'...دنیا کی زندگی توایک متاع فریب ہے- ٥٧:٢٠ -اور دنیا
کی زندگی نے تم کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے' ٤٥:٣٥ مزید 'جو مخلوق زمین پر ہے
سب کو فنا ہونا ہے' ٥٥:٢٦ - چنانچہ موت برحق ہے - اسی لیےانسان کا جسم
بالیدگی کا رحجان لیے پیداھو تا ہے اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد زوال میں روزن
ہو جاتا ہے - اس فطرتی عمل کو مٹانا نا ممکن ہے تو موت اور قبر سے خوف
کھانا کوئی معنی نہیں رکھتا - موت اور دفن انتظام کائنات کے ضروری جُز ہیں
- جسم شہادت کردار کا آلہ کار تھا- پھرایک مختص عرصہ کے بعد جب مقصد پورا
ہو رہا تو جسد خاکی میں سے وہ توانائی محفوظ طریقہ سےمفقود کر دی گئی جو
حقیقی بقا لیے مختص ہے اور جسے با امر الٰہی جاری رہنا ہے -
قبر صرف ایسی جگہ ہے جہاں ہر مومن اور غیر مومن مردہ جسم آہستہ آہستہ مٹی
میں تحلیل ہوتا ہے- موت اسپیس و ٹائم اور عضویاتی حیات کی بندش سے آزادی کا
ایک نام ہے جس کے بعد بقا، خلق کو ایک ایسی نامعلوم ڈائمنشن میں جا ڈالتی
ہے جس کا مکمل تصور اس دنیا میں قطعی ممکن نہیں - اعمال کاتب تقدیر ہو کر
خلق پر ایک دائمی مہر بنتے ہیں اور بقا اس مہر کا بوجھ اٹھائے اس دنیا سے
ایک پوشیدہ جہاں کو رخصت ہوتی ہے- اسطرح ہمیں ہر حال میں غائب پر یقین کرنا
لازم ہے- تاہم حقیقت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ انسان بصیرت عقل اور تفکر
علم و دانش کے ذریعے ایسے مشاہدات کرنے کا قابل ہے جو جسمانی آنکھ سے ممکن
نہیں- یہی وجہ ہے کہ کتب آسمانی، تخلیق پرغور کرنے کو بُہت اکساتی ہیں -
قرآن کا فرمان ہے: 'کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل
ایسے ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان ایسے ہوتے کہ ان سے سن سکتے-بات یہ
ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے
ہیں' -٢٢:٤٦ - اگر ہم اپنی ذات سے بعید, تخلیق کے بارے سوچیں تو یہ بعد از
موت ملنے والی بصیرت سے کم نہیں: 'حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کے علم پر یہ قابو
نہیں پا سکے اس کو نادانی سے جھٹلا دیا اور ابھی اس کی حقیقت ان پرکھلی ہی
نہیں...' ١٠:٣٩ - مزید ارشاد ہے: ' اور موت کی بے ہوشی حقیقت کھولنے کو
طاری ہوگئی ہے، یہی وہ حالت ہے جس سے تو بھاگتا تھا' - ٥٠:١٩- جسد خاکی سے
آزادی کے بعد تو وہ ڈائمنشن ہی مٹ جاتی ہے جس کے پردے میں بقا کی حقیقیت
پوشیدہ ہے اس لیے مومن ہو یا غیر مومن ، موت کے بعد یکساں طور پر سب واضح
دیکھتا ہے.
انسان کی آزمائش قدرت کا ایک تجربہ بھی ہے اور اسی لیے اسمیں معافی کی
گنجائش بھی رکھی گئی ہے ورنہ تو کائنات کے پیمانے اس قدر باریکی سے راہ عمل
ہیں کہ ان میں غلطی کا کوئی تصور شامل نہیں - انسان اشرفلمخلوقات بھی اسی
لیے ہے کہ مرضی کا حامل، خودی سے جڑا بندہ مجبور ہے لہذا منفرد طور پر اس
کی غلطیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے-اگر اللہ نے انسان کو کائنات کے نارمل
اصولوں پر پابند کیا ہوتا تو آج جس زمین پر ہم بستے ہیں یہ کب کی ہماری
کوتاہیوں کے بوجھ سے گرکر مٹ چکی ہوتی : 'زمین بالکل اجڑ گئی زمین یکسر
شکست ہوئی اور شدت سے ہلائی گئی وہ متوالے کی مانند ڈگمگائے گی اور جھونپڑی
کی طرح آگے پیچھے سے سرکائی جائے گی کیونکہ اس کے گناہ کا بوجھ اس پر بھاری
ہوا - وہ گرے گی اور پھر نہ اٹھے گی' بائبل: یسيه:٢٤:٢٠
چنانچہ: 'زمین بالکل خالی کی جائے گی اور بشدت غارت ہوگی کیونکہ یہ کلام
خداوند کا ہے -زمین غمگین ہوئی اور مر جھاتی ہے -جہاں بے تاب اور پثمردہ
ہوتا ہے ...زمین اپنے باشندوں سے نجس ہوئی کیونکہ انہوں نے شریعت کو نہ
جانا -آئین سے منحرف ہوئے -عہد ابدی کو توڑا-اس سبب سے لعنت نے زمین کو نگل
لیا اور اس کے باشندے مجرم ٹھہرے' بائبل: یسیه:٢٤:٥ اسی طرح قرآن پاک میں
فرمان ہے: 'اگر خدا لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑنے لگتا تو روئے زمین
پر ایک چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا لیکن وہ ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت
دیئے جاتا ہے...' ٣٥:٤٥ علاوہ ازِیں فرمایا: 'پھر ان کی نافرمانیوں کے سبب
ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں ' ٦:٤٢-
محاسبہ اعمال اچھی بات ہے مگر غلطیوں پراپنے آپکو کوس کوس کر نفسیاتی مریض
بن جانا بھی خدا کے کل اختیار کا انحراف ہے اور ایسا کرنا گناہوں کو دور
نہیں کرتا - خدا تعالیٰ نے ہی انسان کو خطا کار بنایا اور فرمایا: 'اگر تم
پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم میں پاک نہ ہو
سکتا مگر خدا جس کو چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے ...' ٢٤:٢١ - ضرورت رجوع حق کی
ہے تا کہ لآئحہ اعمال درست ہو جائے - نجات بے معنی سجدوں میں ہے نہ تسبیح
کے انگنت ورد میں - نجات، انا اور ذات کے دھوکے میں سے نکل کراختیار الٰہی
کو پہنچاننے اور تسلیم کرنے میں ہے -یہ احساس کہ کائنات خدائے رب العالمین
سے ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں, ایک ایساسجدہ عظیم هے کہ اس میں گیا انسان
جمود ہمیشگی میں جکڑ جاتا ہے اور دنیاوی زندگی بس بحیثیت فرض وقت کا پہیہ
کاٹتی رہتی ہے -
موت اور قبر سے تو انسان بے علمی میں ڈرتا رہتا ہے مگر پھر بھی پرستش
خواہشات سے نہیں رکتا- ڈرنے کی چیز تو خود اپنی ذات کا دھوکا ہے، جبکہ موت
اسی سراب زندگی کے ٹوٹنے کا نام ہے اور قبر وہ جگہ، جہاں جسدخاکی کو ذرہ
ذرہ بننا ہے - ضرورت موت اور قبر کو یاد کر کر کے رونے دھونے کی نہیں بلکہ
ذاتی شناخت کی ہے- بلکہ اس کائنات میں اپنی غیر معمولی حقیر حیثیت اورمقتدر
کے قادر مطلق ہونے پر یقین کامل رکھنےکی ہے تا کہ بندہ نچیز پر قطعی بے بس،
بے اختیار اور مجبور ہونے کی تلخ حقیقیت موت سے پہلے واضح ہو، اور یہ بھی
کہ: 'جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے...'
٣:١٢٩ '...اور تم خدا کو مغلوب نہیں کر سکتے' ٦:١٣٥ - یہی سچا سبق بر حق ہے
جس میں آخرت بے خوف اور موت پر سکون ہے-
|