#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالطُور ، اٰیت 29 تا 34
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فذکر فما
انت بنعمت ربک
بکاھن و لا مجنون
29 ام یقولون شاعر
نتربص بهٖ ریب المنون
30 قل تربصوا فانی معکم
من المتربصین 31 ام تامرھم
احلامھم بھٰذا ام ھم قوم طاغون
32 ام یقولون تقولهٗ بل لا یؤمنون 33
فلیاتوا بحدیث مثلهٖ ان کانوا صٰدقین 34
اے ہمارے رسُول ! آپ قُرآنی نظامِ حیات کی جو جد و جُہد کر رہے ہیں وہ آپ
پر اللہ کا ایک گراں قدر انعام ہے اِس لیۓ آپ یہ اپنی یہ جد و جُہد جاری
رکھیں چاہے مُنکرینِ قُرآن اِس قُرآنی تعلیم کو کہانت کہیں یا آپ کی اِس جد
و جُہد کو جنُون کہتے رہیں ، مُنکرینِ قُرآن تو آپ کو شاعر بھی کہتے ہیں ،
وہ وقت دُور نہیں ہے کہ زمانے کی گردش بدلے گی اور کُفر و شرک کی یہ گَرد
چَھٹ جاۓ گی ، آپ اِن لوگوں سے کہیں تُم میری اِس جد و جُہد کے اُن نتائج
کا انتظار کرو جن کا میں بھی انتظار کر رہا ہوں ، یہ لوگ جو اِس وقت ایک
فکری آوارگی کا شکار ہیں تو اِس کی وجہ اِن میں فکر کی کمی نہیں ہے بلکہ
اِس کی وجہ اِن کی مفاد پرستی ہے اور اسی مفاد و فساد پرستی وجہ سے یہ لوگ
حدیثِ قُرآن کو حدیث انسان کہنے پر اصرار کر رہے ہیں اِس لیۓ آپ اِن سے
کہیں کہ اگر یہ حدیثِ قُرآن حدیث انسان ہے تو تُم سارے انسان باہم مل کر ہی
کوئی ایسی حدیثِ انسان لے آؤ جو حدیثِ قُرآن کی طرح ایک بامعنی و با مقصد
حدیث ہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
کلامِ عرب میں لفظِ حدیث کا معنٰی مُطلقاً ایک بات ہے ، چاہے وہ اَچھی بات
ہو یا بُری بات ہو ، چاہے وہ کسی مُسلم انسان کی بات ہو چاہے کسی مُنکر
انسان کی بات ہو لیکن قُرآنِ کریم جو اللہ تعالٰی کا کلامِ وحی ہے اِس
کلامِ وحی کے نزول کے بعد اِس وحی کی رُو سے حدیث کی وہی دو قِسمیں باقی رہ
گئی ہیں جن میں حدیث کی پہلی قسم حدیثِ قُرآن اور حدیث کی دُوسری قسم حدیثِ
انسان ہے اور حدیث کی اِن دو قسموں میں سے جو پہلی قسم ہے اُس میں قُرآن نے
صرف کلامِ وحی جمع کیا ہے اور حدیث کی جو دُوسری قسم ہے اُس میں انسان نے
ہر رطب و یابس جمع کردیا ہے ، قُرآن نے قُرآن میں اپنے متنِ اٰیات کے لیۓ
جن 18 مقامات پر حدیث کا لفظ استعمال کیا ہے اور اُن 18 مقامات میں سے جو
چند مقامات زیادہ قابلِ توجہ ہیں اُن میں سے پہلا قابلِ توجہ مقام
سُورَةُالنساء کی اٰیت 78 کا وہ مقام ہے جس میں اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد
فرمایا ہے کہ ہمارا یہ سارے کا سارا کلام ہماری حدیثِ قُرآن پر مُشتمل ہے
اِس لیۓ مُنکرینِ قُرآن کے فہم ہماری اِس حدیثِ قُرآن کی تفہیم کے لیۓ
آمادہ ہی نہیں ہو رہے ہیں ، یعنی مُنکرینِ قُرآن کے انکار کا سبب اِس کلام
کا کلام ہونا نہیں ہے بلکہ اِس کلام کے انکار کا سبب اللہ کا کلام ہونا ہے
، قُرآن کے مُحوّلہ بالا چنیدہ مقامات میں دُوسرا قابلِ توجہ مقام
سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 185 کا وہ مقام ہے جس میں اہلِ فکر کے سامنے یہ
سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اگر یہ مُنکرینِ قُرآن اِس حدیثِ قُرآن پر ایمان
نہیں لاتے تو پھر سوچو کہ اِس حدیثِ قُرآن کے بعد وہ کون سی حدیث ہے جس پر
وہ ایمان لائیں گے ، قُرآن کے اِن قابلِ توجہ مقامات میں سے تیسرا قابلِ
توجہ مقام سُورَہِ یُوسف کی اٰیت 111 کا وہ مقام ہے جس میں قُرآن نے
مُنکرینِ قُرآن کے سامنے یہ عقلی اصول و مَنطقی ضابطہ پیش کیا ہے کہ انسانی
نگاہ میں آنے والا جو قول اللہ کی وحی ہے وہی اللہ کی حدیث ہے اور انسانی
نگاہ میں آنے والا جو قول غیر وحی ہے وہ اللہ کی حدیث نہیں ہے بلکہ غیراللہ
کی حدیث ہے ، قُرآن کے اِن قابلِ توجہ مقامات میں سے چوتھا قابلِ توجہ مقام
سُورَةُالزُمر کی اٰیت 23 کا وہ مقام ہے جس میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے
اللہ نے قُرآن کی صورت میں اپنا جو مجموعہِ حدیثِ قُرآن نازل کیا ہے اُس کی
پہچان یہ ہے کہ اُس کی اٰیات کا اُس کی اٰیات کے ساتھ اور اُس کے الفاظِ
اٰیات کا اُس کے الفاظِ اٰیات کے ساتھ ایک ایسا معنوی رَبط رکھا گیا ہے کہ
قُرآن کی اِس با ربط حدیث میں انسان کی کوئی بے رَبط حدیث داخل نہیں ہو
سکتی ، قُرآن کے اِن قابلِ توجہ مقامات میں سے پانچواں قابلِ توجہ مقام
سُورَةُالجاثیة کی اٰیت 6 کا وہ مقام ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حدیثِ
قُرآن کے یہ اَجزاۓ حدیث اِس کے وہ اَجزاۓ حدیث ہیں جو اَجزاۓ حدیث ہم
بذاتِ خود اپنے رسُول کو سناتے ہیں اور ہمارا رسُول ہم سے سُننے کے بعد
اہلِ زمین کو سناتا ہے ، اگر یہ مُنکرینِ قُرآن ہماری اِس حدیثِ قُرآن اور
اِس کے اِن اَجزاۓ حدیث پر ایمان نہیں لائیں گے تو پھر وہ خود بتائیں کہ وہ
اور کس حدیث پر ایمان لائیں گے ، اللہ کی یہی وہ حدیثِ قُرآن ہے جس کے بارے
میں سُورَةُالاَسراء کی اٰیت 88 میں تمام جن و انس کو یہ چیلنج کیا گیا ہے
کہ اگر اُن کو اِس حدیثِ قُرآن کے بارے میں حدیثِ انسان ہونے کا کوئی گمان
ہے تو وہ سارے جن و انس باہم مل کر اِس حدیثِ قُرآن جیسی کوئی کتابِ حدیث
تیار کر کے اہلِ عالَم کے سامنے لے آئیں اور یہی وہ حدیثِ قُرآن ہے جس کا
سُورَةُالبقرة کی اٰیت 23 میں یہ چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر کسی انسان کو
ہمارے رسُول پر ہماری اِس حدیثِ قُرآن کے بارے میں حدیثِ انسان ہونے کا
کوئی شک ہے تو وہ اہلِ عالَم کی اجتماعی مدد سے اِس کی کسی ایک سُورت جیسی
کوئی ایک سُورت ہی اہلِ عالَم کے سامنے لے آۓ ، اِس کُھلے چیلنج کا مقصد
اِس حقیقت کو اُجاگر کرنا تھا اور کرنا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسانی ہدایت
کے لیۓ اپنی وحی کے ذریعے جو حدیث نازل کی ہے وہ صرف حدیثِ قُرآن ہے اور
اِس ساری علمی تفصیل کے بعد اَب اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اللہ تعالٰی نے
اپنے نبی کو حُکم دیا ہے کہ آپ اِس حدیثِ قُرآن کے جس پاکیزہ نظام کے عملی
نفاذ کے لیۓ آپ جو عملی جد و جُہد کر رہے ہیں اُس عملی جد و جُہد کو آپ
مُسلسل جاری رکھیں کیونکہ عمل اور نتیجہِ عمل کے درمیان انتظارِ نتائج کی
ایک مُقررہ مُدت ہوتی ہے اور جب وہ مُقررہ مُدت مُکمل ہو جاتی ہے تو ہر
انسانی عمل کا ہر نتیجہِ عمل خود بخود ظاہر ہو جاتا ہے اِس لیۓ آپ مُنکرینِ
قُرآن سے کہہ دیں کہ تُمہارے اُن اعمالِ کفر و شرک پر ایک زمانہ گزر چکا ہے
جس کے مَنفی نتائج کو اِس وقت میں دیکھ رہا ہوں اور اُن نتائجِ بد کی نشان
دہی بھی کر رہا ہوں اِس لیۓ تُم بھی اپنے اندر کُچھ حوصلہ پیدا کرو اور اِس
حدیثِ قُرآن کی مُثبت دعوت کے مُثبت نتائج کا انتظار کرو ، قُرآن کے اِن
بیانات کا مقصد قُرآن کا انسان کو یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالٰی کا انسانی
ہدایت کے لیۓ نازل کی گئی کتابِ حدیث صرف حدیثِ قُرآن ہے ، اِس حدیثِ نازلہ
کے سوا جو کُچھ ہے وہ حدیثِ انسان ہے جو تحقیق کے بعد شاید تاریخ کے کسی
جدلی باب میں تو کار آمد ہو سکتی ہے لیکن انسانی ہدایت کے اصلاحی باب میں
ہرگز بھی کار آمد نہیں ہو سکتی اور اٰیاتِ بالا کے آخر میں بھی قُرآن نے
اپنے اسی پہلے بیان کا اعادہ کیا ہے کہ اگر مُنکرینِ قُرآن حدیثِ قُرآن پر
ایمان نہیں لاتے تو پھر اگر وہ دل کے سچے اور قول کے پکے ہیں تو اِس حدیثِ
قُرآن جیسی حدیث پیش کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر اُن کے پاس
اِس ایک راستے کے سوا کوئی دُوسرا راستہ موجُود نہیں ہے کہ وہ کٹ حُجتی
چھوڑ کر اللہ کی اِس کتاب پر ایمان لے آئیں !!
|