#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالذاریات ، اٰیت 24 تا 37
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ھل
اتٰک حدیث
ضیف ابرٰھیم
المکرمین 24 اذ
دخلوا علیه فقالوا
سلٰما قال سلٰم قوم
منکرون 25 فراغ الٰی
اھلهٖ فجاء بعجل سمین 26
فقربهٗ الیھم قال الا تاکلون 27
فاوجس منھم خیفة قالوا لاتخف
و بشروہ بغلٰم علیم 28 فاقبلت امراتهٗ
فی صرة فصکت وجھھا و قالت عجوز عقیم
29 قالوا کذٰلک قال ربک انهٗ ھو الحکیم العلیم 30
قال فما خطبکم ایھا المرسلون 31 قالوا انا ارسلنا الٰی
قوم مجرمین 32 لنرسل علیہم حجارة من طین 33 مسوة
عند ربک للمسرفین 34 فاخرجنا من کا فیہا من المؤمنین 35
فما وجدنا فیہا غیر بیت من المسلمین 36 و ترکنا فیھا اٰیة للذین
یخافون العذاب الالیم 37
اے ہمارے رسُول ! کیوں نہ ہم آپ کو ابراہیم اور اُس کے اُن اَجنبی مہمانوں
کی یہ حدیثِ قدیم بھی سنا دیں کہ جب وہ ابراہیم کے پاس پُہنچے تو ابراہیم
جلدی سے ایک صحت مند بچھڑا بُھون کر اُن کو کھلانے کے لیۓ لے آۓ لیکن جب
اُن اَجنبی مہمانوں نے اُس کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا تو ابراہیم نے
پریشان ہو کر پُوچھا کہ آپ میری ضیافت قبول کرنے میں یہ تامل کیوں برت رہے
ہیں جس کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دوست ہیں دشمن نہیں اِس لیۓ
آپ ہم سے بالکُل بھی خوف زدہ نہ ہوں اور اِس وقت ہم آپ کے پاس آپ کو ایک
صاحبِ علم اور خدمت گزار جوان کی بشارت دینے کے لیۓ آۓ ہیں لیکن ابراہیم کی
اہلیہ نے اُن کی یہ بات سُنی تو وہ حیران ہو کر بولی کہ ہاۓ میں مر گئی ،
ایک طرف تو میں ایک بڑھیا اور بانجھ عورت ہوں اور دُوسری طرف تُمہاری یہ
اَنہونی بات ہے جو تُم ہمیں سنا رہے ہو ، یہ سُن کر وہ بولے کہ ایسا ہی ہے
جیسا تُم کہہ رہی ہو لیکن اللہ علیم و حکیم ہی اپنے کام اور اپنے اَحکام کے
بارے میں سب سے بہتر جانتا ہے ، یہ بات ختم ہوئی تو ابراہیم نے پُوچھا کہ
تُم یہاں پر رُکنے کے بعد اَب کہاں جا رہے ہو اور کس ارادے سے جا رہے ہو تو
اُنہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے وہ نمائندے ہیں جو لُوط کی قوم کی طرف جارہے
ہیں اور لُوط کی قوم پر مٹی کے بنے ہوۓ وہ پَتھر برسانے کے لیۓ جا رہے ہیں
جن پَتھروں پر اُس قوم کے سارے سرکش افراد کے لیۓ نشان لگے ہوۓ ہیں کہ ہم
نے کس پَھتر سے کس کو ہلاک کرنا ہے ، پھر جس وقت ہم نے اُس بستی کے اہلِ
ایمان کو اُس بستی سے باہر نکالا تو اُس بستی میں اُن اہل تسلیم و رضا کا
ایک ہی گھرانا تھا جس کو ہم نے باہر نکالا اور اُس ایک گھرانے کے سوا جتنے
بھی غدار اور باغی تھے اُن سب کو خُدا کے عذاب سے بچنے والوں کے لیۓ عبرت
کا نشان بنادیا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر تاریخ کے جن 69 مقامات پر
تاریخ کے جن 69 واقعات و حوالہ جات کے ساتھ آیا ہے اُن مقامات و حوالہ جات
میں اِس سُورت کے اِس مقام پر آنے والا یہ تاریخی حوالہ بھی اِس اعتبار سے
ایک اہم حوالہ ہے جس میں ایک طرف تو لُوط علیہ السلام کی قوم کو صفحہِ ہستی
سے مٹانے کا ذکر کیا گیا ہے تو دُوسری طرف ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی
نسل میں متوقع طور پر ظاہر ہونے والی ایک دُوسری قوم کو صفحہِ ہستی پر لانے
کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں تاریخ کے اِن
حوالہ جات کے ضمن میں اللہ تعالٰی کے آخری رسُول کو جو حدیثِ ابراہیم سنائی
ہے اِس سے قبل قُرآنِ کریم نے سُورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 9 میں اللہ کے آخری
رسُول کو اسی طرح کے ایک سوال و الفاظ { ھل اتٰک حدیث موسٰی } کی صورت میں
حدیثِ مُوسٰی بھی سنائی ہے جن کا مقصد آپ کو عہدِ ابراہیم علیہ السلام و
عہدِ مُوسٰی علیہ السلام میں ہونے والی اُن دو بڑی تبدیلیوں کے حوالے سے
عالَم میں ہونے والی اُن تین بڑی عالمی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا تھا جن بڑی
علمی تبدیلیوں میں پہلی تبدیلی یہ ہوسکتی ہے کہ زمین میں ایک قوم کی جگہ پر
دُوسری قوم کو لایا جاۓ اور زمین سے پہلی قوم کی حرکت و عمل کو ختم کر کے
دُوسری قوم کو حرکت و عمل کا موقع دیا جاۓ ، قُرآنِ کریم میں اِس پہلی
تبدیلی کا پہلا ذکر سُورَةُالنساء کی اٰیت 133 اور سُورَةُالاَنعام کی اٰیت
133 میں اِس طرح کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالٰی چاہے تو تُم کو اپنی زمین
سے ہٹا دے اور تُمہاری جگہ پر ایک دُوسری قوم کو لاکر بٹھا دے جو حرکت و
عمل میں تُم سے بہتر ہو ، اِس بڑی تبدیلی کی ایک بڑی مثال ماضی میں آدم
علیہ السلام سے پہلی قوم کو زمین سے ہٹانا اور آدم علیہ السلام کی قوم کو
زمین پر لانا ہے اور اِس بڑی تبدیلی کی دُوسری بڑی مثال مُستقبل میں
انقلابِ قیامت کا آنا اور انقلابِ قیامت کے ذریعے آدم علیہ السلام کی ایک
بد عمل نسل کو زمین میں برباد کرنا اور ایک خوش عمل نسل کو زمین پر آباد
کرنا ہے لیکن اِس طرح کی تبدیلی زمان و مکان کے ایک ہی ماضی اور ایک ہی
مُستقبل کے ساتھ ہی کُچھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ تبدیلی زمین پر اللہ کے حُکمِ
کُن سے کسی وقت بھی آسکتی اور کسی وقت بھی لائی جا سکتی ہے ، قُرآنِ کریم
نے زمین پر بسنے والی انسانی نوع کی اِس پہلی تبدیلی کے بعد انسانی نوع کی
نوعی جس دُوسری تبدیلی کی جو مثال دی ہے وہ انقلابِ قیامت سے پہلے انسان کی
خلقِ قدیم کا انسان کی خلقِ جدید کی صورت میں تبدیل ہونا اور تبدیل ہوتے
رہنا ہے اور یہ تبدیلی ہر زمانے میں وقوع پزیر ہوتی رہتی ہے اور ہر زمانے
میں وقوع پزیر ہوتی رہے گی ، قُرآنِ کریم نے انسانی تخلیق و تجدید کی اِس
تبدیلی کا سُورَةُالرعد کی اٰیت 5 ، سُورَہِ ابراہیم کی اٰیت 19 ،
سُورَةُالسجدة کی اٰیت 10 ، سُورَہِ سبا کی اٰیت 7 اور سُورَہِ فاطر کی
اٰیت 16 میں ذکر کرنے کے بعد سُورَہِ قٓ کی اٰیت 15 میں انسان سے یہ سوال
کیا ہے کہ آخر انسان نے کس طرح یہ یقین حاصل کر لیا ہے کہ ہم اپنی پہلی
تخلیق کے بعد تَھک ہار کر اَب انسان کو ایک اور { خلق جدید } میں ڈھالنے سے
قاصر ہو چکے ہیں ، خلقِ جدید کے اِس موضوع کے بارے میں ہم اِس کے مُتعلقہ
مقامات پر چونکہ تفصیل سے گفت گو کر چکے ہیں اِس لیۓ اِس مقام پر اُس گفت
گو کا اعادہ و تکرار کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جہاں تک اٰیاتِ بالا میں
حدیثِ ابراہیم کے حوالے سے ماضی میں ہونے والی تبدیلی کا ذکر کیا گیا ہے
اُس تبدیلی کا تعلق کسی قوم کی اُس دو طرفہ تبدیلی کے ساتھ ہے جس کی تاریخی
مثال کے لیۓ قُرآن نے ایک طرف لُوط علیہ السلام کی بد بخت قوم کے زمین سے
مٹانے کا ذکر کیا ہے اور دُوسری طرف ابراہیم علیہ السلام کو ابراہیم علیہ
السلام کی نسل سے ایک نئی قوم کو اُٹھانے کا مُژدہ سنایا گیا ہے ، ابراہیم
علیہ السلام کی جس نئی قوم کی جس نئی تاسیس کا ذکر کیا گیا ہے یہ وہی قوم
تھی جس کی نبوت مُوسٰی علیہ السلام کے زمانے تک چلتی رہی یہاں تک کہ پھر
لوٹ پلٹ کر وہی زمانہ آگیا جس میں ایک طرف قومِ فرعون کو زمین سے مٹانے کا
اہتمام کیا گیا اور دُوسری طرف قومِ مُوسٰی کو زمین پر رہنے کا مشروط حق
دیا گیا ، قومِ مُوسٰی زوال پزیر ہوئی تو اللہ تعالٰی نے سُورَةُالصف کی
اٰیت 5 اور 6 میں عیسٰی ابنِ مریم کی زبان سے زمین پر آنے والی اُس آخری
اہم تبدیلی کا اعلان کرایا گیا جس اہم تبدیلی کے نتیجے میں زمین پر اللہ کا
وہ آخری رسُول مامُور کیا گیا جس آخری رسُول پر یہ آخری پڑھی اور پڑھائی
جانے والی کتاب نازل کی گئی ہے جس میں اُن انبیا علیھم السلام کی یہ مصدقہ
تاریخ بیان کی گئی ہے جس مُصدقہ تاریخ کا ایک مُعتبر حوالہ اِس سُورت کی
اٰیاتِ بالا میں آیا ہے اور اِس حوالے میں کسی قومی نبوت کی تبدیلی کا کوئی
حوالہ نہیں دیا گیا اِس لیۓ یہ اصول خود بخود ہی طے پاگیا ہے کہ اِس اُمت
میں نبوت کا جو سلسلہ جاری کیا گیا ہے وہ نبوت کا وہ آخری سلسلہ ہے جس میں
کسی قدیم یا جدید نبوت کی کوئی گُنجائش نہیں ہے !!
|