حرمت رسول ﷺ

نبی اور رسول چونکہ اللہ کے رازوں سے واقف ہوتے ہیں،ان کو اس راز کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے اس لیے ان کی عزت کی حفاظت کو بھی ناموس کہا جاتا ہے۔(ناموس سے مراد’’ آبرو، عزت، شہرت، عظمت اور شان‘‘ہے۔ناموسِ رسالت سے مراد ’’رسول کی آبرو، عزت، شہرت، عظمت اور شان‘‘ ہے۔ اور تحفظِ ناموس ِ رسالت سے مراد ہے کہ کسی بھی رسول کی آبرو، شہرت ، عزت، عظمت یا شان کا لحاظ کرنا۔ہر قسم کی عیب جوئی اور ایسے کلام سے پرہیز کرنا جس میں بے ادبی ہو۔

ان تمام امور کا لحاظ رکھنا فرض ہے اور مخالفت کرنا کفر ہے۔

مزید وضاحت کے لئے آپ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’’ تحفظِ ناموسِ رسالت‘‘ کا مطالعہ کیجیئے)
ناموس کا لفظی معنی ’’عزت عصمت اور لاج و آبرو‘‘ ہے ۔ جبکہ رسالت کا لغوی معنی ’’پیغام پہنچانے کے ہیں‘‘۔ یہاں ناموس رسالت کا مفہوم یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے ہر نبی کی قدرو منزلت کی جائے کیونکہ وہ ﷲ کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ اور نبی کریم ﷺ چونکہ تمام انبیاء و مرسلین سے فضیلت و مرتبہ میں بڑھ کر ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ مِّنْہُم مَّن کَلَّمَ اللّہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ (سورہ اٰل عمران-253.
ترجمہ: یہ سب رسول ہم نے فضیلت دی ہے ان میں سے بعض کو بعض پر ان میں سے کسی سے کلام فرمایا ﷲ نے اور بلند کئے ان میں سے بعض کے درجے ۔

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًطذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُ‘‘

’’اے ایمان والو جب تم رسول اللہ (ﷺ)سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے‘‘-
خاتم النبیّین (ﷺ) کی محبت اور تکریم ہر مسلمان کے لیے سرمایہ حیات ہے ،اس کے بغیر کوئی مسلمان ایمان کاتصور ہی نہیں کرسکتا۔۔یہ حرمت مذہبی روایات سے ممتاز کرتی ہے -اہلِ اسلام کا یہ تہذیبی سرمایہ اندھیروں میں روشنی دکھاتا ہے اور مایوسیوں سے نجات دلاتا ہے ۔۔اسی حرمت و عشق کی تہذیبی دولت و سرمایہ کی تپش و حرارت سے مسلمانوں نے ہزار برس سے زائد تک دنیا کے سامنے علمی، عملی، معاشی و ریاستی اور فکری و فنی محیر العقول کارنامے سر انجام دیئے -
عالمِ کفر نے اسی بات کو مسلمانوں کی کمزوری بنانا چاہا ہے اور پچھلے 200 سال میں ایسے ایسے فتنے اور فرقے عالمِ اسلام میں پھیلا دیئے جن کی کاوشوں کا مقصد اولین یہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے قلوب و اذہان سے عشق و ادبِ رسول (ﷺ) کے والہانہ جذبوں کو کم کیاجائے-
حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے ان کی اس بدنیتی کو یوں بے نقاب کیا:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد(ﷺ) اس کے بدن سے نکال دو

اللہ پاک نے ان منافقوں کےبارے میں ارشاد فرمایا:

’’اَلَا اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ‘‘

’’خبردار! وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں‘‘-

مسلمان جب بھی اپنے آقا کریم (ﷺ)سے والہانہ تعلق کی بات کرتاہے تو غیرمسلم اور عملی و فکری طور پہ مغلوب و مفلوج نام نہاد روشن خیال بنیاد پرستی کا طعنہ دے کر اس جذبے کو سرد کرنے اور خود مصلح بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔۔

خاتم النبیّین (ﷺ) کی اطاعت ہی اسلام ہے، قرآن مجید میں اطاعت و اتباع کے ساتھ ساتھ آپ (ﷺ) کی تعظیم ، تکریم اور ادب کی بھی تاکید کی گئی ہے-قرآن کریم میں تعظیم و ادب بجا لانے والوں کی تحسین کی گئی، انہیں اجرِ عظیم اور بخشش کی نوید سنائی گئی جبکہ اس کے بر عکس آداب و تعظیم سے غفلت برتنے والوں کو تنبیہ بھی کی گئی اور درد ناک عذاب کا انجام بھی سنایا گیا-
آپ (ﷺ) کو ایذا پہنچانے والوں اور گستاخی کرنے والوں کیلئے سخت احکامات نازل ہوئے - یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی زندگیاں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) اور ادبِ مصطفےٰ (ﷺ) سے عبارت ہیں ، مثلاً آپ (ﷺ) کا خون مبارک زمین پہ نہ گرانا، وضو کا پانی نیچے نہ گرنے دینا بلکہ اسے اپنے اجسام پہ ملنا ، موئے مبارک سنبھال کر رکھنا حتیٰ کہ آقا کریم (ﷺ) کے لعاب شریف سے شفا اور برکت حاصل کرنا - اما م احمد رضا خان قادریؒ نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی حیات مبارکہ کانقشہ یوں بیان کیا:

حسن یوسفؑ پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرےؐ نام پہ مردانِ عرب

قرآن مجید میں خاتم النبیّین (ﷺ) کی تعظیم و توقیر کے احکامات ہیں ، آئیے! اُن میں سے چند ایک مقامات پہ نظر ڈالتے ہیں :

1-’’اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا لا لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ‘‘

’’بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو ‘‘-

قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ اس آیت کی تفسیر میں محی السنۃ امام بغوی خراسانیؒ کا قول نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ضَمِيْرُ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ رَاجِعَانِ اِلىَ رَسُوْلِهٖ‘‘

’’تُعَزِّرُوْهُ‘‘ اور ’’تُوَقِّرُوْهُ‘‘ کی دونوں ضمائر (واؤ کے بعد آنے والی ’’ہ‘‘) رسول اللہ (ﷺ) کی طرف راجع ہیں‘‘-

یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ الفاظ کی زیادتی معانی کی زیادتی پہ دلالت کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میرے محبوب کریم (ﷺ) کی حد درجہ تعظیم و توقیر کرو-

یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور نبی رحمت(ﷺ) کی تعظیم وتوقیر آپ کی حیات مبارک میں اور وصال مبارک کے بعد بھی لازم ہے- جیسا کہ عظیم مفسرِ قرآن علامہ اسماعیل حقیؒ رقم طرازہیں:
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘

’’اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو‘‘-

جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی توحضرت ثابت بن قیس بن شماس(رضی اللہ عنہ) اپنے گھر میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر کے اشک بار ہوگئے-جب رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں اپنے پاس حاضر نہ پایا تو فرمایا: ثابت کو کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی کہ بس اتنا معلوم ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر گھر کا دروازہ بند کیا ہوا ہے اور وہ رو رہے ہیں-تو رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں بلاوا بھیجا اور پوچھا: تجھے کیا ہوا؟ عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) جب اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) پر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور مَیں تو اونچی اور زوردار آواز والا ہوں، پس میں ڈرتا ہوں کہ میرے عمل ضائع ہو گئے- آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’لَسْتَ مِنْهُمْ ،بَلْ تَعِيْشُ بِخَيْرٍ وَّتَمُوْتُ بِخَيْرٍ‘‘

’’تُو ان میں سے نہیں ہے بلکہ تو خیرکےساتھ زندہ رہے گا اورخیر کے ساتھ مرے گا‘‘-
تعظیم کی مثال بن جانے والے صحابہ و صحابیات کی تحسین میں قرآن پاک میں یہ حکم نازل ہوا :

2- ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰیط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘

’’بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کیلئے پرکھ لیا ہے ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘-

اور بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ)کاادب کالحاظ نہ رکھنے والوں کے بارے میں ارشادفرمایا:

3- ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ‘‘

’’بیشک وہ جو آپ (ﷺ) کو حُجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں‘‘-

علامہ ابن کثیرؒ سورۂ حجرات کی انہی آیات مبارکہ کی تفسیر میں روایت نقل فرماتے ہیں:

’’امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے دو آدمیوں کو بآوازِ بلند مسجد نبوی (ﷺ) میں گفتگو کرتے سنا، آپ (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ کہاں ہو؟پھر پوچھا تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ کہنے لگے ہم طائف سے ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اگر تم اہل مدینہ سے ہوتے تو مَیں تمہیں سخت سزا دیتا‘‘-

علامہ ابن کثیرؒ مزیدلکھتے ہیں کہ اسلاف کا کہنا ہے:

’’يُكْرَهُ رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ قَبْرِہٖ، كَمَا كَانَ يُكْرَهُ فِيْ حَيَاتِهٖ لِأَنَّہٗ مُحْتَرَمٌ حَيًّا وَفِيْ قَبْرِهٖ، صَلَوَاتُ اللهِ وَ سَلَامُهٗ عَلَيْهِ دَائِمًا‘‘

’’آپ (ﷺ) کی قبر اطہر کے پاس آواز بلند کرنا اسی طرح منع ہےجس طرح آپ (ﷺ) کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ممنوع تھا-کیونکہ ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی آپ (ﷺ) محترم ہیں اور اپنی قبر میں بھی ہمیشہ آپ (ﷺ) کا احترام لازمی ہے آپ (ﷺ) کی ذاتِ بابرکات پر ہمیشہ صلوٰۃ و سلام ہو‘‘-

اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک’’أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ أَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ‘‘کی تفسیر میں علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ:

’’اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے کہ ہم نے آپ (ﷺ)کی بارگاہ ِ اقدس میں رفعِ صوت سے اس لیے منع فرمایا کیونکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ آپ (ﷺ) اس سے رنجیدہ خاطر ہوں کیونکہ اللہ رب العزت آپ (ﷺ) کے ناراض ہونے سے ناراض ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ اس کے اعمال ضائع فرما دیتا ہے جس پہ ناراض ہوتاہے اس حال میں کہ اس کو علم بھی نہیں ہوتا‘‘-

4-’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘

’’اے محبوب(ﷺ) تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں‘‘-
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے دو روایات مبارکہ (بحوالہ بخاری شریف اور جامع البیان) رقم فرمائی ہیں:

1-ایک انصاری اورحضرت زبیر (رضی اللہ عنہ) کا پانی پہ جھگڑا ہوا، معاملہ آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں پیش ہو ا-آپ (ﷺ) نے فیصلہ حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) کے حق میں فرما دیا-انصاری اس فیصلہ پہ رضامند نہیں ہوا تو حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے یہ آیت مبارک ’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ---‘‘نازل فرمائی‘‘-

2- ایک یہودی اور منافق کے جھگڑے کا معاملہ آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں پیش ہوا- آپ (ﷺ) نے معاملہ کی سماعت کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں فرما دیا تو اس منافق نےا فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کیا اور کہا کہ کعب بن اشرف سے فیصلہ کروانا ہے تو حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے اس کا سرقلم فرما دیا تو اللہ پا ک نے (اس منافق کا خون رائیگاں فرماتے ہوئ )یہ آیت مبارک نازل فرمائی ‘‘-

ان روایات کو رقم کرنے کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ فرماتے ہیں:

’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے فیصلہ کونہ ماننے والا مومن نہیں ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک فیصلہ کو بظاہرمان لیتا ہے لیکن دل سے قبول نہیں کرتا اس لیے ارشاد فرمایا کہ وہ آپ(ﷺ) کے کیے ہوئے فیصلہ کے خلاف دل میں بھی تنگی نہ پائیں ۔۔۔
فرمان ِ باری تعالیٰ ہے :

’’اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاطسَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ‘‘

’’جب اے محبوب(ﷺ) تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت رکھو عنقریب میں کافروں کے دلوں میں ہیبت ڈالوں گا تو کافروں کی گردنوں سے اوپر مارو اور ان کی ایک ایک پور(جوڑ) پر ضرب لگاؤ ‘‘-

’’ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ج وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘

’’یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے مخالفت کرے تو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے‘‘-

6- ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیْنًا‘‘

’’بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘-
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’ مَنْ آذَى شَعْرَةً مِنِّي فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى الله ‘‘۔

’’ جس نے میرے ایک بال کو ایذا پہنچائی اس نے مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی‘‘-

2: حضرت شعبی (رضی اللہ عنہ) حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان فرماتے ہیں:

’’أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ (ﷺ) وَتَقَعُ فِيْهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ النَّبِيُّ (ﷺ) دَمَهَا‘‘۔

’’ایک یہودیہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو سب و شتم کرتی تھی اور آپ (ﷺ) کی ذاتِ اقد س میں عیب تلاش کرتی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا حتی کہ وہ مر گئی تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا (یعنی بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں بدلہ نہیں دلوایا)‘‘-

3-حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ)سےروایت ہے:

’’ایک آدمی کی لونڈی تھی جس سے اس کے موتیوں جیسے دو بیٹے تھے اور وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو (معاذ اللہ) بُرا بھلا کہتی -وہ اسے منع کرتا اور جھڑکتا لیکن وہ نہ رکتی اور نہ باز آتی- ایک رات وہ اسی طرح رحمتِ کائنات (ﷺ) کا (نا مناسب الفاظ میں) ذکرکرنے لگی جس پر اس صحابی رسول (ﷺ) کو صبر نہ ہوا تو اس نے ایک خنجر اٹھا کر اس کے پیٹ میں مارا اور اس پرٹیک لگائی یہاں تک وہ اس (ملعونہ) کے آرپار ہوگیا تو رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’أَشْهَدُ أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ‘‘۔

’’میں گواہی دیتاہوں کہ اس کا خون رائیگاں ہے‘‘ -

(بالفاظِ دیگر خاتم النبیّین (ﷺ) نے عملِ صحابی کی تائید فرمائی ) -

4-حضرت كعب بن زُہَير (رضی اللہ عنہ) نے (قبول ِ اسلام سے پہلے) جب حضور رسالت مآب(ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں بے ادبی وگستاخی کی توآپ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’مَنْ لَقِيَ كَعْبًا فَلْيَقْتُلْهُ‘‘۔

’’جس کو کعب ملے وہ اس کو قتل کردے ‘‘-
حضرت کعب بن زُہَیْر (رضی اللہ عنہ) نے معافی مانگی اور اللہ پاک نے ان کو اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا پھر حضرت زہیر(رضی اللہ عنہ) کو حضور نبی رحمت (ﷺ) کی شان میں نعتیں لکھنے کا شرف حاصل ہوا،آپ (رضی اللہ عنہ) کا ایک مشہور شعر یہ ہے :

إِنَّ الرَّسُولَ لَنُورٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
مُھَنَّدٌ مِنْ سُيُوفِ اللهِ مَسْلُولُ



’’بیشک رسول اللہ (ﷺ)(اللہ عزوجل) کے نور ہیں اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی شمشیروں میں تنی ہوئی تلوار ہیں ‘‘-

امام تقی الدین السبکی الشافعیؒ نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا:

’’مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ‘‘

’’جوکسی بھی نبی(علیہ السلام)کی گستاخی کرے اس کو قتل کر دو‘‘-
گستاخِ رسول (ﷺ) واجب القتل ہے اس پر اجماع امت ہے-یہ صدرِ اول کے مسلمانوں یعنی صحابہ و تابعین(رضی اللہ عنھم)کا اجماع ہے-جیساکہ ذیل میں ائمہ کرام اور فقہاء کرام کی عبارات سے ظاہر ہے –

خاتمۃ المجتہدین امام ابن عابدین شامی ؒ نے فرمایا :

1-’’وَكُلُّ مُسْلِمٍ ارْتَدَّ فَتَوْبَتُهٗ مَقْبُولَةٌ إلَّا الْكَافِرُ بِسَبِّ نَبِيٍّ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ حَدًّا وَ لَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهٗ مُطْلَقًا ‘‘

’’جو مسلمان مرتد ہوا اس کی توبہ قبول کی جائے گی سوائے اس کافر و مرتد کے جو انبیاء (علیھم السلام)میں سے کسی بھی نبی کو سب و شتم کرنے کے سبب کافرہوا تو اسے حدًا قتل کر دیا جائے گا اور اس کی توبہ بالکل قبول نہیں کی جائے گی‘‘-

2-’’مَنْ نَقَصَ مَقَامَ الرِّسَالَةِ بِقَوْلِهٖ بِأَنْ سَبَّهٗ (ﷺ)أَوْ بِفِعْلِهٖ بِأَنْ بَغَضَهُ بِقَلْبِهِ قُتِلَ حَدًّا‘‘

’’جس شخص نے مقامِ رسالت مآب (ﷺ)کی تنقیص و تحقیر اپنے قول کے ذریعے بایں صورت کی کہ حضور (ﷺ) کو سب و شتم کیا یا اپنے فعل سے اس طرح کہ دل سے حضور (ﷺ) سے بغض رکھا تو وہ شخص بطور حدًا قتل کیا جائے گا‘‘-

امام الاحناف ابن نجیم المصریؒ کا فرمان ہے :

3-’’مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَوْ بَغَضَهُ كَانَ ذَلِكَ مِنْهُ رِدَّةً وَحُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّينَ‘‘

’’جس شخص نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی گستاخی کی اور آپ (ﷺ )کے ساتھ بغض اختیار کیا اس کا یہ عمل ارتداد ہے- اس شخص کا حکم مرتدین کی طرح ہے ‘‘-

شارحِ بخاری امام ابن بطال القرطبی المالکی ؒ نے فرمایا:

4-’’مَنْ شَتَمَ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، أَوْ تَنْقُصُهٗ قُتِلَ وَلَمْ يُسْتَتَب، كَمَنْ شَتَمَ نَبِيَّنَا) لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ [الأحقاف:
وَكَذٰلِكَ حُكْمُ الذِّمِّىْ إِذَا شَتَمَ أَحَدًا مِّنْهُمْ يُقْتَلُ إِلَّا أَنْ يُّسْلِمَ‘‘

’’جس نے کسی نبی (علیھم السلام)کو گالی دی یااس کی تنقیص کی تو اس کو قتل کردیاجائے گا اوراس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گاجس طرح اس نے ہمارے نبی مکرم (ﷺ) کو سب وشتم کیا (ہم رسل کے درمیان فرق نہیں کرتے (الاحقاف: 35) اوریہی حکم اس ذمی کا ہے جب وہ ان (انبیاء کرام(علیھم السلام) میں سے کسی کو گالی دے تو اس کو قتل کردیاجائے مگر یہ کہ وہ اسلام قبول کرلے‘‘-
یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ صرف آقا کریم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کی محض بلاواسطہ تنقیص بے ادبی و گستاخی میں شمار نہیں بلکہ اس کا دائر ہ وسیع ہے جیساکہ علامہ قاضی عیاض مالکیؒ لکھتے ہیں:

’’ہر وہ شخص جو رسول اللہ (ﷺ) کی توہین کرے یا آپ (ﷺ)پر کوئی عیب لگائے یا آپ (ﷺ)کی ذات، آپ (ﷺ) کے نسب، آپ (ﷺ) کے دین یا آپ (ﷺ) کی عادات مبارکہ میں سے کسی عادت کی طرف کوئی نقص منسوب کرے یا ان میں سے کسی عیب کا آپ (ﷺ) کی طرف اشارہ کرے یا توہین کرتے ہوئے کسی ایسی چیز سے آپ (ﷺ) کو تشبیہ دے یا آپ (ﷺ) کی تحقیر کرے یا آپ (ﷺ) کی شان کو کم کرے آپ (ﷺ) کا استخفاف کرے یا آپ (ﷺ) کی طرف کسی عیب کی نسبت کرے تو آپ (ﷺْ)کی توہین کرنے والا شمار ہو گا- اس کا حکم وہی ہوگا جو توہین کرنے والے کا ہوتا ہے- اسے قتل کر دیا جائے گا- دور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے لے کر آج تک اسی پر تمام علماء اور اصحابِ فتوی کا اجماع ہے‘‘-

امام قاضی عیاض مالکی اندلسی ؒ مزید اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

6-’’امام مالکؒ نے فرمایا جس شخص نے رسول اللہ (ﷺ) کو سب و شتم کیا یا عیب لگایا یا آپ (ﷺ) کی تنقیص کی تو وہ قتل کیا جائے گا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی-

7-امام ابو سلیمان خطابیؒ (شارحِ بخاری و سنن ابی داؤد) نے فرمایا کہ میں مسلمانوں میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے گستاخ کے واجب القتل ہونے میں اختلاف کیا ہو -
امام محمد بن سحنون المغربیؒ فرماتے ہیں: اس پر علماء کا اجماع ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی (کسی بھی حوالے سے) توہین و تنقیص کرنے والا کافر ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وعید ہے اور پوری امت کے نزدیک اس کا حکم قتل ہے جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے گا وہ خود کافر ہو جائے گایہاں تک کہ امام محمد بن سحنون المغربیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’مَنْ قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ (ﷺ) أسْوَدُ قُتِلَ‘‘

’’جس نے کہا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) (معاذ اللہ) سیاہ ہیں اس کو قتل کیا جائے گا‘‘-

9-صاحبِ تفسیرشارحِ صحیحین محققِ عصر علامہ غلام رسول سعیدیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’فقہاء اسلام کی عبارات کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی گستاخی کرنے والا مرتد ہے اور واجب القتل ہے ، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ مرتد وہ شخص ہو گا جو پہلے مسلمان ہو، اگر کوئی غیر مسلم حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان میں گستاخی کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ سو اس کا حکم بھی یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائے گا اور گستاخی کا معنی یہ ہے کہ سیدنا محمد (ﷺ)یا انبیاء سابقین میں سے کسی نبی (علیھم السلام) کے متعلق ایسا لفظ بولے یا ایسا لفظ لکھے جو عرف میں توہین کیلئے متعین ہو تو ایسے شخص کو قتل کر دیا جائے گا خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم (انبیاء سابقین سے مراد وہ نبی ہیں جن کی نبوت تمام سچے مذاہب میں مسلم ہو)‘‘-
سیدنا امام مالکؒ نے ارشادفرمایا:

’’مَا بَقَاءُ الْأُمَّةِ بَعْدَ شَتْمِ نَبِيِّهَا؟‘‘

’’حضور نبی کریم (ﷺ) کوسب وشتم (گستاخی) کے بعد امتِ مسلمہ کی بقاء وزندہ رہنے کا کیاجواز رہ جاتاہے ؟‘‘

اللہ عزوجل ہم سب کو اپنے فضل و کرم کے صدقے عزت و حرمتِ رسالت مآب (ﷺ) سمجھنے اور آپ (ﷺ) کے قدموں میں سب کچھ قربان کرنے کی توفیق فرمائے-آمین!

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

قرآن و حدیث سے جب حضور ﷺ کو باقی تمام انبیاء و مرسلین سے ہر لحاظ سے مرتبہ و فضیلت حاصل ہے توپھر ان کی عزت اور ناموس بھی باقی تمام انبیاء سے زیادہ ہے ۔
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558687 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More