#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالذاریات ، اٰیت 15 تا 23
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
المتقین
فی جنٰت و
عیون 15 اٰخذین ما
اٰتٰہم ربھم انھم کانوا قبل
ذٰلک محسنین 16 کانوا قلیلا
من الیل ما یھجعون 17 و بالاسحار
ھم یستغفرون 18 و فی اموالھم حق
للسائل و المحروم 19 و فی اٰیٰت للمؤقنین
20 و فی انفسکم افلا تبصرون 21 و فی السماء
رزقکم و ما توعدون 22 فورب السماء و الارض انهٗ
لحق مثل ما انکم تنطقون 23
علم و عمل کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ ہمارے نافرمان
اہلِ زمین تو اپنی اُس جہنم میں چلے جاتے ہیں جس کا ہمارے پہلے فرمان میں
ذکر ہوا ہے اور ہمارے فرمان بردار اہلِ زمین ہماری اُس جنت میں پُہنچ جاتے
ہیں جس کا ہمارے اِس فرمان میں ذکر کیا جا رہا ہے ، اِن فرمان بردار اہلِ
زمین کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے رَب سے بلا مطابہ ہی وہ ضروریاتِ حیات
حاصل کرتے رہتے ہیں جو اُن کی اُس سابقہ کار کردگی کی بنا پر اُن کو دی جا
رہی ہوتی ہیں کہ وہ ایسے کار گزار اہلِ زمین ہوتے ہیں جو دن کو زمین میں
عدلِ اجتماعی کے لیۓ اجتماعی جد و جُہد میں کرتے ہیں تو شب کو گزرے ہوۓ دن
کے نتائجِ عمل اور آنے والے دن کے امکاناتِ عمل پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں
اِس لیۓ یہ اپنی ضرورت سے کم سوتے ہیں اور اپنی ضرورت سے زیادہ کام کرتے
ہیں اور پھر اَگلی صُبح ہوتے ہی یہ لوگ ایک نۓ عزم و عمل کے ساتھ ایک نۓ دن
کی نئی جد و جُہد میں شامل ہو جاتے ہیں ، اِن لوگوں کو اِن لوگوں کی اِس
بھر پُور محنت کے بدلے میں اِن لوگوں کی اپنی روزی کے ساتھ اُن لوگوں کی
روزی بھی دی جاتی ہے جو معذور و لاچار ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے اہل و
عیال کی پرورش کے لیۓ کسی سے کوئی سوال نہیں کرتے اور اُن خاموش لوگوں کا
خیال رکھنے والے یہ اہلِ خیر جو کارِ خیر کرتے ہیں وہ کسی داد طلبی کے لیۓ
نہیں کرتے بلکہ اپنے ایک فرض کے طور پر یہ کارِ خیر کرتے ہیں اور اِن لوگوں
کو اسی دُنیا میں آگاہ کر دیا جاتا ہے کہ تُمہاری جنت تُمہارے مَن کے
گُلستان میں ہے اور تُمہاری روزی ہمارے آسمان میں ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
دُنیا کا ہر انسان اگرچہ اللہ تعالٰی سے سزاۓ جہنم سے کامل نجات کی حتمی
نوید پانے کی شدید طلب اور جزاۓ جنت کی ساری لذات کشید کرجانے کی شدید
خواہش رکھتا ہے لیکن وہ یقین کے ساتھ نہیں جانتا کہ سزاۓ جہنم اور جزاۓ جنت
کی حقیقت کیا ہے اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں اپنی گزشتہ و
موجُودہ اور آئندہ اٰیات میں انسان کے سامنے سزاۓ جہنم و جزاۓ جنت کا جو
ایک خیالی خاکہ پیش کیا ہے اُس خیالی خاکے پر مُمکنہ غور و فکر سے مُمکنہ
طور پر جو کُچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جہنم انسان کے مَن میں آنے والے
احساسِ رَنج کی وہ ناگوار سی ایک محسوس صورت ہے جس کو انسان بہر حال اپنے
حال و خیال سے نکال دینا چاہتا ہے اور جنت بھی انسان کے مَن میں آنے والے
احساسِ راحت کی وہ خوش گوار سی محسوس صورت ہے جس کو انسان بہرحال اپنے حال
و خیال میں شامل رکھنا چاہتا ہے ، سادہ و آسان الفاظ میں جنت و جہنم انسان
کے مَن میں چُھپے ہوۓ حصولِ لذت و ترکِ اَلم کے وہ دو نفسیاتی خواب ہیں جن
کی تعبیر کے لیۓ اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے تو انسان پر یہ اَمر واضح کیا
ہے کہ انسان کے حصولِ لذت و ترکِ اَلَم کا یہ جو خواب ہے وہ کوئی خیالی
خواب نہیں ہے بلکہ ایک سچا اور حقیقی خواب ہے اور اِس خواب کے مطابق انسان
نے جہنم کا جو دل فگار اور جنت کا جو ایک پُر بہار نقشہ اپنے خواب و خیال
میں بنایا ہوا ہے وہ نقشہ خالقِ عالَم کے اِس عالَم میں دَر حقیقت بھی
موجُود ہے اور اِس اَمر سے مطلع کرنے کے بعد اللہ تعالٰی نے انسان کے خواب
و خیال میں آنے والی اُس جہنم کی شدید سزا سے جان بچانے اور انسان کے خواب
و خیال میں آنے والی اُس جنت کی جائز جزا سے لذات پانے کا انسان کو جو عملی
منصوبہ دیا ہے وہ اختیارِخیر و ترکِ شر کا وہ دو لفظی منصوبہ ہے جس منصوبے
میں یہ اَمر واضح کیا گیا ہے کہ اختیارِ خیر سے مُراد انسان کا اپنے خالق
کے اُن اَحکام پر عمل کرنا ہے ہے جن اَحکام پر عمل کرنے کا خالق نے انسان
کو حُکم دیا ہے اور ترکِ شر سے مُراد انسان کا اُن امُور کا ترک کرنا ہے جن
اُمور کی اَنجام دہی سے اللہ نے تعالٰی نے انسان کو منع کیا ہے ، اِس کے
بعد اٰیاتِ بالا میں اِس مُجمل مضمون کو مزید مُفصل اور مزید مُفسر کرتے
ہوۓ مزید یہ بتایا ہے کہ خیر و شر کا جو مُختصر منصوبہ انسان کے سامنے پیش
کیا گیا ہے اُس کو قبول کرنا انسان کا اللہ تعالٰی کے قانُون کو قبول کرنا
ہے اور اِس قانُون کو قبول کرنے کے بعد ہر انسان پر یہ قانُونی فرض عائد ہو
جاتا ہے کہ وہ اپنے جائز وسائل حیات کے حصول کے لیۓ اپنی ذات کو کم سے کم
جائز آرام دینے اور اپنی ذات سے زیادہ سے زیادہ جائز ذرائع سے کام لینے کا
خود کو اِس طرح عادی بناۓ کہ ہر دن کے آغاز سے ہر دن کے اَنجام تک وہ انسان
کے اجتماعی وجُود کو عدلِ اجتماعی دینے اور دلانے کے لیۓ جو کام کرے ہر شب
کو اُس کام کی کمی و بیشی کا بھی جائزہ لے اور نۓ دن سے پہلے ہی نۓ دن کے
نفعے اور نقصانات کے سارے امکانات کا جائزہ بھی لیتا رہے تاکہ اُس کا وجُود
اپنے ارد گرد بسنے والے دُوسرے انسانوں کے لیۓ بھی ایک ایسا خیر کا وجُود
بن جاۓ جس خیر کے وجُود میں اُس کے ارادے سے فتنہ و شر کا کوئی مُفسد عمل
داخل نہ ہو پاۓ ، اِس سے اِس فرد کا کام اگرچہ کُچھ بڑھ جاۓ گا لیکن انسانی
جماعت کا بوجھ کم سے کم ہوتا چلا جاۓ گا یہاں تک کہ دن بہ دن انسان کا
اجتماعی بوجھ جتنا کم ہوتا جاۓ گا فرد کا انفرادی بوجھ بھی دن بہ دن اتنا
ہی کم ہوتا چلا جاۓ اور انسام کی اِس دُنیا میں انسان کی یہی وہ خیالی جنت
ہوگی جو دُنیا ہی میں ایک عملی شکل اختیار کر کے انسان کے سامنے آجاۓ گی
اور جو لوگ اِس زمینی جنت کی تعمیر میں حصہ لیں گے اِن لوگوں کو اِس دُنیا
میں ہی خیر کی یہ خبر دے دی جاۓ گی تُمہاری یہ جنت تُمہارے مَن کے گُلستان
میں ہے اور تُمہاری روزی خالقِ عالَم کے آسمان میں ہے جو ضرورت کے مطابق
تُمہاری اِس زمینی جنت میں آتی رہتی ہے اور تُمہاری موت کے بعد تُم کو جو
زندگی دی جاتی ہے اُس زندگی میں بھی تُمہاری اِسی سابقہ کار کردگی کی بنا
پر تُم کو وہ روزی دی جاتی ہے جس روزی کا اِس کتاب میں بار بار ذکر کیا گیا
ہے ، بادی النظر میں قُرآن کا یہ ایک ایسا معاشی پرو گرام ہے جو اِس پہلی
دُنیا سے شروع ہو کر اُس دُوسری دُنیا تک انسانی معاشرے کے ساتھ جاتا اور
ساتھ رہتا ہے ، اِس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جو انسان حتی الامکان اللہ
تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتاہے اُس کی اِس
کوشش کا صلہ اُس کو اِس دُنیا سے شروع ہو کر ارتقاۓ حیات کے آنے والے سارے
مقاماتِ حیات میں ملتا رہتا ہے ، اللہ تعالٰی کے انسان پر دُنیا و آخرت میں
اسی معاشی انقلاب کے مُستقل ہونے کا نام جنت ہے اور اسیمعاشی انقلاب کے
منقطع ہونے کا نام جہنم ہے !!
|