آ ،آ،اب بو! گر،گر، میوں کی کی چھو ،چھوٹ،چھٹیاں بی بی
بیس تا تاتاریخ کک کومم مل ملیں گی، پریپ کلاس میں زیرتعلیم ننھی جویریا
گھر میں داخل ہوئی اوروالد کو دیکھ کر توتلی زبان میں اعلان کردیا۔
ٹی ٹی ٹیچ چرفی فی فیس مامانگ را رہی تھت تھیں،جویریا مزید بولی اورایک
پرچہ والد کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
والد صاحب نے پرچاکھولا۔جس میں انھیں بچی کی جون جولائی کی فیس فوری ادا
کرنے کی تاکید کی گئی اورساتھ ہی موسم گرما کی تعطیل کے لیے ہوم ورک کی
چارجز بھی اداکرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
سندھ میں سرکاری اسکولوں میں موسم گرما کی تعطیلات عموماً یکم جون سے31اگست
تک ہوتی ہیں تاہم نجی تعلیمی ادارے بچوں سے جون جولائی کی فیس یک مشت وصولی
تک تعطیلات کااعلان نہیں کرتے ہیں۔حکومت اعلان کرے یا انتباہ جاری کرے،سورج
آگ اگلے یا بچے پسینے میں نہائے۔نجی اسکولوں کی انتظامیہ کو اس سے کوئی
غرض نہیں ہوتی ،ہاں غرض ہے تو صرف فیس سے۔
لیکن ٹھہریں،جذباتی نہ ہوں۔آگے بڑھنے سے پہلے کچھ حقائق کاادراک کیاجانا
ضروری ہے۔
پہلی بات:
نجی تعلیمی اداروں میں سے بیشتر بلکہ 99.99فیصد کابنیادی مقصد ہی تجارت
ہوتاہے۔یہاں ہرمعاملہ تجارتی اصولوں پر ہوتا ہے۔یہاں زیرتعلیم ہربچہ اوربچی
کو ایک گاہک کے طور پر دیکھاجاتاہے۔گاہک اگر پورے پیسے نہیں دے گاتوسرمایہ
کار کیا کرے گا؟اساتذہ کرام کی تنخواہیں ،بلڈنگ کاکرایہ اور دیگراخراجات
کیسے پورے کیے جائیں گے؟
دوسری بات:
بیشترتعلیمی ادارے اگرچہ تجارتی اصولوں پر کام کرتے ہیں تاہم یہ بات ذہن
نشین کرلینی چاہئے کہ ہرتاجر بے ایمان نہیں ہوتا۔نہ ہی ہر تاجر ایماندار
ہوتاہے۔
تیسری بات:
تعلیم بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم تمام ترحکومتی دعوئوں کے
باوجود سرکاری اسکول آبادی کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس لیے نجی
تعلیمی اداروں کاوجود قوم کے نونہالوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
نجی تعلیمی اداروں کاشعبہ تعلیم میں اہمیت اورمقام مسلمہ ہے۔ تاہم بعض
معاملات خصوصاً موسم گرما کی تعطیلات پر نجی تعلیمی ادارے اور حکومت ایک
پیج پر نہیں ہوتے ۔شدید گرمی میں بھی نجی تعلیمی اداروں کے بچے اسکول جارہے
ہوتے ۔بیشتر لوگ سال میں ایک آدھ بار بیرون شہر جاتے ہیں تاہم وہ بچوں کی
بروقت تعطیلات نہ ہونے کی وجہ سے دہری پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جائیں
،یا نہ جائیں۔ اور بچے تو صرف سفر کے نام پر ہی خو ش ہوتے ہیں ۔
ہماری نظر میں تو نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے بروقت چھٹیوں کااعلان نہ
کرنے کاتعلق صرف فیس وصولی سے ہے تاہم ان کااستدلال ہے کہ چھٹیاں کم دینے
کامقصد سلیبس ( نصاب ) کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن یہ دلیل
زیادہ وزنی نہیں ،کیونکہ موثر منصوبہ بندی سے نصاب کی تکمیل کامعاملہ حل
کیاجاسکتاہے ۔جہاں تک تعلق فیس وصولی سے ہے تو وہ بھی یک مشت لینا درست
نہیں ،کیونکہ نہ بچے کہیں جاتے ہیں اور نہ والدین ۔ہرماہ کی مقررہ تاریخ پر
فیس وصول کی جاسکتی ہے۔یہ کوئی مشکل کام نہیں۔
چھٹیوں کے کام کے نام پر بھی بچوں سے رقم لینا درست عمل نہیں۔ اگرچہ ہوم
ورک کی تیاری میں اساتذہ کرام وقت لگاتے ہیں لیکن اس کے بعد تووہ تقریباً
ڈیڑھ دوماہ آرام کررہے ہوتے ہیں ،جب کہ بعض تعلیمی اداروں میں تویہ ہوم
ورک ایک ہی بار تیار ہوتاہے اورہرسال صرف پرنٹ ہوتاہے۔ہاں ،اس پر پرنٹنگ کے
تھوڑے بہت خرچہ توہوتاہے تاہم اس معمولی رقم کے بدلے میں والدین سے بھاری
فیس لینا ظلم ہے ،بلکہ انتہائی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اس کو بھتہ گیری
کہاجائے توبے جا نہ ہوگاکیونکہ والدین کے پاس یہ رقم دینے کے سواکوئی چارہ
نہیں ہوتا۔
عرض ہے کہ گرمی بہت ہے،نجی تعلیم ادارے بروقت تعطیلات کااعلان کریں۔بچوں سے
سمر ہوم ورک کی مد میں ظالمانہ چارجز وصول نہ کریں۔دو،دو ،یا تین تین ماہ
کی فیس لینے سے گریز کریں۔شاگردوں کو اپنی اولاد سمجھیں ،ان کے والدین کی
مجبوریوں کاادراک کریں۔
|