موازنہ۔۔۔ سمجھو تو ایک بیماری ہے۔

موازنہ کی حقیقت اور اس کے ہماری زندگیوں پر پڑتے گہرے اثرات

موازنہ کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس سے نہ صرف کرنے والا تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ جس کا موازنہ کیا جا رہا ہوتا ہے وہ بھی شدید اذیت کا شکار ہوتا ہے۔

جی ہاں! ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں ہم میں سے ایک کثیر تعداد موازنہ کرنے کی بیماری کا شکار ہے۔ کہیں والدین اپنے بچوں کا یا تو آپس میں موازنہ کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی اپنے بچوں کا دوسروں کے بچوں کے ساتھ، کہیں بیوی اپنے شوہر کا موازنہ اپنے والد سے کر رہی ہوتی ہے تو دوسری طرف بیٹی اپنی ساس کا موازنہ اپنی ماں سے کرتی نظر آتی ہے۔

یہاں میں ایک بہت زبردست انگریزی کا quote شامل کرنا چاہونگی، اردو میں ترجمہ اس لۓ نہیں کر رہی کیونکہ اکثر ترجمہ کرنے سے بات اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہے یا پھردل اور دماغ پر صحیح طور پر اثرانداز نہیں ہوتی۔
The fastest way to kill something special, is to compare it to something else.

بحیثیت والدین ہم اکثر دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے بچوں کا آپس میں موازنہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ایک بچہ ذہین ہے اور دوسرے بچے اس کے مقابلے کے نہیں تو ہم انہیں آپس میں compare کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم یہ یکسر بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کو کوئ نہ کوئ special skill, quality یا ability دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ جوبچہ بہت ذیادہ ذہین ہو یا پڑھائ میں اچھا ہو وہ کھیل میں بھی اتنا ہی active ہو۔ اسکے برعکس جو بچہ پڑھائ میں تھوڑا کمزور ہو وہ کسی کھیل میں ذبردست مہارت رکھتا ہو اور شاید اسی میں وہ اپنا نام بنا پاۓ۔ اسی طرح کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
Everyone is born unique. No comparison is possible.

جب ہم اپنے بچوں کو compare کر رہے ہوتے ہیں تو یا تو وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے اور self confidence کھو بیٹھتے ہیں یا پھرjealous ہو کر بہن بھائ ایک دوسرے سے ہی بد ظن ہو جاتے ہیں اوریوں پیارومحبت کا جذبہ بھی ماند پڑنے لگتا ہے۔ اس سارے عمل سے والدین خود بھی پریشان رہتے ہیں اور اس سے بچوں کی زندگیوں پر کبھی نہ ختم ہونے والا گہرا، تلخ اور منفی اثرپڑتا ہے۔

اپنی زندگیوں کو ہر قسم کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لۓ ہمیں کوشش کرنی چاہیۓ کہ ہم رشتوں کو آپس میں compare کرنا چھوڑ دیں۔ ہمیں یہ فن بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص کو اسکے مثبت اور منفی خصوصیات کے ساتھ قبول کریں۔ آپ یقین کریں کہ ایسا کرنے سے ہم خود بھی اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔ (ان شاء اللہ)


 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 4 Articles with 7221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.