مجبوری و بے چارگی

علامہ اقبال کی ایک شعرہ آفاق نظم (والدہ مرحومہ کی یاد میں )سوزو گداز کا ایک ایسا جہاں سمیٹے ہوئے ہے جو بڑے بڑوں کو خون کے آنسو رلادیتی ہے۔یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب علامہ اقبال تعلیم کی غرض سے عازمِ لندن ہوئے تھے اور ان کی عدم موجودگی میں ان کی والدہ ماجدہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔انھیں اپی والدہ سے بے پناہ محبت تھی لیکن د نیاوی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اپنی والدہ کا آخری دیدار کرنے سے قاصر تھے کیونکہ سفری پابندیوں اور مشکلات کی وجہ سے وہ ہند ستان پہنچ نہیں سکتے تھے۔اپنی والدہ کی رحلت کے اس صدمہ نے انھیں نڈھال کر دیا تھا ۔اپنی والدہ کی محبت میں انھوں نے جو طویل نظم تخلیق کی تھی وہ ادب کا ایسانادر شہ پارہ ہے جو ہر انسانی دل میں ممتا کی عظمت کے چراغ روشن کردیتا ہے ۔(دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔،۔ پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے) حیران کن امر یہ ہے کہ اس نظم کا آغاز انسانی مجبوریوں سے کیا گیا ہے حالانکہ علامہ اقبال کی ساری شاعری تو عشق وو فا،قربانی،، حرکت اور جہدِ مسلسل سے عبارت ہے (اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔،۔سرِ آدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی) لہذا تصورِ خودی کے علمبردار سے مجبوری و بے بسی کا تصورچہ معنی دارد؟ میرے عزیز دوست ڈسٹرکت ایند سیشن جج عابد حسین قریشی جن کی پہلی تصنیف( عدل بیتی )آجکل علمی حلقوں میں موضوعِ ِ بحث بھی ہے اور داد بھی سمیٹ رہی ہے ان کا استدلال بھی یہی ہے کہ انسانی پاؤں میں کہیں نہ کہیں مجبوریوں کی زنجیریں پہنا دی گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھی سراپا مجبو ر و بے بس ہو جاتاہے۔ اپنے استدلال کیلئے ان کے پاس ٹھوس دلائل بھی ہیں ۔میرے لئے یہ امر حیران کن ہے کہ تصورِ خودی کا خا لق اقبال اپنی سب سے قیمتی متاع کے چھن جانے پر اپنی نظم کا آغاز کائناتی مجبوری سے کیوں کرتا ہے؟۔،۔
(ذرہ ذرہ دہر کا زندانی ِ تقدیر ہے۔، ۔پردہ ِ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے)۔،۔(آسماں مجبور ہے شمس وقمر مجبور ہیں۔،۔انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں )
ہے شکست انجام غنچے کا سبو گلزار میں۔،۔سبزہ و گل بھی ہیں مجبورِ نمو گلزار میں )۔، ۔(نغمہ ِ بلبل ہو یا آوازِ ِ خاموشِ ضمیر،۔ہے اسی زنجیرِ عالم گیر میں ہر شہ اسیر)
(آنکھ پہ ہوتا ہے جب یہ سرِ مجبوری عیاں ۔،۔خشک ہو جاتاہے دل میں اشک کا سیلِ رواں)

بات یہ نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایک کائناتی دائرہ ہے جس میں ہر شہ اپنے مدار کے گرد گھوم رہی ہے اور نظم کے ابتدائیہ میں علامہ اقبال انہی کائناتی عوامل کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔مادی دنیا کے عناصر اور ہیں جبکہ انسانی زندگی کے عوامل اور ہیں۔مادی دنیا اور روحانی دنیا الگ الگ دنیائیں رکھتے ہیں ایک کا تعلق جہانِ آب وگل سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق انسانی ادراک، فہم و فراست،علم و حکمت اورعقل و دانش سے ہے ۔ان دونوں سچائیوں نے ساتھ ساتھ چلنا ہے لیکن دونوں کی دنیائیں بالکل الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے متصل ہیں اور انھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ انسان کو ان دونوں سچائیوں کی موجودگی میں سفرِ زندگی طے کرنا ہے۔کبھی کبھی وہ مجبوریوں کے ہجوم میں مایوس ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی وہ فراوانیوں ،نوازشوں اور مسرتوں کی رو میں شادا ں و فرحاں ہو جاتا ہے۔انسان مختلف کیفیتوں کا حامل ہے کبھی مجبوری زنجیرِ پا بن جاتی ہے اور کبھی سرشاری اسے فضاؤں میں اڑنے کا اذن دیتی ہے ۔خالقِ کائنات نے اس جہانِ آب و گل کو تخلیق کرنے کے بعد اس کے اندر کائناتی قوانین کی روح رکھ دی ہے جس سے یہ کارگاہِ ہستی رواں دواں ہے۔کمال یہ ہے کہ اﷲ تعالی خود بھی اپنے قائم کردہ کائناتی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتا ،وہ کسی کی ذاتی خو شنودی کی خاطر اپنے قوانین میں تبدیلی نہیں کرتا ۔ارشادِ خداوندی ہے کہ (اﷲ اپنی سنت میں تبدیلی نہیں کرتا )اس اعلان کے معنی ہیں کہ کائناتی قو تیں اپنی رفتار اور اپنے انداز سے جاری و ساری رہتی ہیں(کشتی کسی کی درمیاں ہو یا کہ پار ہو) سے اﷲ تعالی کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا کیونکہ اس نے کشتی کو پار لگانے اور محفوظ کرنے کا طریقہ کار انسان کو سمجھا رکھا ہے لہذا اب اگر وہ خود ہی اپنی کشتی کو ڈبونے پر بضد ہو جائے توکوئی کیا کر سکتا ہے ۔اﷲ تعالی نے اس کائنات کو چلانے کیلئے پیمانے قائم کر رکھے ہیں جھنیں کسی بھی حالت میں بدلا نہیں جاتا ، اگر ایسا کیا جائے گا توپھر پورا نظامِ کائنات دھڑام سے زمین بوس ہو جائیگا ۔انہی کائناتی قوانین کی موجودگی کو اقبال نے اپنی نظم کا موضوع بنایا ہے اور یہی اس کی مجبوری اور بے کسی کو عیانی عطا کرتی ہے۔حالانکہ ان کی سوچ تو کسی اور جہاں کا پتہ دیتی ہے (ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا ۔،۔ وہ تو خود ہے فراخیِ افلاک میں خوارو زبوں)۔،۔

پانی کا کام نشیب کی طرف بہنا ہے۔زمین کاکام سورج کے گرد گھومنا ہے۔سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہو تا ہے۔چاند سورج سے روشنی مستعار لیتا ہے ۔کہکشائیں او ر سیارے اپنے اپنے مدار میں تیررہے ہیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔وہ لاکھوں کروڑوں صدیوں سے قائم کردہ روش پر رواں دواں ہیں اور جب تک یہ کائنات موجود ہے وہ اپنی اس روش کو ترک نہیں کر سکتے ۔موسموں کی آمد،خزاں اور بہار کے قصے اور زمین سے اناج کی فراہمی انسانی زندگی کیلئے ضروری ہے اور وہ انسان کیلئے زمین پر پہلے سے ہی رکھ دی گئی ہے تا کہ انسانیت کو خوردو نوش کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔بارشوں کی آمد ، ندیوں ،نالوں،نہروں کا بہاؤ اور دریاؤں کی طغیانی اپنے اپنے وقت اور موسم میں انسانی زندگی کی بقا کیلئے پانی کی ترسیل کا کام سر انجام دیتی ہے ۔ہائیڈروجن نا ئٹرو جن اور دوسری گیسیں جو انسانی زندگی کیلئے ضروری ہیں اس کرہِ ارض کو عطا کر دی گئی ہیں اور یوں وہ ایک لگے لپٹے نظام سے انسانی خدمت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں ۔انسان اپنے رہن سہن اور بودو باش میں اناج اور زرعی اجناس کی کمی سے دوچار نہیں ہوتا بلکہ انتہائی سکون اور طمانیت سے اپنی زندگی کے ماہ و سال گزارتا چلا جاتا ہے۔فطرت کی ساری جہتیں جن سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے اور جو انسانی زندگی پر اپنے اثرات رکھتی ہے اقبال اپنی شاعری میں اسے مجبوری کا نام دے رہا ہے ۔یہ مجبوری جدو جہد،کوششِ پیہم، ،اعمال ،افعال ،سوچ اور کردار سے بحث نہیں کرتی جبکہ یہ انسانی ترقی کیلئے مہمیز کاکام دیتی ہے ۔ رکاوٹیں ہمیشہ انسان پر ترقی اور خوشخالی کے دروازے کھولتی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ کائناتی عناصر میں تبدیلی ا نسانی پہنچ سے باہر ضرور ہوتی ہے لیکن انسان کائناتی عناصر کو انسانی ترقی کیلئے استعمال کر سکتا ہے کیونکہ اﷲ تعالی نے کائنات کی ہر شہ کو انسان کیلئے مسخر کر دیاہے ۔انسان کو علم اور عقل و دانش کا ایسا جوہر عطا کیا گیا ہے جس کی بدولت انسان سائنسی علموم کوانسانی ترقی اور آسانیوں کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔علم و حکمت اور عقل و دانش ایک ایسا جو ہر ہے جسے مال و و دولت اور لعل و زرو جواہرکی مدد سے خریدا نہیں جا سکتابلکہ اسے تصورِ خودی ، قوتِ عشق ،جدوجہد اور قربانی کی بدولت کائناتی غلبہ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔فکرِ اقبال کی بلندی دیکھئے ۔
(عبث ہے شکوہِ تقدیرِ الہی۔، ۔تو خود تقدیرِ الہی کیوں نہیں ہے )۔،۔(تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز۔،۔ تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر)۔،۔


 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.