جمعہ نامہ :ایمان و عمل اور نصرت و مغفرت کا امتزاج

ارشادِ ربانی ہے: ’’رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے ‘‘۔آگے ایمانیات کی تفصیل یوں بیان کی گئی :’’یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں‘‘۔رسولوں کی بابت یہ اصولی رہنمائی فرمائی گئی کہ : ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے‘‘ یعنی سب کا احترام کرتے ہیں۔ آخرت کی بابت فرمایا :’’ اور ان کا قول یہ ہے کہ،ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔ایمانیات کے باب میں یہاں توحید، رسالت و آخرت کے ساتھ فرشتوں اور کتابوں کا بھی ذکر ہے۔ تقدیر کا اشارہ اگلی آیت میں ہے۔ دیگر مقام پر ارشادِ قرآنی ہے :’’ ۰۰ الله جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے یہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے۰۰‘‘۔

ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود عمل کے اعتبارسے مسلمانوں بہت فرق نظر آتا ہے۔ کوئی زیادہ باعمل دکھائی دیتا ہے اور کوئی کم سرگرم ہوتا ہے۔ کسی مخصوص شعبے میں ایک فرد بہت پیش پیش ہوتا اور دوسرا کوئی اور کام بڑھ چڑھ کرکرتا ہے۔ اس کی وجہ مختلف لوگوں کے مزاج و صلاحیت کا فرق ہے لیکن اس کے سبب اہل ایمان کے اندر احساسِ جرم پیدا ہوسکتا ہے اور وہ دوسروں سے بدظن بھی ہوسکتے ہیں۔ ا س کیفیت سے نکلنے کے لیے یہ مژدہ سنایا گیا ہے کہ ’’اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ‘‘۔ ہر انسان کا محاسبہ اس کو عطا کردہ مواقع ، صلاحیت و وسائل کی بنیاد پر ہوگا اور پھر یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ :’’ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے‘‘۔ یعنی ہر کوئی اپنی ذات کی حدتک عنداللہ مسئول ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

اس آیت کا مطلب مجھے اپنے کمپیوٹر کی کارکردگی نے سمجھایا ۔ میرا کمپیوٹر ایم ایس 10 پر چلتا تھا ۔ اس کو بہتر بنانے کے لیے میں نے اپنی کمپنی کے آئی ٹی افسر سے رجوع کیا تو انہوں نے نیا اور بہترین 365 ورژن میرے کمپیوٹر میں ڈال دیا ۔ اس کے کئی فیچرس پہلے سے بہتر تھے لیکن کمپیوٹر بار بار ہینگ ہونے لگا یعنی کام کرنابند کردیتا تھا اور بہت دیر کے بعد ازخود چلنے لگتا تھا۔ اس سے کام میں رخنہ پڑتا اور میں شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ۔ اس مسئلہ کے حل کی خاطر ایک ماہر سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ تمہارا کمپیوٹر اس نئے سافٹ وئیر کا متحمل نہیں ہے ۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اسے نکال کر پھر سے پرانے یعنی کم درجہ کے سافٹ ویئر کو ڈال دیا جائے تاکہ کام کمتر سہی مگر جاری رہ سکے ۔ مجبوراً مجھے اس پر راضی ہونا پڑا اور اپنے کمپیوٹر کے سافٹ ویئر کو ڈاون گریڈ کرنے کی اجرت بھی ادا کرنی پڑی۔ اب درمیان میں اس کے رکنے کا سلسلہ بند ہوگیا اور میرا کام جیسے تیسے چلنے لگا ۔ اس تجربہ نے مجھے آگاہ کیا کہ کمتر ہارڈ ویئر اعلیٰ درجہ کے سافٹ وئیر کو استعمال نہیں کرپاتا اس کےلیے دونوں کے ہم پلہّ ہونا لازمی ہے۔

انسان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے اس لیے ربِ حکیم نے اس کی ساخت کے مطابق اعمال کا اسے مکلف کیا ہے ۔ وہ اپنے حدود و قیود کے مطابق ذمہ داری کماحقہُ ادا کرپاتا ہے لیکن جب اس کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا ہے تو خود اپنے آپ ساتھ دوسروں کو بھی مشکلات میں مبتلا کردیتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں بہت ساری ایسی ذمہ داریاں انسانوں کے سر ڈال دی جاتی ہیں جن کا وہ مکلف نہیں ہوتا لیکن مجبوراً ادائیگی کرنی پڑتی ہے ۔ ایسے میں انہیں تلقین کی گئی ہے کہ :’’ (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر ، مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر‘‘۔ یہ قرآنی دعا اہل ایمان کو دنیا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی نصرت اور آخرت میں مغفرت کا مستحق بناتی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451203 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.