انسانی زندگی کے مختلف مراحل کو قرآن حکیم میں اس طرح
بیان کیا گیا ہےکہ:’’ وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘‘۔ ابتدائے
آفرینش میں خالق کائنات نے حضرت انسان کو مٹی سے بنایا ۔ ارشادِ ربانی ہے
:’’ اور ہم نے انسان کو سیاہی مائل نرم مٹی سے پیدا کیا ہے جو سوکھ کر کھن
کھن بولنے لگی تھی‘‘۔ اس کے بعد نسلِ انسانی کے فروغ کا ایک قدرتی انتظام
فرما دیا جس کے تحت :’’ نطفے سے ‘‘ وہ آگے بڑھتی ہے ۔ اس عمل کواللہ کی
کتاب نہایت لطیف انداز میں یوں بیان کرتی ہے:’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں
ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس
سکون حاصل کرے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ
گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل
کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے
شکر گزار ہوں گے‘‘۔
اس کائناتِ ہستی میں آمد سے قبل انسان :’’خون کے لوتھڑے ‘‘ کی شکل اختیار
کرتا ہے۔ اس کے بعد ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’ پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں
نکالتا ہے ‘‘۔ اس طرح انسان دنیائے دنی میں وارد تو ہوجاتا ہے لیکن پھر اس
کی نشو نما کے لیے کائنات کی مختلف اشیاء کو اس کی خدمت پر مامور کردیا
جاتا ہے ۔ فرمان ربانی ہے :’’ وہی تو ہے، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری
چیزیں پید ا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے
اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘۔ زمین و آسمان کی بے شمار نعمتوں سے
استفادہ کرتا ہوا انسانی زندگی کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اس بابت ارشادِ
قرآنی ہے اور:’’ پھر (وہ ) تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو
پہنچ جاؤ‘‘۔ یعنی انسان گبرو جوان ہوجاتا ہے لیکن مکافاتِ عمل کا سلسلہ اب
بھی نہیں رکتا فرمان قرآنی ہے:’’پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو
پہنچواور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے‘‘۔
اس طرح بظاہر یہ دائرہ دنیا میں مکمل تو ہوجاتا ہے لیکن اس کی حقیقی تکمیل
نہیں ہوتی ۔ فرمان ربانی ہے :’’ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر
تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے
جواس کے ہاں طے شدہ ہے مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو‘‘۔ ظاہر پرست
انسان موت کو دیکھتا ہے۔ یہ کائنات ہستی کی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا
انکار کسی فردِ بشر کے لیے ممکن نہیں لیکن اس کے آگے نہیں دیکھ پاتا۔
ارشادِ خداوندی ہے:’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے‘‘ لیکن لوگوں کے درمیان اس
بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ حالانکہ اللہ کی کتاب
یہ رہنمائی فرماتی ہے کہ :’’ اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز
پانے والے ہو کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں
داخل کر دیا جائے رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے‘‘۔
شیطان لعین انسانوں کو ’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کی تلقین
کرکے دنیا کے فریب میں مبتلا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس لیےبنی نوع انسانی کو
خبردار کردیا گیا ہے کہ :’’لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے، لہٰذا دنیا
کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے
بارے میں دھوکہ دینے پائے‘‘۔اول الذکر آیت جس میں انسانی زندگی کے مراحل
بیان کیے گئے ہیں اس طرح اختتام پذیر ہوتی ہے کہ :’’ یہ سب کچھ اس لیے کیا
جاتا ہےتاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ، اور اس لیے کہ تم حقیقت کو
سمجھو‘‘۔ دنیا کا رنگا رنگی انسانوں کو ان کے مقصد حیات سے غافل کردیتی ہے
اس لیے انہیں نبی مکرم ﷺ کے ذریعہ آگاہ کردیا گیا ہے کہ :’’ اللہ ہی تمہیں
زندگی بخشتا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن
جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
قرآن حکیم کے اندر زندگی ، موت اور بعد ازموت کے حالات کی معرفت اس طرح
کروائی گئی ہے کہ :’’کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا ۔ موت کا
وقت تو لکھا ہوا ہے جو شخص ثواب دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا
ہی میں سے دیں گے، اور جو ثواب آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا وہ آخرت کا
ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم اُن کی جزا ضرور عطا کریں گے ‘‘۔
اسی لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
|