انسانی زندگی میں بعض اوقات ایسے واقعات بھی رونما
ہوتے ہیں جو بظاہر تو معمولی نظر آتے ہیں لیکن ان کے پڑھنے سے اس وقت کی
تہذیب ،کلچر اور رہن سہن جاننے کا موقعہ ملتا ہے۔اس خیال کو مدنظر رکھتے
ہوئے چند ایسے واقعات کا ذکر ذیل میں کر رہا ہوں جن کا ذکر میری دیگر
موضوعاتی تحریروں میں نہیں ہوسکا۔ چونکہ ایک وقت میں لکھی جانے والی تحریر
کی اپنی خوبصورتی اور دلچسپی ہوتی ہے اس لئے پہلے سے لکھی ہوئی کسی بھی
تحریر کو متاثر کرنے کی بجائے ایسے واقعات کا ذکر یہاں کر رہا ہوں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنے والدین کے ہمراہ ’’واں رادھا رام‘‘ (حبیب
آباد) کے ریلوے کوارٹروں میں رہائش پذیر تھا۔کوارٹروں کے بچے ’’پل گولی‘‘،
’’بانٹے‘‘، ’’اخروٹ‘‘ ، شادی شادی، کھیلنے کے علاوہ چھپا چھپی اور چیچو چیچ
گنڈریاں‘ باندر کلہ وغیرہ کھیلا کرتے تھے۔ نئی نسل کے لوگوں کو شاید ان
کھیلوں کے بارے میں علم نہ ہو کیونکہ وہ جس دور میں پیدا ہوئے ہیں اس وقت
ایسی کھیلوں کی بجائے عشق بازی، انٹرنیٹ پر چیٹنگ، ہوٹنگ اور میوزیکل
پروگراموں میں لہک لہک کر لڑکے لڑکیوں سے اظہار محبت جیسے کھیل کھیلے جاتے
ہیں لڑکیاں جو پہلے پردے کی سختی سے پابندی ہوا کرتی تھیں بلکہ پرانے زمانے
میں کسی ایک کی بچی پورے محلے کی عزت ہوا کرتی تھی۔اس لئے جب بھی کسی نے
معاشرتی حدود و قیود کو توڑنے کی کوشش کی تو لڑکی کے والدین سمیت سارا محلہ
اس بے ہودہ نوجوان کو لعن طعن کرنے لگتا تھا۔چونکہ ایسے واقعات کبھی کبھار
یا کہیں کہیں ہوتے تھے اس لئے بہت کم نوجوان اس بے ہودگی اور لچرپن کا
مظاہرہ کرتے تھے۔لیکن پہلے زمانے میں نوجوانوں کی جو حرکت بے بیہودگی اور
بے راہ روی قرار پاتی تھی آج کل وہ فیشن کا روپ دھار کر تقریباً ہر گھر میں
دہرائی جا رہی ہے۔ نوجوان لڑکے، نوجوان لڑکیوں کو کھا جانے والی نظروں سے
دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں جبکہ نوجوان لڑکیوں کی آنکھوں میں
بھی وہ حیا نہیں رہی‘ جو پہلے زمانے میں ان کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔اگر ہم
گھر گھر تیزی سے پھیلنے والی اس بے ہودگی کی تہہ میں اتریں تو اس میں ہم سب
کا کردار نمایاں نظر آتا تھا۔ پہلے لوگ ریڈیو کو صرف خبریں سننے کے لئے
استعمال کرتے تھے اور اگر انہیں وقت ملتا تو شوقین حضرات ایک آدھ گانوں کا
فرمائشی پروگرام سنا لیا کرتے تھے لیکن ان دنوں آواز کی بجائے خوبصورت
چہروں نے ہر نوجوان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے۔ ہر ڈرامے اور فلم کا
موضوع عشق محبت پر مبنی ہوتا ہے ۔بلکہ ایسی بے ہودہ کہانیاں لکھنے والے
اپنے سکرپٹ میں والدین کو ولن کا کردار دینا نہیں بھولتے۔ یہی وجہ ہے کہ
نوجوان نسل کے لوگ اپنے عزائم میں والدین کو سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے
ہیں۔کوئی زمانہ ایسا تھا کہ خاوند بیوی ایک چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتے تھے
اور بیوی دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر سے بھی پردہ اور حیا کرتی تھی۔لیکن
آج کی عورت اسے فرسودہ روایات قرار دے کر ان حیا پسند قدروں کو نہ صرف
فراموش کر چکی ہے بلکہ اپنی ستر کی چیزیں جنہیں اسلام نے غیرمحرم مردوں سے
چھپانے کا حکم دیا ہے۔ انہیں سرے عام ظاہر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں
کرتی۔ میں عورت کی آزادی اور حقوق کا مخالف ہرگز نہیں لیکن جب یہ آزادی
اسلام کی حدود و قیود سے باہر نکل جاتی ہے تو پھر جو معاشرتی مسائل پیدا
ہوتے ہیں آج کا معاشرہ اس کی ہوبہو تصویر نظر آتا ہے۔عورت کو اﷲ تعالیٰ نے
شرم و حیا، چادر اور چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے اپنے معاشرتی کردار
نبھانے کا حکم دیا ہے۔لیکن مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے شوق میں جب عورتیں
اپنی مقررکردہ حدود سے باہر نکلتی ہیں تو پھر معاشرے میں جابجا گندگی‘ بے
ہودگی اور بے حیائی پھیلتی ہے۔ اس بات کا میں اقرار کرتا ہوں کہ عورت کو اﷲ
تعالیٰ نے صبر اور حیا کی بے پناہ دولت عطا کر رکھی ہے جبکہ مرد خصلت کے
اعتبار سے بے صبرا ثابت ہوا ہے۔اﷲ تعالیٰ کی ودیعت کردہ یہی دو خصلتیں جب
اپنی حدود عبور کرتی ہیں تو اس کے نتیجے میں لامحالہ بے راہ روی جنم لیتی
ہے۔ بے راہ روی کی اس دہکتی ہوئی آگ میں صرف نوجوان نسل ہی برباد نہیں ہو
رہی بلکہ شادی شدہ اور عمررسیدہ لوگوں کے ایمان بھی متزلزل نظر آتے ہیں۔
ایسے ایسے مقدس رشتے اس بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں جن کا یہاں ذکر بھی
کرنا گناہ کبیرہ نظر آتا ہے۔
عورت چونکہ معاشرہ کا وہ مرکزی کردار ہے جس کے گرد پورا خاندان گھومتا ہے
بلکہ اسے خاندان کی بنیادی اینٹ بھی قرار دیاجاسکتا ہے۔اگر بنیادی اینٹ ہی
ٹیڑھی ہوجائے یا اپنی جگہ سے پھسل جائے تو اس پر بلند و بالا عمارت کیسے
کھڑی کی جاسکتی ہے۔
ایک مرتبہ محرم کے دنوں میں مسجد طہٰ میں قاری زوار بہادر کا ولولہ انگیز
خطاب سننے کا موقعہ ملا۔ انہوں نے کربلااور اہل بیت کے حالات و واقعات پر
روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات بڑی خوب کہی کہ جب نواسہ رسول حضرت امام حسین ؑ کا
سر نیزے پر تھا تو آپؑ کی زبان پر قرآنی آیات تھیں۔ یہ اس صحبت کا نتیجہ
تھا کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہ نے ان کو گود میں دودھ پلاتے ہوئے بھی
قرآن سنایا تھا۔ صبح و شام گھر میں قرآنی آیات کا ورد جاری رہتا تھا۔ یہی
وجہ ہے کہ جب حکمت خداوندی سے حضرت امام حسین علیہ السلام پر شہادت کی موت
کا نشہ طاری ہوا تو ان کی زبان پر اﷲ تعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن پاک کی آیات
تھیں۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچے کی جیسی تربیت کی جائے گی
ایسے ہی رویے کی اس سے توقع کی جاسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں نہ تو بچیوں کی
تعلیم و تربیت پر خاص دھیان دیاجاتا ہے اور نہ ہی مستقبل کے تقاضوں کے
مطابق اسے خود کو ڈھالنے کے گُر سکھائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب ہماری
بیٹیاں دولہن کے روپ میں اپنے گھر منتقل ہوتی ہیں ،ابتدا میں تو ان کا
والہانہ استقبال کیا جاتا ہے پھر جوں جوں دن گزرتے جاتے ہیں سسرالی خاندان
والوں کا رویہ یکسر تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ بلکہ ہر کوئی دولہن کو بیٹی کے روپ
میں دیکھنے کی بجائے ذاتی کسوٹی پر پرکھنے کی جستجو رکھتا ہے۔ اس حوالے سے
ساس اور نندوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ عمومی روایات کو دیکھتے
ہوئے یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ کہ مذکورہ بالا رشتوں کی حامل خواتین
کا سلوک انتہائی دوعملی کا شکارہے۔ ہماری سوچ بہو کے لئے وہ نہیں ہوتی جو
اپنی بیٹی کے لئے ہوتی ہے۔ یہی دوعملی اس وقت اور پریشان کن صورت حال پیدا
کر دیتی ہے جب شوہر کی تمام وفائیں اپنی بیوی کی بجائے کسی اور حسینہ کی
متلاشی ہوتی ہیں۔ اب چونکہ میڈیا نے آنکھوں سے حیا کی پٹی ہٹادی ہے اس لئے
گھر میں رہنے والی عورت کی بجائے وہ خواتین زیادہ پرکشش دکھائی دیتی ہیں جو
دفاتر میں کام کرتی ہیں اور ہر روز نئے بھڑکیلے رنگ برنگے کپڑے پہن کر
دوسرے مردوں کے دلوں میں اپنی دلکشی پیدا کرنے کے لئے سج دھج کے آتی ہیں۔
اب میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔کیونکہ یہ باتیں جو میں اوپر بیان کر چکا
ہوں وہ میرا موضوع نہیں تھا لیکن چونکہ ان دنوں ہماری معاشرتی اقدار جس قدر
تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہیں ان عوامل پر گفتگو کرنااور اپنا مطمع نظر
بیان کرنا میری نظر میں فضول نہیں ہے۔
جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ ہمارے زمانے میں بچے آج سے بہت مختلف
کھیلیں کھیلتے تھے۔اس لئے ان کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
اس زمانے میں چھپا چھپی کا کھیل بہت شوق سے کھیلا جاتا تھا۔سرے شام ہی ہم
کوارٹروں کے اردگرد گلا باسی میں بہت سے بچے اکٹھے ہوکر ’’لُکن مٹیِ‘‘
کھیلا کرتے تھے۔ اور جو پکڑا جاتا دوسروں کو تلاش کرنے کی ذمہ داری پھر اس
کی ہوتی۔ ہمارے کوارٹروں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک جوہڑ (چھپڑ) تھا جس میں
برساتی پانی ہر وقت موجود رہتا۔ اس کے اردگرد جنگلی جھاڑیوں کی بہتات
تھی۔چونکہ والدین کے بقول یہ سن رکھا تھا کہ ان جھاڑیوں میں چڑیلیں اور جن
رہتے ہیں‘ اس لئے چھپا چھپی کھیلتے وقت کوئی بھی بچہ اس طرف کا رُخ نہیں
کرتا تھا۔ اور جو بچہ بھی یہ غلطی کر بیٹھتا وہ بے ہوش ہوکر گر جاتا بلکہ
اس کی آنکھیں الٹی ہوجاتیں۔کئی بچوں نے ان جنگلی جھاڑیوں میں الٹے پاؤں
والی چڑیل بھی دیکھی تھی۔
ایک مرتبہ چھٹی والے دن دوپہر کے وقت میں ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے میں
کھیل رہا تھا۔ گاڑی کا انتظار کرنے والے کچھ مسافر بھی مسافر خانے میں
موجود تھے۔مجھ سمیت سب نے ایک عورت کی آواز سنی جو میرا نام لے کر پکار رہی
تھی۔ مجھے وہ آواز سن کر احساس ہوا کہ جیسے میری ماں نے میرا نام لے کر
آواز دی ہے۔ حالانکہ انہوں نے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔میں نے جونہی
ماں جیسی آواز سنی،فوراً جواباً آواز دی کہ میں آرہا ہوں۔ والدین سے سنا
تھا کہ چڑیلوں کی آواز کاجواب نہیں دیا کرتے کیونکہ اس صورت میں اس کی گرفت
میں آنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔چونکہ مجھ سے بے ساختہ یہ غلطی ہوچکی تھی اس لئے
میں آواز کا جواب دیتے ہی بھاگتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا اور ماں سے اس بارے
میں پوچھنے لگا۔ماں نے کہا کہ میں نے تو کوئی آواز نہیں دی۔کیونکہ اس زمانے
میں آواز گھر سے باہر نکالنا عورتوں کے لیے جرم تصور کیاجاتا تھا اس لئے
ماں ایسا کر بھی نہیں سکتی تھی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مسافر خانے سے
میری روانگی کے چند منٹ بعد ایک کھلے بالوں والی عورت جس کے پاؤں الٹے تھے،
مجھے نام لے کر تلاش کر رہی تھی۔جب وہاں موجود مسافروں نے اس چڑیل کے الٹے
پاؤں کی طرف دیکھا تو سب دم بخود ہوکر سہم گئے۔ چونکہ چڑیل کا ٹارگٹ میں
تھا۔اسلئے ماں کی آغوش میں پہنچنے کی وجہ سے میں بچ گیا۔پھر ماں نے دوپہر
کے وقت مجھے چھپا چپی کھیلنے سے منع کر دیا۔کیونکہ ایسی ہی ایک دوپہر مسافر
خانے میں ٹکٹ گھر کے باہر لگی ہوئی ٹیوب لائٹ کو جھولا سمجھ کر میں لٹک
گیا۔ تو ٹیوب لائٹس میرا وزن برداشت نہ کرسکی اور دھڑام سے نیچے آگری۔ ٹیوب
لائٹ کے شیشے کرچی کرچی ہوکر دور تک بکھر گئے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خوف کے
مارے میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور ماں کی آغوش میں آکر چھپ گیا‘ لیکن
میرے کان بہت دیر تک اس لئے دروازہ پر ہی لگے رہے کہ سرکاری ٹیوب لائٹس
توڑنے کے جرم میں مجھے پولیس پکڑنے ضرور آئے گی۔ لیکن جب شام تک کوئی مجھے
پکڑنے نہ آیا تو جان میں جان آئی۔ اس زمانے میں میرا ایک منہ بولا ماموں جس
کا نام خورشید تھا۔وہ واں رادھا رام کے ٹکٹ گھر میں ٹکٹیں دیا کرتا تھا،اس
لئے میں نے یہ سمجھا کہ ماموں نے مجھے بچا لیا ہے۔لیکن آئندہ کے لئے ٹیوب
لائٹس کو جھولا سمجھ کر لٹکنے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی۔
انہی دنوں’’ چیچو چیچ گنڈریاں دو تیریاں دو میریاں‘‘ کا کھیل بھی بہت معروف
تھا۔ اس کھیل کے تحت انتہائی پوشیدہ جگہوں پر لکڑی کے جلے ہوئے کوئلے یا
بیٹری سیل میں سے نکلنے والے سکے سے لکیریں لگائی جاتیں۔ پھر ان لکیروں کو
تلاش کرنے کی ذمہ داری کسی بھی ایک لڑکے کے سپرد کر دی جاتی۔ اگر وہ لگائی
ہوئی تمام لکیروں کو پکڑ کر مٹا دیتا تو وہ جیت جاتا وگرنہ نظروں سے اوجھل
رہنے والی لکیروں کا مالک کامیاب قرار پاتا۔
کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میرے پیٹ میں درد کا شدید احساس ہوا۔جسے اس وقت
کی زبان میں ’’لی‘‘ کا درد کہا جاتا تھا یعنی ’’مروڑ‘‘ میں نے جب بھی ماں
سے پیٹ میں مروڑ اٹھنے یا پیچش لگنے کی شکایت کی ماں اپنے ماتھے پر تھوڑی
سی تشویش کے تیور چڑھاتے ہوئے بلند آواز میں کہتی کہ چار پائی کے پاوے پر
کپڑا رکھ کر بیٹھ جاؤ۔ ایسا کرتے وقت ہنسی اور شرم تو بہت آتی لیکن ماں کا
یہ پرانا ٹوٹکا خوب کارگر ثابت ہوتا۔ اور میں بغیر ڈاکٹر کی دوائی کے
خودبخود ٹھیک ہوجاتا۔ ان دنوں سنا کرتے تھے کہ جس کو بخار نہ چڑھتا ہو وہ
اپنی بغل میں پیاز رکھ کر کچھ وقت کے لئے دھوپ میں بیٹھ جائے۔ تو فوری طور
پر اسے بخار چڑھ جاتا۔ اس طرح سکول سے چھٹی کرنے کا بہانہ ہمارے ہاتھ
آجاتا۔
میری ماں کو کن پیڑوں کو دم کرنا بھی آتا تھا۔ جب بھی کسی کو کن پیڑے نکل
آتے تو وہ پوچھتا ہوا ماں تک پہنچ جاتا۔ ماں نمک کی ڈلی سے اﷲ کا کلام پڑھ
کر ایسا دم کرتی کہ چند دنوں میں ہی کن پیڑے ٹھیک ہوجاتے۔ میرے والد جوانی
میں بے شک پانچ وقت کے نمازی نہیں تھے لیکن اﷲ کے کسی نیک بندے نے ان کو
داڑھ درد، سانپ اور بچھو کے ڈسنے سے بچاؤ دم کرنے کا طریقہ بتا رکھا تھا۔
والد صاحب داڑھ کا درد صبح یا شام کے وقت نئے کیلوں کو کسی بھی درخت میں
ٹھونک کر ساتھ ساتھ قرآنی آیات کی تلاوت سے کرتے۔ کچھ اُسی طرح سانپ اور
بچھو کے کاٹنے کا دم بھی تھا۔اﷲ تعالیٰ نے کسی بزرگ کی دعا سے ان کی زبان
میں شفا کی تاثیر دے رکھی تھی۔
حالانکہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالی تو والد صاحب کے سر پر بال نہیں دیکھے۔ان
کے سر کے اردگرد بال تھے لیکن سر کے اوپر والا حصہ بالوں کے بغیر تھا۔ یہاں
یہ ذکر کرتا چلوں کہ والد صاحب اکثر اپنے گھنے بالوں کا ذکر کرکے افسردہ
ہوجایا کرتے تھے۔ ان کے بقول جوانی میں جب وہ اپنے بالوں میں گنگھا پھیرتے
تو گھنے بالوں سے گنگھا ٹوٹ جاتا تھا۔ چونکہ یہ بات ہمارے لئے ایک سہانے
خواب کی طرح تھی اس لئے ہم سامنے تو ابا جی کی ہاں میں ہاں ملا دیتے لیکن
دل میں کہتے کہ لگتا تو نہیں ہے۔ کچھ لوگ بالوں کے اس ڈیزائن کو دولت کی
نشانی قرار دیتے۔لیکن جب ہم اپنی مالی حالت دیکھتے تو ایسے لوگوں کی باتوں
پر یقین نہ آتا۔ جو گنجے پن کو دولت کی فراوانی سے تشبیہ دیتے تھے۔ سر پر
بال نہ ہونے کے باوجود ابا جی کو اپنے سر پر خارش بہت ہوتی تھی۔ چونکہ
اولاد میں سے انہیں میں سب سے زیادہ پیار کرتا تھا۔ اس لئے وہ سونے سے پہلے
بالخصوص گرمیوں کی دوپہر یا شام کو مجھے اپنے سر پر چٹکیاں کاٹنے کیلئے
کہتے۔ میں باقاعدہ گنتی گن کر سر پر چٹکیاں کاٹتا۔ جوں جوں چٹکیوں کی تعداد
دو اڑھائی سو سے زیادہ ہوجاتی تو ابا جی چٹکیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے
فرماتے۔ اب تیری پتلون کا پائنچہ بن گیا ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ غربت کے
ان دنوں پتلون تو دور کی بات ہے۔ ہمیں ڈھنگ کی شلوار قمیض بھی پہننے کو نہ
ملتی تھی۔ اس لئے جب میں کسی کو پتلون پہنے دیکھتا تو پتلون پہننے کی خواہش
میرے دل میں بھی انگڑائیاں لینے لگتیں۔ مجھے یاد ہے اس وقت لنڈا بازار
لاہور سے انگریزوں کی اتری ہوئی پتلون پانچ روپے کی مل جاتی تھی،لیکن اس
وقت ابا جی کی تنخواہ اتنی کم تھی کہ مہینے میں پانچ روپے کی پتلون خریدنے
کی عیاشی بھی ہمارے لیے ممکن نہ تھی۔
ابا جی مہینہ بھر مجھ سے اپنے سر پر یہ کہہ کر چٹکیاں کٹواتے رہتے کہ
تنخواہ پر لنڈے بازار سے ایک پتلون خرید کر دوں گا۔ پتلون کا ابھی سرے سے
وجود بھی نہیں ہوتا تھا کہ میں دل ہی دل میں سوچتا کہ ابا جی جو پتلون
خریدیں گے وہ کس رنگ کی ہوگی۔ اس کے پائنچے کتنے کھلے ہوں گے۔اس کے اوپر
والی بیلٹ کیسی ہوگی۔ بلکہ کئی مرتبہ تو خواب بھی مجھے پتلون کے بارے آتے۔
میں سپنوں ہی سپنوں میں ابا جی کی انگلی پکڑے لاہور پہنچ جاتا۔ جہاں پر
دکان پر رنگ برنگی پتلونیں، رنگ برنگے کوٹ، خوبصورت سے خوبصورت باندر ٹوپے
اور مفلر لٹکے ہوتے۔ چونکہ یہ سب ابھی خواب تک ہی محدود تھا۔ اس لئے دل ہی
دل میں دعا مانگتا کہ اے اﷲ اس تنخواہ پر ابا جی مجھے اپنے ساتھ لے کرلاہور
جائیں جہاں نہ صرف لاہور کی سیر کا موقع مجھے ملے گا‘ وہاں ابا جی پانچ
روپے کی پتلون بھی لے کر دیں گے۔ چونکہ ایک دیہات نما شہر کے رہنے والے بچے
کے لئے لاہور کا تصور بہت خوبصورت تھا اس لئے ڈرتا تھا کہ کوئی مجھے لاہور
دیکھنے کے الزام میں پکڑ ہی نہ لے۔ انہی دنوں ایک لطیفہ بھی بچوں میں مشہور
تھا کہ ایک پینڈو لاہور کی ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ مال روڈ پر چہل قدمی کر رہا تھا۔
راستے میں واپڈا ہاؤس کی بلند و بالا اور خوبصورت بلڈنگ آگئی۔ اب پینڈو کے
لئے یہ ایک حیران کن عمارت تھی۔ گاؤں میں چونکہ عموماً یک منزلہ کچے
گھروندے ہی ہوتے ہیں اس لئے یہ بلند و بالا بلڈنگ اس کے لئے کشش کا باعث
تھی۔ ابھی وہ حیرت اور تجسس سے بلڈنگ کودیکھ ہی رہاتھا کہ قریب سے شہر کا
ایک ٹھگ گزرا۔ اس نے پینڈو کی حیرت اور سادگی دیکھ کر بڑے غصے کے عالم میں
پوچھا، اوئے تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ پینڈو پہلے تو چونکا پھر اس کے دل میں
خیال آیا کہ شاید اس نے عظیم الشان عمارت کو دیکھ کر کوئی جرم کیا ہے۔ اس
پر پینڈو نے پہلے خود کو سنبھالا پھر جرات کرکے بولا، اس عمارت کی منزلیں
گن رہا ہوں۔ ٹھگ نے پوچھا، کتنی منزلیں گنی ہیں اس نے کہا، پانچ۔ ٹھگ نے
کہا تو پھر نکالو پانچ روپے۔ پینڈو نے نہایت سادگی سے جیب میں ہاتھ ڈالا
اور پانچ روپے کا نوٹ نکال کر ٹھگ کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پیسے لے کر ٹھگ
رفوچکر ہوگیا۔ پینڈو بیچارہ حسرت سے ہاتھ ملتا رہ گیا اسٹیشن کی جانب واپسی
پر اسے پیاس لگ گئی۔ شہر میں اسے کمیٹی کا نلکا نظر آگیا جس سے خود بخود
پانی نکل رہا تھا۔ وہ نلکا بھی پینڈو کے لئے ایک حیران کن چیز تھی اس نے
ڈرتے ڈرتے اس نلکے سے پانی پینا شروع کر دیا۔ پانی پینے کے بعد وہ اسے کھلا
چھوڑ کر پیدل ہی چل پڑا۔ اسٹیشن پر پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ وہ نلکا تو
کھلا ہی چھوڑ آیا ہے۔ وہ یہ سوچ کر مزید خوف زدہ ہوگیا کہ اس سے بہت بڑا
جرم ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ اس خوف سے اپنے آگے پیچھے دیکھ کر خوفزدہ ہوتا رہا
کہ اس جرم کی پاداش میں کہیں وہ پھر نہ دھر لیا جائے گا۔ خدا خدا کرکے گاڑی
اسٹیشن سے روانہ ہوئی۔ اپنے گاؤں پہنچ کر اس نے بڑی فخریہ انداز میں یہ
کہانیاں سنائیں اور ساتھ ہی بڑے فخریہ انداز میں کہا، لاہوریئے بڑے چالاک
بنتے ہیں۔ میں واپڈا ہاؤس کی گیارہویں منزل پر تھا پیسے صرف پانچ منزلوں کے
دیئے۔ پھر اس نے مزید حیرت سے کہا کہ میں کمیٹی کا نلکا بھی کھلا چھوڑ آیا
ہوں جس کی وجہ سے لاہور شہر اس وقت تک ڈوب چکا ہوگا۔
جب بچوں میں ان واقعات کی بازگشت ہوتی تو لاہور دیکھنے کی آرزو میرے دل میں
مزید شدت اختیار کر جاتی۔ چونکہ لاہور جاتے وقت مجھے اپنے ابا جی کے ساتھ
ہونا تھا‘ جو اکثر لاہور آتے رہتے تھے اس لئے میں خود کو قدرے محفوظ سمجھتا
تھا۔ چونکہ خود کو میں بھی پینڈو ہی تصور کرتا تھا اس لئے ایک انجانا سا
خوف میرے دل میں ضرور تھا۔
اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ میں ہر ماہ کی پانچ تاریخ اسٹیشن پرجاکر اس گاڑی
کاانتظار کرتا جس میں تنخواہ دینے والا ریلوے کا کیشئر آتا تھا۔ یہ کیشئر
عہدے کے لحاظ سے تو کلرک ہی تھا لیکن اس کا رعب دبدہ بہت تھا۔ اس کی
صوابدید پر تھا کہ وہ کسی کو انگوٹھا لگوا کر تنخواہ دے یا نہ دے۔ اس کے
آگے بولنے والا ہمیشہ پچھتاتاتھا۔کیونکہ اگر اس کی ناراضگی کی وجہ سے
تنخواہ واپس چلی جاتی تو وہی تنخواہ دوبارہ لینے کے لئے پوری ایک تنخواہ
رشوت کے طور پر دینی پڑتی۔
یہی وجہ تھی کہ وہ کیشئر پوری تنخواہ 80روپے دینے کی بجائے چار پانچ روپے
رشوت کے طور پر جبراً کاٹ لیتا تھا۔ اس کے باوجود کسی بھی ریلوے ملازم کو
اس کے سامنے چوں چرا کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ چونکہ کیشئر کا انتظار کرنے
والوں میں‘ میں بھی شامل ہوتا اس لیے اسے دیکھنے کی بہت جستجو ہوتی‘ جب میں
اسے دوسرے انسانوں کی طرح ہی پاتا تو بڑی حیرانگی ہوتی کہ ریلوے ملازمین اس
سے ڈرتے کیوں ہیں۔ جس دن تنخواہ ملتی اس دن تمام ریلوے ملازمین کے گھروں
میں میلے کا سماں ہوتا۔ پھر ان دنوں تنخواہ میں سے مزید پانچ روپے یونین
فنڈ کے طور پر منہا کر لئے جاتے۔ چنانچہ 80 روپے تنخواہ میں سے بمشکل
70روپے ہی گھرتک پہنچ پاتے۔ اس دن گھر میں بھی شدت سے ہمارا انتظار کیا
جاتا ۔ ابا جی ماں کے ہاتھ پر باقی ماندہ روپے رکھ کر کہتے کہ اس سے پورا
مہینے کا خرچ چلانا ہے جب ابا جی میری پتلون کے پانچ روپے اپنے پاس رکھے
بغیر سارے ہی پیسے ماں کو دے دیتے تو مجھے پتہ چل جاتا کہ اس مرتبہ بھی ابا
جی مجھے لے کر لاہور نہیں جائیں گے اور پتلون خریدنے کی خواہش صرف خواب ہی
رہے گی۔ بہرکیف چار پانچ تنخواہیں گزرنے کے بعد وہ لمحہ آ ہی گیا جب ابا جی
نے مجھے اپنے ساتھ لاہور چلنے کی خوشخبری سنائی۔ جس صبح ہمیں لاہور جانا
تھا اس رات میں جاگتا رہا کہ نہ جانے لاہور کیسا ہوگا۔ وہاں کے لوگ کیسے
ہوں گے۔ وہاں کی رونقیں ، رنگ برنگی بتیاں اور آسمان کو چھوتی ہوئی بڑی بڑی
بلڈنگیں کتنی خوشنما لگتی ہوں گی۔ بہرکیف جاگتی آنکھوں سے ساری رات لاہور
جانے کے سپنے دیکھ کر بالآخر اس صبح کا سورج بھی طلوع ہوگیا۔جس صبح مجھے
ابا جی کے ساتھ لاہور جانے والی گاڑی پر سوار ہونا تھا، گڑ والی کالی سیاہ
چائے کے ساتھ رات کی باسی روٹیاں کھا کر بڑے فخریہ انداز میں ابا جی کے
ساتھ ریلوے اسٹیشن واں رادھا رام پہنچا اور بڑی بے تابی سے اس جانب دیکھنے
لگا، جس طرف سے گاڑی نے آنا تھا۔ میرے دل میں یہ خوف بھی موجود تھا کہ گاڑی
لیٹ ہونے کی بناء پر ابا جی کا ارادہ ہی نہ بدل جائے۔ کچھ دیر بعد لاہور
جانے والی گاڑی پلیٹ فارم پر آ کر رُکی۔جس میں بیٹھنے کے لئے تو جگہ نہ تھی
لیکن کھڑے ہونے کی گنجائش ضرور تھی۔ میرے لاہور جانے کی اطلاع محلے کے
دوسرے بچوں کو مل چکی تھی۔ہر کوئی مجھے فخر اور تجسس سے دیکھ رہا تھا۔ میں
وہ ہر چیز اپنی آنکھوں اور ذہن میں محفوظ کر لینا چاہتا تھا۔ جو مجھے لاہور
جاتے ہوئے نظر آ رہی تھی۔ تاکہ اپنے ہم عمر بچوں کو بتا کران پر رعب ڈال
سکوں۔ پتوکی گزرنے کے بعد گاڑی چھانگا مانگا کے جنگل میں داخل ہونے سے پہلے
جب نہر سے گزری تو اتنی خوف ناک آواز آئی کہ میں خوف کے مارے لرز گیا اور
ابا جی کے ساتھ چمٹ گیا۔ پھر ہمارے سامنے چھانگا مانگا کا گھنا جنگل تھا،
جس میں بہت سے جنگلی جانوروں کی موجودگی کی خبریں بچوں کی زبانی ملتی رہتی
تھیں۔ کچھ لوگ چھانگا مانگا سے شہتوت کھا کر گئے وہ ان کے ذائقے کی تعریف
کرتے۔چونکہ چھانگا مانگا جنگل میں تنہا جانے کی ہمیں اجازت نہ تھی اس لئے
میں بغیر شہتوت کھائے ہی ان کا ذائقہ محسوس کر لیتا۔ اس سے اگلا اسٹیشن کچی
کوٹھی تھا۔ پھر پریم نگر آیا جہاں کچھ عرصہ ابا جی رہ چکے تھے۔ جب رائے ونڈ
آیا تواس اسٹیشن کی شان اورکشادگی دیکھ کر اس کی سیر کرنے کو دل للچایا۔
پھر دل میں خیال آیا کہ اگر رائے ونڈ اتنا خوب صورت اور بڑا ہے تو لاہور کی
شان کیا ہوگی۔ ہر لمحے گاڑی چلتی ہوئی لاہور کے قریب سے قریب ہوتی جا رہی
تھی۔ کوٹ لکھپت سے گزر کر جب والٹن اسٹیشن آیا تو یہ دیکھ کر مجھے حیرانی
ہوئی کہ یہاں تو ہوائی اڈہ بھی ہے۔ جہاں سے اڑتے ہوئے جہاز بھی نظر آئے۔ اب
تک جو کچھ بھی دیکھا تھا ان میں یہ سب سے حیران کن منظر تھا۔ اڑتے ہوئے
جہاز کو دیکھنے اور ہوائی اڈے کا تصور میری آنکھوں اور دل میں ہمیشہ کے لیے
محفوظ ہو گیا۔ (یہاں یہ بتاتا چلوں کہ 1984ء سے 2003ء تک میں اسی والٹن
ہوائی اڈے کے قریب مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں رہائش پذیر ہوں،لیکن اب
بچپن والا احساس موجود نہیں۔)کہ جہاز کب اور کیسے اڑتا ہے۔
لاہور چھاؤنی سے ہوتی ہوئی گاڑی لاہور اسٹیشن پر پہنچی۔ لاہور کا تصور جیسا
میرے ذہن میں موجود تھا۔ وہ بالکل ویسا ہی تھا۔ وسیع وعریض رقبے پر پھیلا
ہوا یہ ریلوے اسٹیشن بہت سے پلیٹ فارموں پر مشتمل تھا جہاں مختلف شہروں سے
گاڑیاں آتیں اور مسافر لے کر منزل مقصود کی طرف روانہ ہوجاتی۔ اسٹیشن
پرکالی وردی پہنے ہوئے ریلوے کے باؤ بھی نظر آئے جو لوگوں سے ٹکٹ طلب کر
رہے تھے۔ میں اس خوف سے ابا جی کے ساتھ چمٹ گیا کہ کہیں وہ مجھے ہی نہ پکڑ
لیں۔ چونکہ میں مقامی بچوں سے مختلف اور پینڈو دکھائی دے رہا تھا۔ اس لئے
یہ خوف میرے دل میں ہر لمحے موجود تھا اس خیال سے میں اسٹیشن کے اردگرد بنی
ہوئی عمارتوں کو آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں رہا تھا کہ کوئی یہ بھی نہ
پوچھ لے کہ کتنی منزلیں گنی ہیں۔ ابا جی لنڈے بازار جانے سے پہلے ڈی ایس
آفس کسی کام کو گئے واپسی پر جو راستہ اختیار کیا وہ سریوں کابازار تھا۔
وہاں جتنی بھی دکانیں تھیں ہردکان کے باہر بکروں کی سریاں سجی ہوئی
تھیں۔چونکہ مجھے بچپن سے ہی سریوں سے خوف آتا ہے اس لئے اس بازار سے گزرتے
وقت میں بہت پریشان ہوا۔ اس لمحے اپنے دل کی بات ابا جی سے کہہ بھی نہ سکتا
تھا۔ اس بازار سے گزرتے ہوئے لاہور کا جو تصور میرے ذہن میں مو جود تھا وہ
چکنا چور ہوگیا۔ خدا خدا کرکے وہ بازار ختم ہوا اب ہم اس لنڈے بازار کی طرف
گامزن تھے۔ جسے دیکھنے کے لئے میں نے کئی ماہ تک ابا جی کے سر پر چٹکیاں
کاٹی تھیں۔ لنڈے بازار سے پہلے نولکھا بازار آیا جس کی ہر دکان بہت سجی
ہوئی تھی اسے دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ دل چاہتا تھا کہ ابا
جی سے یہیں رہنے کی اجازت لے لوں۔ لیکن ایسا کیسے ممکن تھا۔کچھ ہی دیر چلنے
کے بعد ہم دائیں جانب مڑے تو ہر دکان پر پرانی پتلون کوٹ، پرانے بوٹ، باندر
ٹوپے سجے ہوئے دیکھے۔ ڈرتے ڈرتے میں نے ابا جی سے پوچھا ، کیا یہی لنڈا
بازار ہے۔ میری بات کو سن کر انہوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔اب میں خود کو
دنیا کا سب سے زیادہ خوش نصیب تصور کرنے لگا۔ کیونکہ بے تحاشا پتلونیں اور
پالش سے چمکے ہوئے پرانے جوتے میرے سامنے تھے۔ جو زمین پر بیٹھے ہوئے لوگوں
نے مرمت کر کے یہاں فروخت کے لیے رکھے تھے۔ ابا جی جس دکان میں مجھے لے کر
جاتے تو کبھی پتلون کا بھاؤ نہ بنتا اور کبھی وہ پتلون مجھے پوری نہ آتی۔
خریدنے کی استطاعت تو صرف ایک پتلون کی تھی ،لیکن پسند مجھے بہت سی پتلونیں
آ گئیں۔ میں یہ بھی چاہتا تھا کہ پتلون قینچی چپل پر تو پہنی نہیں جاسکے گی
اس لئے پتلون کے ساتھ اگر ابا جی پرانے جوتوں کا ایک جوڑا بھی لے دیں تو
میں پہلے سے دوگنی تعداد میں ان کے سر پر چٹکیاں کاٹوں گا۔
چونکہ خواہش سے زیادہ بات پیسوں کی تھی اس لئے یہ خواہش میرے دل میں ہی
محفوظ رہی۔ ۔ بالآخر کئی دکانیں پھرنے کے بعد فروزی رنگ کی ایک پتلون پسند
بھی آگئی اور اس کا بھاؤ پانچ روپے بھی طے ہوگیا۔ جوتے اس لئے خریدے نہ
جاسکے کہ اس کے لئے ابا جی کے پاس پیسے نہیں تھے۔ میں زمین پر پڑے ہوئے
چمکتے ہوئے جوتوں کو حسرت سے دیکھتا ہوا اسٹیشن کی طرف واپس آ رہا تھا جہاں
سے ہم دونوں باپ بیٹے کو واں رادھا رام واپس جانے کے لیے گاڑی میں سوار
ہونا تھا۔ گاڑی کی روانگی کا وقت ہو چکا تھا اس لئے ہم دونوں جلدی سے گاڑی
میں بیٹھ گئے۔ اور شام ہونے سے پہلے پہلے اپنے گھر پہنچ گئے جہاں ماں سمیت
دوسرے بھائی ہمارے منتظر تھے۔
یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم سب کو ریلوے سے اتنا والہانہ لگاؤ تھا کہ
ابا جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خاندان کے تمام افراد ریلوے اسٹیشن یا
ریلوے لائن کے ارد گرد ہی آباد ہیں۔ جہاں ہمیں چلتی ہوئی گاڑی اور اس کے
انجن کی وسل سنائی دیتی ہو۔ ابا جی اکثر کہا کرتے تھے کہ گھر اسٹیشن سے
اتنا قریب ہونا چاہیے کہ انسان بوقت ضرورت دوڑ کر بھی گاڑی پکڑ سکے۔
اس زمانے میں کئی کئی دن مسلسل سائیکل چلانے کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ یہ
اعصاب شکن کھیل لوگوں کے لئے باعث حیرانگی اور باعث طمانیت ہوتا۔ واں رادھا
رام اور لاہور کینٹ میں بھی کئی مرتبہ ایسے پروگرام کا اہتمام کیاجاتا۔اس
کے تحت کوئی شخص کئی کئی دن سائیکل پر بڑے سے دائرے میں مسلسل چلتی ہوئی
سائیکل پر ہی چکر کاٹتا رہتا۔ کھانا کھاتا، کپڑے تبدیل کرتا، اسی پر
نہاتا۔بلکہ ہر وہ کام سائیکل چلاتے ہوئے کرتا۔ لوگ اس ماہر سائیکل سوار کا
فن دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے۔ میں اکثر سوچتا کہ چھ سات دن مسلسل
سائیکل چلانے والا تھکتا نہیں ہے۔ جب ہم سو جاتے تھے‘ تب بھی وہ سائیکل
چلانے میں مصروف ہوتا بعض اوقات لوگ رات کو اسے چیک بھی کرتے کہ وہ سائیکل
سے اتر کر سو تو نہیں گیا‘ لیکن میرے نالج کے مطابق پکڑ جانے کا کوئی واقعہ
سامنے نہیں آیا۔ جس دن اس سائیکل سوار نے اپنی مقررہ مدت ختم کر کے اترنا
ہوتا تو معززین کے علاوہ عام لوگ بھی اس کو شاباش کے طور پر پیسے کپڑے یا
آٹا وغیرہ دیتے۔ جسے وصول کر کے وہ کسی اگلے ٹھکانے کی تلاش میں چل پڑتا۔
میری ماں کو اکثر و بیشتر جب بھی کہیں جانا ہوتا تو وہ بذریعہ ٹرین ہی سفر
کرتیں۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ بس میں سفر کے دوران انہیں قے آجاتی۔اور
منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے وہ کئی بار اس مرحلے سے گزرتیں۔ ان دنوں اس
حوالے سے ایک ٹوٹکا مشہور تھا کہ تانبے کا موری والا پیسہ اگر منہ میں رکھ
لیاجائے تو قے نہیں آتی تھی۔ جونہی ماں بس میں سوار ہوتی تو ابا جی انہیں
تانبے کا پیسہ منہ میں رکھنے کے لئے کہہ دیتے۔ ماں اپنے پلو سے بندھا ہوا
سکہ نکال کر اپنے منہ میں رکھ لیتی۔ ایک مرتبہ اسی طرح بس چلنے کے کچھ دیر
بعد تک تو ماں کو قے نہ آئی لیکن پھر دل ایسا خراب ہوا کہ تانبے کے پیسے
سمیت سب کچھ نکل گیا۔ اس لمحے بس کے اس جانب ایک خوبرو نوجوان اپنی پتلون
میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ ماں نے قے کرکے اس کے سارے کپڑے خراب کر دیئے۔ جس
پر وہ منہ میں بڑبڑانے لگا چونکہ اس زمانے میں یہ کام ہر دوسری عورت سفر
میں کرتی تھی‘ اس لیے کسی نے بُرا نہ منایا۔
واں رادھا رام میں قیام کے دوران چھٹی والے دن کوارٹروں کے پیچھے کشتیوں
اور کبڈی کے میچ کھیلے جاتے تھے۔ گرد و نواح کے دیہاتوں کے گبھرو ان میچوں
میں حصہ لیتے۔اور دور نزدیک گاؤں کے لوگ ان مقابلوں کو دیکھنے کے لیے بڑے
شوق سے آتے۔ جبکہ اکثر و بیشتر نوجوان جانگیا پہنے اپنے جسم کو سرسوں کا
تیل لگائے ڈنٹ بیٹھکیں نکال رہے ہوتے۔ کوئی اس حالت میں کھیت میں دوڑ کر
اپنی جسمانی چستی میں اضافہ کرتے۔ ہم سب بھائی ابا جی کے ساتھ کشتی اورکبڈی
کے ان مقابلوں کو دیکھنے کے لئے ہر چھٹی والے دن باقاعدگی سے جایا کرتے
تھے۔ پھر میرا سب سے بڑا بھائی رمضان بھی کبڈی کھیلنے والوں میں شامل
ہوگیا۔ وہ جتنی پھرتی کامظاہرہ کبڈی کے میدان میں کرتا اس کی وجہ سے کبڈی
کے سبھی شائقین اس کو تحسین کی نظر سے دیکھنے لگے بھائی کے دیکھا دیکھی ایک
دن میں بھی لنگوٹ کس کے کبڈی کے میدان میں اتر گیا۔ حالانکہ عمر اور جسامت
کے اعتبار سے وہاں موجود سب کھلاڑیوں سے چھوٹا تھا۔پھر بھی میں نے اپنے شوق
کی تکمیل کے لئے کبڈی کھیلنے کا انتہائی مشکل فیصلہ کرلیا۔ اس سے پہلے میں
بتا چکا ہوں کہ ابا جی پچھلی رات کی ڈیوٹی کے دوران مجھے اپنے ساتھ کیبن پر
لے جاتے اور طلوع آفتاب سے پہلے میرے جسم پر سرسوں کے تیل کی خوب مالش کرتے
بلکہ سو ڈیڑھ بیٹھکیں اور ڈنڈ بھی نکلواتے۔ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد یہ تھا
کہ میں بھی بڑا ہوکر نامی گرامی پہلوان بنوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب میں نے ابا
جی سے کبڈی کے میچ میں شرکت کی اجازت مانگی تو انہوں نے بخوشی اجازت دے
دی۔میں لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑا۔ کبڈی ڈالنے اور پکڑنے کا باقاعدہ
سلسلہ شروع ہوگیا۔ چونکہ میں اپنی ٹیم میں سب سے چھوٹا تھا اس لئے واں
رادھا رام کا ایک نوجوان لڑکا جس کانام ’’طوطی باجا‘‘ تھا وہ کبڈی ڈالنے
کیلئے ہماری جانب آیا۔ میں بھی دوسرے لڑکوں کے ساتھ اسے پکڑنے کی جستجو میں
تھا۔ جب مجھے سب سے کمسن اور چھوٹا دیکھا تو اس نے پورے زور سے تھپڑ مجھے
رسید کر دیا۔ چونکہ کبڈی قواعد و ضوابط کے مطابق جس کو کبڈی ڈالنے والا
ہاتھ لگا لیتا پھر فیصلہ ہونے تک مقابلہ ان دونوں کے درمیان ہی جاری رہتا۔
باقی لڑکے ایک طرف ہٹ کر زور آزمائی کا مقابلہ دیکھتے رہتے۔ ’’طوطی باجا
‘‘نے مجھے اتنا زوردار تھپڑا رسید کیا کہ میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل
آئے۔ میں اسے پکڑنے کے لئے ایک بار پھر آگے بڑھا تو اس نے دو تھپڑ اور مجھے
رسید کر دیئے۔جس سے میں رونے لگا۔ اکھاڑے کے اردگرد سینکڑوں لوگوں کے ساتھ
ساتھ میرے ابا جی بھی کھڑے تھے۔ وہ یہ کہتے ہوئے مجھے میدان سے باہر لے گئے
کہ اگر رونا ہی تھا تو میدان میں کیوں اترے تھے۔چونکہ یکے بعد دیگرے مجھے
زناٹے کے تین تھپڑے پڑے تھے اس لئے ابا جان کو جواب دینے کی بجائے میں صرف
روئے ہی جا رہا تھا۔
جس لڑکے نے مجھے مارا۔ اس پر میرے بھائی کو بہت تپ تھی۔ اگلی مرتبہ وہ کبڈی
ڈالنے کے لئے مخالف ٹیم کی طرف گیا اور جاتے ہی ’’طوطی باجا‘‘ کو دانستہ
ہاتھ لگا دیا۔ جب ’’طوطی باجا‘‘ انہیں پکڑنے کے لئے آگے بڑھا تو بھائی نے
اس کو دونوں ہاتھوں سے خوب مارنا شروع کر دیا۔ طوطی باجے کی مرمت کا یہ کام
اتنا بڑھ گیاکہ بہت سارے تماشائی بھی میدان میں آگئے کہ رمضان کبڈی کھیلنے
کی بجائے اپنے بھائی کا بدلہ اتار رہا ہے۔اس کے بعد چونکہ ہم واں رادھا رام
سے لاہور کینٹ منتقل ہوگئے اس لئے ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے کبڈی کھیلنے
کا شوق دوبارہ دل میں پیدا نہ ہوا۔ اور نہ ہی پھر کشتی کے نزدیک کبھی پھر
جانے کا موقع ملا۔ بلکہ ٹی وی پر جب کشتی نما ریسلنگ دیکھتا ہوں‘ تو اسے
بھی انسانیت کش قرار دیتا ہوں‘ کیونکہ اس میں کامیابی کے لیے ہر وہ طریقہ
اختیار کیا جاتا ہے‘ جو سرا سر زیادتی کے مترادف ہوتا ہے۔ جو طاقتور ہوتا
ہے‘ ریفری بھی اسی طرف ہوتا ہے۔ کمزور کے حصے میں صرف مار ہی آتی ہے۔ اب تو
انٹرنیشنل سطح پر ہونے والی ان کشتیوں کو بے حیائی پھیلانے کا کام بھی سونپ
دیا گیا ہے۔ مرد تو مرد جانگیا اور بنیان پہنے عورتیں بھی ریسلنگ کے رِنگ
میں گھس آتی ہیں۔ پہلوان کشتی چھوڑ کر ان کے تعاقب میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
مرد اور خواتین پہلوانوں کی یہی حرکات بے حیائی پھیلانے کا موجب بن جاتی
ہیں۔
( یہ کہانی بیشک بہت پرانی ہے لیکن آج بھی اگر پڑھا جائے تو دل کو سکون اور
قرار ملتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے میں مارگلہ نیوز انٹرنیشنل میگزین کے
قارئین کی نذر کررہاہوں)
|