قُرآن کی سیاسی و سماجی تعلیمات

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالحُجُرات ، اٰیت 1 تا 5 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا الذین
اٰمنوا لا تقدموا
بین یدی اللہ و رَسولهٖ
واتقوا اللہ ان اللہ سمیع
علیم 1 یٰایھا الذین اٰمنوا لا
ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی
ولا تجھروا لهٗ بالقول کجھر بعضکم
لبعض ان تحبط اعمالکم و انتم لا تشعرون
2 ان الذین یغضون اصواتھم عند رسول اللہ اولٰئک
الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقوٰی لھم مغفرة و اجر عظیم
3 ان الذین ینادونک من وراء الحجرٰت اکثرھم لا یعقلون 4 ولو
انھم صبروا حتٰی تخرج الیھم لکان خیر لھم واللہ غفوررحیم 5
اے ایمان دار لوگو ! تُم اللہ کی وحی اور اُس کے رسُول کی سماعتِ وحی سے پہلے جلد بازی میں قدم اُٹھانے کے بجاۓ اللہ کے حلقہِ پناہ میں رُکے رہا کرو جب تک کہ اللہ اور رسول کی طرف سے کسی اقدام کا کوئی فیصلہ نہ آجاۓ کیونکہ اللہ کی ہستی تو وہ دانا و بینا ہستی ہے جو تُمہاری پُکارے کے بغیر بھی تُمہاری پکار کو سُنتی ہے اور اسی طرح تُم نبی کی آوازِ وحی کے مقابلے میں اپنی آواز بھی اِس طرح بلند نہ کیا کرو جس طرح کہ تُم ایک دُوسرے کے ساتھ بات کرتے ہوۓ ایک دُوسرے کے مقابلے میں اپنی آواز بلند کیا کرتے ہو کیونکہ اگر تُم اس طرح کرو گے تو تُمہارے اعمالِ خیر بھی اِس طرح ضائع ہوتے چلے جائیں گے کہ تمہیں اِن کے ضائع ہونے کا گمان بھی نہیں ہو گا اور تُمہارے اَفرادِ معاشرہ کو اِس اَمر میں بھی کوئی شک و شُبہ نہیں ہونا چاہیۓ کہ اگر وہ اللہ کے رسُول کی مجلس میں کفِ لسان کے اِس سنہری اصول پر عمل کریں گے تو وہ اللہ کی حفاظت میں آجائیں گے اور وہ اپنے اِس صبرِ خیر کے بدلے میں اللہ سے اجرِ خیر پائیں گے اور اُن نادان لوگوں سے بھی الگ ہو جائیں گے جو وحی کا انتظار کیۓ بغیر ہی اپنے تنگ دلوں سے اپنی گُھٹی ہوئی آوازیں نکالتے رہتے ہیں تاہم اگر وہ اللہ کے رسُول کی صوتِ وحی کا انتظار کریں گے تو اللہ اپنی مہربانی سے اُن کی خطا پوشی کرے گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا اسمِ جمع { حُجرات } اپنے اُس اسمِ واحد { حجر } کی جمع کثرت ہے جس کا مصدری و مقصدی معنٰی کسی اہلِ عمل کو اپنے کسی حُکم کے ذریعے اُس کے اُس عمل سے روکنا ہوتا ہے جس عمل کے اُس سے سر زد ہونے کا امکان ہو تا ہے ، کلامِ عرب میں کلامِ عرب کی اسی لُغت کی بنا پر اُس رَسی کی گرہ کو بھی حجر کہتے ہیں جو اپنی گرہ میں آنے والی چیز کو اپنی گرہ میں روک دیتی ہے اور کلامِ عرب میں کلامِ عرب کی اسی لُغت کی بنا پر اُس کوہ و سنگ کو بھی حجر کہتے ہیں کہ جس کے سخت ترین وجُود میں اُس کا یہ سخت ترین تَحکم موجُود ہوتا ہے کہ میں ایک سخت ترین وجُود ہوں لہٰذا جو وجُود بھی میری سختی سے ٹکراۓ گا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر فنا ہو جاۓ گا اور کلامِ عرب میں کلامِ عرب کی اسی لُغت کی بنا پر اُس رہائشی کمرے کو بھی حُجرہ کہتے ہیں کہ جو انسان اُس رہائشی حُجرے میں رہتا ہے وہ اُس حُجرے میں بند ہو کر اُس حُجرے سے باہر کی ساری آفات کو حُجرے سے باہر ہی روک دیتا ہے ، قُرآنِ کریم نے عملِ بندش و روک کی اِن لُغات کے ذریعے ہر مُخاطب انسان کو بالعموم اور اہلِ ایمان کو بالخصوص اِس سُورت کی اِن 18 اٰیات میں جن 6 اعمال و اقوال سے منع کیا ہے اُن 6 اعمال و اقوال کو 6 اٰیات کے اُن تین مرکزی دائروں میں تقسیم کر دیا ہے اور اُن تین مرکزی دائروں میں سے ہر دائرے کے آغاز میں جو ایک حُکم دیا ہے اُس حُکم کے ضمنی مضامین میں اُس حُکم کی تفصیل بھی بیان کردی ہے اور اِس سُورت کے اِس ابتدائی سلسلہِ کلام میں ایک ساتھ جو دو اَحکام وارد وارد ہوۓ ہیں اُن میں سے پہلا حُکم یہ ہے ہے کہ کوئی ایمان دار انسان اللہ تعالٰی کا حُکمِ وحی آنے سے پہلے اور رسُول علیہ السلام کے حُکمِ وحی سنانے سے پہلے جلد بازی میں اپنی مرضی سے کوئی قدم نہ اُٹھایا کرے لیکن اِس قدم سے مُراد انسان کا وہ قدم نہیں ہے جو کسی مقابلے کی دوڑ میں پہلے یا بعد میں اُٹھایا جاتا ہے بلکہ انسان کے اِس قدم سے مُراد انسان کا وہ ارادہِ عمل ہے جو پہلے انسان کے دل میں ایک خیال بن کر آتا ہے اور پھر وہ خیال اُس کے عملی قدم کی ایک عملی صورت میں اَنجام پزیر ہو جاتا ہے ، اِس سُورت میں آنے والے اِن اَحکام میں دُوسرا حُکم یہ ہے کہ جو انسان نبی علیہ السلام کی مجلسِ ارشاد میں جاۓ تو وہ اپنے کانوں کو کُھلا اور اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھے اور وہ اِس کے علاوہ اِس بات کا بھی خیال رکھے کہ جس طرح ہر جسمانی فعل پہلے محض ایک خیال ہوتا ہے اسی طرح ہر زبانی قول بھی پہلے صرف ایک خیال ہی ہوتا ہے لیکن بعد میں وہ خیال سے ایک قول یا ایک عمل بن کر ظاہر ہوتا ہے اِس لیۓ مقصد کے اعتبار سے اِن احکام کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ زمین پر چلتے ہوۓ نبی علیہ السلام کے قدم سے پہلے کوئی انسان اپنا قدم نہ اُٹھاۓ اور نہ اِس کا یہ مقصد بھی نہیں ہے کہ نبی علیہ السلام کی مجلس میں باریاب ہونے والا یا تو کوئی بات ہی نہ کرے یا بات کرے تو سرگوشی میں بات کرے بلکہ اِن اَحکام کا مقصد صرف یہ ہے کہ نبی علیہ السلام کا کلام اور نبی علیہ السلام کا اقدام وحی کے تابع ہوتا ہے اِس لیۓ جو انسان نبی علیہ السلام کی مجلسِ ارشاد میں جاۓ تو وہ نبی کے کلامِ وحی اور حُکمِ وحی کو توجہ سے سنے اور اپنی مرضی سے کوئی بات کہنے اور اپنی خواہش سے کوئی عمل کرنے کے بجاۓ اُس وحی کے مطابق بات کرے اور اُس وحی کے مطابق ہی عمل کرے کیونکہ جس وحی کا مہبط و مَخرج نبی کی زبان ہے اُس وحی کا منبع و مرکز اللہ تعالٰی کی ذات ہے اِس لیۓ جو انسان نبی علیہ السلام کی بات سننے میں عدمِ توجہ کا مظاہرہ کرتا ہے وہ در اصل اللہ تعالٰی کی بات سننے میں عدمِ توجہ کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے اور اُس کا یہ دُھرا جُرم اُس کے اعمالِ خیر کو ضائع کردیتا ہے اور جس انسان کے اعمالِ خیر ضائع ہوتے رہتے ہیں اُس کا دینِ و ایمان صرف دکھاوے کے ایک منافقانہ عمل سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ہوتا ، جن لوگوں نے اِن اٰیات کے ظاہری الفاظ کا ظاہری مفہوم اخذ کرتے ہوۓ اِن اَحکام کو نبی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کے ساتھ خاص کیا ہے وہ بھی اگرچہ اپنے محدُود معنی میں درست ہے لیکن اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ قُرآن کے یہ اَحکام صرف نبی علیہ السلام کی اُس ذاتِ گرامی تک ہی محدُود نہیں ہیں جو ذاتِ گرامی مہبطِ وحی و مصدرِ وحی ہے بلکہ یہ اَحکام تو اللہ کی اُس ذاتِ عالی تک مُمتد ہیں جو ذاتِ عالی مرکزِ وحی و مَخرجِ وحی ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558749 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More