#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفتح ، اٰیت 27 فتحِ مکہ
کا خواب اور خواب مکہ کی حقیقت !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
لقد
صدق اللہ
رسله الرؤیا
بالحق لتدخلن
المسجد الحرام
انشاء اللہ اٰمنین
محلقین رءوسکم و
مقصرین لاتخافون
فعلم مالم تعلموا فجعل
من دون ذٰلک فتحا قریبا 27
اے اَمن چاہنے اور اَمان پانے والے انسانو ! تُمہارے اہلِ تحقیق کی ہر
تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ اللہ کے رسُول نے فتحِ مکہ کا جو
خواب دیکھا ہے اللہ نے اُس خواب کو ایک جیتی جاگتی حقیقت بنادیا ہے اور
فتحِ مکہ کا وہ دن قریب آگیا ہے جب تُم اللہ کی مشیت اور حق کی معیت کے
ساتھ سر نگونی کے اُس مقام پر پُہنچا دیۓ جاؤ گے جس مقام پر تُم پُورے اَمن
و اطمینان کے ساتھ اللہ کے اَحکام کے سامنے سرنگوں ہو سکو گے اور اَمن و
اطمینان کے اُس مقام پر تُم بلا خوف و خطر اپنے بڑے اہلِ علم و تحیق کے بڑے
حلقے میں جا سکو گے اور اپنے چھوٹے علم و تحقیق کے چھوٹے حلقے بھی بنا سکو
گے ، تُم مُستقبل کے بارے میں وہ حقائق نہیں جانتے ہو جو حقائق اللہ جانتا
ہے اور مُستقبل کے اُن حقائق میں سب سے بڑی حقیقت شہرِ مکہ کی وہ فتح ہے جو
بہت جلد تُم کو ملنے والی ہے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
عربی کا رُؤیا ، فارسی کا خواب اور ہندی کا سَپنا انسانی رُوح کی لَوحِ
نفسانی پر نظر میں آنے ہوالا وہ مُحیر العقول خیالی منظر ہوتا ہے جو خیالی
منظر زیادہ تر تو ایک بصری عمل کی صورت میں نیند کے دوران انسانی خیال میں
آتا ہے لیکن کبھی کبھی جب انسانی رُوح و نفس میں کسی عمل میں لاۓ جانے والے
خیال کی شدت ہوتی ہے تو اُس وقت اُس شدت کے تحت رُوح و نفس کا یہ خوابی
خیال عالَمِ بیداری میں بھی مُتشکل ہو کر انسان کے سامنے آجاتا ہے ، انسانی
رُوح کی نفسانی لَوح پر ظاہر ہونے والا یہ خواب و خیال کبھی کبھی تو انسان
کو خلیفہ مامون الرشید کے اُس خواب کی طرح یاد رہتا ہے جس خواب میں اُس نے
ایک تختِ شاہی پر مُتمکن ہونے والے ایک انسان کو دیکھ کر پُوچھا تھا کہ آپ
کون ہیں اور اُس نے بتایا تھا کہ مَیں ارسطو ہوں اور مامون نے جب اُس سے
اپنے لیۓ نصحیت چاہی تھی تو اُس نے کہا تھا کہ مَیں تُجھے خالق کی وحدانیت
کے خیال اور اُس کی مخلوق کی صلاحیت کے استقبال کی نصیحت کرتا ہوں اور کبھی
کبھی انسان اپنے اِس خواب و خیال کو بخت نصر کے اُس خواب کی طرح بُھول بھی
جاتا ہے جس بُھولے ہوۓ خواب کی بخت نصر نے اپنے دانشوروں سے تعبیر چاہی تھی
اور تعبیر نہ ملنے پر اُس نے اُن سب کے قتل کا حُکم دے دیا تھا جس کے بعد
دانیال نبی نے اُس کے سامنے ظاہر ہو کر اُس کو بتایا تھا کہ اللہ تعالٰی
خوابوں میں مُستقبل کے راز ظاہر کرتا ہے اور تُمہارے خواب میں بھی تُم پر
اُس نے یہ راز ظاہر کیا ہے کہ تُمہارے مُستقبل میں تُمہارے ساتھ کیا کُچھ
ہونے والا ہے ، اِن انسانی خوابوں کی حقیقت کُچھ بھی رہی ہو اِن کے بارے
میں پہلی قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اِن خوابوں کو بُھولنے اور یاد رکھنے کی
یہ دونوں اَمثال بذاتِ خود بھی خواب میں خواب کی ملنے والی تعبیر کی وہ
اَمثال ہیں جن اَمثال کا حقیقی دُنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اِن خاص دو
خوابوں کے بعد عام انسانی خواب بارے میں دُوسری قابلِ فکر بات یہ ہے کہ
انسان کا چاہے کوئی سوتا ہوا خواب ہو یا اُس کا کوئی جاگتا ہوا خواب ہو ،
اُس کا ہر ایک خواب ایک قابلِ فہم تعبیر کا مُحتاج ہوتا ہے ، چاہے وہ تعبیر
حقیقت سے کتنی قریب یا کتنی دُور ہو لیکن جب تک وہ تعبیر سامنے نہیں آتی دل
کی بے چینی دل سے باہر نہیں جاتی ، انسان نے انسانی خواب پر جو علمی و عقلی
گفت گو کی ہے اور اُس علمی و عقلی گفت گو میں سکمنڈ فرائڈ نے اَقسامِ خواب
کے بارے میں جو علمی اظہارِ خیال کیا ہے اُس علمی اظہارِ خیال کے مطابق
انسان کا پہلا خواب ایک تمنائی خواب wish dreem ہوتا ہے جو انسانی نفس میں
دبی ہوئی کسی آرزُو کا نتیجہ ہوتا ہے ، دُوسرا خواب وہ فکری خواب Anxiety
dreem جو کسی مُسلسل فکر و عمل کے ظہور کی ایک خوابی صورت میں ظاہر ہوتا ہے
اور تیسرا خواب ایک ایسا تعزیری خواب punishment dreem ہوتا ہے جس تعزیری
خواب میں انسان کے کسی عمل پر انسان کو ایک تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے جس کا
مطلب یہ ہے کہ خواب یا تو انسان کی کسی خواہش و آرزُو کے باعث وجُود میں
آتا ہے یا اُس کے کسی فکر و خیال کی وجہ سے وجُود پاتا ہے اور یا انسان کے
کسی مَنفی عمل کی ایک مَنفی سزا کا مظہر بن کر اُس کی لَوحِ خیال پر ایک
خواب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ، قُرآنُ کریم نے خواب و تعبیرِ خواب اور
علمِ تعبیرِ خواب کے حوالے سے جو تین مثالی خواب بیان کیۓ ہیں اُن میں سے
پہلا خواب یُوسف علیہ السلام کا وہ خواب ہے جو سُورَہِ یُوسف کی اٰیت 4 سے
لے کر اٰیت 55 تک پھیلا ہوا ہے اور اِن 52 اٰیات میں پہلے ایک نبی کا خواب
اور ایک نبی کی تعبیر بیان کی گئی ہے ، اُس کے بعد پہلے تو ایک نبی کو علمِ
وحی کے ذریعے علمِ تعبیر سکھایا گیا ہے اور بعد ازاں ایک بادشاہ کو ایک
خواب دکھایا گیا ہے اور سب سے آخر میں اُس بادشاہ کو اُس نبی کی بتائی گئی
وہ تعبیر سنائی ہے جو تعبیر ایک عملی حقیقت بن کر اُس کے سامنے آئی ہے ،
اِس اعتبار سے قُرآن کی یہ قُرآنی سُورت انسانی تاریخ کی وہ مُنفرد سُورت
ہے جس میں انسانی تاریخ کے ایک مُکمل و مربُوط خوابی و غیر خوابی واقعے کی
وہ مُکمل رُو داد بیان کی گئی ہے جس کو قُرآن نے احسن القصص کے ایک عظیم
الشان عنوان کے ساتھ بیان کیا ہے ، قُرآنِ کریم کا بیان کیا ہوا دُوسرا
خواب ابراہیم علیہ السلام کا وہ خواب ہے جو سُورَةُالصٰفٰت کی اٰیت 83 سے
لے کر اِس سُورت کی اٰیت 113 تک ایک وسیع المفہوم مضمون کے طور پر بیان ہوا
ہے اور ہم نے اِن دونوں مقامات پر اِن دونوں انبیاۓ کرام کے اِن دونوں
خوابوں کا مُکمل مالهٗ وما علیہ بیان کر دیا ہے لیکن جہاں تک قُرآن میں
بیان ہونے والے اِس تیسرے خواب کا تعلق ہے جو سیدنا محمد علیہ السلام کی
جتی حیات کا ایک جیتا جاگتا خواب ہے تو یہ وہ عملی خواب ہے جو خواب انسان
اپنے نفس کی لَوحِ خیال پر نہیں دیکھتا بلکہ اپنے عمل کی اُس بساطِ اعمال
پر دیکھتا ہے جس بساطِ اعمال پر اُس کا عملی سفر جاری ہوتا ہے اور جب وہ
اپنے اُس عملی سفر کی تکمیلِ عمل کا دعوٰی کرتا ہے تو اُس کا دشمن کہتا ہے
یہ تُمہارا خواب ہے ، ہجرتِ مکہ سے لے کر فتحِ مکہ تک سیدنا محمد علیہ
السلام کے عالَم ہوش کا یہی وہ خوابِ ہوش تھا جس کی تکمیل کا آپ کے دشمن
اگرچہ اپنے خوابِ بیہوشی میں بھی تصور نہیں کر سکتے تھے لیکن جس وقت آپ کے
اِس عملی خواب کا عملی ظہور ہوا تھا تو اُس وقت آپ کے اُن دشمنوں کو بھی
یقین ہو گیا تھا جب اللہ نے آپ کا وہ خواب فتحِ مکہ کی صورت میں سچا کر
دکھایا تھا جیساکہ اٰیتِ بالا میں بیان ہوا ہے اِس لیۓ جن اہلِ روایت نے آپ
کے اِس خیال و عمل کے اِس جاگتے خواب کو آپ کی نیند کے خواب سے موسوم کیا
ہے انہوں نے اٰیت پرستی کے بجاۓ اپنی روایت پرستی کا مظاہرہ کیا ہے اور اسی
طرح اِن روایت پرستوں نے اِس اٰیت میں آنے والے لفظ { حلق } سے علم کے بڑے
حلقے اور لفظِ { قصر } سے علم کے چھوٹے حلقے مُراد لینے کے بجاۓ بال کم
کٹانے اور بال زیادہ کٹانے کا جو فلسفہ کشید کیا ہے وہ اُن کے اپنے خیال
میں بھی اِس لیۓ ایک لایعنی و بے معنی فلسفہ ہے کہ سُورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 94
{ لاتاخذ بلحیتی ولا براسی } کے مطابق انسانی چہرہ انسانی سر کے حُکم میں
آتا ہے اور اگر اِس اٰیت کا یہی مطلب ہے جو انہوں نے بیان کیا ہے تو پھر
اِن کے اِس روایتی فلسفے کے مطابق صرف سر کے بال کم یازیادہ کٹانا ہی
اَحکامِ حج میں شامل نہیں ہو گا بلکہ داڑھی کا بھی صرف ترشوانا یا پُوری کی
پُوری ختم کرانا بھی اَحکامِ حج میں شامل ہو گا جس کے بہر حال یہ خود بھی
قائل نہیں ہیں اِس لیۓ اِس اٰیت کا جو روایتی مفہوم اِنہوں نے بیان کیا ہے
وہ روایتی مفہوم بھی درست نہیں ہے !!
|