#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفتح ، اٰیت 24 تا 26
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ھو الذی
کف ایدیہم
عنکم و ایدیکم
عنھم ببطن مکة من
بعد ان اظفرکم علیھم
و کان اللہ بما تعملون بصیرا
24 ھم الذین کفروا و صدوکم
عن المسجد الحرام والھدی معکوفا
ان یبلغ محلهٗ ولو لا رجال مؤمنون و
نساء مؤمنٰت لم تعلموھم ان تطؤھم
فتصیبکم منھم معرة بغیر علم لیدخل
اللہ فی رحمتهٖ من یشاء لو تزیلوا لعذبنا
الذین کفروا منھم عذابا الیما 25 اذ جعل
الذین کفروا فی قلوبھم الحمیة حمیة جاہلیة
فانزل اللہ سکینتهٗ علٰی رسولهٖ و علی المؤمنین
و الزمھم کلمة التقوٰی و کانوا احق بھا و اھلھا و
کان اللہ بکل شئی علیما 26
اے اللہ کے رسُول ! ہم نے اپنے جس قدیم قانُونِ اَمن کا آپ کے سامنے ذکر
کیا ہے ہم نے اپنے اُسی قانُونِ اَمن کے تحت فتحِ مکہ کے بعد اہلِ مکہ کے
ہاتھ سے آپ کو اور آپ کے ہاتھ سے اہلِ مکہ کو اِسی بنا پر امن دیا ہے کہ وہ
ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اُن کے اور آپ کے حالِ جان و اعمالِ جان سے آگاہ ہے
، یہ آپ کے اور آپ کی جماعت کے وہی دشمن ہیں جنہوں نے ماضی میں آپ کی ذات
اور آپ کی جماعت پر حُرمت والی اِس زمین پر قائم حُرمت والی اِس مسجد کی
طرف آنے والے راستے بند کردیۓ تھے اور فتحِ مکہ کے دن بھی وہ ہمارے اِس
مُعلّمِ ہدایت کو اِس مرکزِ ہدایت سے روکنے کے لیۓ ایک دُوسرے کے شانے سے
شانہ ملا کر کھڑے تھے ، اگر فتحِ مکہ کے دن مکے میں ہمارے وہ ایمان دار
اَفرادِ مرد و زن موجُود نہ ہوتے اور اُن کی بیخبری میں اُن کی جان جانے کا
خدشہ نہ ہوتا تو ہم آپ کو اہلِ مکہ کے ساتھ جنگ کی اجازت دے کر اہلِ مکہ کو
آپ کے ہاتھوں سے ضرور سزا دلاتے کیونکہ اُس وقت بھی اُن کے دل اللہ کے علمِ
جامعیت کے خلاف اپنے عملِ جاہلیت سے پُوری طرح بھرے ہوۓ تھے اِس لیۓ ہم نے
آپ کی ذات اور آپ کی جماعت پر اپنی رحمت و سکُون کی چادر ڈال کر اہلِ مکہ
کے فتنہ و شر سے بچالیا تاکہ اُن کو اِس اَمر کا کامل یقین ہو جاۓ کہ اللہ
وقت کے ہر ایک لَمحے میں اپنے عالَم کی ہر ایک شئی پر پُوری پُوری قُوت و
قُدرت رکھتا پے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ خالقِ عالَم نے جس
وقت اپنے اِس عالَم کو بنایا تو اُس وقت اِس عالَم کی اِس زمین کے اِس شہرِ
مکہ کو اِس زمین کا مرکزِ دل بنایا اور ایک مناسب وقت پر اِس مرکزِ دل میں
محمد علیہ السلام کو اپنی ذات اور اپنے قانُونِ ذات کے تعارف کے لیۓ مامُور
فرمایا لیکن جب محمد علیہ السلام نے اِس مرکزِ دل کے اہلِ مرکز کو خالقِ
عالَم کی ذات و قانُونِ ذات سے مُتعارف کرایا تو اِس مرکز کے طاقت ور لوگوں
نے آپ کو اِس مرکز سے نکل جانے پر مجبور کر دیا اور آپ اَمن کے اِس شہر کا
اَمن قائم رکھنے کے لیۓ اِس شہر سے خاموشی کے ساتھ ہجرت کرکے مدینے تشریف
لے گۓ اور آج جب آپ مدینے سے آکر اپنے فاتح لشکر کے ایک فاتح سالار کی
حیثیت سے مکے میں داخل ہوۓ ہیں تو آپ آج بھی اُسی اَمن و سکون کے ساتھ داخل
ہوۓ ہیں جس اَمن و سکون کے ساتھ یہاں سے نکلے تھے لیکن انسان پر چونکہ آپ
کے اِس اَمن کی عملی اطاعت بھی لازم تھی اِس لیۓ ہر اطاعت گزار انسان کے
خیال میں گاہے بگاہے یہ سوال آتا تھا کہ اگر وہ آپ کی اطاعت کرتے ہوۓ آپ
جیسے اِس بے مثال و لا زوال صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہے تو وہ کس
طرح کر سکتا ہے ، اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں انسان کے اِس فطری سوال کا
یہ فطری جواب دیا گیا ہے کہ اِس صابر انسان اور اِس کے اُن جابر دشمنوں کے
درمیان ہمیشہ سے یہ فرق موجُود رہا ہے کہ اِس صابر انسان کا عملی رہنما وہ
علمِ وحی تھا جس علمِ وحی پر اِس نے خود بھی عمل کیا ہے اور اِس کے اَصحاب
و اَحباب نے بھی عمل کیا ہے اور وہ وحی کے اُسی علم و عمل کی بنا پر اپنی
عملی حیات میں کم زور سے طاقت ور بنتے رہے ہیں بخلاف اِس کے کہ اِس کے دشمن
جو اِس کے اِس علم سے انکار کرتے رہے ہیں وہ اپنے انکارِ جہالت کی بنا پر
اِس کے مقابلے میں ہمیشہ ہی کم زور سے کم زور تر ہوتے رہے ہیں یہاں تک کہ
آج جب یہ انسان مکے کا فاتح بن کر مکے میں داخل ہوا ہے تو خالق نے اِس کے
دشمنوں کو اِس کے خلاف ہاتھ اور ہتھیار اُٹھانے سے روک دیا ہے اور اِس کو
بھی اپنے اِن دشمنوں کے خلاف ہاتھ اور ہتھیار اُٹھانے سے روک دیا ہے ، یعنی
فتحِ مکہ کے دن اللہ تعالٰی کا براہِ راست کیا گیا یہی وہ پہلا اور کُھلا
عمل ظاہر ہوا تھا جس عمل نے اہلِ مکہ کو یہ ماننے پر مجبور کردیا تھا کہ
اُن کے عقیدے کے خلاف اور محمد علیہ السلام کے اعتقاد کے مطابق یقیناً اللہ
ہی وہ مُختارِ کُل ہستی ہے جس ہستی نے اپنے اختیار سے محمد علیہ السلام کو
ہمارے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیا ہے اور ہمیں بھی اُن کے مقابلے کے
لیۓ ہمارے میں مزاحمتی عمل میں ہمیں اتنا بے بس بنا دیا ہے کہ ہم اُن کے
خلاف مزاحمت کی ہر کوشش سے محروم ہو چکے ہیں اور اُن کے اُس مجبور لَمحے
میں اللہ کا براہِ راست کیا گیا یہی وہ بھر پور عمل تھا جس نے اہلِ مکہ کے
دل کی دُنیا بدل دی تھی اِس لیۓ قُرآن کے اِس بیان کی رُو سے اہلِ روایت کی
وہ تمام روایات باطل ہیں کہ آج جو آدمی فلاں آدمی کے گھر میں داخل ہو جاۓ
تو اُس کی جاں بخشی کر دی جاۓ اور فلاں فلاں دشمن اگر کعبے کے غلاف سے بھی
لپٹا ہوا نظر آۓ تو اُس کو ہلاک کر دیا جاۓ ، قُرآن کی بیان کی ہوئی صبر و
اطاعت کی یہی وہ لازوال مثال تھی جو اُس روز انسان کو یہ سمجھانے کے لیۓ
پیش کی گئی تھی کہ صبر و استقامت کا مرکز و مَخرج صرف علمِ وحی ہے جس پر
مُسلسل کیا گیا عمل انسان کو ویسا ہی صبر و استقامت کا علَم بر دار بنا
دیتا ہے جیسا اُس نے اَصحابِ محمد علیہ السلام کو صبر و استقامت کا علَم بر
دار بنا دیا ہے اور اِس بیان میں توحید کا پیغام بھی شامل ہے کہ طاقت کا
مرکز بذات خود اہلِ حق نہیں ہوتے بلکہ طاقت کا مرکز صرف وہ مُجرد حق ہوتا
ہے جس حق کے فیصلے کبھی اِس طرح سامنے آتے ہیں کہ وہ صاحبِ حق چاہتا ہے تو
ہاتھ بنانے اور ہتھیار چلانے والوں کو ہتھیار بنانے اور ہتھیار چلانے کی
توفیق دے دیتا ہے اور کبھی وہ چاہتا ہے تو دونوں کو دونوں کاموں سے اسی طرح
روک دیتا ہے جس طرح فتحِ مکہ کے دن اُس نے فاتح و مفتوح دونوں ہی کو ایک
دُوسرے کے خلاف ہتھیار استعمال میں لانے سے روک دیا تھا ، اِس سلسلہِ کلام
کی پہلی اٰیت کے بعد دُوسری اٰیت میں بھی پہلی اٰیت میں اُسی واقعے کی حکمت
بیان کی گئی ہے جو پہلی اٰیت میں بیان ہوا ہے اور تیسری اٰیت میں یہ اَمر
واضح کیا گیا ہے حق کی عمارت ہمیشہ ہی علمِ وحی کی بُنیاد پر قائم ہوتی ہے
اور باطل کی بساط ہمیشہ ہی جہالت کی اُس شیطانی حمیت پر رکھی جاتی ہے جس کو
اہلِ جہالت کبھی اپنی قومی اور کبھی اپنی شخصی غیرت قرار دے کر خود کو فریب
دیتے رہتے ہیں تاہم زمین میں اہلِ زمین کے یہ سارے مُثبت و مَنفی علمی و
عملی سلسلے اللہ کے ایک وسیع البنیاد منصوبے کے تحت چلتے رہتے ہیں جن میں
سے بعںض مَنفی سلسلوں کی اللہ تعالٰی بعض حالات میں پردہ پوشی بھی کرتا
رہتا ہے اور بعض حالات میں بعض مَنفی سلسلوں کے مَنفی نتائج پر انسان کی
زجر و توبیخ بھی ہوتی رہتی ہے !!
|