آج کیا پکاؤں؟ مسئلہ حل ہوگیا، چیٹ بوٹس حقیقی انسانی رویے کی نقل کرنے لگے۔۔

image
 
چیٹ بوٹس پچھلے کچھ دنوں سے زیر بحث ہیں جب گوگل کے ایک انجینئر نے دعویٰ کیا کہ جدید ترین نظام کے تحت چیٹ بوٹس اب انسانوں جیسے جذبات ظاہر کر سکتے ہیں۔ اس دعوے کو حمایت اور تنقید دونوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آرٹیفیشئل انٹیلی جینس بے شک انسان کی اس زمانے کی اہم ترین اور ایڈوانس ترین تخلیق ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں کیا یہ انسانوں کی جگہ لے کر ان کو بالکل فارغ کر دیں گے پہلے دیکھتے ہیں کہ آیا چیٹ بوٹس کیا ہے؟ دراصل چیٹ بوٹ ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جسے انسانی بات چیت کی نقل کرنے اور جواب دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مارکیٹ میں یہ تیزی سے مشہور اور پسند کئے جا رہے ہیں اور اب یہ ورچوئل اسسٹنٹس ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
 
ایمیزون کے Alexaسے ایپل کی Siriیا ریٹیلرز کی ویب سائٹ تک ایک اندازے کے مطابق اب 80% چیٹ بوٹس استعمال ہو رہے ہیں- وہ ہمیں زبانی یا تحریری جواب دے رہے ہوتے ہیں۔ درحقیقت چیٹ بوٹس اب سب سے تیز اور آسان طریقہ ہے جس میں برانڈز اپنے صارفین کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں اور کمپنیز کو اس جاب کے لئے کسی انسان کو ہائر نہیں کرنا پڑتا۔
 
ٹورنٹوکینیڈا کی یارک یونیورسٹی کی طالبہ سبینا گورانووا روزانہ کی بنیاد پر چیٹ بوٹس استعمال کرنے کی عادی ہے۔ ان کے گھر میں الیکسا ہے اس کے علاوہ وہ کالج کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے موبائل فون کے ذریعے اپنی یونیورسٹی کے سیوی سسٹم سے مشورہ کرتی ہے۔ وہ بہت خوش ہیں-
 
image
 
سیوی کو یارک اور اس کے طلباء کے لیے IMB نے بنایا تھا۔ یہ کیریئر کے مشورے سے لے کر روزانہ دوپہر کے کھانے کے مینو تک ہر چیز کے بارے میں سوالات کا فوری جواب دے سکتا ہے۔
 
Guillaume Laporte فرانسیسی چیٹ بوٹ فرم Mindsay کے چیف ایگزیکٹو ہیں جو اب چینی (AI) اور ورچوئل اسسٹنٹ کمپنی Laiye کا حصہ ہے۔ ان کے صارفین میں نائکی سے والمارٹ اور یوکے ٹرین فرم اونتی تک سبھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹول انسانی رویوں کی نقل کرنے تو لگے ہیں لیکن ایک روبوٹ کی حیثیت سے۔ چیٹ بوٹس اب 10 سال قبل کی بنسبت 10 گنا بہتر ہیں۔ ابتدائی پروگرامنگ کے بعد اور پھر مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کرتے ہوئے وہ سیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ صارف کیا کہہ رہا ہے یا ٹائپ کر رہا ہے۔ اور ان کو کیا جواب دینا ہے۔ اس کے باوجود انڈسٹری کے وسیع چیٹ بوٹس مکمل طور پر آزاد نہیں ہیں انھیں اب بھی انسانی سہارے کی ضرورت ہے۔
 
یونیورسٹی آف دی ویسٹ آف انگلینڈ میں انٹرایکٹو مصنوعی ذہانت کے پروفیسر جم سمتھ چیٹ بوٹس کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بات آتی ہے کہ انسانوں جیسی قابلیت ظاہر کرنی ہے تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ روبوٹ لوگوں کے درمیان فرق کر سکیں جس کے لئے چیزوں کے بارے میں وسیع پیمانے پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا چیٹ بوٹس کو بڑے پیمانے پر متن کا استعمال سکھایا جاتا ہے۔ یعنی مہارت کے ساتھ کافی ڈیٹا فیڈ کیا جاتا ہے۔
 
جیسے اگر کال سینٹر ہے تو وہاں ان روبو سے کس قسم کے سوال پوچھے جائیں گے اور وہ کسٹمر کو انسانی سطح پر کس طرح مطمئن کر سکیں گے۔ اور یہ شاید اسی وجہ سے شفافیت کی خاطر کال کرنے والے پر واضح کر دیا جاتا ہے کہ وہ کسی انسان سے بات نہیں کر رہا ہے۔ تجربے کے ساتھ ساتھ یقیناً بہتری آئے گی اور یہ سسٹم بہت اچھے ہو جائیں گے تو 10 سالوں بعد ہم انسان اور ان کے درمیان فرق نہیں کر سکیں گے۔ یہ کوئی جذباتی تو ہوتے نہیں تو آپ ان کو آرام سے آن آف کر سکتے ہیں۔
 
image
 
کیا آرٹیفیشئل انٹیلی جنس سسٹم احساسات رکھ سکتے ہیں؟
آکسفورڈ یونیورسٹی کی سینئر ریسرچ فیلو پروفیسر سینڈرا واچٹر کا کہنا ہے کہ چیٹ بوٹس فی الحال انسان جیسا ظاہر ہونے سے کافی دور ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں ہمیں اخلاقی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے پہلی نظر میں بے شک چیٹ بوٹس یہ تاثر دے سکتے ہیں کہ ہم حقیقی انسانوں کے ساتھ چیٹ کر رہے ہیں لیکن ہماری کچھ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اس پریشانی سے بچیں کیونکہ اس سے نقصان کا اندیشہ ہے۔
 
آئی بی ایم کے عالمی چیف اے آئی آفیسر سیٹھ ڈوبرین کہتے ہیں کہ نیشنل ہیلتھ سروس ویلز کو لے لیں 2020 میں انہوں نے ایک ورچوئل ایجنٹ سیری کا آغاز کیا تاکہ شہریوں کے عام سوالات کے جوابات گفتگو کے لہجے میں ہوں جن میں محفوظ طریقے سے اور مؤثر طریقے سے الگ تھلگ رہنے اپنی اور کنبہ کے افراد کی حفاظت، تھکاوٹ جیسی علامات کے بارے میں رائے اور پریشانی سے نمٹنے کے بارے میں مشورے شامل ہیں۔ یہ ٹول اس وقت بہت کارآمد ثابت ہوا۔ جبکہ ماہر نفسیات( UK) پیرن کینڈولا کا کہنا ہے کہ پھر بھی بہت سے لوگ چیٹ بوٹس سے نفرت کرتے ہیں اور وہ صرف ایک انسان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک انسان دوسرے انسان کے جذبات کو سمجھتا ہے۔شفافیت، ہمدردی اور ہماری بات چیت میں لطیف لہجے کو اپنانے کی صلاحیت دوسرے لوگوں کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر لوگ ہمارے نقطہ نظر کو نہیں سمجھتے یا ہم سے ہمدردی نہیں رکھتے تو ہم ان سے فاصلہ رکھتے ہیں۔
 
سائنس کتنی ہی ترقی کر لے لیکن کیا وہ انسانی ذہن کا نعم البدل بنا سکتی ہے؟ ایک عام سی مثال ہے ایک گاڑی روبوٹ کے ذریعے چل رہی ہے اس کے سامنے دو آدمی دو جانب سے آرہے ہیں انسان تو اپنی عقل کے مطابق جو راستہ مناسب ہوتا ہے اس کو اختیار کرتا ہے لیکن روبوٹ خود سے کیسے فیصلہ لے گا کہ کم سے کم نقصان ہو اور خدانخواستہ وہ کوئی ایکسیڈنٹ کر دے تو غلطی کا ذمہ دار کس کو ٹہرایا جائے گا ۔ کس کو سزا ملے گی یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب یقینا نہیں ہے ۔ مشین ہے پروگرامنگ خراب بھی ہو سکتی ہے بہت سی ہالی ووڈ فلمیں ان اندیشوں پر بن چکی ہیں جیسے ٹرمینیٹر وغیرہ ۔ہم بحیثیت انسان حالات کے حساب سے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیا انسان کی تیار کردہ مشین احساسات رکھ سکتی ہے وہ زندہ ہی نہیں تو احساسات کہاں سے آئیں گے۔ اللہ نے انسان کو اسی لئے اشرف المخلوقات قرار دیا کیونکہ وہ سب تخلیقات سے ماورا ذہن رکھتا ہے بے شک انسان اپنے خالق کی تخلیق تک پہنچ ہی نہیں سکتا ہے ۔
YOU MAY ALSO LIKE: