#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مُحمد ، اٰیت 32 تا 35
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
الذین کفروا
و صدوا عن سبیل
اللہ وشاقوا الرسول من
بعد ما تبین لھم الھدٰی لن یضر
اللہ شیئا و سیحبط اعمالہم 32 یٰایھا
الذین اٰمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و
لا تبطلوا اعمالکم 33 ان الذین کفروا و صدوا عن
سبیل اللہ ثم ماتوا و ھم کفار فلن یغفر اللہ لھم 34
فلا تھنوا و تدعوا الی السلم و انتم الاعلون و اللہ معکم
و لن یترکم اعمالکم 35
اے ہمارے رسُول ! زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے
کہ جو لوگ دعوتِ حق کا راستہ روک کر اللہ کے رسُولِ حق کے ساتھ اپنی عداوت
کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں وہ اپنے اعمال تو غارت کرتے رہے ہیں لیکن قُرآن کی
اِس دعوتِ حق کو کوئی بھی نقصان نہیں پُہنچا سکے ہیں اِس لیۓ ہم نے عہدِ
حاضر کے اہلِ ایمان کو حُکم دے دیا ہے وہ قُرآن کی اِس دعوتِ حق کی اطاعت
کے لیۓ قُرآن کے اِس داعیِ حق کے اَحکامِ حق کی اطاعت کرتے رہیں تاکہ دین
کی اِس ریاست میں طاقت کا توازن قائم رہے اور اہلِ ایمان یقین رکھیں کہ جو
لوگ حق کی مُخالفت کرتے ہوۓ رجوعِ الی الحق کیۓ بغیر مریں گے یا مارے جائیں
گے اللہ اُن کے سارے نتائجِ اعمال کو سامنے لاۓ گا اور حق کے ہر ایک مُجرم
کو اُس کے ہر ایک جُرم کی سزا دے گا تاہم اِس وقت حق کے جو مُجرم اہلِ
ایمان کے ساتھ پُر اَمن سیاسی مفاہمت کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے ساتھ ضرور
مفاہمت کی جاۓ لیکن یہ مفاہمت اُن کی شرائط کے دباؤ میں آکر نہ کی جاۓ بلکہ
اُن کو اپنی شرائط کے دباؤ میں لا کر کی جاۓ اور یقین رکھو کہ اللہ کی
حمایت صرف اہلِ ایمان کے ساتھ ہے اہلِ کفر کے ساتھ نہیں ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سے پہلے اِس سُورت کی پہلی اٰیت اور اُس کے بعد اِس سُورت کی اٰیت 32
اور اٰیت 34 میں تین بار { صدوا عن سبیل اللہ } کا جو قُرآنی بیانیہ بیان
ہوا ہے اُس بیانیۓ میں پہلے اہلِ باطل کی اُس پہلی مزاحمت کی نشان دہی کی
گئی ہے جس مزاحمت کا مکے کی زمین پر اہلِ مکہ کی طرف سے اِس طرح آغاز ہوا
تھا کہ جیسے ہی مکے کی زمین پر حق کے نُور کا ظہور ہوا تھا تو اہلِ مکہ اُس
نُورِ حق اور داعیِ نُورِ حق کا راستہ روک کر کھڑے ہو گۓ تھے ، دُوسری اٰیت
میں اہلِ مکہ کی وہ مزاحمت یاد دلائی گئی ہے کہ جب اُن اہلِ حق نے اُن اہلِ
باطل کے ظلم و تشدد سے تنگ آکر مکے کی زمین سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا تو
اہلِ مکہ اُس وقت بھی اِس خیال سے اُن کی راہ روک کر کھڑے ہو گۓ تھے کہ اہلِ
ایمان مکے سے نکل کر اُن کے ظلم و ستم سے دُور نہ ہوں بلکہ مکے میں محصور
رہ کر اُن کا ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہیں اور اٰیاتِ بالا کی تیسری اٰیت
میں اہلِ مکہ کی اُس مزاحمت کا ذکر کیا گیا ہے جب اُنہوں نے اُس وقت قافلہ
نبوی کا راستہ روک لیا تھا جب وہ پُر اَمن طور پر شہرِ مدنہ سے حرمِ مکہ کی
زیارت کے لیۓ شہرِ مکہ میں آنا چاہتے تھے ، سُورَہِ مُحمد اپنے اِن تین
حوالوں کے ساتھ عہدِ نبی علیہ السلام کی وہ ابتدائی اور وسطی تاریخ ہے جس
تاریخ کا انتہائی حصہ سُورَہِ مُحم کے معاً بعد آنے والی سُورَالفتح کی
پہلی اٰیات میں بیان ہوا ہے ، عہدِ مُحمد علیہ السلام کی اِس مُختصر اور
مُعتبر تاریخ کا پس منظر یہ ہے کہ اہلِ خیر و اہلِ شر کے درمیان خیر و شر
کی جو کشمکش ہر زمین پر ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے خیر و شر وہی کشاکش مکے
کی زمین پر محمد علیہ السلام کے زمانے میں بھی اِس طرح جاری رہی ہے کہ جیسے
ہی اُس زمانے میں اُس زمین پر دعوتِ حق اور داعیِ حق کا ظہور ہوا تو اُس
زما نے کی ساری سرکش قُوتیں اُس دعوتِ حق اور اُس داعیِ حق کے مقابلے کے
لیۓ میدانِ عمل میں آگئیں اور جب محمد علیہ السلام مکے سے ہجرت کر کے مدینے
پُہنچے تو اِن طاغوتی طاقتوں کی قُوت و سرکشی میں اور بھی اضافہ ہو گیا
لیکن جب اُن سرکش قُوتوں نے تیسری بار بھی مُحمد علیہ السلام کا راستہ روکا
تو اللہ تعالٰی نے اُن کو مُحمد علیہ السلام کے لاۓ ہوۓ دینِ حق کے سامنے
سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا ، اٰیاتِ بالا میں اِس کشاکش کے حوالے سے اہلِ
حق کو جو تین دائمی پیغام دیۓ گۓ ہیں اُن میں پہلا دائمی پیغام یہ ہے کہ جس
زمانے کی جس زمین پر جو لوگ حق کی مُخالفت کرتے ہیں وہ اپنے وہ اعمالِ خیر
بھی ضائع کر دیتے ہیں جو اعمالِ خیر اُنہوں نے کبھی دل کی صداقت کے ساتھ
انسانی صلاح و فلاح کے لیۓ کیۓ ہوۓ ہوتے ہیں اِس لیۓ اُن بے عملوں کے اِس
عمل سے حق اور اہلِ حق کو تو کوئی نقصان نہیں پُہنچتا لیکن اُن کی دُنیا و
آخرت بہر طور برباد ہو جاتی ہے ، اٰیاتِ بالا میں دُوسرا دائمی پیغام یہ ہے
کہ اہلِ ایمان جس زمانے کی جس زمین پر بھی موجُود ہوں گے اُن کو اہلِ باطل
کے خلاف کوئی کامیابی اُن کے لَمبے لَمبے رکوع و سجُود ، لَمبے لَمبے صلوٰة
و سلام ، لَمبی لَمبی دُعاؤں اور التجاؤں یا لمبے لمبے خطبات و خطابات سے
نہیں ملے گی بلکہ اُس عملی جد و جُہد سے ملے گی جو عملی جد و جُہد مُحمد
علیہ السلام اور اَصحابِ مُحمد علیہ السلام نے اپنے زمانے میں کی ہے اور
اٰیاتِ بالا میں تیسرا دائمی پیغام یہ دیا گیا ہے کہ اگر اہلِ ایمان کو کسی
زمانے میں کسی زمین پر سیاسی و دفاعی طاقت حاصل ہو جاۓ تو اُس پر گمھنڈ نہ
کیا جاۓ اور اُن کی اُس سیاسی و دفاعی طاقت کی بنا پر اگر اُن کے ساتھ اُن
کا کوئی دشمن سیاسی مفاہمت کرنا چاہے تو اُس کی اُس مفاہمت کو رَد نہ کیا
جاۓ بلکہ اُس مفاہمت کو ایسی معقول شرائط کے ساتھ قبول کیا جاۓ کہ وہ خود
پر بھی دشمن کا خوف محسوس نہ کریں اور دشمن بھی اُن سے کوئی بیجا خوف محسوس
نہ کرے لیکن اِس بات کو کبھی بھی فراموش نہ کیا جاۓ کہ اہلِ حق کو اللہ
تعالٰی کی حمایت اُسی وقت تک حاصل ہوتی ہے اور حاصل رہتی ہے جب تک اُن کا
اہلِ حق ہونا حق کی بنا پر ہوتا ہے لیکن جس وقت اُن کے کردار و عمل سے حق
خارج ہو جاتا ہے تو وہ اہلِ باطل کے ساتھ مل کر خود بھی اہلِ باطل ہو جاتے
ہیں اِس لیۓ اُن کا وہ نام نہاد دعوہِ حق اللہ تعالٰی کی حمایت سے خارج ہو
جاتا ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی حمایت سے محروم ہو جاتے ہیں !!
|