اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح خود غلامی کی زندگی جئے
اورٖغلامی کی موت مریں، اسی طرح آپ کی آئندہ نسلیں بھی غلام پیدا ہوں اور
غلامی کی لعنتی زندگی میں اپنی عمر بسر کرلیں تو پھر جس طرح سے گذر رہی ہے،
ٹھیک ہے۔ یہ تو فقط احساس پر منحصر ہے۔ قوموں کی زندگی میں انقلاب ہمیشہ
نوجوانوں کے ہاتھوں سے رونما ہوا کرتا ہے بشرطیکہ ان نوجوانوں کی تربیت
درست خطوط پر ہوجائے، غلامی کی مسموم فضا سے محفوظ رکھ کر انہیں انسانوں کی
زندگی بسر کرنے کا ڈھب سکھایا جائے۔یہی وہ نوجوان ہوں گے جن کے ہاتھوں قوم
کے مقدارت کے ستارے بنیں گے۔قوم کے بڑے بوڑھوں سے کوئی گلہ نہیں، جب آپ سے
کوئی توقع ہی نہیں تو پھر گلہ کس بات کا ؟۔ اگر ان سے کوئی خاص کام شومئی
قسمت ہو تو بات الگ ہے، باقی تو تمام فالج کے مریضوں کی طرح مردم شماری کے
رجسٹر میں نام لکھانے کے لئے جیا کرتے ہیں۔البتہ جس امر کا غم ہے وہ قوم کے
نوجوانوں کی حالت ہے۔
بہترین دماغوں کا کام قوم کی راہ نمائی کا کام کرنا تھا، لیکن وہ یوں ضائع
ہورہا ہے کہ کل کو قوم کے اجتماعی مسائل کی گھتیاں کون سلجھائے گا؟۔ ہمارے
بڑے بوڑھوں نے اس اولین فریضہ سے چشم پوشی کی، اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے
ہیں، وہ مجرمانہ تغافل جو آج ہم سے سر زد ہورہا ہے، اس کی سزا ہماری آنے
والی نسل بھگتے گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہونا چاہے اُسے یہ بڑے بوڑھے
کریں کیوں ؟ اور اگر وہ نہ کریں تو پھر اور کون کرے گا؟ ظاہر کہ یہ کام تو
خود نوجوانوں ہی کے کرنے کے ہیں، آج کی غفلت شعاری کے انجام سے انہی کو
دوچار ہونا پڑے گا، یہ بڑے بوڑھے تو اُس وقت کسی اور دنیا میں ہوں گے، اس
لئے اگر آج نوجوان اس حقیقت سے اغمازبرت رہے ہیں تو یہ ان کی خودکشی کے
مترادف ہے، یہ بھی غلط ہے کہ نوجوان دوسروں کے دست نگر ہوتے ہیں، اس لئے یہ
ازخود کچھ نہیں کرسکتے، درحقیقت دست نگر تو یہ اس وقت تک رہتے ہیں جب تک
اپنی حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے، جب انہیں اپنی قوتوں کا احساس ہوجائے گا تو
زمانہ ان کا دست نگر ہوگا۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نوجوان سب کچھ کرسکتا ہے بشرطیکہ یہ وہ آگاہ ہوجائے۔ ہمیں علم ہے کہ قوم
میں ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن میں تڑپ ہے، خلش ہے، سوز ہے، گداز ہے، کا
م کرنے کی صلاحیت ہے، عمل کی ہمت ہے، ولولہ ہے، اُمنگ ہے، جذبہ ہے، احساس
ہے لیکن قوم سے انفردای بھیک نہیں مانگنا چاہتے۔ وہ صرف اِرتباط جسم و جان
کے لئے کچھ چاہتے ہیں لیکن اس انداز سے کہ انہیں آستان افتادہ سمجھ کر
گداگری کا ٹکڑا ان کی جھولی میں نہ ڈالا جائے بلکہ قوم ان کا احسان مانے کہ
انہوں نے اپنی زندگیاں قوم کے لئے وقف کردی ہیں، ان نوجوانوں کا یہ مطالبہ
بالکل حق بجانب ہے اور وہ کون ہے جو اس کی حمایت نہ کرے گا؟۔ آج بد بختی سے
ہمارے پاس کوئی ایسا نہیں جو اس قسم کی اجتماعی بندو بست اپنے پاس رکھتا
ہو، جو ان نوجوانوں کی ضرورت زندگی کی کفالت کرے اور ان کی صلاحیتوں سے
موزوں ترین کام لے۔ ہم اس قسم کے نوجوانوں کو پہچانتے ہیں لیکن ہماری خود
اتنی استطاعت نہیں کہ اس قسم کا کوئی بندوبست کرسکیں۔قوم میں مرفہ الحال
لوگوں کی بھی کمی نہیں اور ان میں سے بعض بہت کچھ خرچ کرتے ہیں لیکن چونکہ
یہ سب کچھ انفرادی طور پر ہوتا ہے، اس لئے اس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ مرتب
نہیں ہورہا، اس کے لئے دونوں طرف سے قدم اٹھنے چاہیں، ایک طرف سے تعلیم
یافتہ اور ہنر مند نوجوان جو اپنی زندگیاں قوم و ملک کے لئے وقف کرنا
چاہیں، آگے بڑھیں۔ دوسری طرف ارباب ثروت جو ان نوجوانوں کی ضروریات کا ذمہ
لینا چاہیں، وہ آگے آئیں اور کوئی ادارہ ان دونوں کے درمیان ربط و ضبط پیدا
کرنے کا ذریعہ بن جائے، جب تک کوئی حکومتی ادارہ ان نوجوانوں کی خدمت کو
اپنے ذمہ نہیں لیتا، اس وقت تک منزل تک پہنچنا مشکل و دشوار گذار راستہ ہے۔
نوجوانوں کو کوئی جماعت اپنے ایسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کرے جس سے
معاشرے میں شر پھیلے، دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوانوں کو منفی روش کے تحت
فروعی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا وتیرہ بڑھتاجارہا ہے، ہمیں یہ عہد کرنا
ہوگا کہ نوجوانوں سے کسی قسم کی خفیہ سازش کا کوئی کام نہیں لیا جائے گا،
ان کا مقصد حیات نوجواناں ملت کے اندر صحیح زندگی کے احساسات کو بیدار کرنا
ہوگا۔ تقریر سے، تحریر سے، باہمی ربط و ضبط سے،اور یہ سب کچھ واضح الفاظ
میں بالکل کھلے بندوں ہو، اس میں شبہ نہیں کہ ملکی ترقی کا جو مقصد سامنے
رکھا جائے گا، اس میں اہم کردار نوجوان ہی ادا کرسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ قوم
کی خواہش ہے کہ سینہ میں دل، دل میں تڑپ اور سَر میں دماغ و دماغ میں سیاسی
بصیرت رکھنے والے نوجوان آگے بڑھیں اور مفلوج و منافق طبقے کو پیچھے دھکیل
کر کشیئ ملت کے چپو اپنے ہاتھ میں لیں۔
جس دور سے ہم گذر رہے ہیں اس میں مخلص کام کرنے والے نایاب نہیں تو کمیاب
ضرور ہیں، اس لئے ایسے بے برگ و گیالق و دق صحرا میں کہیں دوچار سر سبز
پودے بھی نظر آجائیں تو انہی کو نخلستان سمجھنا چائیے، اس لئے کہ دنیا جس
برق رفتاری کے ساتھ انقلاب کی آجامگاہ بن رہی ہے اس کے پیش نظر ہمیں اپنی
نوجوان نسل کو درست سمت فراہم کرنا ضروری ہے، یہ حقیقت ہے کہ جس دور سے ہم
آج گذر رہے ہیں وہ دور بے حد نازک ہے۔ حالات واقعی ایسے ہی ہے تو اس کے
باجود اگر ہم اب بھی نہیں سمجھیں گے تو اس کے بعد اور کونسا وقت آئے گا جب
سونے والے جاگیں گے اور جاگنے والے اٹھیں گے۔ کھرے سونے کی پہچان ہی یہی
ہوتی ہے کہ جوں جوں اسے آگ کی بھٹیوں میں ڈالا جائے وہ کندن ہوتا چلا جاتا
ہے اور لوہے کو فولاد بننے تک بڑی بڑی دشوار یوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ ئ محشر میں ہے
یہ پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
|