عُلماۓ دَجل کی ایک دَجالی تفسیر !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالحُجرات ، اٰیت 6 تا 8 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الذین اٰمنوا
ان جاءکم فاسق
بنبا فتبینوا ان تصیبوا
قوما بجھالة فتصبحوا ما
فعتلم نٰدمین 6 واعلموا ان فیکم
رسول اللہ لویطیعکم فی کثیر من الامر
لعنتم و لٰکن اللہ حبب الیکم الایمان و زینهٗ
فی قلوبکم و کره الیکم الکفر والفسوق والعصیان
اولٰئک ھم الرٰشدون 7 فضلا من اللہ و نعمة واللہ علیم
حکیم 8
اے ایمان دار لوگو ! اگر تُمہارے پاس رات کے اندھیرے میں اَچانک ہی اہلِ حق کے بارے میں کوئی بُری خبر آجاۓ اور تُم اُس خبر کو مُتعلقہ فرد یا ادارے تک پُہنچانے کے معاملے کو کَل پر ٹال دو اور آنے والی تُم صُبح جب تُمہاری آنکھ کُھلے تو تُمہاری قوم پر اُس خبر سے بیخبر ہونے کے باعث اُس کے بُرے نتائج ظاہر ہو چکے ہوں اور تُم کو اپنے فیصلے پر ندامت و شرمندگی ہو گی ، یاد رکھو کہ اِس وقت تُمہارے درمیان اللہ کے رسُول کی مُعتبر ہستی موجُود ہے اور تُم نے اپنے ہر انفرادی و اجتماعی معاملے میں اُن کی ذات سے رجوع کرنا ہے اور اُن سے ملنے والے ہر حُکم کو بجا لانا ہے اور جس معاملے کا جو حُکم وہاں سے آنا ہے تُم نے اسی حُکم پر عمل کرنا ہے لہٰذا تُم نے ایسا خیال بھی کبھی دل میں نہیں لانا ہے کہ تُم نے اللہ کے رسُول کو جو کُچھ بتانا ہے اُس نے اُسی پر عمل کرنا ہے اِس لیۓ اگر تُم خود سے خود ہی اپنے دل میں سَجے بَسے ہوۓ مُکرانہ و باغیانہ خیالات کے مطابق اپنے فیصلے کرو گے تو بڑی مصیبت میں مُبتلا ہو جاؤ گے لیکن اگر تُم اللہ کے رسُول کے مبنی بر حکمت فیصلوں پر عمل کرو گے تو اللہ علیم و حکیم تمہیں آسائشِ حیات و آرائشِ حیات عطا فرماۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
مُحوّلہ بالا تین اٰیات میں سے پہلی اٰیت کا جو پہلا مضمون بیان ہوا ہے دُوسری دو اٰیات کے مضمون میں بھی اُسی پہلے مضمون کی وہی تفصیل بیان کی گئی ہے جو پہلے مضمون میں پہلے ایک اجمال کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، عُلماۓ روایت نے مُحوّلہ بالا اٰیات میں سے پہلی اٰیت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ { اے لوگو ! جو ایمان لاۓ ہو ، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آۓ تو تحقیق کر لیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پُہنچا بیٹھو اور اپنے کیۓ پر پریشان ہو } عُلماۓ روایت نے اِس اٰیت کے اِس خانہ ساز ترجمے کے بعد اِس اٰیت کی جو خانہ ساز تفسیر کی ہے وہ اُن کی اِس خانہ ساز روایت پر مُشتمل ہے کہ قبیلہ بنی مصطلق جب مسلمان ہو گیا تو نبی علیہ السلام نے اُس کے پاس ولید بن عقبہ کو زکوٰة وصول کرنے کے لیۓ بھیجا لیکن ولید بن عقبہ نے اُس قبیلے کے پاس پُہنچے بغیر اور اُس کے ساتھ کوئی ملاقات کیۓ بغیر ہی واپس آکر نبی علیہ السلام کو یہ جھوٹی خبر دے دی کہ اُس قبیلے نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا ہے بلکہ اُس قبیلے کے لوگ تو اُس کے اِس مطالبے پر اُسے قتل بھی کرنا چاہتے تھے مگر وہ اُن سے جان بچاکر واپس آنے میں کامیاب ہو گیا ہے اور ولید بن عقبہ کا یہ بیان سننے کے بعد نبی علیہ السلام نے بر افروختہ ہو کر اُس قبیلے کی سر کوبی کے لیۓ ایک دستہ روانہ بھی کردیا یا روانہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا کہ اسی دوران اُس قبیلے کا سردار حارث بن ضرار بھی اَچانک ہی نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور اُس نے بتایا کہ ہم نے تو ولید بن عقبہ کی شکل بھی نہیں دیکھی اِس لیۓ اُس کو قتل کی دھمکی دینے کا تو سوال ہی ہمارے لیۓ خارج اَز بحث ہے ، اہلِ روایت کے اِس خانہ ساز ترجمے اور اِس خانہ ساز تفسیر کی دیگر مَنفی باتوں سے قطع نظر اُن کی اِس دو دھاری تلوار کی یہ دو طرفہ کاٹ ہی دیکھ لیں کہ اِس اٰیت کے ترجمے میں تو وہ صرف محمد علیہ السلام کی جماعت کو اپنے نشانے پر لاۓ ہیں لیکن اِس کی تفسیر میں وہ سیدنا محمد علیہ السلام کی ذات کو بھی اِس بیہودہ دعوے کے ساتھ اپنے نشانے پر لے آئے ہیں کہ آپ نے بنی مصطلق کے اُس قبیلے کے بارے میں کوئی مناسب تحقیق کیۓ بغیر ہی اُس قبیلے کی سرکوبی کے لیۓ ایک دستہ روانہ کر دیا تھا یا پھر روانہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا ، ہر چند کہ عُلماۓ روایت نے قُرآنی اٰیات کی ایک خیالی شانِ نزول اور اپنی اِدھر اُدھر سے سُنی سنائی ہوئی باتوں کی اسی سمعی دُھول کے ذریعے قُرآن کی کسی اٰیت کے مفہوم کو کُچھ کم اور کسی اٰیت کے مفہوم کو کُچھ زیادہ غَتر بُود کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سُورَةُالحُجرات کی اِس اٰیت میں تو اللہ تعالٰی کے اُس پُورے کے پُورے حُکم کو ہی پُوری طرح اُلٹ پُلٹ کر رکھ دیا ہے جو حُکم اِس اٰیت میں دیا گیا ہے ، بہر حال اِس اٰیات میں آنے والا پہلا توجہ طلب لفظ { جاء } فعل ماضی معروف کا وہ صیغہ ہے جو قُرآن کریم کے 68 مقامات کی 68 اٰیات میں کسی شخص یا کسی شئی کے ماضی مُلحق بالحال میں سامنے آنے کے لیۓ آیا ہے ، دُوسرا توجہ طلب لفظ { فاسق } ہے جس کا معنی حق کا مُخالف انسان ہے ، تیسرا توجہ طلب لفظ { بنبا } ہے جس کا معنٰی کسی کا کسی معاملے کی خبر لے کر آنا ہے اور اِس ترتیبِ کلام میں یہ لفظ حق کے اُس مُخالف انسان { فاسق } کے تعارف کے لیۓ آیا ہے جو کوئی بُری خبر لایا ہے اور اِس سلسلہِ کلام میں حرفِ جار و حرفِ معیت کے طور پر جو حرفِ { ب } آیا ہے وہ اسی طرح کا ایک حرفِ زائد ہے جس طرح کا حرفِ زائد سُورَہِ ھُود کی اٰیت 69 اور سُورَةُالذاریات کی اٰیت 26 میں قصہِ ابراہیم علیہ السلام کے ضمن میں آنے والے ایک ایسے ہی لفظی مُرکب { جاء بعجل حنیذ } میں ایک حرفِ زائد آیا ہے تاہم اِن قُرآنی لُغات کا ہم نے جو یہ ذکر کیا ہے وہ اِس پہلی اٰیت میں آنے والے نویں لفظ کے صیغے { فتبینوا } کے ساتھ ایک ربطِ کلام کے لیۓ ذکر کیا ہے جو اِس اٰیات کے مرکزی مفہوم کی ایک مرکزی کلید ہے لیکن { فتبینوا } کی اِس مرکزی کلید کو حاصل کرنے سے پہلے سُورَةُالمائدة کی اٰیت 23 میں آنے والے تَحکم کے اِس صیغے { فتوکلوا } کو ذہن میں رکھیں جس کا معنٰی یہ ہے کہ { تُم اللہ پر بھوسا رکھو } اِس کے بعد سُورَةُالتوبة کی اٰیت 52 میں آنے والے اسی حاضر کے صیغے{ فتربصوا } کو خیال میں لائیں جس کا معنٰی یہ ہے کہ { تُم انتظار کرو } اور اِس کے بعد سُورَةُالنحل کی اٰیت 55 میں آنے والے اسی تَحکم کے اسی صیغے{ فتمتعوا } پر غور کریں جس کا معنٰی یہ ہے کہ { تُم اِس سے فائدہ اُٹھاؤ } اور پھر اٰیت ہٰذا میں آنے والے اِسی حُکم کے اسی صیغے { فتبینوا } پر غور کریں جس کا معنٰی یہ ہے کہ { تُم یہ بات بیان کرو } اور پھر سب سے آخر میں اِس اَمر بھی کُچھ غور کرلیں کہ اہلِ روایت نے بات بیان کرنے کے اِس حُکم کو بات بیان نہ کرنے کا حُکم کیوں بنا دیا ہے اور کس طرح بنا دیا ہے تو آپ اِس نتیجے پر پُہنچ جائیں گے کہ قُرآنِ کریم کی یہی وہ واحد اٰیت ہے جس میں وارد ہونے والے ایک لفظِ فسق پر اہلِ روایت نے اپنی جعلی اور جہلی روایات کی بُنیاد کھڑی کی ہوئی ہے اور چونکہ انہوں نے اپنی ہر جعلی روایت کا ہر پہلا راوی کسی صحابیِ رسُول کو قرار دیا ہے اِس لیۓ فسق کا یہ وضعی دائرہ قائم کر کے انہوں نے انتہائی خاموشی کے ساتھ اَصحابِ محمد علیہ السلام کو بھی فسق کے اِس دائرے میں داخل کر دیا ہے اور اپنے مذموم مقاصد کے اعتبار سے اِس سازش کو اِس خیال کے لیۓ مزید کُھلا چھوڑ دیا ہے کہ راوی نے یہ متنِ روایت کب اور کس سے نقل کیا ہے جبکہ اٰیت میں اللہ تعالٰی کا جو حُکم ہے وہ صرف یہ ہے کہ اگر حق کی کوئی مُخالف خبر تُم تک پُہنچے تو تُم اُس خبر کو اِس خیال سے کَل پر نہ ٹال دو کہ اِس وقت تو اندھیرا بڑھ گیا ہے لہٰذا یہ بات تو صُبح بھی رسول علیہ السلام تک پُہنچائی جا سکتی ہے اور جب صُبح ہو تو اُس بُری خبر کے بُرے نتائج سامنے آچکے ہوں اور تُم اپنے ضمیر کی عدالت میں سر جھاکر کھڑے کے کھڑے رہ جاؤ اِس لیۓ تمہیں تاکید کی جاتی ہے کہ تُم جیسے ہی اپنی قومی سلامتی کے خلاف کہیں سے کوئی بُری خبر سنو تو اُس خبر کو فورا ہی رسول اللہ کے گوش گزار کرنے کے لیۓ نکل جاؤ اور اگر تم کسی بھی وجہ سے رسول اللہ تک نہ پُہنچ پاؤ تو ریاست کے کسی بھی ذمہ فرد یا ادارے تک وہ خبر بر وقت پُہنچاؤ تاکہ تُمہاری اِس ذراسی کوتاہ خیالی کے باعث تُمہاری قومی سلامتی کو کوئی بڑا نقصان نہ پُہنچ جاۓ لیکن اہلِ روایت کے اِس روایتی ادارے قیام ہی ملّت کی دینی و سیاسی دشمنی کے لیۓ عمل میں آیا ہے اِس لیۓ اِس طبقے نے اِس اٰیت کے اِس حساس مفہوم کو انسان کے عمومی معاملات کی اُس تحقیق کی طرف موڑ دیا ہے جس کا ہر زمانے کے شرفاء ہر زمانے میں خیال رکھتے ہیں اور اَصحابِ محمد علیہ السلام اِن معاملات کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے اَصحاب تھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462236 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More