امت مسلمہ فی الحال کئی مسائل سے دوچار ہےلیکن یہ صورتحال
تو کم و بیش ہر دور میں رہی ہے اور ایسا کون ہے جو آزمائش سے نہیں گزر رہا
ہو؟ مختلف قوموں کے چیلنجس کی نوعیت میں فرق ضرور ہے لیکن کوئی اس سے مبراّ
نہیں ہے۔ آزمائشوں کے اس بحر زخار میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی
کوئی نیا مسئلہ جنم لیتا ہے مثلاً گیان واپی مسجد میں شیولنگ کے پائے جانے
کی افواہ تو فوری طور پر بہت سارے لوگوں کے ہاتھ پیر پھولنے لگتے ہیں ۔ ان
کو فوراً بابری مسجد کا فیصلہ یاد آجاتا ہے اور وہ ماضی کی اس ناکامی کو
یاد کرکے ناامید ہوجاتے ہیں ۔ یہی مایوسی دراصل ملت کو جذبۂ عمل سے محروم
کردیتی ہے اور قوم جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر یا تو ماتم کرنے میں مصروف
ہوجاتی ہے یا ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے لگتی ہےحالانکہ قرآن حکیم میں
اس طرز عمل سے منع کرتے ہوئے فرمایا گیا :’’اپنے ربّ کی رحمت سے کون ناامید
ہو مگر وہی جو گمراہ ہوئے۔‘‘ اللہ کی رحمت پر تکیہ کرکے عمل سے غافل ہوجانا
جتنا بڑا جرم ہے اس سے بڑی غلطی مایوس ہوکر بیٹھ جانا ہے اس لیے کہ کفر کے
مترادف ہے۔ فرمانِ ربانی ہے: ’’ ’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بیشک اللہ
کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ۔‘
عام طور پر اس طرح کی بات کو وعظ و نصیحت کے زمرے ڈال کر مسترد کردیا جاتا
ہے اور مثالوں کے ذریعہ مایوسی پھیلائی جاتی ہے کہ عدالت سے رجوع کرنا بے
فائدہ مشق ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عدالت کے سارے فیصلے امت کے حق میں نہیں
ہوں گے مگر یہ ضروری نہیں ہےکہ ہر فیصلہ خلاف ہی ہو لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے
کہ ہم صرف منفی باتوں کو یاد رکھ کر مثبت باتیں بھول جاتے ہیں ۔ صدیق کپن ،
عمر خالد ، مولانا کلیم صدیقی اور اعظم خان وغیرہ کے لیے ہمیں اپنی لڑائی
جاری رکھنی ہے لیکن ان حالات سے تو بھیما کورے گاوں کے مقدمہ میں گرفتار
دانشور بھی گزر رہے ہیں لیکن پامردی سے اس کا مقابلہ کیا جارہا ہے ہائے
توبہ نہیں مچائی جاتی ۔ اسی کے ساتھ کفیل خان ، آصف تنہا اور ہادیہ کی
مثالیں بھی ہیں جن کو ہم بھول جاتے ہیں۔ گیان واپی مسجد کے معاملے میں فتنے
کا آغاز مقامی عدالت کے ذریعہ سروے کے حکم سے ہوا۔ مسلم فریق نے بجا طور
پر اس کی مخالفت کی لیکن جب نچلی عدالت نے اسے مسترد کردیا ۔
اس فیصلے بد دل ہو کر بیٹھ جانے کے بجائے انجمن نے ایک قدم آگے بڑھاتے
ہوئے وارانسی کورٹ کے ذریعہ مقرر کردہ چیف ایڈووکیٹ کمشنر اجے مشرا پر
اعتراض کیا ۔ عدالت نے وہ بات بھی نہیں مانی مگر اجے کے ساتھ ٹیم میں
اسپیشل کمشنر وشال سنگھ اور اجے پرتاپ سنگھ کا اضافہ کردیا۔ نچلی عدالت نے
دوسری شرارت یہ کی کہ اس سروے کمیشن کی رپورٹ سے قبل حوض کے حصے کو سیل
کرنے میں بھی بیجا جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نمازیوں کی تعداد میں تحدید
کا فرمان جاری کردیا ۔ یہ معاملہ جب سپریم کورٹ میں پہنچا تو اس نے نچلی
عدالت کے سیل کرنے والے حکم کی تو ثیق کی مگر نمازیوں کی تحدید کو مسترد
کردیا۔ اس طرح مصنوعی توازن پیدا کرنے کی کوشش کی یعنی ایک معاملے میں فریق
مخالف کو فتح تو دوسرے میں شکست سے دوچار کردیا۔ اس دوران ذرائع ابلاغ نے
کمال بدمعاشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوارے کو شیولنگ ثابت کرنے کے لیے آسمان
زمین کے قلابے ملا دئیے۔ عوام کے اندر پائی جانے والی اندھی عقیدت کے سبب
اسے اپنے مقصد کامیابی بھی مل گئی۔
میڈیا کے اندر آئین کی دفع 1991 کا ذکر بہت ہوتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ
عدالت کو اس بنیاد پر یہ مقدمہ لینا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اس بابت سپریم کورٹ
نے واضح کیا کہ یہ ملکیت کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ عبادت کے حق کا معاملہ ہے۔
اس جواب سے واضح ہے کہ ہندو فریق مسجد کی ملکیت کادعویدار نہیں ہوسکتا الاّ
یہ کہ آئین میں کوئی ترمیم کردی جائے۔ اس دوران یہ چمتکار ہوگیا کہ
وارانسی کی جو نچلی عدالت دو دن پہلے تک اجے مشرا کے تقرر پر مصر تھی
بالآخر اسے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ ابتدا میں ہی اگر وہ مسلم فریق سے اتفاق
کرکے مشرا جی کو ہٹا دیتی تو اس رسوائی سے بچ سکتی تھی۔ عدالت کو اس ذلت کا
شکار خود اجے مشرا کی نازیبا حرکات نے کیا۔ اس نامعقول انسان نے سروے کے
دوران ایک پرائیویٹ ویڈیو گرافر کی خدمات حاصل کرکے خلافِ قانون اپنی خفیہ
تفتیش میڈیا تک پہنچا دی ۔ یہ سراسر عدالت کی توہین تھی اور اس کا صرف
برطرف کیا جانا کافی نہیں بلکہ اسے سزا دی جانی چاہیے تھی۔ اس کے باوجود
اجے مشرا کی ذلت آمیز برطرفی ایک ملی کامیابی ہے اس پر خدا کا شکر ادا
کرنا چاہیے ۔ یہ ایک جزوی کامیابی ہے لیکن مکمل کامیابی کی راہ میں ملت کو
جدوجہد کے ہر موڑ پر اللہ کا شکر اداکرتے ہو ے آگے بڑھنا چاہیے ۔
مشیت الٰہی کا یہ انتظام بھی دلچسپ ہے کہ اجے مشرا اور اجے پرتاپ سنگھ کے
خلاف اسپیشل کمشنر وشال سنگھ نے عدالت میں تحریری شکایت درج کرائی۔ اس میں
دونوں کورٹ کمشنروں کے عدم تعاون کی دہائی دی گئی۔وشال سنگھ نے الزام لگایا
کہ اجے مشرا اپنے ساتھ نجی فوٹو گرافر کو بھی مسجد میں لے گئے۔ اس فوٹو
گرافر نے جانکاریاں میڈیا میں لیک کردیں اس وجہ سے مشرا پر کارروائی کی گئی
۔ اس فیصلے سے دو دن قبل ٹیلی ویژن پر جیت کا نشان دکھانے والا مسکراتا
چہرا ایک دم مرجھا گیا۔ اجے مشرا نے کیمرے کے سامنے روتے ہوئےاپنی صفائی
میں کہا کہ پورے سروے کے دوران اس نے وشال سنگھ کے ساتھ تعاون کیا کیونکہ
وہ انہیں اپنا بڑا بھائی مانتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ آتما جانتی ہے کہ اس
نے کچھ بھی غلط نہیں کیا لیکن دنیا اس کی بدمعاشی سے واقف ہوچکی تھی اور
عدالت نے بھی توثیق کردی تھی۔ اسے افسوس ہے وشال سنگھ نے اس سے اس بابت کچھ
نہیں کہا حالانکہ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اب اس بزدل کا کہنا ہے کہ وہ
خاموشی سے عدالت کا فیصلہ مانے گا لیکن اس کے پاس دوسرا چارۂ کار ہی کیا
ہے؟
گیان واپی مسجد سروے رپورٹ کےپیش ہونے سے پہلے عدالت کی پھٹکار نے ہندو
فریق میں پھوٹ ڈال دی ۔ مدعیان کی حمایت کرنے والے وشوا ویدک سناتن سنگھ کے
سربراہ جتیندر سنگھ بیسن نے اعلان کردیا کہ یہ سارا معاملہ الجھ گیا
ہے۔انہوں نے سنگین الزام لگاتے ہوئےکہا کہ ایک تیسرا فریق گیان واپی کیس کو
گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس الزام کی تردید میں مدعی فریق کی خواتین
نے جتیندر سنگھ بیسن کو جھوٹا قرار دے دیا حالانکہ وہ مدعی راکھی سنگھ کے
رشتہ دار ہیں ۔ جتیندر سنگھ بیسن نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ مدعیان کو
سیاسی مقاصد مل گئے ہیں۔ ان کے مطابق اس مقدمہ کا آغاز میں ان کے ساتھ صرف
ایڈوکیٹ ہری شنکر جین ہی تھے لیکن اب نہ جانے اتنےسارےچہرے کہاں سے سامنے
آگئے؟ انہوں نے نام لیے بغیر مبینہ ہندوتوا کاپی رائٹ ہولڈر کہہ کر سنگھ
پریوار پر معاملے کو پیچیدہ بنانے کا الزام دھر دیا۔بیسن نے تیسرے فریق پر
ان کے اور ایڈوکیٹ ہری شنکر جین کے درمیان تفریق ڈالنے کی کوشش کر نے کا
الزام لگا دیا ۔
جتیندر سنگھ بیسن ہمت نہیں ہارنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس
میں مدعی اور وکیل کا فیصلہ وہ کریں گے۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے اعتراف
کیا کہ گیان واپی معاملے میں ہندو فریق بکھر گیا ہے۔ ان کے مطابق بدقسمتی
سےگیان واپی معاملے میں بہت سے لوگ فریق بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔بیسن کا
اشارہ کس کی جانب ہے یہ جاننے کے لیے کسی کا ماہر سیاسیات ہونا ضروری ہے۔
ان اصحاب اقتدار کو اپنی ناکامیاں چھپانے کی خاطر اس طرح کے مسائل کی تلاش
رہتی ہے اور جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ اس کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں
دیتے بلکہ حسبِ ضرورت ان کی تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر بیسن نے
مدعیان کو گمراہ کرنے کا سنگین الزام لگایا ہے۔ان کے مطابق یہ معاملہ اس
قدر بگڑ گیا ہے کہ وہ (مدعیان) کٹھ پتلی بن چکے ہیں اس لیے سمجھ میں نہیں
آ رہا ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں؟ کیونکہ پورا معاملہ تنازعات میں گھرچکا
ہےاور ایک عام سے معاملہ کو بین الاقوامی مسئلہ بنادیا گیا ۔
جیتندر سنگھ بیسن نے وہ تمام باتیں کہہ دیں جو کوئی بھی معقول آدمی کہہ
سکتا ہے مثلاً سروے کمیشن کی ٹیم سکون سے رپورٹ داخل کردیتی تو ٹھیک ہوتا
کیونکہ اسے تو صرف اپنے مشاہدات بتانے تھے ۔ اس کے لیے دو دن کا اضافی وقت
طلب کرنا نہ صرف شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ آخر وہ کیا چھپانا چاہتے
ہیں یا کس کی ہدایت کے مطابق اپنے بیان کو ڈھالنا چاہتے ہیں؟ یہ سوالات
معاملہ کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں ۔ اس دوران ہونے والے میڈیا ٹرائل پر
بھی بیسن کو اعتراض ہے اور اس کا عالمی سطح پر پھیل جانا ان کی سمجھ سے
بالاتر ہے لیکن چونکہ اس کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھوں میں جاچکی ہے اس لیے
وہ بے بس ہوگئے ہیں۔ دشمن کے خیمے میں پھوٹ ملت کے لیے ایک خوش آئند علامت
ہے۔یہ جزوی کامیابی بھی حاصل نہیں ہوتی اگر مسلمان مایوس ہوکر بیٹھ جاتے۔
لفظ ابلیس کا لغوی مطلب ہے ’’مایوس‘‘۔اس کا مقصد انسان کو مایوس کرنا ہے۔
وہ مستقبل کی امید ، حال کی فکر اور آخرت کی جزا کے ساتھ ابن آدم کو
مایوس کردیتا ہے اور اس پرجب ناصر کاظمی کا یہ شعر صادق آتاہے تو وہ دنیا
میں کچھ نہیں کرسکتا؎
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
ؔ اداسی بال کھولے سو رہی ہے
|