کرونا نے سب سے زیادہ متاثران لوگوں کو کیا جو کمزور تھے
، یہ کمزوری عصابی اور جسمانی دونوں طرح کی تھی ۔ یہاں یہ مقولہ بھی صادق
ہوتا دیکھا گیا کے جو ڈر گیا وہ مرگیا اور باقاعدہ مر گیا ۔ انسان کو اپنی
صلاحتوں سے آگہی تک رسائی آسانی سے نہیں ملتی اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو
وہ گنتی لوگ ہوتے ہیں ۔ عمومی مثال ہے کہ ایک گاڑی کا صحیح کرنے والا یا
پھر ایک طبیب (انسانی مشین کو ٹھیک کرنے والا) جس کیلئے آپ گھنٹوں انتظار
کرتے ہیں یقینا اس کی کوئی خاص وجہ وہوگی یا پھر یونہی ۔ قدرت نے تو واضح
طور پر بتا دیا ہے کہ انسان قدرت کی تخلیق میں (جس کا کوئی شمار نہیں ہے)
سب سے افضل مرتبے پر فائز ہے ۔ بدقسمتی سے انسان تو بہت ہی چھوٹے سے نظام
میں کسی خاص مرتبے کی چاہ میں اس دار فانی سے کوچ کرجاتا ہے یعنی دنیا میں
اپنے ہونے کا مقصد جانے بغیر ہی ، قدرت کی عطاء کی گئی برتری کے مزے لئے
بغیر ہی چار کاندھوں پر قبر کی نظر ہوجاتا ہے ۔
تاریخِ انسانی میں اس بات کے واضح ثبوت ملتے ہیں کہ انسانوں کو مخصوص
نظریوں کی تائد کرانے کیلئے کوششیں کی جاتی رہی ہیں ، مخصوص نظاموں کے نفاذ
کیلئے تیار بھی کیا گیا ۔ اپنے مختلف مضامین میں ا س حقیقت پر بارہا روشنی
ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ قدرت کے دئے گئے اعلی منصب تک رسائی حاصل کرنے کی
کوشش ہر کوئی نہیں کرتا اور اگر کرتا بھی ہے تو اسے رسائی اسکی کوشش کے
حساب سے دے دی جاتی ہے یعنی جس نے حقِ بندگی ادا کی اسے اسکی بندگی کا صلہ
دے دیا گیا ۔ کوئی بڑی مشکل سے حدود و قیود سے ماورا ہوکر اس منصب پر
پہنچنے کی سعی کرتا ہے پھر قدرت اسے مرتبہ بھی اس کی کوشش کے عین مطابق دے
دیتی ہے اور شائد اپنی حدود و قیود میں داخل کرلیتی ہے ۔
انسان کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ذاتی تگ و دو سے محروم رہتا ہے یعنی
جاننے کی کوشش صرف اتنی بروئے کار لاتا ہے جتنی کے وہ با آسانی ہضم کرسکے
۔ یقینا قدرت نے انسان کے اندر ایسے آلات نصب کر رکھے ہیں جنہیں ہم عام
طور پرمحسوس کرنے والا آلہ( sensor )کہتے ہیں جو کسی غیر مناسب روئیے یا
عمل پر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں ۔ سائنسدانوں نے جو مختلف محسوس کرنے
والے آلات (sensors) بنائے ہیں ان تک رسائی انسان میں موجود یا نصب شدہ
محسوس کرنے والے آلات سے متاثر ہوکر ہی ایجاد کئے ہیں ۔ واضح کرتے چلتے
ہیں کہ انسانوں میں نصب کئے ہوئے یہ محسوس کرنے والے آلات کون سے ہیں ،
کسی بھی گرم یا سرد شے کو چھونے سے فوراً پتہ چل جاتا ہے ، کڑوی اور میٹھی
شے کا پتہ چلا لیتے ہیں ، خوش و بد بو کا فرق جان لیتے ہیں ، اچھی اور بری
آوازوں میں تفریق کرلیتے ہیں ۔ اپنے انجام سے بے خبر چلتا رہتا ہے ۔
خواہشوں کی غلامی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کے
اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور وہ تو وقت اور حالات کی وجہ سے محتاط
رویہ اختیار کیا ہوا ہے تو وہ حقیقت میں ناصرف اپنے آپ سے بلکہ سب سے غلط
بیانی کر رہا ہوتا ہے جس پر سے پردہ آخر کار اٹھ ہی جاتا ہے ۔ ہ میں
گناہوں میں اس طرح سے مبتلا ء کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی ہ میں انکی حقیقت
بتائے اور انہیں کرنے سے روکے تو لگتا ہے کہ انہیں نا کرنے سے گناہ ہوجائے
گا اسکی بنیادی وجہ یہ کہ ایک عمل نسل در نسل چلا آرہا ہوتا ہے تو اسے
بدلنے کیلئے آپکی فطرت اجازت نہیں دیتی ، اس بات کی مماثلت ہمارے پیارے
نبی ﷺ کے دور سے چلی آرہی ہے جب آپ ﷺ کے عزیز و اقارب یہ جانتے ہوئے کے
آپ ﷺ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سراسر سچ اور حق ہے لیکن اپنی شان و شوکت جو
انہیں انکے آباءو اجداد سے ورثے میں ملی تھی کیسے چھوڑ سکتے تھے اور
لامحالہ وہ وہی کرتے رہے جو وہ کرتے تھے ۔
جب آپ سمجھوتا کرلیتے ہو تو کمزور ہوجاتے ہو، سمجھوتا کرنے کیلئے یہ ضروری
نہیں کہ آپ کمزور ہیں تو اسلئے آپ پر فرض ہے کہ آپ سمجھوتا کریں کیونکہ
آپ یہ سوچ لیتے ہو کہ اگر سمجھوتا نہیں کیا تو زبردستی ہم سے یہ بات
منوالی جائے گی جب اختیار موجود ہے تو عافیت اسی میں ہوتی ہے اسے استعمال
کرلیا جائے بصورت دیگر طاقتور اپنا چاہا تو کر کے ہی رہے گا ۔ ہم نے ایک
مضمون لکھا تھا من کا بھوت بنگلہ ، جس میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی تھی
کہ ہم اپنے اندر خیالات سے پیدا کئے گئے خوف پالتے ہیں اور انکی خوب پرورش
کرتے ہیں اور اس خوف کا عظیم ترین مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ہ میں فقط غلام
بنا کردنیا کے سامنے پیش کرتا رہے ۔
آج ہماری ایمانی کمزوری ہماری معاشرتی ، معاشی اور اخلاقی کمزرویوں کی
صورت میں کھل کر سامنے آچکی ہیں اور ہم اپنی بے بسیوں کا رونا گانا ساری
دنیا کے سامنے کرتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔ اس کے برعکس تاریخ واشگاف الفاظ
میں گواہی دیتی سنائی دے رہی ہے کہ کتنے تلخ حالات محدود ترین بلکہ نا ہونے
کے برابر وسائل کیساتھ حضرت محمد مصطفی ﷺ اور انکے اصحاب ;230; نے آدھی سے
زیادہ دنیا پر ناصرف حکمرانی کر کے دیکھائی اور لوگوں کے دلوں پرتاقیامت تک
راج کرتے رہیں گے ۔ آج ساری دنیا بلخصوص ترقی یافتہ اقوام میں آپﷺ کی
قائدانہ صلاحتوں کا ڈنکا بج رہا ہے اور ڈنکا وہ بجا رہے ہیں جنہوں نے ان
تمام نظاموں پر تحقیق کی جنہیں دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی اور کی
جارہی ہے ۔ کمزوری کا تعلق غربت سے بلاواسطہ جوڑا جاسکتا ہے کیونکہ جب
انسان کے پاس کھانے کیلئے غذا نہیں اور بیماری میں دوا نہیں ہوگی تو انسان
کمزور ہی ہوتا جائے گا ۔ حکم الامت حضرت علامہ محمد اقبال نے بے خوفی کی
کیا خوب وضاحت کر دی ہے کہ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
ہم نے اللہ کا دیا ہوا انعام یہ سرزمین پاکستان اپنی خواہشات کے عوض گروی
رکھ چھوڑی ہے اور ان خواہشوں کی تکمیل کیلئے اس آگ کی بھٹی میں عوام نے
جلنا ہے ۔ عوام نے اس وقت تک جلنا ہے جب تک اپنی کمزوری کو اپنی طاقت نہیں
بنا لیتے اور اپنے ملک کے فیصلے اپنے لوگوں کی فلاح کے فیصلے اپنے وسائل
اور اپنی قوت ارادی اور خوداری کے فلسفے اپنی سرزمین پر نہیں ہونے لگتے ۔ ہ
میں یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کمزور نہیں ہیں ہ میں باقاعدہ کمزور کیا
گیا ہے ، اب ہ میں ان گرہوں کو کھولنا ہے جنہیں لسانیت، فرقہ واریت وغیرہ
کے نام دے کرہمارے درمیان لگائی گئی ہیں اور ہ میں بانٹا گیا ہے ۔ اللہ پر
یقین رکھیں اس نے ہ میں کمزور نہیں بنایا اور ناہی وہ ہ میں کمزور دیکھنا
چاہتا ہے ، بس ضرورت اس پر یقین کی ہے پھر سب گرہیں کھل جائیں گی پھر سب
راستے ہمارے ہونگے ۔ ان شاء اللہ ۔
|