اسے آج ہی آفس سے کام مکمل نہ کرنے پر ڈانٹ پڑی تھی۔باس
اسے کمپنی سے نکال دینا چاہتا تھالیکن اس کی درخواست پر اسے آخری چانس دیا
گیا تھا۔وہ گھر آیا اور آتے ہی اس نے کمپیوٹر آن کیا اور تھکاوٹ کی پرواہ
کیے بغیردفتر کا کام کرنا شروع کردیا۔وہ جلدی جلدی کام کر رہا تھا لیکن
ساتھ ساتھ اس کی نظر گھڑی کی طرف بھی جا رہی تھی جہاں پانچ بجنے میں کچھ
وقت باقی تھا۔اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو گئے۔جوں جوں گھڑی کی
سوئیاں پانچ کے ہندسے کی طرف بڑھ رہی تھیں اس کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا
تھا۔وہ دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ آج وہ نہ ہو جس کی وجہ سے اسے روز
آفس میں ڈانٹ پڑتی تھی اور آج اس کی نوکری بھی خطرے میں تھی۔
ٹن..ٹن...ٹن گھڑی پر پانچ بج چکے تھے ۔اسکی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار
ہونا شروع ہو گئے ،اس کے ہاتھوں میں تیزی آگئی ۔مگر وہی ہوا جس کا اسے ڈر
تھا۔یکدم کمپیوٹرا سکرین تاریک ہو گئی۔ جی ہاں بجلی جا چکی تھی ......
اسے اپنا مستقبل کمپیوٹر اسکرین کی طرح تاریک نظر آرہا تھا۔ایسا نہ تھا کہ
وہ کوئی کام چور یا کاہل تھا،بلکہ وہ تو بہت ہی محنتی اور لگن سے اپنا کام
کرنے والا تھا ،لیکن اس کے با وجود وہ اپنا کام مکمل نہیں کرپاتا۔آخر کر
بھی کیسے سکتا تھا اس کے سارے کام کا انحصار بجلی پر تھا اور بجلی ایسے
غائب ہوتی جیسے گدھے کے سر پر سے سینگ۔کئی روز سے ایسا ہی ہورہا تھا وہ
منزل کے بہت قریب ہوتا کہ بجلی غائب ہو جاتی۔
وہ سوچ رہا تھا کہ یہ صرف اس کی کہانی نہیں بلکہ ہر دوسرے تیسرے شخص کی یہی
کہانی تھی۔ہر دوسرا شخص اسی کی طرح بجلی کا ستایا ہوا ہے۔لیکن آخر اس کی
وجہ کیا ہے؟ کیا اس کے ذمہ دار ہم لوگ ہیں جو حکمرانوں کی محبت میں اندھے
ہو کر اپنا نفع نقصان بھول جاتے ہیں اور انہیں اپنا سب کچھ سونپ دیتے ہیں
اور پھر اپنی بدحالی کا ماتم کر تے ہیں۔یا وہ حکمران جوسادہ لوح عوام کو
سبز باغ دکھا کر لوٹتے ہیں۔لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا جھانسا دے کر عوام سے ووٹ
حاصل کرتے ہیں اور پھر اقتدار کے نشے میں انہیں بھول جاتے ہیں۔
آخر کون ہے اس کا ذمہ دار ؟ آخر یہ کب تک چلے گا؟......اس قسم کے بہت سے
سوال تھے جن کے جواب وہ تلاش کر رہاتھا ۔
لیکن اس کو ابھی تک امید کی ایک بھی کرن نظر نہیں آئی تھی ،ا ورنظر آتی بھی
کیسے اس کے آس پاس تو صرف اور صرف تاریکی تھی
شاید کبھی نہ ختم ہونے والی تاریکی...................۔
|