احسن اقبال صاحب کی یہ تجویز مناسب معلوم ہوتی ہے کہ چائے
کے ایک دو کپ کم کر کے بیرونی قرضے کو کم کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہم
پاکستانی پچھلے مالی سال میں 83.89 ارب کی چائے پر مانگے کا قیمتی زرِ
مبادلہ اڑا چکے ہیں۔ ویسے میرے خیال میں صرف ایک چائے کی پیالی کی قربانی
بھی کارگر ہوسکتی ہے۔۔۔بس خیال یہ رکھنا ہے کہ آفس والی چائے چلتی رہے۔
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاھئے
اس تجویز پر عمل کرنے سے چائے کی پتی کی درآمدی طلب کے ساتھ ساتھ چینی اور
دودھ کی مجموعی طلب بھی کم ہو جائے گی ۔ لہذا قیمتیں کم ہونے کا امکان
ہے۔یوں چینی پر دی جانے والی حکومتی اعانت (سبسڈی) پر کاری ضرب پڑے گی اور
اس بچت کو کسی اور منافع بخش پیداواری عمل پر لگا کر قومی پیداوار کو گرنے
سے روکا جا سکے گا۔
مزید برآں صحت پر پڑنے والے مضر اثرات کم ہونے سے دواؤں کی طلب میں بھی کمی
ہو گی جس سے خام مال کی درآمد کا ممکنہ علاج ہو پائے گا۔ چینی اور دودھ کی
بچت سے اس میں تخصیص(سپیشلائزیشن) کر کے برآمدات بڑھا کر زرِ مبادلہ میں
اضافہ کیا جا سکتا ہے۔یہ تمام معاشی تبدیلیاں ٹرانسپورٹ ،خام تیل اور
توانائ کے اخراجات کو بھی کسی حد تک کنٹرول کرنے میں معاون ہوں گی۔ مختصر
یہ کہ چینی کا استعمال ایک مستقل معاشی چکر کا موجب ہے اور گہرے اثرات
رکھتا ہے۔
اس تجویز کا ایک سماجی پہلو بھی ہے۔گھر کی محبوبہ چائے کم ہونے سے گھر کا
بجٹ بھی کسی پہلے سے کم منہ چڑائے گا اور بیگمات کی ( کام کی) زندگی سہل ہو
جائیگی۔ جب لڑائ جھگڑے کم ہوا کریں گے تو سکون کے لئے سیر و تفریح (آؤٹنگ)
پر آنے والے اخراجات آخر کب تک سینہ سپر رہ سکیں گے۔
میں نے پیمائش۔آفات۔جہاں کی رفعت
فتنہء حشر سے اونچا قد۔جاناں نکلا
|