ایک بار پھر رمضان المبارک ہماری
زندگی کا حصہ بنا ہے۔ صحرا کے ذرّوں اور سمندر کے پانی کی بوندوں کا شمار
تو ممکن ہے، ماہِ صیام کی برکات کا شمار ممکن نہیں۔ مگر ہم بھی کیا لوگ ہیں
کہ اس مبارک مہینے میں بھی خود کو بدل نہیں پاتے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ روزے
کی حالت میں قوتِ برداشت بڑھ جاتی ہے اور امراض کی شدت میں نمایاں کمی واقع
ہوتی ہے۔ ماہرین کی بات یقیناً درست ہوگی مگر ہمارے ہاں تو چونکہ آوے کا
آوا ہی بگڑا ہوا ہے اِس لیے رمضان المبارک کے دوران بھی لوگ بگڑے ہی رہتے
ہیں بلکہ بعض تو مزید بگڑ جاتے ہیں۔
مرزا تنقید بیگ کا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں روزے کی حالت میں
ہاتھ لگانا اور چھیڑنا منع ہے! روزے کی حالت میں ڈیڑھ دو بجے تو اُن کا یہ
حال ہوتا ہے کہ ذرا سی بھی ایسی ویسی بات ہو جائے تو اُن کے دماغ کا پارہ
غصے کے مارے آپ پارہ چوک بن جاتا ہے! ایسے میں لوگ قریب جاتے ڈرتے ہیں! اور
اگر کسی نے پوچھ لیا کہ کیا جناب روزے سے ہیں، تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ
اُنہیں سُرخ کپڑے کا ٹکڑا دِکھا دیا! ایسی حالت میں اُنہیں کنٹرول کرنے کی
کوشش کرنے والے اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کام نفس پر قابو پانے سے دَس
گنا مشکل ہے! ہم نے ایسے لمحات میں اکثر اُن سے بہت آسانی سے مات کھائی ہے،
یعنی کچھ بھی سمجھانے سے فوراً توبہ کی ہے!
مگر صاحب! ہم صرف مرزا تنقید بیگ ہی کو کیوں مطعون کریں؟ روزے کی حالت میں
ذرا سی بات پر پھٹ پڑنا تو اب معاشرے کی عام روش ہے۔ جس محفل میں بیٹھیے،
لوگ اشارہ پاتے ہی باطن کو ظاہر بنانے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ بس
کے سفر میں لوگ بس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی کچھ کہے اور اُسے
لتاڑیں۔ کلاس روم میں بچے ڈرتے ہیں کہ ٹیچر سے کچھ پوچھنے پر کہیں بہت کچھ
سُننا نہ پڑے! اور تو اور، بھکاری کو ”معاف کرو بابا“ کہتے ہوئے بھی ڈر
لگتا ہے کہ کہیں نوٹوں سے بھری جھولی دِکھاکر سب سے کے سامنے شرمندہ نہ
کردے!
نفس کی کمزوری نے روزے کی حالت کو حواس کے تعطل کی حالت میں تبدیل کردیا
ہے! اگر انسان کا نفس ٹیڑھا ہو اور سوچنا سرشت کا حصہ نہ ہو تو عبادت شدید
تکبر بھی پیدا کردیتی ہے اور انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اللہ کی راہ پر
گامزن ہوکر وہ دنیا کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہا ہے یا کوئی بڑا احسان
کر رہا ہے! ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ روزے کی حالت میں ایسا
چڑچڑا پن دکھاتے ہیں جیسے دن بھر بھوکا پیاسا رہ کر دنیا پر کوئی احسان
فرما رہے ہیں! جو روزہ قوتِ برداشت میں اضافے کے لیے فرض کیا گیا ہے وہی
ہماری قوتِ برداشت کو یکسر ختم کرتا دکھائی دیتا ہے!
رمضان المبارک میں شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کے لیے مقام شکر
ہے کہ اُنہیں ورغلانے والا کوئی نہیں رہتا۔ شیاطین کا معاملہ سمجھ میں آتا
ہے مگر انسانوں کو کیا کہا جائے؟ ماہِ مقدس میں بھی بے صبری، بے دیانتی اور
بد نیتی ترک کرنے پر آمادہ نہ ہونے والوں کو کس طور لگام دی جائے؟ کھانے
پینے کی اشیاءفروخت کرنے والوں نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ رمضان المبارک
مالی فوائد بٹورنے کے بہترین موقع کا بھی درجہ رکھتا ہے! رمضان کا چاند
دکھائی دیتے ہی ”ون ٹو کا فور“ کی ذہنیت رکھنے والے شرم، لحاظ، مروت ....
سبھی کچھ بالائے طاق رکھ کر صرف یہ بات ذہن نشین رکھتے ہیں کہ لوگوں کی جیب
اِس طرح خالی کرانا ہے جیسے عید کے بعد دنیا کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا
ہے!
شیاطین ایک ماہ تک مقید رہ کر ہمیں دیکھتے اور محظوظ ہوتے ہوں گے کہ ہم اُن
کی ”معاونت“ کے بغیر بھی وہ سب کچھ کرنے پر کمر بستہ ہیں جو اُن کے ایجنڈے
کا حصہ ہے! سچ تو یہ ہے کہ اپنے بیشتر اُمور میں گراوٹ برقرار رکھنے کے لیے
ہم شیاطین سے رہنمائی کے محتاج بھی نہیں رہے! سب کچھ برباد کر ڈالنے کے لیے
ہمارے اندر کی کھوٹ کافی ہے۔ ہمارے وجود کی کھوٹ نے ماہِ صیام کی برکات کو
ہم سے دور کردیا ہے۔
یہ مبارک مہینہ اللہ سے تجارت کا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی خاطر ذرا
سی قربانی دیں اور وہ ہمیں بے حساب نواز دے۔ اللہ سے تجارت تو ایسی ہی ہوتی
ہے۔ اللہ کو تو بس بہانہ چاہیے ہمیں بخشنے اور نوازنے کا۔ اللہ کی رحمت اور
برکت کائنات کے خالق اور ہم سب کی زندگی کے مالک نے جس تجارت کی دعوت دی ہے
وہ تو ہمیں یاد نہیں، صرف دُنیوی تجارت۔۔ بلکہ تاجرانہ ذہنیت ہمارے وجود
میں باقی رہ گئی ہے۔ اور اِس ذہنیت کی فصل ہم خوب کاٹ رہے ہیں۔ تجارت تو ہم
سال بھر کرتے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم اب تاجرانہ ذہنیت کے ساتھ ہی زندگی
بسر کر رہی ہے۔ ایسے میں کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ کچھ دن ہم اللہ سے بھی
تجارت کریں، اُسے راضی رکھنے کی کوشش کریں؟ تجارت تو ہم سال بھر کرتے رہتے
ہیں اور زندگی بھر کرتے رہیں گے۔ سودا وہ کیا جائے تو صرف نفع کا ہے، جس
میں خسارے کا کہیں سے کوئی امکان ہی نہیں۔ جس طرح ہم افطار میں کوئی پھل
کھاتے وقت بیج یا گٹھلی پھینک دیا کرتے ہیں بالکل اُسی طرح رمضان المبارک
میں روزے کے دوران اپنے مزاج کی ساری کجی، تلخی اور تیزی بھی نکال کر
پھینکنا لازم ہے۔ بیج کے ساتھ کھائے جانے کی صورت میں پھل بے مزا ہو جاتا
ہے۔ یہی کچھ روزے کا بھی معاملہ ہے۔ جب ہم روزے کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی
تبدیل نہیں ہوتے اور اپنی بدمزاجی اور بددماغی کو پورے اہتمام کے ساتھ دنیا
کے سامنے پیش کرتے ہیں تب اللہ ہمارے روزے کو اُسی طرح مسترد کردیتا ہے جس
طرح وہ خشیت سے عاری اور تکبر سے آراستہ نمازوں کو لپیٹ کر ہمارے منہ پر
مارے گا! صرف یہ یاد رہنا چاہیے کہ ہم اِس وقت رب کو راضی کرنے کے مہینے
میں ہیں، بدمزاجی دِکھانے یا تجوریاں بھرنے کے مہینے میں نہیں! اب ایک ماہ
تک لین دین کرنا ہے تو رب سے کیجیے جو حقیقی نافع ہے۔ اور نافع بھی ایسا کہ
دیتے وقت حساب کتاب کو بیچ میں نہیں آنے دیتا! |