رحمت حق بہانہ می جوید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماہ رمضان المبارک ایک مرتبہ پھر ہم پر سایہ فگن ہے،اِس ماہ مبارکہ میں ربّ
کریم کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سیراب کرنے کیلئے برس رہی ہے،اِس
ماہ کا ہر روز،روز سعید ہے،ہر شب،شب مبارک ہے،دن روشن ہوتا ہے تو اِن گنت
بندوں کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے کہ وہ اپنے ربّ کی اطاعت اور رضا جوئی کی
خاطر اپنے جسم کی جائز خواہشات اور ضروری مطالبات تک ترک کرکے گواہی دیں کہ
اللہ ہی اُن کا ربّ اور مقصود و مطلوب ہے،اُس کی اطاعت و بندگی کی طلب ہی
زندگی کی اصل بھوک پیاس ہے اور اُس کی خوشنودی ہی میں دلوں کیلئے سیری اور
رگوں کیلئے تری کا سامان موجود ہے،جب رات کا اندھیرا چھاتا ہے تو بے شمار
بندے اللہ کریم کے حضور قیام کرتے ہیں،اُس سے کلام کرتے ہیں اور اُس کے ذکر
کی لذت وبرکت سے مالامال ہوتے ہیں ۔
اِس ماہ کی ہر گھڑی میں فیوض وبرکات کا اتنا خزانہ پوشیدہ ہے کہ نفل اعمال
صالحہ،فرض اعمال صالحہ کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں اور فرائض سترگناہ وزنی
اور بلند ہوجاتے ہیں،(بہیقی)رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے
جاتے ہیں،رحمتوں کی بارش ہوتی ہے اور نیکی راستوں پر چلنے کی سہولت اور
توفیق عام ہوجاتی ہے،جہنم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں اور روزہ بدی کے
راستوں کی رکاوٹ بن جاتا ہے،شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور
برائی پھیلانے کے مواقع کم سے کم ہوجاتے ہیں ۔(بخاری،مسلم ) یہی وہ ماہ
مبارکہ جس کیلئے جنت سال بھر سجائی جاتی ہے،معزز مہمانوں کے استقبال کی
تیاریاں ہوتی ہیں،جنت کے دوازے کھول دیئے جاتے ہیں اور فرشتے پکار پکار کے
کہتے ہیں،آوازیں لگا تے ہیں کہ ”اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور برائی کے طالب
رک جا۔“ (ترمذی۔ابن ماجہ)
ربّ کریم اِس خاص ماہ کی ہر صبح اور ہر رات فرشتوں کو مقرر فرماتا ہے جو
آواز لگاتے ہیں”اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ،اے برائی کے
طالب رک جا۔اُس کے بعد فرشتہ کہتا ہے”ہے کوئی اُس کی مغفرت چاہنے والا کہ
اُس کی مغفرت کی جائی، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اُس کی توبہ قبول کی
جائی،ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اُس کی دعا قبول کی جائے،ہے کوئی سائل کہ اس
کا سوال پورا کیا جائے ۔“
اللہ اللہ ! کیا دن ہیں کہ رحمت،مغفرت اور جہنم سے خلاصی کی سیل لگی ہوئی
ہے،لوگوں کو آوازیں دے دے کر بلایا جارہا ہے،نیکیوں کے راستے پر چلنے کی
سہولت اور توفیق عام دی جارہی ہے،گناہوں کی معافی کے مژدے سنائے جارہے
ہیں،کہا جارہا ہے،اے خطا کاروں... اے گناہ گاروں... اے عاصیوں آؤ...اپنے
اپنے گناہوں معافی حاصل کرلو...ربّ کا دریائے رحمت جوش میں ہے... بخشش اور
مغفرت کے پروانے تقسیم کیے جارہے ہیں...تمہارا ربّ بہت ہی مہربان ہے... تم
جو مانگو گے،وہ تمہیں عطا کرے گا...بس آگے بڑھ کے تو دیکھو... اُس کے دامنِ
رحمت و محبت کو تھام کر تو دیکھو...ایک مرتبہ،صرف ایک مرتبہ،اُس سے مانگ کر
تو دیکھو...ذرا اپنے دامن پھیلا کر تو دیکھو... اُس کی بارگاہ میں سر
جھکاکر تو دیکھو ...آج اُس نے ہر چیز سستی کردی ہے...بس وہ منتظر ہے کہ اُس
کے غلام... اُس کے بندے،عباد الرحمن...اُس کی طرف رخ کریں...اُس کی طرف
متوجہ ہوں... اور وہ انہیں معاف کردے ...بخش دے اور مغفرت کردے اور جہنم سے
خلاصی کی دولت سے نواز دے...اللہ اللہ ! آج اُس کی رحمت تو برسنے کے بہانے
ڈھونڈ رہی ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ رحمتیں اور برکتیں ہر اُس شخص کے حصے میں آتی ہیں
جس نے یہ مہینہ پایا،یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جب بارش ہوتی ہے تو ندی
نالوں،کھیتوں،کھلیانوں،چٹیل میدانوں اور سنگلاخ چٹانوں پر یکساں برستی
ہے،ندی نالے اور تالاب اپنی اپنی وسعت و گہرائی کے مطابق ہی بارش کے پانی
سے فیضیاب ہوتے ہیں،اسی طرح زمین کے مختلف ٹکڑے بھی اپنی استعداد کے مطابق
ہی فصل دیتے ہیں،جبکہ بارش سب پر یکساں برستی ہے،مگر ایک چھوٹے سے گڑھے کے
حصے میں اتنا وافر پانی نہیں آتا،جتنا ایک لمبے چوڑے تالاب کے حصے میں آتا
ہے،اسی طرح بنجر اور سنگلاخ چٹانیں اور چٹیل میدان بھی بارش کے پانی کو
اپنے اندر جذب نہیں کرپاتے،جبکہ زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہے،یہی حال انسانوں
کی فطرت اور اُس کے نصیب کا ہے ۔
رمضان کے خزانے تو بٹ رہے ہیں،اِن خزانوں میں سے کس کا کیا ملنا ہے،یہ اپنے
اپنے نصیب کی بات ہے،اگر زرخیز زمین کی طرح آپ دل بھی نرم و گداز
ہونگے،ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہونگے اور آپ صبر و استقامت کے
ساتھ مستقل مزاجی سے اپنا سفر جاری رکھیں گے تو یقینا ایمان صالحہ کے
پھل،پھول اور بیل بوٹے آپ کے نصیب میں ہونگے،لیکن اگر دل پتھر کی طرح سخت
ہونگے اور آپ ایک غافل کسان کی طرح سوتے پڑے رہیں گے تو رحمت،بخشش اور
مغفرت کی یہ برسات گزر جائے گی اوردل کی بنجر زمین،بنجر ہی رہ جائے گی،یہ
سب ربّ کریم کی عطا کردہ توفیق ہے اور توفیق الٰہی کے بغیر کسی کو کچھ نہیں
ملتا،لیکن یاد رہے کہ توفیق بھی اُسی کو ملتی ہے جو اس کی کوشش کرتا ہے ۔
چنانچہ توفیق الٰہی کے حصول کیلئے کوشش کیجئے،کہیں ایسا نہ ہو کہ رمضان کا
ماہ مبارکہ گزر جائے،ربّ کی رحمتوں اور برکتوں کے ڈول کے ڈول انڈلے جاتے
رہیں اور ہم اتنے بد نصیب ہوں کہ ہمارے حصے میں کچھ بھی نہ آئے،ہماری جھولی
خالی کی خالی رہ جائے،کیا معلوم اگلا رمضان ہمیں ملے یا نہ ملے،لہٰذا میرے
دوستو! توفیق الٰہی کے حصول کیلئے محنت کیجئے،اپنے حصے کی برکتیں اور
رحمتیں لوٹنے کیلئے کمر کس لیجئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی
اِس تنبیہہ کو یاد رکھئے کہ ”کتنے روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزوں سے بھوک
پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کو
اپنی نمازوں سے رات کی جگائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔“(الدامی۔ابوہریرہ)
” بدنصیب ہے وہ شخص جو اِس مہینے میں اُس کی رحمت سے محروم رہ جائے۔“
(طبرانی) |