پیروں تلے بچھی زمین اور سر پر سجا آسمان !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ قٓ ، اٰیت 6 تا 15 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
افلم
ینظروا الی
السماء فوقھم
کیف بنینٰہا و زینٰہا و
مالھا من فروج 6 والارض
مددنٰھا و القینا فیھا رواسی
و انبتنا فیہا من کل زوج بھیج 7
تبصرة و ذکرٰی لکل عبد منیب 8 و نزلنا
من السماء ماء مبٰرکا فانبتنا بهٖ جنٰت و حب
الحصید 9 و النخل بٰسقٰت لھا طلع نضید 10
رزقا للعباد و احیینا بهٖ بلدة میتا کذٰلک الخروج 11
کذبت قبلھم قوم نوح و اصحٰب الرس و ثمود 12 و عاد
و فرعون و اخوان لوط 13 واصحٰب الایکة و قوم تبع کل کذب
الرسل فحق و عید 14 افعیینا بالخلق الاول بل ھم فی لبس من خلق
جدید 15
جو لوگ موت کے بعد ملنے والی زندگی کا انکار کرتے ہیں تو کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے آسمان کو کس طرح اُن کے سروں پر اُٹھایا اور سجایا ہے کہ اُس میں دُوسری طرف اُن کے دیکھنے کے لیۓ کوئی شگاف بھی نہیں چھوڑا اور کیا وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہم نے زمین کو اُن کے پیروں تلے بچھا دیاہے ، اُس میں بڑے بڑے وزنی پہاڑ ڈال کر اُس کو متوازن بنا دیا ہے اور اُس میں مُختلف اقسام کے لالہ و گُل بھی اُگا دیۓ ہیں ، کیا وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہم نے آسمان سے چیزوں کو اُگانے اور بڑھانے والا وہ پانی بھی زمین پر اُتار دیا ہے جس سے زمین کے کھیت و باغات سیراب ہوتے ہیں ، اسی پانی سے کھجُور کے اونچے اونچے درختوں پر تہ بہ تہ خوشے بھی پیدا ہوتے ہیں اور اسی پانی سے ہم مردہ زمین کو زندہ کرکے اپنی زندہ مخلوق کے کھانے کا سامان بھی پیدا کرتے رہتے ہیں اور کیا یہ لوگ اِس اہم خبر سے بے خبر ہیں کہ اِس سے پہلے اِن چشم کشا حقائق کا قومِ نُوح و اَصحابِ رَِس و اصحابِ ثمُود کے علاوہ قومِ عاد و قومِ فرعون اور پھر برادرانِ لُوط و اَصحاب الایکہ اور قومِ تُبع نے بھی انکار کیا تھا اور ہمارے مامُور بالاَمر نمائندوں کو جُھٹلا کر ہمارے عذاب کو بلا لیا تھا اور اُنہوں نے اپنے اِس گمان کو اپنا یقین بنا لیا تھا کہ ہم اپنی پہلی تخلیق کے بعد اَب اِس طرح تَھک ہار کر بیٹھ گۓ ہیں کہ ہم اپنی پہلی اُس مخلوق کو کسی دُوسرے زمانے میں کسی دُوسری شکل میں پیدا ہی نہیں کر سکتے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم میں جہاں جہاں پر بھی زمین و آسمان اور اِن کے سامانِ جہان کا ذکر آیا ہے وہ ہر جگہ پر ایک ہی مقصد کے اظہار کے لیۓ نہیں آیا ہے بلکہ ہر جگہ پر ایک مُختلف سے مُختلف مقصد و دلیلِ کو ظاہر کرنے کے لیۓ آیا ہے اور اِس مقام پر زمین و آسمان کا جو ذکر آیا ہے وہ اُن کی ظاہری وسعت و ساخت کے مقصد کو ظاہر کرنے کے لیۓ آیا ہے اور اِن زمین و آسمان کے درمیان جس سامانِ جہان کا جو ذکر آیا ہے وہ بھی اُس سامانِ جہان کے تنوع اور اُس کی بُو قلمُونی کو ظاہر کرنے کے لیۓ آیا ہے جو اُس میں بالفعل موجُود ہے ، آسمان کی علمی و نظری حقیقت وہ بیکراں خلائی حَدِ نظر ہے کہ اگر ایک انسان روشنی کی رفتار سے چلنے والے کسی خلائی راکٹ میں ایک لاکھ برس کا سفر کرنے کے بعد اِس خلا پر نظر ڈالے گا تو یہ خلا وہاں سے بھی اُس کو اتنا ہی اَز کراں تا بہ کراں نظر آۓ گا جتنا ہماری سطحِ زمین سے اُس کو نظر آتا ہے اور اِس مُدوّر آسمان کے ساۓ میں جو مُدوّر زمین پھیلی ہوئی ہے اُس کی ہر ایک جہت میں خالق کی وہ مخلوق آباد ہے جس کے جسم کو زمین کی کششِ ثقل خلا کی بیکرانی میں ہوا کے ساتھ ہوا بن کر اُڑنے سے روکے ہوۓ ہے اور اِس خلا میں اوزون نام کا جو نادیدہ حفاظتی حصار ہے وہ اپنے ایک پہلو سے اتنا طاقت ور ہے کہ وہ فضا میں گھومنے والے شہابیوں سے گرنے والی سنگی و آہنی آلودگی سے انسان کو بچاتا ہے تو دُوسرے پہلو سے اتنا کم زور بھی ہے کہ وہ زمین کی کششِ ثقل کی طرح زمینی مخلوق کو اپنی فضا میں کھینچ کر فضا کی ہوا میں ہرگز نہیں اُڑا سکتا ، اٰیاتِ بالا کے اِس مقام پر زمین و آسمان کا جو ذکر آیا ہے وہ اِن کی اسی وسعت کو ظاہر کرنے کے لیۓ آیا ہے اور اِن کے ضمن میں اِن کے ساز و سامان کا جو ذکر آیا ہے وہ مُعلّمِ فطرت کی طرف سے انسان کی اِس تعلیم کے لیۓ آیا ہے کہ انسان اِس عالَم میں اِس عالَم کی ایک ایسی مخلوق ہے جس کا اپنے خالقِ عالَم کے سوا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے اِس لیۓ انسان نے جب تک اِس عالَم میں زندہ رہنا ہے اِس عالَم کے خالق کی دسترس میں رہ کر ہی زندہ رہنا ہے ، اِس بکراں عالَم کے اِس ذکر میں اہلِ فکر کے لیۓ یہ فکری اشارہ بھی موجُود ہے کہ یہ تو ہمارے صرف وہی زمین و آسمان اور اِن کے درمیان پیدا کیۓ گۓ وہی سامانِ جہان ہیں جو تُمہاری محدُود نظر سے تُمہاری محدُود نظر میں آتے ہیں ورنہ اِس عالَم کی عملی حقیقت تو یہ ہے کہ اِن زمین و آسمان اور اِن کے اِس ساز و سامان کا یہ ایک عالَم دَر عالَم پھیلا ہوا ایسا لامتناہی سلسلہ ہے کہ جس کے نادیدہ زمین و آسمان اور جس کے نادیدہ سامانِ جہان اِس کے سوا ہیں جو انسانی نگاہ کو نظر آتے ہیں ، اٰیاتِ بالا میں قُرآنِ کریم نے اِن سب اَشیاۓ عالَم کے ذکر سے یہ عقلی و مَنطقی استدلال کیا ہے کہ اِس عالَم کا جو خالق اِس لامتناہی حیرت کدہِ جہان کو پیدا کرتا آرہا ہے اور متواتر پیدا کرتا چلا جا رہا ہے اُس خالق کے لیۓ زمین کے اجزاۓ زمین کی صورت میں رکھے ہوۓ انسان کو اَجزاۓ زمین سے نکال کر باہر لے آنا کون سا ایسا مُشکل کام ہے جو انسان کی سمجھ میں نہیں آتا اور چونکہ یہ مضمون حشرِ اَجساد کے ضمن میں وارد ہوا ہے اِس لیۓ اِس میں اہلِ علم کے لیۓ یہ علمی استعارہ بھی موجُود ہے کہ جو اہلِ زمین حشرِ اَجساد کا انکار کرتے ہیں وہ دَر حقیقت اپنے حسابِ حیات کا انکار کرتے ہیں لیکن جس انسان نے اللہ تعالٰی کے اِس جہانِ عمل میں حیات بسر کی ہے اُس نے اللہ تعالٰی کے اُس جہانِ جزا و سزا میں اپنے اِس جہان کے اَچھے یا بُرے اعمالِ حیات کا حساب بہر حال دینا ہی دینا ہے چاہے وہ حشرِ اجساد کا اقرار کر کے دے یا حشرِ اجساد کا انکار کر کے دے ، اُس کے انکار سے اُس کے حساب و عذاب کا یہ مرحلہ نہیں ٹلے گا بلکہ اُس کی سزا کا یہ مرحلہ اسی دُنیا سے شروع ہو جاۓ گا جس طرح کہ قومِ نُوح و اَصحابِ رَس ، قومِ عاد و قومِ ثمُود ، قومِ فرعون و قومِ لُوط اور قومِ تُبع و اَصحاب الایکہ کے حساب و عذاب کا عمل اسی دُنیا سے شروع ہو گیا تھا جس کا اِس کتاب میں اِس غرض سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ بات جان لے کہ جو اہلِ زمین حشرِ اَجساد کا انکار کرتے ہیں اُن کا یہ انکار عقلی و منطقی اعتبار سے اُن کی طرف سے قبلِ از وقت ترکِ حیات و ترکِ عمل اور قبل از وقت ہی اپنے مکافاتِ عمل کا ایک مطالبہ ہوتا ہے اور جو قوم بھی اپنے عذاب کے اِس مطالبے پر بار بار اصرار کرتی ہے اُس کا یہ مطالبہ اُس کے عذاب کی صورت میں قبول کر لیا جاتا ہے تاکہ کم از کم اُس قوم کے بعد میں آنے والی کوئی قوم اُسی عذاب سے دو چار نہ ہو جس عذاب سے وہ پہلی اقوام دو چار ہو چکی ہیں ، اِس سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت میں جس { خلق جدید } کا ذکر کیا گیا ہے اُس { خلق جدید } کا ایک معنٰی تو وہ تَخلیقِ جدید بشکلِ جدید ہے جس کا اِس سے قبل سُورَةُالرعد کی اٰیت 5 ، سُورَہِ ابراہیم کی اٰیت 19 ، سُورَةُالسجدة کی ایت 10 ، سُورَہِ سبا کی اٰیت 7 اور سُورَہِ فاطر کی اٰیت 16 میں ذکر ہوا ہے اور دُوسرا معنٰی مخلوقِ قدیم کی تَخلیقِ جدید بصورتِ جدید ہے اور اِس جگہ پر حشرِ اجساد کے حوالے سے یہی دُوسرا معنٰی مُراد ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558529 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More