غالب نے کیا خوب کہا ہے
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
جب علم و آگہی اور تخلیق و صناعی کے مختلف عناصر انسان کے باطن میں بزم
آرا ہوجاتے ہیں تو خیالات کا محشر برپا ہوجاتا ہے ان خیالات کو ایک
خوبصورت اور شایانِ شان وسیلۂ اظہار ملے۔ تو یہ ایک آب جو کی صورت اختیار
کرکے نہ جانے کتنے ذرخیز ذہنوں کو سیراب کرتے ہیں۔ بصورت دیگر ایک آتش
فشاں لاوا ہے جو نہ صرف فرد کے اندرون میں بے چینی کی کیفیت پیدا کرتا ہے
بلکہ گاہے بگاہے اس کی بے ہنگم ہنگامہ خیزی سے معاشرہ بھی متاثر ہوئے بغیر
نہیں رہ پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’جاننا‘‘ ہماری سرشت کا جزولاینفک تو ہے
ہی۔ فطرت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جو ہم جان پائیں۔ اس کو دوسروں پر منکشف
کرنے کا خاطر خواہ انتظام بھی کریں۔ شعور، لاشعور اور تحت العشور کے تہہ
خانوں میں جو علم و آگہی کے موتی بکھرے پڑے ہوتے ہیں اسی فطری تقاضے کے
تحت وسیلۂ اظہار کی خوبصورت لڑی کا شدید مطالبہ کرتے ہیں جس میں پروکر ان
کو ایک ایسی جگہ رکھا جائے جہاں خاص و عام کی نظر بآسانی پڑتی ہو۔نتیجتاً
’’پوشیدہ محشر خیال‘‘سے علم و آگہی کا ’’کھلا بازار‘‘Open Market وجود
پاتا ہے جہاں انتقالِ آگہی کے پہلو بہ پہلو علمی اشتراک نمو پاتا ہے۔
یوں تو اظہار آگہی کا جذبہ کم سنی سے ہی انسان میں سر اٹھاتا ہے لیکن یہ
جذبہ آگے چل کر جوانی میں ہی پروان چڑھتا ہے۔ مشاہدے کی بات ہے کہ جو کچھ
سیکھے اس کو دوسرے تک پہنچانے کی سعی بھی کرتا ہے۔ مثلاً اپنے بزرگوں سے
سنی ہوئی کہانی کو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ہی سہی، دوسرے بچے کو سنانے کی
دُھن اس پر سوار رہتی ہے۔ اگر اپنی بات دوسروں تک پہچانے کی دُھن انسان پر
سوار نہ ہوتی تو سوچیئے! انتقالِ علوم جیسا نہایت ہی نفع بخش معاملہ کس قدر
دشوار ہوتا؟ خیالات کا بیش بہا ذخیرہ جو ہمارے پاس اپنے اسلاف کی وراثت کے
طور موجود ہے، سینوں میں ہی دفن ہوکر بالآخر مٹی کی نذر ہوجاتا۔ علمی
ارتقاءاور تسلسل ناپید ہوتا۔ مادی سرمایہ داروں کی مانند معنوں سرمایہ دار
یعنی حاملینِ علوم بھی بخیل اور ذخیرہ اندو ز بن جاتے۔
اظہارِ خیالات کیلئے مختلف ذرائع وقتاً فوقتاً ایجاد ہوئے۔ ان میں تحریر
معتبر ترین ذریعۂ اظہار ہے۔ مگر یہ ذریعہ کافی مشقت طلب اور صبر آزما ہے۔
اس لحاظ سے ہر معاشرے میں قلمکاروں کی عزت افزائی کا اہتمام ہونا چاہیئے۔
علی الخصوص نو آموز قلمکاروں کی نشونمو کیلئے ماحول سازگار ہونا چاہیئے۔
ظاہر سی بات ہے کہ چاہے سن کے اعتبار سے نوآموز قلمکار جوان ہی کیوں نہ
ہوں۔ لیکن فن کے اعتبار سے یہ اس میدان میں بچوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی
فنی نشونما کیلئے ماہرین نفسیات کا وہی اصول لاگو ہوگا۔ جو بچے کی صحیح
نفسیاتی پرداخت کے سلسلے میں کافی کارگر ثابت ہوا ہے۔اس اصول کے مطابق بچے
کو نہ صرف مکمل آزادی ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے مافی الضمیر کو حرکات و
سکنات اور الفاظ کے ذریعے ظاہر کرے۔ بلکہ دورانِ اظہار اُس کو یہ احساس
ہرگز ہرگز نہ ہو کہ اس کا مخاطب اُسے لائق ِالتفات نہیں سمجھتا ہے۔ تمثیلاً
یہ اصول نوآموز قلم کاروں پر منطبق ہوجاتا ہے۔ انہیں بھی اگر آغاز ہی میں
کہنہ مشق صاحبِ قلم افراد کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی شامل حال رہے تو عین
ممکن ہے کہ کل کو یہ گٹھنوں کے بل چلنے والے اطفا ل بھی اس میدان کے شہسوار
ہوں گے۔ البتہ وقتِ مقررہ تک ان کی فنی حماقتوں کو برداشت کرنا ناگزیر
ہوگا۔ کیونکہ دفعتاً کسی بھی فن میں بامِ عروج تک پہنچنا کسی فرد کیلئے
ممکن نہیں ہے۔ ماہرین فن کو نوآموز فنکاروں کے تئیں اُن والدین جیسا ہونا
چاہیئے جو اپنے نافہم بچے کی توتلی زبان سے مہمل آوازوں کو سن کر امیدا
افزاء مسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ آج کا یہ توتلا کل ضرور بہ ضرور کلیم دہر
ہوگا۔ لیکن معاملہ بالکل برعکس ہے۔ یہاں تو پہلے کسی کو فرصت کہاں کہ وہ
کسی اور قلم کار بالخصوص کسی غیر معروف اہل قلم کی نگارشات کو ایک نظیر
دیکھے۔ اب اگر ایسا اتفاق پڑا تو خوبیوں کو نظر انداز کرکے خاموں کو یوں
اچھالا جاتا۔ کہ جیسے ان خامیوں کی تلافی کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔
حالانکہ جس قوم کا خواب ہوکہ جواں ہوکر اس کے نونہال بچے فلک بوس عمارتوں
کے انجینئر اور معمار نہیں۔ وہ انہیں کم سنی میں چھوٹے موٹے مٹی کے گھروندے
بنانے سے نہیں روکتی۔
نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع نہ ہی ریاستی سطح اور
نہ ہی قومی سطح پر روبہ عمل لائے جاتے ہیں۔ وہ ادبی، ثقافتی ، سماجی اور
مذہبی ادارے بھی اس سلسلے میں کوئی خاص قدم اٹھانے سے اب تک قاصر رہے ہیں
جو نئی پود کو مطالعہ اور تحریر کی جانب راغب کرنے کا دعویٰ کرنے تھکتے
نہیں ہیں۔ ایسے میں ان کا یہ کہنا خود کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے کہ
نوآموز اہل قلم کی نرسری تیار نہیں ہوتی۔ کتنے باصلاحیت نوجوان بے التفاقی
کے شکار ہوئے۔ اور اگر کوئی ان میں سے خود رو پودے کی طرح بڑھتے بڑھتے قد
آور شجر کی شکل اختیار کر بھی گیا۔ اس کی بھی کسی نے تنقید کی کینچی سے
شاخ تراشی کی زحمت گوارا نہیں کی۔ نتیجتاً غیر ضروری شاخوں نے تنے کو بڑھنے
نہ دیا۔ اب بھی کتنی ناتراشیدہ ہیرے جو ہر شناسوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اور
صحبت اہلِ قلم سے محروم نہ جانے کتنے باہنر نوجوان اس شعر کے مصداق ہیں۔
گرچہ ہوں طوطیٔ شیریں سخن ولے
آئینہ آہ میرے مقابل نہیں رہا
ناتجربہ کار قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کی اولین توقع بزرگ مصنفوں، معروف
قلمکاروں، شہرت یافتہ دانشوروں اور اسی قبیل کے دیگر پختہ مغز افراد سے
وابسطہ ہوتی ہے۔ لیکن اس گروہ سے تعلق رکھنے والے آج کل اپنی ناقدروں کا
رونا روتے ہیں۔ جب یہ میدان ِ تحریر میں کسی نووارد کو گامزن پاتے ہیں۔ تو
اس کی حوصلہ شکنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ہیں۔ حالانکہ ان کی ناقدری
کا نزلہ کسی بھی طور نوواردوں پر نہیں گرنا چاہیئے۔ اور اگر ان کی واقعاً
ناقدری ہوئی ہے تو انہیں اوروں کا قدرشناس ہونا چاہیئے۔ تاکہ اس ناقدری اور
بے التفاتی کا جنازہ اٹھے۔
ایک چراغ کا جل کر روشنی پھیلانا مستحسن تو ہے ہی۔ مگر اس سے بڑھ کر اچھا
عمل یہ ہے کہ روشنی بکھیرنے کے ساتھ یہ چراغ اپنی حرارت سے دوسرے چراغ کو
بھی روشن کرے۔ صوفیائے کرام نے اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ بلکہ ان
کی بنیادی طریقہ کارہی رہا ہے کہ اپنے افکار و نظریات اور قلبی واردات کو
اپنے عقیدتمندوں اور شاگردوں میں منتقل کرنے پر ہمیشہ کمربستہ رہتے تھے۔
اپنے علمی و نظری اور عملی ورثہ کو صفحہ قرطاس کے حوالے کرنے کے ساتھ وہ اس
کے زندہ و متحرک وارثوں کو دیار بہ دیار تلاشتے پھرتے تھے۔ یہ سینہ بہ سینہ
علوم و معارف کی منتقلی ہی ہے جس نے صوفیت کو تابندگی بخشی۔ حاملینِ قلم
بھی ا گر فن کو دوام بخشنے کے متمنی ہیں تو انہیں چاہیئے کہ صوفیائے کرم کے
طریقہ کار کو اپنائیں۔ قدرشناسی کے بغیر یہ طریقۂ کار بھی کارگر نہیں ہے۔
لیکن بظاہر آسان دکھائی دینے والی یہ صفت اصل میں اپنی ذات کے خول سے باہر
آنے کا مطالبہ کرتی ہے جو فطرتاً ہر شخص کیلئے کافی مشکل ہے۔ ہر فرد یہی
چاہتا ہے کہ صرف اور صرف اُس کے ہُنر کا بول بالا ہو۔ خود فراموشی کے مرحلے
کو عبور کرکے کسی اور کی جانب اپنی توجہ مبزول کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔
سمش العلماء میر حسنؔ جیسے اُستاد تو خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں جو تصنیف و
تالیف پر انسان سازی کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ خود تو گمنامی میں گزربسر کرتے
ہیں لیکن اپنے شاگردوں میں اپنی شخصیت کو ہمیشہ جلوہ گر پاتے ہیں۔ میرحسنؔ
کی حبِ ذات کی قربانی کا ہی ثمرہ تھا کہ جب علامہ اقبال کو سرکاار کی جانب
سے سر کا خطاب ملا تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ پہلے اس کے اُستاد کو بھی
خطاب سے نوازا جائے۔ جس پر یہ عذر پیش کیا گیا کہ مولوی حسنؔ، صاحب تصنیف
نہیں ہے۔تو علامہ نے کہا کہ ’’آپ صاحب تصنیف ہیں اور اقبال ان کی زندہ
تصنیف ہے۔‘‘ خاموش تصنیف سے کہیں زیادہ انسان کی صورت میں ’’تخلیقِ ناطق‘‘
کو منصہ شہود پر لانا بہتر ہے۔ البتہ یہاں تخلیق کار کو نکتہ داں کے فن کے
ساتھ ساتھ قدردانی کے ہنر سے بھی آشنا ہونا چاہیئے بقولِ غنی کشمیری ۔ ؎
پیشِ ماتعظیم دانشوراں بہ ازدانشوری است نکتہ دانی سہل باشد، قدردانی مشکل
است
میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا میں تو محض ’’رقص بدن‘‘ اور ’’سازو آواز‘‘
کی پزیرائی ہورہی ہے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ پوری نوجوان نسل ’’رقص و سرور‘‘
تک ہی آرٹ کو قبول کرتے ہیں۔ برعکس اس کے ان نوجوانوں کی تعداد آٹے میں
نمک کے برابر ہے جو اندھی تقلید سے دامن بچائے نوشت و خواند سے ذوق ہنر کو
وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ذوقِ نوشت کی پزیرائی کا حال یہ ہےکہ جب یہ
اپنی قلمی کاوشوں کو لے کر اخبار و رسائل کے دفتروں پر اشاعت کی غرض سے
چھوڑ آتے ہیں۔ تو ان کی کیفیت ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بوڑھا باپ اپنے
جواں فرزند کی لاش کو قبرستان کےسپرد کر آئے۔ کیونکہ اول تو وہ اسباب و
محرکات نایاب ہیں۔ جو ایک تازہ ذہن نوجواں کو تخلیقی کرب بصد شوق جھیلنے پر
آمادہ کرتے۔ باوجود اس کے خونِ جگر سے لکھی گئی قلمی کاوش کا بس ایک ہی
معاوضہ اس کے پیش نظر ہوتا اور وہ ہے زیورِ اشاعت سے آراستہ ہونا۔ مگر یاس
بات سے کون واقف ہے کہ اس کی اس متاعِ عزیز کے لیے کیا حشر ہونے والا ہے۔
وادی کشمیر کے تناظر میں اردو کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں کے رسالوں پر
چند ایک صاحبِ قلم کا اجارہ چلتا ہے۔ اور مدیرانِ رسالہ بھی بزعمِ خود
معیار کو مدِ نظر نوآموز لکھاریوں کو اپنے یہاں پھڑکنے نہیں دیتے ہیں۔
اکثر و بیشتر اخبارات کی تنگ دامنی اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے کہ ان
میں بیک وقت دو چار علمی، ثقافتی، ادبی اور مذہبی مضامین اور شعری تخلیقات
منظرِ عام پر آسکیں۔ کچھ اخبار بظاہر تو اخبار دکھائی دیتے ہیں۔ مگر پہلا
ہی صفحہ الٹیئے تو آپ کو محسوس ہوگا جیسے آپ کسی ’’اشتہاری بازار‘‘ میں
داخل ہوگئے ہوں۔ چند ایک تو اندرونی صفحات کو بھی انٹرنیٹ سے حاصل شدہ مواد
سے ہی مزین کرنے کو آسان سمجھتے ہیں۔ اس طرح ٹائپنگ کی جھنجھٹ سے چھٹکارا
ملتا ہے۔ بلکہ مدیران بھی چھان بین اور کانٹ چھانٹ کی کلفت سے بچ جاتے ہیں۔
چند ایک ایسے رسائل و اخبار اور ویب سائٹِیں ہیں جو انٹرنیٹ سے مواد مستعار
لینے کے بجائے اپنے اور سے کچھ انٹرنیٹ کو دیتے ہیں۔ امیدہے کہ یہ ادارے
نئی پود کو سوچنے، سمجھنے اور لکھنے پر ابھارتے رہیں گے۔ تاکہ تخلیق و
تحقیق کا سلسلہ باقی رہے۔ بس اس دعا کے ساتھ اپنے جیسے ان نوجوان قلمکاروں
سے ملتمس ہوں کہ نفسا نفسی کے اس دور میں اپنے قلم کو جنبش و حرکت میں
رکھیں۔ اس لالچ کے بغیر کہ کہیں سے آفرین کے چند کلمات سنائی دیں گے۔
کتاب و قلم کا یہ سنگم رہے باقی
تاحیات ہاتھ میں قلم رہے باقی
ہر لحظہ سفرِ علم رہے جاری
وادیٔ علم میں اٹھتا قدم رہے باقی
البتہ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ اس وادی میں قدم رکھنے والا پزیرائی
اور داد و دہش کی توقع نہ رکھے تو بہتر ہے بصورت ِ دیگر انہیں بہت جلد
مایوسی کا منہ دیکھنا ہوگا۔اس کی سب سے بڑی وجہ تمدنی سطح پر وہ تبدیلی ہے
جس سے نوشت و خواند کے کلچر کو بہت حد تک دھچکا لگا۔ وہ تمدنی اور تہذیبی
انقلاب آیڈیو ویجول (AUDIO VISIUAL) کی بھر مار کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ دور کے انسانوں کی ذہنی ساخت آیڈیو ویجول)
AUDIO VISIUAL
(کے سوا کسی شئے کو قبول نہیں کرتی۔سیدھی سی بات ہے کہ جب مطالعہ بارِ گراں
ہو تو لکھنے والوں کی پزیرائی کون کرے؟یہی وجہ ہے کہ بہت سے ایسے افراد جن
کے اندر ایک با صلاحیت مصنف سانس لے رہا تھا ۔محض بولنے ،سنانے اور دکھانے
تک ہی محدود ہو گئے۔نتیجتاً اس باطن میں بسیرا رکھنے والے باصلاحیت مصنف و
قلمکار کا دم گھٹ کے رہ گیا۔اور اس کی موت کب واقع ہوئی یہ بولتے چالتے
انسان کو معلوم ہی نہ ہوا۔ اس لئے قلم فرسائی کی جانب آنے سے قبل یہ بات ہر
اہلِ قلم کو گانٹھ باندھنی ہوگی ہے کہ اس وقت قلم چلانے کے بجائے زبان
چلانے کا چلن ہے۔ لہٰذانو آموز قلمکاروں کو فیض احمد فیض کے اس شعار کی
پیروی کرنا پڑے گی۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
|