بی جے پی والے رام راج قائم کرنے چلے تھے مگر بلڈوزر راج
لے آئے۔ بلڈوزر کی بابت بی جے پی عدالت میں جو بولتی ہے گودی میڈیا اس سے
مختلف تاثر دیتا ہے۔ عدالت میں سرکاری محکمہ کی غیر قانونی تجاوزات کو
توڑنے کی بات کہی جاتی ہے۔ میڈیاسیاستداں کےفسادیوں کو سبق سکھا نے کا راگ
الاپتا ہے۔ غیر قانونی تجاوزات ہٹانے میں نہ تفریق و امتیاز کرنا درست ہے
اور نہ اسے دنگا فساد سے جوڑنا چاہیے۔ فسادی کو سزا دینے کا اختیار مقننہ
یا انتظامیہ کا نہیں بلکہ عدلیہ کا ہے۔وہ پہلے الزامات کی چھان بین کرکے
دیکھتا ہے کہ الزام درست ہیں یا نہیں اور ہیں بھی تو کیا اس کی سزا بلڈوزر
چلاناہے؟ ایسے میں ماورائے قانون کسی عمارت کو ڈھا نے کا اختیار انتظامیہ
یا سرکار کو ہے ہی نہیں ۔ اس معاملے کوایک مثال سے سمجھیں ۔ 31؍اگست 2021
کو اترپردیش کے نوئیڈا میں دو غیر قانونی ٹاورس کو منہدم کرنے کا حکم عدالت
عظمیٰ نے دیا ۔ اس کو ۹؍ ماہ سے زیادہ ہو گئے لیکن بابا جی کے بلڈوزر نے
ابھی تک وہاں کا رخ نہیں کیا۔ کیا ان کو سرمایہ داروں سے ڈر لگتا ہے یا
کوئی مفاد وابستہ ہے جو وہ اس کے قریب جانے کی ہمت نہیں کرتے؟
اتر پردیش کے نوئیڈا اتھارٹی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ریتومہیشوری نے عدلیہ
کی توثیق کے باوجود انہدامی کاروائی کے لیے 15 محکموں کے این او سی حاصل
کیے ۔پریاگ راج میں جاوید محمد کا مکان گرانے کی خاطر نہ عدالت کی توثیق
اور نہ کسی محکمہ سے اجازت کیونکہ سنیچر اور اتوار کو وہ سب بند تھے۔ عدالت
نے انہدام کی آخری مدت 22 مئی رکھی جس کو 30؍ اگست تک بڑھا دیا گیا لیکن
جاوید کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا ۔ اس معاملے میں انتظامیہ نے نہ تو طے شدہ
طریقہ کار پر عمل کیا اور نہ ہی دستاویزات کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی یہ
مکان کس کی ملکیت ہے؟اگر یہ کیا جاتا منہدم کی جانے والی عمارت جاوید کی
نہیں بلکہ اہلیہ پروین فاطمہ کی ہے۔ ان کو شادی سے قبل والد نے اپنی آبائی
جائیدہبہ کردی کو ہنوز انہی کے نام پر ہے۔ اس پر جاوید کا کوئی قانونی حق
ہی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے پروین فاطمہ کے بجائے جاوید محمد کے
نام سے پرانی تاریخ کا نوٹس بھیجا دیا ۔
اس سے قبل 10؍ مئی کو نوٹس بھیجا گیا تھا اور 24؍ مئی کو سماعت کے بعد 25؍
مئی کو حکم جاری کیا گیا ہے لیکن نئے نوٹس میں کسی سرکلر یا آرڈر کا تذکرہ
نہیں ہے۔ 10؍ جون کے نوٹس کوایک دن بعد دروازے پر چسپاں کیا گیا۔ جاوید
محمد پر واٹس ایپ کے میسیج پھیلانے کا الزام میڈیا میں لگایا جارہا مگر ایف
آئی آر میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ جاوید محمد ویلفیئر پارٹی کے عہدیدار اور
تمام امن کمیٹیوں اور دیگر سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے ہیں۔ان کا کوئی
مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے اور کوئی ٹھیکے وغیرہ کا کام بھی نہیں کرتے اس لیے
ان کو اچانک ماسٹر مائنڈ بنادینا انتقامی مخاصمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید
محمد کے گھر پر چلنے والے بلڈوزر کی تمام سیاسی جماعتیں مذمت کررہی ہیں۔
سماج وادی پارٹی کےسربراہ اکھلیش یادو نے اسے تفریق و امتیاز پر مبنی کہہ
کر انصاف کے خلاف بتایا۔انہوں نے سوال کیا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس کی
وجہ سے ملک میں حالات بگڑے اور دنیا بھر میں رسوائی وہ تو سرکاری تحفظ میں
ہیں اور پرامن مظاہرین کو بغیر قانونی چارہ جوئی اور جانچ پڑتال کے بلڈوزر
سے سزا دی جا رہی ہے۔ اس کی اجازت نہ ہماری تہذیب دیتی ہے، نہ مذہب، نہ
قانون، نہ آئین دیتا ہے۔
اکھلیش کے مطابق بی جے پی اقتدار میں پوری دنیا کے اندر اترپردیش کی بدنامی
ہوئی کیونکہ پرامن مظاہرے کے جمہوری حق کی توہین کی گئی۔انہوں نے ریاستی
گورنر سے ازخود نوٹس لے کر امن و امان قائم کرنے اور حکومت کی من مانی اور
اقتدار کے غلط استعمال پر پابندی لگا نے کی درخواست کی ۔
اکھلیش نے ریاستی حکومت پر نظم ونسق بنائے رکھنے میں مکمل ناکامی اور اسے
چھپانے کے لئے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر جھوٹے، قصے کہانیاں گڑھ کر
عوام کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا ۔ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی
نے بھی حکومت پر ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ۔ مایاوتی
نے اپنےٹویٹ میں کہا کہ اتر پردیش حکومت بلڈوزر، انہدام اور بدنیتی پر مبنی
جارحانہ کارروائی کرکے احتجاج کو کچلنے اور خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے
کی غیر منصفانہ کوشش کر رہی ہے ۔انہوں نے عدالت سے مکانات کو منہدم کرکے
پورے خاندان کو نشانہ بنانے کے اقدام کا نوٹس لینے کی گہار لگائی۔ مایاوتی
نے سوال کیا کہ کہ مسئلے کی جڑ نوپور شرما اور نوین جندل کے خلاف کارروائی
نہ کرکے قانون کی حکمرانی کا مذاق کیوں اڑا یا جارہا ہے؟ ان کے نزدیک دونوں
کو ہنوز جیل نہ بھیجنا انتہائی متعصبانہ اور افسوس ناک حرکت ہے۔ انہوں نے
قواعد و ضوابط ک بالائے طاق رکھ کر بلڈوزر کی تخریبی کارروائیوں میں معصوم
خاندان کے کچلے جانے اور بے گناہوں کے گھر گرائے جانے مذمت کی ۔
یوگی سرکار کی اس ظلم و زیادتی پر ملک کے طول و ارض میں احتجاج ہونے لگا ہے
۔ دہلی کے اندر یوپی بھون کے سامنے اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن نے مظاہرے
کا اعلان کیا اور جے این یو میں آسو نے آفرین فاطمہ کی حمایت زبردست
احتجاج کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے احتجاجی مظاہرہ کا اعلان کیا تو
انتظامیہ نے ریڈنگ روم کو بند کرکے یونیورسٹی میں داخلہ روک دیا ۔ پریاگ
راج میں وکلاء کی تنظیم نے چیف جسٹس کو اپنی رٹ پٹیشن میل کی۔ سابق چیف
جسٹس سی ڈی ماتھر نے اس کارروائی کو پوری طرح غیر قانونی بتایا کیونکہ
بلڈور کے استعمال کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ۔ اس لیے کسی بھی
حکومت یہ اقدام عدالت کی توہین ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ آخر ریاستی حکومتیں
قانون کو اس طرح پامال کیوں کرتی ہیں؟ اس کی ایک وجہ اپنی ناکامی پر پردہ
ڈالنا ہے۔ نوپور کی بدزبانی کے بعد دنیا بھر میں جو بدنامی ہوئی ہے اس کی
جانب سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔
یوگی کی دبنگ شبیہ کہ ان کے خوف سے کوئی مظاہرہ نہیں کرسکتا بری طرح متاثر
ہوئی ہے۔ اس کو بحال کرنے کی خاطر یہ دبنگائی دکھائی جارہی ہے اور دعویٰ
کیا جارہا ہے کہ فسادیوں کو سبق سکھایا جائے گا لیکن یوپی میں سب سے بڑا
فساد تو آشیش مشرا نے کیا اور دن دہاڑے کسانوں کو اپنی گاڑی سے کچل دیا
لیکن یوگی کا بلڈوزر اس کے گھر کی جانب نہیں بڑھا کیوں کہ آشیش کے والد
اجئے مشرا وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں ۔اس طرح کےظلم و زیادتی کی ایک وجہ
عوام کی دلجوئی کرنا ہوتا ہے۔ اتر پردیش میں جب وکاس دوبے کی گاڑی الٹ گئی
یا حیدرآباد میں عصمت دری کرنے والوں کا انکاونٹر کردیا گیا تو لوگوں نے
مٹھائی تقسیم کرکے خوشیاں منائیں لیکن جب جسٹس سرپورکر کمیشن نے انکشاف کیا
کہ 2019 کا دیشا انکاؤنٹر فرضی تھااور اس بابت قتل کا مقدمہ درج کرنے کی
سفارش کردی جس میں تین نابالغ ملزمین سمیت چار لوگوں کو ماردیا گیا تھا تو
سب کے چہرے اترگئے۔
یوگی سرکار عوام کو ڈرا دھمکا کر احتجاج سے روکنا چاہتی ہے لیکن مسلمانوں
کی بابت یہ ناممکن ہے۔ اس کی تازہ مثال رانچی میں پولیس کی گولی سے شہید
ہونے والے 16؍ سالہ مدثر کے دلیر ماں ہے جنہوں نے اپنے بیٹے کی شہادت پر
ایسا ایمان افروز بیان دیا جس کا تصور بھی دشمنانِ اسلام نہیں کرسکتے۔ اپنے
اکلوتے بیٹے کی رحلت پر بہادر ماں نے مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرانے یا مدثر
کے احتجاج کا حصہ نہ ہونے کا رونا رونے کی بجائے سوال کیا ”بچہ کی غلطی کیا
تھی، کیا پولیس کو اجازت ہے کہ اگر کوئی اپنے حق کے لئے آواز اٹھائے تو
گولی ماردو… اسلام زندہ باد بول دینے پر پولیس کو گولی مارنے کا حق کس نے
دیا۔ سرکار کہاں سوئی ر ہی ہے؟ جس ملت کے اندر ایسی مائیں ہوں جو اس غم کی
گھڑی میں بھی ببانگ دہل اعلان کریں کہ ’’اسلام زندہ باد تھا، اسلام زندہ
باد ہے اور اسلام زندہ باد رہے گا۔ اسے سرکار یا دنیا کی کوئی بھی طاقت
نہیں روک سکتی میرا سولہ سال کا بچہ، اپنے اسلام کے لئے شہید ہوا ہے۔ اس کو
کون خوفزدہ کرسکتا ہے۔ انہیں عزیمت کے نمونوں نے اسلام کا پرچم بلند کررکھا
ہے۔
شہید مدثر کی ماں کو فخر ہے کہ ان کے بیٹے بت حضور ﷺ کے لئے اپنی جان دی
ہے۔ اس نے شہید کا مرتبہ پایا ہے،انہیں اس کا کوئی غم نہیں ہے۔ اس بہادر
ماں نے ڈرنے کے بجائے پرزور مطالبہ کیا کہ جس نےان بیٹے کو مارا ہے، اسے
سزا ملنی چاہئے۔ انہوں نے الزام لگایا آپ لوگ سیٹنگ کئے ہوئے تھے کہ جلوس
نکلے گا تو فائرنگ کردینا ہے۔ سرکار نے یہ سیٹنگ کر رکھی تھی۔ وہ سارا لزام
سرکار کو دیتی ہوں اور کہتی ہیں کہ یہ مودی سرکار کی سازش ہے۔اگر وہ اچھا
ہوتا تھا اتنا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ایک بیدار مغز ماں استفسار کرتی ہے کہ
اتنی فورس کیوں رکھی گئی تھی، حالات کو سنبھالنے کے لئے یا گولی چلانے کے
لئے؟ انہوں نے پوچھا کہ اگر حالات پر قابو پانے کے لئے فورس تعینات کی گئی
تھی تو پھر فائرنگ کیوں کی گئی؟ جس امت مسلمہ میں ایک ناخواندہ ماں اس قدر
دلیر ہواس کو مودی اور یوگی کیا ڈرائیں گے؟ مدثر کی وا لدہ نے اپنے بیان سے
ساحر لدھیانوی کے ان اشعار کی عملی تفسیر پیش کردی؎
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
|