شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا حسن
بریلوی قادری مارہروی -رحمۃ اللہ علیہ- ۴؍ ربیع الاوّل ۱۲۷۶ھ، مطابق یکم
اکتوبر ۱۸۵۹ء کو مادر گیتی پر جلوہ گر ہوئے۔ آپ کے آباؤاَجداد دہلی کے رہنے
والے تھے ۔ جد امجد محمد سعادت علی خان صاحب کی حیات تک آپ کا خاندان دہلی
میں ہی رہا؛ مگر اُن کے وصال کے بعد مستقل بریلی میں سکونت اختیار کر لی۔
آپ کا خاندان علم و فضل میں معروف تھا۔ نسل د ر نسل فتوی نویسی کا سلسلہ آپ
کے خاندان میں جاری ہوا، اور الحمد للہ اس وقت تک جاری ہے، اور یقینا بریلی
اہل سنت کا مرکز ہے۔
آپ کے والد ماجد مولانا نقی علی خان -علیہ رحمۃ الحنان- کی ذات ستودہ صفات
عوام تو عوام علما کا بھی مرجع تھی۔ اور دور دراز سے لوگ مسائل شرعیہ میں
اُن سے رجوع کرتے۔ یوں آپ نے ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی اور علم و فضل
میں یکتاے روزگار ہستیوں کی آغوش میں پرورش پائی۔ نثر نگاری ہویا شعرو سخن،
ہر میدان میں آپ کا خاندان ایک امتیازی حیثیت کا حامل تھا۔
اِبتدائی تعلیم اپنے والد ماجد اور برادرِ اکبر سیدی اعلٰی حضرت -علیہما
الرحمہ- سے حاصل کی۔ نعت گوئی کی تعلیم بھی اپنے برادرِ اکبر سے پائی، اور
کلام مجاز میں بلبل ہندوستان حضرت داغ دہلوی -رحمۃ اللہ علیہ- سے شرف تلمذ
حاصل کیا۔ داغ دہلوی کے قیام رامپور کے دوران آپ اُن کے پاس حاضر ہوا کرتے۔
داغ دہلوی کو آپ سے خاص اُنس تھا اور اکثر پیارے شاگرد کہہ کر خطاب کیا
کرتے۔ اس کا اظہار مولانا حسن رضا خود اپنے ایک شعر میں یوں کرتے ہیں :
پیارے شاگر د تھا لقب اپنا ٭ کس سے اس پیار کا مزا کہیے
کلام مجاز میں آپ کا دیوان’ ثمر فصاحت‘ آپ کی غیر معمولی ذہانت و ذکاوت ،
مزاج کی شوخی و شگفتگی اور زندہ دلی کا بین ثبوت ہے۔ ثمر فصاحت کا تاریخی
مادہاے نام تو ۱۳۱۹ ھ ہے؛ مگر اس کی طباعت اولی ۱۳۲۷ ھ میں ہوئی۔ رنگ مجازی
میں آپ نے فارسی میں بھی کلام فرمایا، جس کا نام ’قند پارسی‘ـ ہے۔ نہایت
مختصر ہونے کی وجہ سے اس کو ثمر فصاحت کے ساتھ ہی ملحق کر دیا گیاہے۔
۱۳۲۵ھ میں مع عیال حج سے شرف یابی کے بعد آپ نے کلام مجاز ترک کر دیا، اور
محض نعت اور منقبت کو اپنا مشغلہ بنا لیا؛ چنانچہ نعت میں ایک مکمل دیوان
ترتیب دیا جس کا نام ’ذوق نعت‘ رکھا۔ ذوق نعت کی طباعت اولی پر خود سیدی
اعلی حضرت -علیہ الرحمہ- نے قطعاتِ تاریخ طباعت تحریر فرمائے۔
نعت گوئی کے قواعد وضوابط آپ نے اپنے برادر اکبر سیدی اعلی حضرت امام اہل
سنت امام احمد رضا خان -علیہ رحمۃ الرحمن- سے سیکھے؛ جس کا اظہار آپ نے ایک
مرتبہ یوںفرمایا :
مولانا کافی اور حسن میاں مرحوم کا کلام‘ اوّل سے آخرتک شریعت کے دائرہ میں
ہے۔ اِن کو ( یعنی مولانا حسن کو) میںنے نعت گوئی کے اُصول بتادیے تھے، ان
کی طبیعت میں ان کا ایسا رنگ رچاکہ ہمیشہ کلام اسی معیارِ اعتدال پر صادر
ہوتا، جہاں شبہہ ہوتا مجھ سے دریافت کر لیے۔ ہندی نعت گویوں میں ان دو کا
کلام ایسا ہے، باقی دیکھا گیا ہے کہ اکثر قدم ڈگمگا جاتا ہے۔(۱)
آپ کی تحریر کردہ نعتیں زباں زد خاص وعام ہیں۔ ایک فصیح البیان شاعر ہونے
کے ساتھ ساتھ آپ بلند پایہ نثر نگار بھی تھے، جس کا بین ثبوت آپ کی تصانیف
ہیں ، جن میں تزک مرتضوی ، دین حسن ، آئینۂ قیامت ، بے موقع فریاد کا مہذب
جواب، نگارستانِ لطافت در ذکر میلاد شریف وغیرہ شامل ہیں ۔
۲۲؍ رمضان ۱۳۲۶ھ[۱۹۰۸ئ]کو بعمر۵۰ سال، ۶ماہ میں بعارضۂ تپ‘اِس جہانِ فانی
سے رحلت فرماگئے۔ آپ کی وفا ت پر مختلف مشاہیر نے قطعات تاریخ وصال ہجری و
عیسوی رقم کیے، جس میں چند ہدیۂ قارئین کیے جاتے ہیں :
تلمیذ حضرت داغ دہلوی مرحوم جناب علی احسن میاں صاحب معروف بہ شاہ
میاں سجادہ نشین سرکار خورد مارہرہ شریف :
یا غافر الذنوب بود رحمت براد ٭ بہر چہار یار دہم از بہر پنجتن
بعد از دعاے مغفرت احسن بسال نقل ٭ گو زینت بہشت بود حاجی حسن۱۳۲۶ھ
تلمیذ حضرت مولانا حکیم نظامی جناب محمد انو رمدرس مدرسۂ ہاشمیہ بمبئی :
کر گئی پرواز روحِ بلبل باغِ سخن ٭ اُڑ گیا رنگ چمن‘ حسن سخن جاتا رہا
عیسوی سن میں کہی انور نے تاریخ وفات ٭ مل کے ہمراہِ حسن حُسن ِسخن جاتا
رہا۱۹۰۸ء
تلمیذ حضرت مولانا حسن رضا جناب برجموہن کشور فیروز بریلوی :
سیر دُنیا سے جب ہوگئے سیر ٭ گئے اُستاد سوے دارِبقا
نیّرِ چرخِ نظم تھے اُستاد ٭ ان سے تھی ملک ِشاعری میں ضیا
کیا ہی تھا ان کا پاک وصاف کلام ٭ روزمرہ تھا کس قدر اچھا
جو لکھی نثر بے نظیر لکھی ٭ جو کہا شعر لاجواب کہا
نعت لکھنے میں تھے اگر کامل ٭ تو مجازی میں آپ تھے یکتا
تھی توجہ تلامذہ پر خاص ٭ تھیں عنایات باپ سے بھی سوا
ہوئی یک لخت فرقتِ اُستاد ٭ فلک پیر نے یہ رنج دیا
اب نہیں کوئی قدر دانِ سخن ٭ اَب نہیں لطف شاعری اصلاً
سالِ رحلت بآہ لکھ فیروز ٭ آج افسوس کی حسن نے قضا
(۶جمع ۱۳۲۰ …۱۳۲۶ھ) |