مُنکرینِ قُرآن کے خلاف قُرآن کا حتمی فیصلہ !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالطُور ، اٰیت 44 تا 49 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ان یروا
کسفا من
السماء ساقطا
یقولو سحاب مرکوم
44 فذرھم حتٰی یلٰقوا
یومھم الذی فیه یصعقون
45 یوم لا یغنی عنھم کیدھم
شیئا و لا ھم ینصرون 46 و ان
للذین ظلموا عذابا دون ذٰلک و لٰکن
اکثرھم لا یعلمون 47 و اصبر لحکم ربک
فانک باعیننا و سبح بحمد ربک حین تقوم
48 و من الیل فسبحه و ادبار النجوم 49
اے ہمارے رسُول ! جن مُنکرینِ قُرآن سے ہم نے جو سوال کیۓ ہیں اُن کے فکری فریب کا تو یہ حال ہو چکا ہے کہ اگر وہ آسمان سے آنے والے عذاب کو بڑے بڑے پہاڑوں کی صورت میں خود پر آتا ہوا بھی دیکھیں گے تو یہی سمجھیں گے کہ یہ اُن کو برباد کرنے والے عذاب کے پہاڑ نہیں ہیں بلکہ اُن کی زمینوں کو سیراب کرنے والے وہ بادل ہیں جو بارش بن کر زمین پر برسیں گے اور جو قوم اِس قوم کی طرح اپنے شر کو خیر اور اپنی سزاۓ شر کو اپنی جزاۓ خیر سمجھتی ہے تو وہ قوم لا علاج ہو جاتی ہے اور اُس لاعلاج قوم پر ایک ایک عذاب کے بعد ایک ایک عذاب آتا چلاجاتا ہے یہاں تک کہ اُس پر وہ آخری عذاب بھی آجاتا ہے جو کسی کے ٹالے نہیں ٹلتا اِس لیۓ آپ اِن لوگوں کو اُس آخری عذاب تک کُھل کھیلنے کے لیۓ کُھلا چھوڑ دیں لیکن اِن کی عملی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیۓ ہر ایک دن کی صُبح سے شام اور ہر ایک شب کی شام سے صُبح تک صبر کے ساتھ اہلِ مقابلہ سے مقابلے کی تیاری بھی کرتے رہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِن آخری پندرہ اٰیات میں سے پہلی نو اٰیات میں قُرآن نے عہدِ نبوی کے مُنکرینِ قُرآن سے وہ نو عقلی و مَنطقی سوال کیۓ تھے جن کا اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کی پہلی سطر میں حوالہ دیا گیا ہے اور موجُودہ چھ اٰیات میں سے پہلی اٰیت میں بھی اُسی کج فہم قوم کا وہ ذہنی اَحوال بیان کیا گیا ہے جس ذہنی اَحوال نے اُس قوم کو ذہنی پسماندگی کے اُس مقام تک پُہنچا دیا تھا کہ اگر اُس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیۓ آسمان سے بڑے بڑے پہاڑ بھی اُتارے جائے جاتے تو وہ قوم یہی سمجھتی کہ یہ زمین پر جو پہاڑ گرتے ہوۓ نظر آتے ہیں یہ خُدا کے کسی خُدائی عذاب کی آمد نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے پیروں پروہتوں اور ہمارے بابوں باثوابوں کے فضاۓ بسیط میں بناۓ اور پھیلاۓ ہوۓ وہ بادل ہیں جو ہماری زمین پر رحمت کی وہ بارشیں برسائیں گے جو بارشیں ہمارے باغوں اور ہمارے کھیتوں کو سیراب و شاداب کردیں گی ، رَبطِ اٰیات و رَبطِ مفہومِ اٰیات کے اِس مربُوط حوالے کے بعد قُرآن نے اُس قوم کے بارے میں خُدا کے اُس حتمی فیصلے کا ذکر کیا ہے جس حتمی فیصلے میں اُس قوم کے فہم و ادراک کے اُس اَندھے و بہرے پَن کا ذکر کیا گیا ہے جس اندھے و بہرے پَن نے اُس قوم سے فہم و ادراک کی وہ فطری و فکری صلاحیت تک چھین لی تھی جو فطری و فکری صلاحیت انسانی فہم و ادراک میں سیاہ و سفید کا وہ جوہری فرق پیدا کرتی ہے جو جوہری فرق انسان کو اُس فطری و عقلی تمیز سے آشنا کرتا ہے جس فطری و عقلی تمیز کی بنا پر انسان حق کو حق سمجھ کر قبول کرتا اور باطل سمجھ کر رَد کر سکتا ہے لیکن جو قوم حق و باطل کی اِس فطری تمیز سے ہی محروم ہو جاتی ہے تو اُس قوم کو کُچھ سمجھانے یا نہ سمجھانے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اِس لیۓ قُرآن نے اٰیاتِ بالا میں اِس کلمہِ تمہید کے بعد صاحبِ قُرآن کی زبان سے عہدِ نبوی کی اُس مُنکر قوم کے بارے میں اللہ تعالٰی کا یہ حتمی فیصلہ سنایا ہے کہ اُس قوم میں چونکہ حق و باطل کی فکری و فطری تمیز ہی ختم ہو چکی تھی اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول حُکم دیا تھا کہ اُس قوم میں دعوتِ حق کا عمل روک دیا جاۓ کیونکہ اِس فیصلے کے بعد اُس قوم کے انکارِ حق کی پاداش میں اُس پر ایک ایک کرکے وہ مُختلف جانی و مالی اور معاشی و معاشرتی عذاب آتے رہیں گے جو اُس قوم کو خشک بُوسے کی طرح پیس کر رکھ دیں گے یہاں تک کہ اِس دوران اگر وہ قوم عزمِ توبہ و عملِ رجوع الی الحق نہیں کرے گی تو اُس پر وہ آخری عذاب بھی آجاۓ گا جس آخری عذاب کے بعد اُس کے عزم توبہ و رجوع الی الحق کی وہ مُدت بھی ختم ہو جاۓ گی جو مُدت اُس آخری عذاب کے آنے تک اُس کے پاس موجُود ہے ، اگر قُرآن عہدِ نبوی کی روز مرہ خبروں کا ایک روزنامہ اخبار ہوتا تو قُرآن کی اِس خبر کی زَد میں وہی ایک مُنکر قوم آتی جو عہدِ نبوی میں موجُود تھی لیکن قُرآن چونکہ اُس ایک زمانے کا روزنامہ اخبار نہیں ہے بلکہ آنے والے سارے زمانوں کا ایک علمی و عملی ہدایت نامہ ہے اِس لیۓ قُرآن کا بیان کیا ہوا یہ اَحوال عہدِ نبوی کی اُسی ایک مُنکر قوم کا اَحوال نہیں ہے جو عہدِ نبوی میں قُرآن کی مُخاطب قوم تھی بلکہ قُرآن کا بیان کیا ہوا یہ اَحوال قیامت تک آنے والی ہر اُس قوم کا ایک اَحوال ہے جو اِس ذہنی مرض کا شکار ہوگی جس مرض کی قُرآن نے اِن اٰیات میں تشخیص اور انشان دہی کی ہے ، اِس اعتبار سے آج کی اِس دُنیا میں قُرآن کی ایک مُنکر قوم تو وہ قوم ہے جو قُرآن کا کُھلم کُھلا انکار کرتی ہے جس قوم کا جو انکار اگرچہ بذاتِ خود بھی ایک قابلِ مواخذہ و قابل سزا جُرم ہے لیکن اُس قوم سے بڑی مجرم زمین کی وہ قوم ہے جو زمین پر اپنی زبان سے تو قُرآن کا کُھلا کُھلا اقرار کرتی ہے لیکن اپنے عمل سے قُرآن کا کُھلم کُھلا انکار بھی کرتی ہے ، اُس پہلی مُنکر قوم کا اصل عذاب تو اُس قوم کے زمین سے نابُود ہونے کے بعد شروع ہو گا لیکن اِس دُوسری منافق قوم کا عذاب وہ سخت ترین اور طویل ترین عذاب ہے جو اِس پہلی دُنیا سے شروع ہو کر اُس دُوسری دُنیا تک اُس کے ساتھ جاۓ گا جس دُوسری دُنیا میں اُس نے جانا ہے اور اٰیاتِ بالا میں آنے والے جس جانی و مالی اور معاشی و معاشرتی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے اُس عذاب کا اطلاق اسی دُوسری منافق قوم پر ہوتا ہے جو دن رات خُدا کا دیا کھاتی ہے اور دن رات دُشمنانِ قُرآن کے گُن گاتی ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558066 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More