محمد عنتر کمال
توبہ کے معنی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں،نفس اور شیطان کی اطاعت اور
فرمانبرداری سے پلٹ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کا نام
توبہ ہے۔گناہوں کی دلدل سے نکل کر رحمت خداوندی کے سائے میں آنے کا نام
توبہ ہے،معصیت کی لعنت کو چھوڑ کر رجوع الی اللہ کا نام توبہ ہے،شیطان کی
گود سے نکل کر رحمان کی مغفرت کے آغوش میں آنے کا نام توبہ ہے،قدرت کا بنی
نوع انسان پر خصوصی فضل وکرم ہے،کہ توبہ کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے ،پس
جس لمحے بھی انسان کو اپنے گناہ اور خطاپر ندامت اور شرمندگی کا احساس
ہوجائے تو سمجھے کہ توبہ کا وقت آپہنچا ہے۔
توبہ خوش بختی اور سعادت مندی کی علامت ہے ،جس شخص کو توبہ کی توفیق مل
جائے اور اس پر استقامت حاصل ہو یہاں تک کہ اس حال میں اسے موت آجائے تو اس
کی مثال فرمان نبویﷺ کے مطابق ایسی ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہی
نہیں۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ سارے بنی آدم گناہ گار ہیں اور بہترین
گناہ گار وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہے ۔
خالق کائنات نے تین قسم کی مخلوق کو پیدا فرمایا ہے ان میں ایک فرشتے ہیں
جو ہر وقت عبادت میں مصروف ہوتے ہیں اور گناہ کا تصور بھی نہیں کرتے ۔دوسری
قسم کی مخلوق شیاطین جو صرف گناہ میں لگے ہوئے ہیں اور کوئی نیکی نہیں
کرتے،جبکہ تیسری قسم کی مخلوق انسان ہے جو گناہ بھی کرتا ہے اور توبہ بھی
،اللہ تعالیٰ کو ان تینوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ انسان ہے اور یہ توبہ کی
وجہ سے ہے ،بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک مرتبہ قحط سالی تھی،لوگوں نے وقت
کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی ۔سارے لوگوں نے دعا کے
لیے ہاتھ اٹھائے ،اور دعا مانگی لیکن دعا قبول نہیں ہوئی ،حضرت موسیٰ علیہ
السلام پریشان ہوئے تو جبرئیل نے ان کو فرمایا کہ ان میں ایک بہت زیادہ
گناہ گار آدمی ہے اس کی نحوست کی وجہ سے سارے لوگوں پر عذاب ہے،حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو فرمایا کہ اگر یہ آدمی اس گاﺅں سے نکل جائے تو ان پر بارش
ہوسکتی ہے ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شخص کو گاﺅں سے نکال دیا کچھ دنوں
بعد جبرئیل امین آئے حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا کہ فلاں
جگہ میرا بندہ مررہا ہے اس کی نماز جنازہ پڑھو اور کفن دفن کا بندوبست کرو
،حضرت موسیٰ جب وہاں پر تشریف لے گئے تو اس گناہ گار بندے کو پایا انہوں نے
اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ یہ کیا ماجرا ہے یہ تو وہی گناہ گار
بندہ ہے جس کی نحوست کی وجہ سے تمام اہل علاقہ پر رحمت کی بارش بند ہوگئی
تھی،اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب ملا کہ ہاںبندہ تو وہی ہے لیکن اس نے
ایسے انداز میں توبہ کی کہ اگر آج اس کے جنازے میں پوری دنیا شریک ہوجائے
تو میں پوری دنیاکو بخش دوں،قرآن مجید کے تیسویں پارہ میں سورہ نازعات کی
آیت 38کا مفہوم ہے کہ میں نے انسان کو دو راستے بتلائے ،چاہے تو اپنی
خواہشات کی پیروی کرکے نفس کا بندہ اور کفر کرنے والا بن جائے اور چاہے تو
اپنی خواہشات کو دبائے رکھے اور اپنے نفس پر پاﺅں رکھ کر صابر وشاکر انسان
بنے،لیکن یاد رکھو کہ کامیاب انسان وہی ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی۔اور
ناکام ونامراد وہ ہے جس نے ظلم وزیادتی اور ناشکری کا راستہ اختیار کیا۔
دراصل بندے کے اندر ضمیر ہو تو اس کو جھنجھوڑلیتا ہے ،اور کوئی چھوٹے سے
چھوٹا گناہ بھی سرزد ہوجائے تو اس کے دل کے اندر کوئی طوفان کوئی ہلچل برپا
ہو جاتی ہے،فرماتے ہیں کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک
کالک لگ جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کا پورا دل کالا ہوجاتا ہے
،پھر وہ گناہ کرتا ہے تو وہ خوشی محسوس کرتا ہے،لیکن اگر وہ استغفار پڑھے
توا س کے دل میں نورانیت بھر جاتی ہے،اور وہ دل کا عکس سے قدرت کے بہت سارے
راز جان لیتا ہے،حدیث مبارکہ میں اس شخص کے لیے جنت کا مژدہ سنایا گیا
ہے،جس نے اپنے نامہ اعمال کو استغفار سے بھراپایا،گناہ کا احساس پیدا
ہوجائے تو فطری طور پر گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے یہ نفرت گناہ کے نہ کرنے
کا عزم پیدا کرتی ہے اور یہی توبہ ہے ۔
تو بہ کے لیے ضروری ہے کہ اس کو صدق دل سے کیا جائے اور یہ تب ممکن ہے جب
گناہ کے گناہ ہونے کا علم اور اس کے انجام اور وبال کے بارے میں معلوم
ہو،اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں شرمندگی اور ندامت کا استحضار ہو۔
بار بار گناہ کرنے والوں کو بار بار توبہ کرنے پر ندامت نہیں ہونی چاہیے،کہ
جب وہ بار بار گناہ اور غلط کام سے شرمندہ نہیں ہوتے تو اچھے کام اور توبہ
سے کیوں کر شرمندہ ہوتے ہیں۔آیت کریمہ کا مفہوم ہے کہ ”اللہ کی رحمت سے
کبھی بھی ناا مید نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مایوسی انسان کو کفر تک پہنچا
دیتی ہے“لہٰذا ہر وقت اللہ سے استغفار کرنی چاہیے،توبہ کے قابل قبول ہونے
کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جس درجہ کا گناہ ہو توبہ بھی اسی نوعیت کی ہونی
چاہیے مثلاً کسی نے میڈیا کے سامنے سٹیج پر جھوٹ بولا ،تو اسے توبہ بھی
میڈیا کے سامنے کرنی پڑے گی،پوشیدہ گناہ کی توبہ بھی پوشیدہ کرنی پڑے گی
اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ کرنی پڑے گی ۔
انسان کو خلیفة اللہ فی الارض ہونے کا اعزاز بھی توبہ کی وجہ سے ملا ہے
۔حضرت آدم ؑ کے توبہ کرنے پر ان کو خلافت ارضی کا تاج پہنچادیا گیا جب کہ
ابلیس لعین کو اپنی غلطی کا خیال نہیں آیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود اور
ملعون ہوگیا ۔گناہ یا تو جہنم کی آگ ہوسکتی ہے،یا وہ اشک جو احساس شدت
ندامت کی وجہ سے باطن کے پردوں کو چیر کر آنکھوں کے راستے سے باہر آتی ہے ۔
آئیے ہم اللہ کے حضور گڑگڑا کر صدق دل سے توبہ کریں تاکہ اس کی خصوصی رحمت
ہماری طرف متوجہ ہو ۔ |