الہند
مولانا محمد محسن محسنؔ کا کوروی رحمۃ اللہ علیہم ۔ آج کی صحبت میں حضرت
مولانا حسن رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کی نعت گوئی پر اجمالی گفتگو مقصود ہے ۔
مولانا حسن رضا خاں مشہور زمانہ اور شہرہ آفاق عالم دین اعلیٰ حضرت امام
احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے چھوٹے بھائی تھے۔ یہ ایک علمی اور دولت مند
گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ نسباً قندھاری پٹھان تھے ۔ مولانا کے مورث
اعلیٰ مولانا سعید اللہ خاں عہد مغلیہ میں صاحب جاہ شخص تھے۔ ان کے
صاحبزادے سعادت یا رخاںایک جنگ کے سلسلے میں روہیل کھنڈ تشریف لائے تھے ۔
سعادت یار خاں کے صاحبزادے مولانا اعظم خاں اچھے عہدے پر فائز تھے ۔ مگر
بعد میں تارک الدنیا ہوگئے تھے ۔ ان کے صاحبزادے حافظ کا ظم علی خاں
شہربدایوں کے تحصیلدار تھے ۔ حافظ کا ظم علی خاں کے صاحبزادے اور مولانا
حسن میاں کے دادا حضرت مولانا شاہ رضا علی خاں بہت بڑے عالم باعمل تھے
مولانا محمد حسین علمی جن کا لکھا ہو اخطبۂ علمی آج ہند وپاک کی بیش
ترمساجد میں ہر جمعے کو منبروں پر خوش الحانی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ، انہیں
کے شاگرد تھے ۔ حسن میاں کے والد مولانا شاہ حکیم نقی علی خاں بھی بڑے عالم
اورصاحب دل بزرگ تھے ۔ ان کے صاحبزاد ے اور حسن میاں کے بڑے بھائی حضرت
امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی کانام محتاج تعارف نہیں ۔ ان کی ہمہ دانی بے
نظیر تھی ۔ حضرت کے تبحرعلمی کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ وہ تقریباً سات سو کتابوں* کے مصنف ، مرتب ، محشی اور مترجم ہیں جن میں
فتاویٰ رضویہ کی بارہ جلدیں ہی بلحاظ ضخامت ، تحقیق اور علمیت کئی مفتیوں
کے تمام زندگی کے کام پر بھاری ہیں ۔ دونوں بھائیوں کے قلب مئے عشق رسول
صلی اللہ علیہ وسلم سے سر شار تھے ۔ نعت گوئی کو جس بلندی پر ان دونوں
بھائیوں نے پہنچایا ہے اس کو اس وقت تک نقطۂ عروج ہی کہا جائے گا ۔ حسن
میاں کی ولادت ۲۲؍ ربیع الآخر ۱۲۷۶ھ مطابق ۱۸؍ نومبر ۱۸۵۹ء کو اور وفات ۳؍
شوال ۱۳۲۶ھ مطابق ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۰۸ء (۱) کو بعمر تقریباً ۵۰ سال قمری و ۴۹ ؍
سال شمسی ہوئی ۔ فصیح الملک حضرت نواب مرزاخاں داغؔ دہلوی سے فن شعر میں
تلمذتھا ۔ غزلوں کا ایک مختصر مجموعہ… ’’ساغر پر کیف ‘‘ دستیاب ہے ۔ دیوان
’’ ثمر فصاحت (۱۳۱۹ھ) ‘‘ کمیاب ہے ۔ نعتیہ دیوان ’’ذوق نعت ‘‘ تاریخی نام
سے موسوم ہے ۔
نعت کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں ہے ، غزل ،مثنوی ، مخمس، مسدس ، ترکیب بند اور
ترجیع بند حتیّٰ کہ مستزا دتک تمام ہئیتوں میں کہی جاسکتی ہے بلکہ کہی جاتی
ہے لیکن سب سے زیادہ مقبول ہیئت غزل کی ہے گویا غزل کا جامہ زیبا اس کے
قدموزوں پر بالکل درست آیا ہے ۔ دوسرے نمبر پرمخمس اور اس کے بعد ترجیع بند
کو پسند کیا جاتا ہے ۔ استاد شاعروں نے مثنوی میں بھی نعتیں کہی ہیں ۔ جن
میں مولانا محسنؔ کا کوروی کی ’’ صبح تجلی ‘‘ و ’’ چراغ کعبہ ‘‘ وغیرہ
اور’’ شاہنامہ اسلام‘‘ میں ابوالا ثر حفیظؔ جالندھری کے نعتیہ اشعار خصوصیت
سے قابل ذکر ہیں ۔
نعت گوئی ایک انتہائی مشکل فن ہے ۔ علم دین خصوصاً ، قرآن و حدیث اور عقائد
کی گہری واقفیت کے بغیر اس راہ کے راہرو کو قدم قدم پر ٹھو کروں سے ہی
واسطہ پڑتا ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے ایک قول کا، مفہوم ہے کہ نعت کہنا
تلوار کی دھار پر چلنا ہے اگر تعریف میں ذرا غلو ہوا تو الو ہیت کی سرحد
شروع ہوجاتی ہے اور اگر ذراکمی ہوئی تو تنقیص شان کا احتمال ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ بعض نعت گو شعراء نعت گوئی کے فرض سے صحیح طور پر عہدہ بر
آنہیں ہوسکتے ۔ مگر چونکہ مولانا حسنؔ عالم دین تھے اور عشق رسول بھی رگ رگ
میںسمایا ہو اتھا اس لیے وہ اس کو چے سے نہایت کامیابی کے ساتھ گزر گئے ۔
اور ان کے نقش قدم آج بھی رہروانِ رہ نعت کے لیے رہنمابنے ہوئے ہیں ۔
مولانا کی نعت گوئی چند قابل لحاظ و جوہ کی بنا پر اہمیت کی حامل ہے۔
اول: یہ کہ ان کے یہاں عام میلاد ناموں کے مصنفین کی طرح محض چند مضامین کی
تکرار نہیں ہے ۔
دوم : اپنی نعتوں میں انہوں نے ایسے الفاظ کے استعمال سے بھی عام گریز کیا
ہے جن سے ان کے ممدوح کی توصیف کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ۔ جیسے ’’ کالی
کملی والے ‘‘ ’’ گلہ باں ‘‘’’ حلیمہ کے پالے‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔
سوم : یہ کہ عام نعت گوشعراء عموماً اللہ رب العزت کو ایسے ناموں سے بھی
یادکرجاتے ہیں جن کا استعمال ممنوع ہے ۔ لیکن مولانا کا علم ان کو اس قسم
کی تمام غلطیوں سے بچائے رہا۔
چہارم : نعت گوئی میں ایک عام غلطی یہ ہوجاتی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ
وسلم کا تعلق یا تقابل جب انبیاء ماسبق سے دکھا یا جاتا ہے تو کہیں کہیں
نبی آخر الزماں کی توصیف کے پردے میں انبیائے سابقین کی تنقیص شان کا پہلو
نمایاں ہو جاتا ہے ۔ مولانا نے حتی الامکان اس غلطی سے اپنے آپ کو بچائے
رکھا ہے ۔
پنجم : یہ کہ وہ الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط ہیں مثلاً ایک لفظ ’’ شیدا
‘‘ جو عاشق کے معنیٰ میں آتا ہے علمائے محتاط کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی شان
میں اس کا استعمال گستاخی قرار پاتا ہے اسی لیے مولانا نے اس لفظ کا
استعمال اللہ رب العزت کے لیے کہیں نہیں کیا بلکہ وہ مجبور ہو کر اس کی جگہ
لفظ ’’پیارا ‘‘ استعمال کرتے ہیں جوکانوں کو عجیب اور نامانوس تو لگتا ہے
مگر شاعر اور نعت خواں کو شان الوہیت میں گستاخی کے ارتکاب سے محفوظ رکھتا
ہے ۔ نمونے کے دوشعر نقل ہیں ؎
حسن یوسف پر زلیخامٹ گئیں
آپ پر اللہ پیارا ہوگیا
تیرے صانع سے کوئی پوچھے تراحسن و جمال
خود بنایا اور بنا کر خود ہی پیارا ہوگیا
’’ ذوق نعت ‘‘ سے ازروئے جمل ۱۳۲۶ھ ہاتھ آتا ہے ۔ یہی شاعر کا سال فوت بھی
ہے گویا نعتیہ دیوان کا سال طباعت یا سال ترتیب اور مصنف کا سال فوت ایک ہی
ہے ۔
’’ذوق نعت ‘‘ کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں ۔ یہ نعت خواں، میلاد خوانوں اور
نعت گوئی سے شغف رکھنے والے حضرات میں کافی مقبول ہے۔ کلام کی ترتیب ردیف و
ار ہوئی ہے ۔ ’’الف‘‘ سے لیکر ’’یا‘‘ تک ہر ردیف کی نعتیں دیوان میں موجود
ہیں ۔
’’ الف‘‘ کی ردیف میں پہلے دو حمد یں شامل کی گئی ہیں اس کے بعد نعتیں شروع
ہو جاتی ہیں ۔ ردیف کی ترتیب کے مطابق نعت کے علاوہ جو دیگر اصناف سخن آتی
گئی ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ شامل ہوتی رہی ہیں ۔ جیسے منقبت حضرت خواجہ غریب
نواز ، مناقب خلفائے راشدین ، ذکر شہادت ، منقبت حضرت غوث اعظم ، منقبت
حضرت اچھے میاں مار ہروی ، حاضری حرمین طیبین و غیر ہم ، خاتمہ دیوان کے
بعد تین مسدسات ہیں ، پہلی ذکر معراج شریف کے باب میں دوسری حضرت بڑے پیر
صاحب سے طلب استمداد میں موسوم باسم تاریخی نغمۂ روح (۱۳۰۹ھ) اور تیسری
مناقب حضرت شاہ سید بدیع الدین مدار قدس سرہ میں پہلی مسد س ترکیب بند میں
ہے ۔ اور بقیہ دو ترجیع بند میں نغمۂ روح میں جس بیت کی تکرار کی گئی ہے وہ
یہ ہے ؎
روئے رحمت بر متاب اے کام جاں ازروئے من
حرمت روح پیمبر یک نظر کن سوئے من
اس ترجیع بند میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے بند حروف تہجی کے لحاظ سے
ردیف وار درج ہوئے ہیں اور ’’الف‘‘ سے لے کر ’’یا‘‘ تک کوئی ردیف ایسی نہیں
ہے جس میں بند نہ کہاگیا ہو ۔ عقیدت و احترام اور ادبیت و شعر یت کا حسین
امتزاج اس ترجیع بندمیں جلوہ گر ہے ۔
مسد سات کے بعد ایک سلام ( برروح نبی ) اور کچھ رباعیات ہیں ۔ اس کے بعد
شاعر کی وقتاً فوقتاًکہی گئی تاریخیں ہیں ۔
کتاب کے آخر میں چند مثنویات اور قصائد ہیں ۔ اس حصے کا تاریخی نام’’ و
سائل بخشش‘‘ ہے ۔ جس سے ۱۳۰۹ھ ہاتھ آتا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ کتاب کا یہ
حصہ جو آخر میں شامل ہوا ہے دیوان کی طباعت وترتیب سے سترہ سال قبل تخلیق
یا طبع ہوگیا تھا ۔ پہلی تین مثنویات حمدیہ اور نعتیہ ہیں جن میں عشق و
محبت کے جذبات کی تیز آنچ کے ساتھ اشہب فکر کی وہ ، جولانیاں بھی نظرآتی
ہیں جو مولانا کو عاشق سے زیادہ شاعر اور شاعر سے زیادہ عاشق ثابت کرتی ہیں
۔ا س کے بعد کچھ مختصر مثنویات ہیں جن میں حضرت غوث پاک کے حالات اور ان کی
کرامات سے متعلق روایات کو نظم کیا گیا ہے ۔ بیچ میں ایک منقبتی غزل شامل
ہوگئی ہے جو بڑے پیر صاحب کی شان میں ہی ہے ۔ ایک مثنوی میں دلادت خاتم
النبیین کا شاعر انہ حال آخر میں ایک ناتمام مثنوی ہے جس کا عنوان ہی مثنوی
نا تمام ہے ۔ حصہ قصائد میں مولانا فضل رسول قادری مجیدی بدایوں کی مدح میں
کہا گیا طویل قصیدہ کافی اہم ہے ۔ تین نیم ہجویہ قصائد ہیں ۔ سب کی ردیف ’’
باقی ‘‘ ہے ڈھائی صفحات میںمتفرق کلام اور سب کے آخر میں طبع دیوان کی
تاریخیں ، مولانا کا مختصر تعارف اور تاریخ وفات درج ہے ۔
’’ذوق نعت ‘‘ کی نعتیں فکر وفن اور جذبہ و تخیل کا حسین امتزاج ہیں ۔ جذبۂ
عشق رسول کی تیز آنچ قاری کے دل میں احساس کی گرمی پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
اپنے ممدوح کی شان ارفع و اعلیٰ کو شاعر نے جس انداز سے اجاگر کیا ہے وہ
قابل تعریف ہے اور وہ اس لیے کہ اس کا دائرہ صرف جذبات حب نبی کے حصار تک
ہی محیط نہیں بلکہ وہ عمدہ شاعری کا نمونہ بھی ہے ۔ اگر ’’ ذوق نعت ‘‘کا
مطالعہ اس نظر سے کیا جائے کہ اس کے مذہبی جذبات کو نظر انداز کرکے صرف اس
کی ادبیت کوہی ملحوظ رکھیں تو اس میں فصیح الملک حضرت داغؔ دہلوی کے انداز
شاعری کی بھرپور چھوٹ دکھائی دیتی ہے ۔ حضرت داغؔ کی شاعری کا اتنا واضح
اور نمایاں رنگ ان کے دوسرے شاگردوں کی شاعری میں نظر نہیں آتا جتنا کہ
حسنؔ میاں کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان مضامین کو بیان کرتے ہوئے بھی جن
کو متقدمین بیان کرگئے ہیں ۔ مولانا کی قدرت بیان ، طرزادا ، اور تخیل کی
بلند پر وازی نئے نئے گوشے ڈھونڈنکالتی ہے اس کے علاوہ انہوں نے نعت میں
سیکڑوں نئے مضامین داخل کئے اور عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار
میں سیکڑوں نئے نکات کو اپنے اچھوتے انداز میں بیان کیا۔ مولانا نے بہت سی
جگہوں پر اپنے عقائد و نقطۂ نظرکو واضح کرنے کے لیے عقلی دلائل سے بھی کام
لیا ہے اگر قاری کے دل میں ذرا بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرارت
ہے تو ’’ ذوق نعت ‘‘ کا مطالعہ اس حرارت کو شعلوں میں تبدیل کرکے روح و
ایمان کو تپاکر تازگی اور جلا بخش دیتا ہے اکثر اشعار کی اثر آفرینی سے
پڑھنے والے کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور جسم میں سنسنی دوڑ جاتی ہے اثر
آفرینی تو خیرنعت کی داخلی خصوصیت ہے ہی مگر مولانا کی نعتوں کو دلکش بنانے
میں ان کی خلاقی مضمون کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جیسا کہ کہا جاچکا ہے کہ
انہوں نے سیکڑوں نئے مضامین کو اپنی، نعتوں میں راہ دی اور نہ جانے کتنے
نئے نکات جو نظروں سے نہاں تھے اپنے مخصوص انداز میں بیان کیے ۔ کچھ اشعار
پیش ہیں ۔ مضامین کے ساتھ ساتھ طرزا دا پر بھی نظر رکھی جائے تو شاعر کی
قادر الکلامی کا لوہا مانے بغیر چارہ کار نہیں ۔
صدق نے تجھ میں یہاں تک تو جگہ پائی ہے
کہہ نہیں سکتے اُلش کو بھی تو جھوٹا تیرا
اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہوجاتا
غم کو نین کا سارا بکھیڑا پاک ہوجاتا
اور میں کیا لکھوں خدائی حمد
حمد اسے وہ خدا ہوا تیرا
مجھ سے کیا لے سکے عدو ایماں
اور وہ بھی دیا ہوا تیرا
ہیں دعائیں سنگ دشمن کا عوض
اس قدر نرم ایسے پتھر کا جواب
میں یدبیضاء کے صدقے اے کلیم
پر کہاں ان کی کف پاکاجواب
ناخدائی سے نکالا آپ نے
چشمۂ مغرب سے ڈوبا آفتاب
قل کہہ کر اپنی بات بھی لب سے ترے سنی
اللہ کو ہے اتنی تری گفتگو پسند
کریں تعظیم میری سنگ اسود کی طرح مومن
تمہارے در پہ رہ جائوں جو سنگ آستاں ہوکر
بے لقاے یار ان کو چین آجاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر
اس در کی خاک پر مجھے مرنا پسند ہے
تخت شہی پہ کس کو نہیں زندگی عزیز
الہٰی دھوپ ہو ان کی گلی کی
مرے سر کو نہیں ظل ہما خوش
تھی جو اس ذات سے تکمیل فرامیں منظور
رکھی خاتم کے لئے مہر نبوت محفوظ
جلوہ موئے محاسن چہرہ انور کے گرد
آبنوسی رحل پر رکھا ہے قرآن جمال
سفر کر خیال رخ شہ میں اے جاں
مسافر نکل جا اجالے اجالے
منور دل نہیں فیض قدوم شہ سے روضہ ہے
مشبک سینۂ عاشق نہیں روضہ کی جالی ہے
ترے محتاج نے پایا ہے وہ شاہانہ مزاج
اس کی گدڑی کو بھی پیو ندہوں دارائی کے
ہیں ترے آستاں کے خاک نشیں
تخت پر خاک ڈالنے والے
’’ذوق نعت ‘‘ میں حمد و مناقب ، ذکر شہادت اور قصائد وغیرہ چھوڑ کر کل
اناسی نعتیں ہیں جن میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ مولانا طویل نعتیں
لکھنے کے عادی تھے اناسی نعتوں میںسے صرف ایک نعت میں چھ شعر،دو میں نو نو
شعر، آٹھ میں گیارہ گیارہ شعر ہیں ۔ باقی اشعار کی تعداد ان سے زیادہ ہی ہے
۔ یہاں تک کہ کسی کسی نعت میں اشعار کی تعداد پچاس بلکہ ساٹھ سے بھی تجاوز
کر گئی ہے ۔ بیس سے زیادہ شعر بہت سی نعتوں میں ہیں ؎
درد دل کر مجھے عطا یارب
دے مرے درد کی دوا یارب
اس نعت میں پچپن شعر ہیں ؎
جاں بلب ہوں آمری جاں الغیاث
ہوتے ہیں کچھ اور ساماں الغیاث
اس نعت میںچھیا سٹھ شعر ہیں اس سے صرف یہی نہیں سمجھنا چاہئے کہ آسان ردیف
اور قافیہ ہونے کے سبب زیادہ شعر نکالنے میں کامیابی ہوئی ہوگی۔ انہوں نے
ادق زمینوں میں بھی طویل نعتیں کہی ہیں ؎
پر نور ہے زمانہ صبح شب ولادت
پردہ اٹھا ہے کس کا صبح شب ولادت
میں اکیاون اشعار ؎
دشمن بنے گلے کا ہار آقا
لٹتی ہے مری بہار آقا
میں اکتالیس شعرا ور ؎
سر صبح سعادت نے گریباں سے نکالا
ظلمت کو ملا عالم امکاں سے نکالا
میں پچیس شعر ہیں ۔ جو مولانا کی قادر الکلامی اور ذوق نعت گوئی کی بین
دلیل ہیں ۔
قدیم شعراء میں غزل کے درمیان قطعہ بند شعر لانے کا خاص رواج تھا۔ مولانا
کا رجحان بھی اسی طرف پایا جاتا ہے مولانا کی بارہ نعتوں میں تقریباً ۱۴؍
قطعہ بند شعر ملتے ہیں ۔ ایک نعت میں جس کا مطلع ہے ۔
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا
ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہوگا
دو مطلعے اورایک شعر کے بعد قطعہ بند اشعار شروع ہوتے ہیں اور مقطع تک چو
بیس اشعار کاایک ہی قطعہ ہے جس میں قیامت کی پر ہول منظر کشی اور حضور پاک
صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل گناہگاروں کو راحت ملنے کا بیان ہے ۔ ’’ذوق نعت
‘‘ کا یہ سب سے زیادہ طویل قطعہ ہے ۔ جس میں عقیدت کے ساتھ ساتھ ادبیت کی
ہلکی سی چاشنی بھی موجود ہے۔
’’ ذوق نعت ‘‘ کے مطالعے سے ایک بات کا اور بھی پتہ چلتا ہے اور وہ یہ کہ
مولانا نے اپنے بڑے بھائی فاضل بریلوی کی نعتوں کی زمین میں بھی نعتیں کہی
ہیں ۔ فاضل بریلوی کے نعتیہ دیوان حدائق بخشش (۱۳۲۵ھ) اور ذوق نعت میں چار
زمینوں میں کہی گئی نعتیں مشترک ہیں۔ خدا جانے کہ یہ نعتیں کسی طرحی نعتیہ
مشاعرے کے لیے کہی گئی تھیں یا مولانا نے بغیر کسی طرحی التزام کے احتراماً
اور تقلیداً کہی ہیں ۔ طرحی مشاعروں کے لئے کہے جانے کا کوئی ثبوت ہمارے
سامنے نہیں ہے اور قیاس بھی یہی کہتا ہے کہ مولانانے یہ نعتیں کسی طرحی
مشاعرے کی طرح پر نہیں کہیں بلکہ اصل مقصود برادر مکرم کی پیروی ہی تھا۔
ہم طرح نعتوں کے مطلعے حسب ذیل ہیں :
واہ کیا جودو کرم ہے شہ بطحاتیرا
نہیں سنتاہی نہیں مانگنے والا تیر ا
(فاضل بریلوی)
جن و انسان و ملک کو ہے بھروسا تیرا
سرورا مرجع کل ہے در والا تیرا
(حسن میاں)
غم ہوگئے بیشمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
(فاضل بریلوی)
دشمن ہے گلے کا ہار آقا
لٹتی ہے مری بہار آقا
(حسن میاں)
محمد مظہر کامل ہے حق کی شان عزت کا
نظر آتا ہے اس کثرت میں کچھ انداز و حدت کا
کہوں کیا حال زاہد گلشن طیبہ کی نزہت کا
کہ ہے خلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا
(حسن میاں)
اندھیری رات ہے غم کی گھٹاعصیاں کی کالی ہے
دل بیکس کا اس آفت میں آقا تو ہی والی ہے
(فاضل بریلوی)
مرادیں ملی رہی ہیں شادشادان کا سوالی ہے
لبوں پر التجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے
(حسن میاں )
ان کے علاوہ دونوں مجموعوں میں کچھ کلام ایسا بھی ہے جس کو ہم زمین تو نہیں
کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا امکان ضروری ہے کہ نعتیں کہتے وقت حسن میاں کے
سامنے یا ان کے ذہن میں فاضل بریلوی کی نعتوں کی طرحیں موجود تھیں ۔ حضرت
غوث پاک کی مدح میں ایک ہی طرح میں فاضل بریلوی نے چار منقبتیں کہی ہیں ۔
حسن میاں نے بھی اس بحر میں منقبت کہی ہے ۔ ردیف وہی ہے مگر قافیے بدل گئے
ہیں ۔
ترا ذرہ مہ کامل ہے یا غوث
تراقطرہ یم سائل ہے یا غوث
(فاضل بریلوی)
جو تیرا طفل ہے کامل ہے یا غوث
طفیلی کا لقب و اصل ہے یاغوث
؍؍
بدل یا فرد جو کامل ہے یا غوث
ترے ہی در سے مستکمل ہے یاغوث
؍؍
طلب کا منہ تو کس قابل ہے یا غوث
مگر تیرا کرم شامل ہے یا غوث
؍؍
پڑے مجھ پر نہ کچھ افتاد یا غوث
مدد پر ہو تری امداد یا غوث
(حسن میاں)
دونوں مجموعوں کی دو نعتوں کے ہم طرح ہونے میںذراسی کمی رہ گئی ہے حسن میاں
نے فاضل بریلوی کی ردیف کو قافیہ بنا لیا ہے ۔
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرادل بھی چمکا دے چمکانے والے
(فاضل بریلوی)
نہ مایوس ہو میرے دکھ درد والے
درشہ پہ آ، ہر مرض کی دوا لے
(حسن میاں)
اسی طرح دونعتوں میں مولانا حسن میاں نے فاضل بریلوی کی ایک نعت کی ردیف
میں خفیف سا فرق کردیا ہے یعنی آخر میںیائے معروف کے بجائے یائے مجہول لے
آئے ہیں بحر اور قوافی وہی ہیں ۔
قافلے نے سوئے طیبہ کمرآرائی کی
مشکل آسان الہٰی مری تنہائی کی
(فاضل بریلوی)
جان سے تنگ ہیں قیدی غم تنہائی کے
صدقے جائوں میں تری انجمن آرائی کے
(حسن میاں)
پردے جس وقت اٹھیں جلوہ زیبائی کے
وہ نگہبان رہیں چشم تمنائی کے
؍؍
ایک نعت میں بحربدلی ہوئی ہے مگر ردیف قافیے وہی ہیں ۔
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف ان کی رسائی ہے
گران کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
باغ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے
کیا مدینے پہ فدا ہو کے بہار آئی ہے
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے مولانا کو فصیح الملک حضرت نواب مرزاداغؔ دہلوی
سے تلمذ تھا اور شاید اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ انکشاف
حیرت کا باعث ہو کہ حضرت داغؔ کے شاگردوں میں کسی نے استاد سے اتنا استفادہ
نہیں کیا جتنا مولانا نے کیا۔ وہ ایک مدت تک رام پور میں رہ کر داغؔ مرحوم
سے اکتساب فیض کرتے رہے ۔ لیکن زمانے کی نیرنگی کہیے یا کچھ اور ہمارے
مورخین ادب جب حضرت داغؔ کے شاگردوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو دیگر شاگردوں
مثلاً احسن ؔ مارہروی ، ڈاکٹرسر محمد اقبال ، جگرمراد آبادی ، سیمابؔ اکبر
آبادی ، نوحؔ ناروی ، نظام حیدر آباد نواب میرمحبوب علی خاں آصفؔ ، سائلؔ
دہلوی ، بیخودؔدہلوی ، بیخودؔ بدایونی ، نعیم بھرت پوری اور آغا شاعر ؔ
دہلوی کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر حضرت مولانا کا نام بھی فہرست تلامذہ میں
نہیں ہوتا ۔(۱) جب کہ پختگی اور استاد کے رنگ کو کامیابی سے برتنے کے سبب
مولانا کو بجا طور پر جانشین داغؔ کہا جاسکتا ہے ۔ ہوسکتا ہے اس بے اعتنائی
کا سبب دیوان غزلیات کا کمیاب ہو جانا ہو۔ مگر ان کا نعتیہ دیوان بھی کسی
طرح نظر انداز کردینے کے لائق نہیں ۔
اس لئے وہ اہم چیز جو حسن میاں کو سابق نعت گوئیوں پر فوقیت دیتی ہے ان کی
نعتوں میں ادب کی شیریں چاشنی کا وافر مقدار میںپایا جانا ہے ۔ مولانا کی
نعتوں میں ادبیت کا صحیح اندازہ تو دیوان کے مطالعے سے ہی ممکن ہے لیکن
اشعار کے مناسب انتخاب سے بھی اس کی ہلکی سی جھلک مل سکتی ہے ۔
مولاناکے نعتیہ اشعار میں ادب العالیہ کی جھلکیاں پورے طور پر اس طرح واضح
ہوسکتی ہیں کہ ان کا ایک مبسوط انتخاب پیش کردیا جائے لیکن اس کی گنجائش
نہیں نکل سکتی ۔ اس لئے مضمون کے خاتمے تک کل ملا کر ایک مختصر انتخاب پیش
کیا جارہا ہے ؎
ان کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے
ان کے ابرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے
اگر چمکا مقدر خاکپائے رہرواں ہوکر
چلیں گے بیٹھے اٹھتے غبارِ کارواں ہوکر
دشتِ ایمن ہے سینۂ مومن
دل میں ہے جلوۂ خیال حضور
آسماں گرترے تلووں کا نظارہ کرتا
روز اک چاند تصدق میں اتارا کرتا
وکیل اپنا کیا ہے احمد مختار کو میں نے
نہ کیوں کر پھر رہائی میری منشاء ہو عدالت کا
مجھے بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کا
لئے جائوں گا چھوٹا سا کوئی ذرہ ترے درکا
جو اک گوشہ چمک جائے تمہارے ذرۂ درکا
ابھی منہ دیکھتا رہ جائے آئینہ سکندر کا
کیا مژدہ جاں بخش سنائے گا قلم آج
کاغذ پہ جو سو ناز سے رکھتا ہے قدم آج
دشت مدینہ کی ہے عجب پر بہار صبح
منہ دھوکے جوئے شیر میں آئے ہزار صبح
ہر ذرے کی چمک سے عیاں ہیں ہزار صبح
شام حرم کی پائے نہ ہرگز بہار صبح
رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بو پسند
صحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو تو پسند
خوشبو ے دشت طیبہ سے بس جائے گردماغ
مہکائے بوئے خلدمرا سر بسر دماغ
طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شان جمال
اس طرف بھی اک نظراے برق تابانِ جمال
دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ
کہ سب جنتیں ہیں نثارِ مدینہ
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے
اٹھالے جائے تھوڑی خاک ان کے آستانے سے
تمہارے در کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اک عالم
گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے
میرا خیال ہے کہ قارئین کو کسی شاعر کے رنگ شاعری سے متعارف کرانے کے لیے
اختصار کے پیشِ نظر اس کے اشعار کا انتخاب پیش کردینا ایک ایک شعر کی شرح
کرنے سے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ اس لیے یہاں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے
۔
جہاں تک شاعری میں مضامین و موضوعات کی ادا کا تعلق ہے ہر صنف کا ایک مخصوص
مزاج ہوتا ہے اس کو دوسری صنف کے ساتھ تراز و میں رکھ کر نہیں تو لاجاسکتا
۔ اگر ہم بعض ادبی خصوصیات کو نعت میں مرثیہ یا مثنوی کے انداز میں دیکھنے
کے خواہش مندہوں تو ہمیں اس میں مایوسی تو ہوگی ہی ہماری یہ خواہش بھی
طفلانہ اور بیجاہی کہی جائے گی ۔ محاکات اور مرقع نگاری جیسی چیزیں اپنے
اندر تسلسل رکھنے والی اضاف سخن مرثیہ ، مثنوی اور نظم جدید کے لیے خاص ہیں
۔ مگر شاید میرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ دونوں چیزیں ’’ذوق نعت ‘‘ میں
بھی کم ہی سہی مگر موجود ضرور ہیں۔ جہاں تک محاکات کا سوال ہے وہ پیش کردہ
اشعار میں سے بھی کچھ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ مولانا کی نعتیں اپنے ظرف کے
مطابق اس سے خالی نہیںہیں ۔ انشاء اللہ اس پر کسی آئندہ صحبت میں گفتگو
ہوگی ۔ مرقع نگاری کا موقع اگر چہ نعتوں میں ( کھل کر) نہیں مل سکتا تھا ۔
مگر مولانا نے ذوق نعت میں اپنے اس ذوق کا بھی ثبوت دے دیا ہے ۔ حضرت بڑے
پیر صاحب سے طلب استمداد کی نظم ’’ نغمۂ روح ‘‘ میں مرقع نگاری کے مواقع
پیدا کرہی لیے ہیں ۔ مثلاً
اک جہاں سیراب فیض ابر ہے اب کی برس
ترنوا ہیں بلبلیں پڑتا ہے گوش گل میں رس
ہے یہاں کشت تمنا خشک وزندانِ قفس
اے سحابِ رحمت حق سوکھے دھانوں پر برس
روئے رحمت برمتاب اے کام جاں ازروئے من
حرمت روح پیمبر یک نظر کن سوئے من
فصل گل آئی عروسان چمن ہیں سبز پوش
شادمانی کا نوا سنجان گلشن میںہے جوش
جوبنوں پر آگیا حسن بہار گل فروش
ہائے یہ رنگ اور میں یوں دام میں گم کردہ ہوش
روئے رحمت برمتاب اے کام جاں ازروئے من
حرمت روح پیمبر یک نظر کن سوئے من
صبح صادق کا کنارِ آسماں سے ہے طلوع
ڈھل چکا ہے صورت شب حسن رخسار شموع
طائروں نے آشیانوں میں کیے نغمے شروع
اور نہیں آنکھوں کو اب تک خواب غفلت سے رجوع
روئے رحمت برمتاب اے کام جاں ازروئے من
حرمت روح پیمبر یک نظر کن سوئے من
’’ذوق نعت ‘‘ کا دوسرا حصہ ’’ وسائل بخشش ‘‘ بھی کافی دلکش ہے جو محاسن
شعری سے بھراپڑا ہے ، مگر ہمارا مقصد صرف مولانا کی نعتوں پر ایک نظر ڈالنا
ہے ۔ اس لیے اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے مولانا کے کافی نعتیہ اشعار پیش
کیے جاچکے ہیں لیکن ایک نعت کے دوشعر سے زیادہ کہیں نقل نہیں ہوسکے ہیں اس
وجہ سے مولانا کی نعتوں کی خوبیوں کا مکمل ادر اک نہیں ہوسکتا ، دوسرے ایک
نعت میں ایک دو شعر کا بہت اچھا ہو جانا اس کی خوبی کی دلیل نہیں ہے ۔ اس
لیے ان کے رنگ شاعری کو اور زیادہ واضح کرنے کے لیے کچھ نعتوں کے چھ چھ ،
سات سات اشعار اور ایک طویل نظم ذکرشہادت کے اشعار مناسب تعداد میں نقل ہیں
۔
اگر چہ یہ طوالت کا باعث ہو گا مگر اب تک کے اختصار سے اس طوالت کی تلافی
ہوسکتی ہے ۔
نعت نمبر۱:
معطی مطلب تمہارا ہر اشارہ ہوگیا
جب اشارہ ہوگیا مطلب ہمارا ہوگیا
اللہ اللہ محوحسنِ روے جاناں کے نصیب
بند کرلیں جس گھڑی آنکھیں نظارہ ہوگیا
یوں تو سب پیدا ہوئے ہیں آپ ہی کے واسطے
قسمت اس کی ہے جسے کہدو ہمارا ہوگیا
تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارہ بنے
تیری ہیبت سے فلک کا مہ دوپارا ہوگیا
توہی نے تو مصر میں یوسف کو یوسف کردیا
تو ہی تو یعقوب کی آنکھوں کاتارا ہوگیا
ہم بھکاری کیا ہماری بھیک کس گنتی میںہے
تیرے درسے بادشاہوں کا گزارہ ہوگیا
نعت نمبر ۲:
ہو اگر مدح کف پا سے منور کاغذ
عارض حور کی زینت ہو سراسر کاغذ
صفت خارمدینہ میں کروں گلکاری
دفتر گل کا عنادل سے منگا کر کاغذ
عارض پاک کی تعریف ہو جس پرچے پر
سوسیہ نامہ اُجالے وہ منور کاغذ
شام طیبہ کی تجلی کا کچھ احوال لکھوں
دے بیاضِ سحراک ایسا منور کاغذ
یاد محبوب میں کاغذ سے تو دل کم نہ رہے
کہ جدا نقش سے ہوتا نہیں دم بھر کاغذ
ورقِ مہر اسے خط غلامی لکھ دے
ہوجو وصف رخِ پر نور سے انور کاغذ
نعت نمبر۳:
سیرِ گلشن کون دیکھے دشت طیبہ چھوڑ کر
سوئے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر
سرگزشت غم کہوں کس سے ترے ہوتے ہوئے
کس کے درپر جائوں تیرا آستانہ چھوڑ کر
خلد کیسا نفس سرکش جائوں گاطیبہ کو میں
بدچلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رستہ چھوڑ کر
ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار
کیاغرض کیوں جائوں جنت کو مدینہ چھوڑ کر
بخشوانا مجھ سے عاصی کاروا ہوگا کسے
کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر
حشر میں ایک ایک کا منھ تکتے پھرتے ہیں عدو
آفتوں میں پھنس گئے ان کا سہارا چھوڑ کر
مرکے جیتے ہیں جو ان کے درپہ جاتے ہیں حسنؔ
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر
نعت نمبر۴:
کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں
لیکن اے دل فرقت کوے نبی اچھی نہیں
تیرہ دل کو جلوہ ماہ عرب درکار ہے
چود ہویں کے چاند! تیری چاندنی اچھی نہیں
اس گلی سے دور رہ کرکیا مریں ہم کیا جییں
آہ ! ایسی موت ایسی زندگی اچھی نہیں
ان کے در کی بھیک چھوڑیں سروری کے واسطے
ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں
خاک ان کے آستانے کی منگادے چارہ گر
فکر کیا حالت اگر بیمار کی اچھی نہیں
ان کے درپر موت آجائے تو جی جائوں حسنؔ
ان کے درسے دور رہ کر زندگی اچھی نہیں
ذکر شھادت :
باغ جنت کے ہیںبہر مدح خوان اہل بیت
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنان اہل بیت
ان کے گھر میںبے اجازت جبرئیل آتے نہیں
قدر والے جانتے ہیں قدر و شان اہل بیت
مصطفیٰ بائع خریدار اس کا اللہ اِشتریٰ
خوب چاندی کررہا ہے کاروانِ اہل بیت
رزم کا میداں بناہے جلوہ گاہِ حسن و عشق
کربلا میںہورہا ہے امتحانِ اہل بیت
جمعے کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کرکے آج
کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہل بیت
کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیرہے
دن دہاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہل بیت
خشک ہو جاخاک ہوکر خاک میں مل جافرات
خاک تجھ پردیکھ تو سوکھی زبان اہل بیت
تیری قدرت جانور تک آب سے سیراب ہوں
پیاس کی شدت سے تڑپے بے زبان اہل بیت
وقت رخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ
لوسلام آخری اے بیوگانِ اہل بیت
سرشہیدان محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدانے قدرو شان اہل بیت
دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر
کربلا میں خوب ہی چمکی دکانِ اہل بیت
اپنا سودا بیچ کربازار سونا کرگئے
کون سی بستی بسائی تاجرانِ اہل بیت
میرا خیال ہے کہ مولانا کے ا س قدر کلام کی روشنی میں ان کے رنگ شاعری ،
عظمت شاعری اور قادر الکلامی کا کچھ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے لیکن ان
کی نعت گوئی کا مکمل ادر اک ’’ ذوق نعت ‘‘ کے مطالعے کے بغیر ممکن نہیں ہے
۔ |