رمضان اور تقویٰ ::از:ڈاکٹر رخسانہ جبین

یایھا الذین امنو اکتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون !(سورہ بقرہ83)
’’اے لو گوں جو ایمان لائے ہو ،تم پر روزے فرض کر دئیے گئے ہیں،جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروں پر فرض کیے گئے تھی‘‘

آئیے رمضان میں ایک نیا اپنا آپ دریا فت کر یں ۔فر ضیت رمضان کا مقصد اللہ ر ب کر یم نے حصول تقویٰ بتا یا ۔

یہ تقویٰ کیا ہے ؟
تقویٰ کے لفظی معنی خوف کے ہیں ، اصطلا ح میں یہ انسان کے اندر اس محا سب کا نام ہے جو اس کو ہر قدم پر اللہ کی نا فر مانی سے رو کتا ہے اور انسان کی را ہنمائی کر تا ہے کہ وہ دنیا کے خارزار میں جہا ں ہر طرف خو اہشات ،میلا نات ، تر غیبات ،گمرا ہیوں اور نا فر ما نیوں کی خا ر دار جھا ڑیاں ہیں، ان سے دا من بچا کر اللہ کی اطا عت و فر مانبرداری اور اسکی خو شنودی کے راستے پر چل سکے جو با لآخر فلا ح و کا مرا نی کی منزل تک پہنچا دے ۔

یہ تقویٰ ہی ہے جو ایک جا نب بند ے کو اللہ کی نا فر مانی سے رو کتا ہے اور دوسری جا نب یہ اسلامی معا شرے کی ایک قوت ِ نا فذہ ہے جو بغیر کیسی پو لیس اور قانون ساز ادارے کی، انسانوں کو ایک دوسرے پر دست درازی سے رو کتے ہو ئے حقوق العباد کی درست ادائیگی کی ضمانت فرا ہم کر تا ہے ۔گو یا مختصر الفا ظ میں اپنے آپ کو ہر حال میں اللہ کی اطاعت پر قائم ر کھنے کا نام ہی تقویٰ ہی۔ خو اہ انفرادی معاملہ ہو یا اجتماعی، گھر کے اندر ،با ہر ،اہل خا نہ کے ساتھ ،کارو بار ،تجا رت ،ملا زمت ،زیر دستوں کے ساتھ معا ملہ ہو سیاست، عدلیہ ،پا رلیمنٹ ،حکومت ہر معا ملہ اللہ کے حکم کے مطابق کر نا تقویٰ ہے اور اس کے بر عکس ہر راستہ فجور کا را ستہ ہے اور فسق و فجورشیطان کا را ستہ ہے ۔اسلام کے نزدیک دنیامیں فساد کی جڑ اور انسا نیت کی تباہی و بر بادی کا اصلی سبب ’’فجور‘‘ ہی۔ وہ اس فجور کے سانپ کو ہلاک کر دینا چا ہتا ہے یا کم سے کم اس کے زہر یلے دا نت تو ڑدینا چا ہتا ہے تا کہ اگر یہ سا نپ جیتا رہے تب بھی انسا نیت کو ڈسنے کی طا قت اس میں با قی نہ رہی۔ اس کام کے لیے وہ نو ع ِ انسا نی میں سے ان لو گوں کو چُن چُن کر نکا لنا اور اپنی پا رٹی میں بھر تی کر نا چا ہتا ہے جو متقیا نہ رحجان ِطبع ر کھتے ہو ں ۔فجور کی جا نب ذہنی رحجان (ent of Mind ) ر کھنے والے لو گ اس کے کسی کام کے نہیں ،خو اہ وہ اتفاق سے مسلمانوں کے گھر پیدا کیے گئے ہوں اور مسلم قوم کے درد میں کتنے تڑ پتے ہو ں ۔اسے دراصل ضرورت ان لو گوں کی ہے جن میں خو د اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جو آپ اپناحساب لینے والے ہوں ،جو خود اپنے دل کی نیتوں اور ارادوں پر نظر رکھیںجن کو قا نون کی پا بند ی کے لیے کسی خارجی د بائو کی حاجت نہ ہو بلکہ خود ان کے اپنے با طن میں ایک محا سب اور آمر بیٹھا ہو جو انہیں اندر سے قا نون کا پا بند بنا تا ہو اور ایسی قا نون شکنی پر بھی ٹو کتا ہو جس کا علم کسی پولیس ،کسی عدا لت اور کسی رائے عام کو نہیں ہو سکتا وہ ایسے افراد چا ہتا ہے جنہیں یقین ہو کہ ایک آنکھ ہر حال میں انہیں دیکھ رہی ہے جنہیں خو ف ہو کہ ایک عدا لت کے سا منے بہر حال انہیں جا نا ہے جو دنیوی منا فع کے بندے ،ہنگا می مصا لح کے غلام اور شخصی یا قومی اغراض کے پر ستار نہ ہوں ۔جن کی نظر آخرت کے اصلی و حقیقی نتا ئج پر جمی ہو ئی ہو ۔جن کو دنیا کے بڑے سے بڑے فا ئدے کا لالچ یا سخت سے سخت نقصان کا خوف بھی خدا وند عالم کے دیئے ہوئے نصب العین اور اس کے بتا ئے ہو ئے اصول ِ اخلا ق سے نہ ہٹا سکتا ہو۔ جن کی تمام سعی و کو شش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو ،جنہیں اس امر کا پختہ یقین ہو کہ آخر کار بند گی حق ہی کا نتیجہ بہتر اور بند گی با طل ہی کا انجام بُرا ہو گا ،چا ہے اس دنیامیں معا ملہ بر عکس ہو۔

فجور کا را ستہ رو کنے اور تقویٰ کی صفت پیدا کر نے اور اس کو مستحکم کر نے میں رو زے سے زیا دہ طا قت ور اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا ۔ایک شخص سے کہا جا تا ہے کہ رو زہ تم پر اللہ نے فر ض کیا ہے ۔صبح سے شام تک کچھ نہ کھا ئو پیو ۔کو ئی چیز حلق سے اتارو گے تو تمھارا رو زہ ٹو ٹ جا ئے گا ۔لو گو ں کے سا منے کھا نے پینے سے اگر تم نے پر ہیز کیا اور در پر دہ کھا تے پیتے ہو تو خواہ لو گوں کے نزدیک تمھارا شمار رو زہ داروں میں ہو مگر خدا کے نزد یک نہ ہو گا ۔تمھارا رو زہ صحیح اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ خدا کے لیے رکھو ، ورنہ دوسری کسی غر ض مثلا ً صحت کی درستی یا نیک نامی کے لیے رکھو گے تو اس دنیا میں کو ئی انعام نہ ملے گا اور تو ڑو گے یا نہ رکھو گے تو یہاں کوئی سزا نہ دی جائے گی ۔یہ چند ہدا یات دے کر آد می کو چھوڑدیا جا تا ہے کو ئی سپا ہی ،کو ئی ہر کا رہ ،کو ئی سی آئی ڈی کا آدمی اس پر مقرر نہیں کیا جا تا کہ ہر وقت اس کی نگرا نی کر ے ۔زیا دہ سے زیا دہ را ئے عا مہ اپنے دبائو سے اس کو اس حد تک مجبور کر سکتی ہے کہ دو سروں کے سا منے کچھ نہ کھا ئے پیئے ،مگر چوری چھپے کھا نے پینے سے اس کو رو کنے والا کو ئی نہیں اور اس بات کا حساب لینا تو کسی رائے عا مہ یا کسی حکو مت کے بس ہی میں نہیں کہ وہ رضائے الٰہی کی نیت سے رو زہ ر کھ رہا ہے یا کسی اور نیت سے ۔گو یا پورے تیس دن ،20 گھنٹے ایک فر د کو ڈسپلن کے ما تحت رکھا جا تا ہے ۔مقرر وقت تک سحری ،مقرر وقت پر افطار،جب تک اجا زت ہے اپنی خوا ہشات نفس پوری کر تا رہے اور جب اجا زت سلب کر لی جائے تو ہر اس چیز سے رک جائے جس سے منع کیا گیا ہے ۔

(غور فر مائیں! کتنا زبر دست تر بیتی کورس ہے جس سے تمام مسلمان امت کوبیک وقت گزارا جا تا ہے تاکہ ان کے اندر تقویٰ کے ساتھ ساتھ اجتما عیت کا شعور بھی بیدار ہو ۔اور دیگر تمام مطلوب صفات بھی جو امت مسلمہ کو اس کے بنیادی فر یضے کی اقامت میں معاون ہوں )

گویا رمضان خوا ہشات نفس میں انضبا ط کا مہینہ ہے ۔بقول شاہ ولیٰ اللہ ؒ انسان و جن کے علا وہ دنیامیں دو طرح کی مخلو قات ہیں ۔

فر شتے جو حیوا نی خصو صیات سے مبرا ہیں ۔ بھوک ،شہوت ،غم ،خو شی کے احسا سات سے عاری ہیں نہ جہل میں مبتلا ہو تے ہیں نہ ظلم کر سکتے ہیں ۔دوسری مخلو قات میں جا نور ہیں جو علم حا صل کر سکتے ہیں نہ عدل جو ہر وقت جسمانی تقا ضے پورے کر نے میں مشغول رہتے ہیں ۔

انسان میں دو نوں خصو صیات ر کھ دی گئی ہیںملکو تی صفات (فر شتوں وا لی ) اور خیوانی صفات ۔اگر حیو انی صفا ت غا لب آجا ئیں تو انسان نفس پر ست اور پستی کا شکار ہو جا تا ہے اور’’ شر الدّ واب ‘‘کہلا تا ہے اور اگر ملکو تی صفات غا لب آجا ئیں تو انسان اعلیٰ صفات کا حا مل ہو جا تا ہے ۔

حقیقی کا میا بی یہ ہے کہ خو اہشات نفس و ہو س عقل کے تا بع ہو ں ،نفس ِ حیو انی ، نفس ِرو حا نی کی اطاعت کر ے ۔ر مضان میں انسان تیس دن تک ان خو اہشات نفسا نی کو مغلو ب کر نے اور انضبا ط ِ نفس کی مشق کر تا ہے ۔انضبا ط ِ نفس کی اس مشق کے لیے بظا ہر انسا ن کی صرف دو خو اہشوں(یعنی غذا لینے کی خوا ہش اور صنفی خواہش ) کو چھا نٹ لیا گیا ہے اور ڈسپلن کی ساری پابند یاں صرف انہی دو پر لگا ئی گئی ہیں ۔لیکن رو زے کی اصل رو ح یہ ہے کہ آدمی پر اس حا لت میں خدا کی خدا وندی اور بند گی و غلا می کا احسا س پوری طر ح طاری ہو جائے اور وہ ایسا مطیع امر ہو کر یہ سا عتیں گزارے کہ ہر اس چیز سے رکے جس سے خدا نے رو کا ہے اور ہر اس کام کی طرف دوڑے ، جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ رو زے کی فر ضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کر نا اور نشوو نما دینا ہے نہ کہ محض کھا نے پینے اور مبا شرت سے رو کنا ۔دیکھا جائے تو آج کا انسان انہی خو اہشات ِنفس کے ہا تھوں افرا ط و تفر یط کا شکار ہو کر شا ہراہ اعتدال سے بُری طر ح ہٹ چکا ہے ۔ مثلاََ خواہش طعام کی کثرت پر اﷲ نے خود فرمایا۔
والذ ین کفرو ا یتمتعون و یا کلون کما تا کل الانعام والنار مثوی لھم (سورۃ محمد: 12)
’’اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے‘‘

گویاکھا نا محض ضرورت زند گی نہیں بلکہ ایک صنعت بن چکا ہے اور دن رات نت نئی تر کیبات بتا نے کے چینل کھل چکے ہیں .ملٹی نیشنل کمپینوں نے سارے صحت افزا کھا نوں کی جگہ لے لی ہے اور ایسے مضر صحت کھا نے مسلمان مما لک میں فرا ہم کیے جا رہے ہیں جن میں حلال وحرام کی پروا ہ بھی کم ہے ۔اور اسی لذت کام و دہن کی خا طر زیادہ پیسے کما نے کی دوڑ نے اعلیٰ انسا نی اقدار کو داؤ پر لگا دیا ہے ۔نا جا ئز منا فع کی خا طر حیااور اخلاق سے عاری اشتہا رات ایک دوسرے سے آگے بڑ ھنے اور تکاثر و تنا فس میں شرافت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق ر کھ دینا معمول بن چکا ہے ۔بڑے پیمانے پر کر پشن کی وجہ’’ ھل من مزید‘‘ اور پیٹ کی پو جا کے سوا اور کیا ہی؟ڈا کہ ،چوری لو ٹ مار بھی اسی کی وجہ سے ہو تی ہے ۔

اسی طر ح جنسی خو اہش کو لیجیے ۔جو اللہ نے انسان اور جا نوروں کے اندر بقا ئے نسل کے لیے ر کھی اور انسا نوں کے اندر صنفین میں کشش اس کا ذریعہ بنتی ہے، جو انہیں سا تھ ر ہنے کے لیے لا زم و ملزوم بنا تی ہے۔ اللہ نے اس پر حیاکا پہر ا بٹھا کر اس کو ایک حد کے اندر پا بند کیا ۔عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔
ھن لباس لکم وانتم لباس (البقرہ 187)
’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں تم ان کے لیے لباس ہو‘‘

اور نکاح کے دائرے کے اندر حدود کا پا بند کر کے معا شرے کو ایک پا کیز گی عطا کی اور حکم دیا کہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوہا۔۔(سورۃ البقرہ )

لیکن جب انسان نے نفس کی با گیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیں تو فن کی انڈسٹری بن گئی ۔جس کا اوّل و آخر مقصد انسان کی شہو انی خواہشات کی تشکیل ٹھہری اور آج کا انسان ۔۔۔۔آہ!آج کا انسان اس راہ پر اتنی افراط و تفر یط کا شکار ہو چکا ہے کہ جا نور بھی حیران ہو تے ہو نگے اور خو د شیطان بھی بغلیں بجا تا ہو گا ۔نہ حیا رہی ، نہ لباس ،نہ حدود ، نہ پا بند یا ں، بیڈ رو مز سے لے کر چو کو ں چو راہوں تک ہو س کے مظا ہر، دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔

اخبا رات سے لے کر رسائل اور درسی کتب تک ان تصا ویر سے مزین ہو گئیں جو نفس ِشیطا نی کی تسکین کا با عث ہو، اور جدید تعلیم یا فتہ انسان نے قسم کھا لی کہ ہر اس قا نون کو تو ڑ کر دم لے گا جو اس کی خوا ہش ِ نفس میں رکا وٹ ہو چا ہے ہم جنس پر ستی ہو یا اس کوئی اور مظا ہر !
والعصر ہ ان الا نسان لفی خسر ’’زمانے کی قسم انسان در حقیقت خسارے میں ہی‘‘
آج زمانہ بہت بڑا گو اہ ہے کہ انسان الہا می ہدا یت سے منہ مو ڑ کر کس طرح خسا رے کے را ستے پر سر پٹ دوڑ رہا ہے ۔

رمضان اس بھٹکے ہو ئے انسان کو پھر سے سید ھی راہ پر ڈالنی، اس کے نفس کو انضبا ط کی مشق کرانی، اور اعتدال کا را ستہ دکھا نے وا لا مہینہ ہے جو انسان کی انہی دو خواہشات پر قا بو کرا نے کی مشق کے ذریعے اس اس قابل بنا تا ہے کہ و ہ دیگر کمزوریوں پر بھی گر فت کر سکے حیوا نی صفات کو مغلو ب کر کے انہیں امرِ ربّ کے تا بع کر کے انہیں ملکو تی صفات کا آئینہ دار بنا سکے اوروہ اللہ کے ان بندوں میں شا مل ہو سکی، جن کے لیے اللہ جنت کے سارے دروا زے کھول کر انتظار کر تا ہے ۔سبحا ن اللہ ۔
ڈاکٹر رخسانہ جبین
About the Author: ڈاکٹر رخسانہ جبین Read More Articles by ڈاکٹر رخسانہ جبین: 3 Articles with 3000 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.