تنوع اور تکثیریت کیاہے؟

اقوام متحدہ کے ایجنڈے ٢٠٣٠ یا نیو ورلڈ آرڈر (SDG-SUSTAINABLE DEVELOPMENT GOALS) میں موجود الفاظ ڈائیورسٹی اور انکلوژن(DIVERSITY & INCLUSION) کو اگر ہم اسلامی خوردبین سے دیکھیں تو کیا نظر آتا ہے اور اس نظریے اور نعرے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں۔

انسانی زندگی میں وحدانیت (Unity) انفرادیت (solitariness)بھی ہے اور تنوع (Diversity)بھی ہے۔ مذہبی، ثقافتی، صنفی ابعاد میں بھی وحدانیت بھی ہے تنوع بھی۔ بہرحال سب انسان ہیں اور انسانوں میں مشترکات بھی ہیں اور تنوع بھی۔ دین اسلام بعض موارد میں انفرادیت و اختلاف کی حمایت کرتا ہے اور بعض مواقعوں پر مشترکات اور اتحاد کا درس دیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کن مواقعوں پر اسلام تنوع کو فروغ دیتا ہے اور کن مواقعوں پر مشترکات کا اعادہ کرتا ہے۔مثلاً اسلام جہاں اصول دین کو تمام انسانوں کیلئے دنیا و آخرت کی فلاح کا ضامن قرار دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تمام انسان اس کو قبول کریں تو یہ قبولیت تعصب یا جبر کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل اور فہم کی بنیاد پر ہے، نیز انسانی فلاح، سعادت و خوشبختی کیلئے ہے۔یہی دعویٰ باقی دیگر مکاتیب کا بھی ہے مگر اس کیلئے کیا معیار ہے کہ جانچا جائے کہ آیا سب صحیح ہیں یا کچھ صحیح کچھ غلط ہیں۔ اسلامی تناظر میں جب تک انسان اصول دین کو مان نہیں لیتا اور اس کو اپنی زندگی میں جاری و ساری نہیں کرتا اس وقت تک انسان طالب علم ہے اور طلب علم کی شرائط یہی ہیں کہ ایسے انسان کے ساتھ رواداری، دلیل و منطق اور اس کے باطنی احساسات کو اپیل کیا جائے تاکہ وہ اس فطری قانون کی فہم و دانش حاصل کرلے۔ مختلف ثقافتوں کے ذیل میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ کیونکہ دین اور مذہب صرف رہن سہن کے طور طریقوں، کھانے پینے کے آداب، گفتگو کے طریقے ، شادی بیاہ کے طریق وغیرہ کو ہی مخاطب نہیں کرتا بلکہ ان تمام ظاہری رسوم و روایات میں بنیادی اور کلی قوانین کو پیش کرتا ہے، جس طرح ہر انسان کھانا کھاتا ہے مگر اپنی پسند کے مطابق مگر دین بس یہاں پر یہ کہتا ہے کہ حلال کھاؤ، حلال کماؤ اور حلال خرچ کرو۔ اس قانون کو ہر جگہ ، ہر ثقافت اور ہر مذہب قبول کرتا ہے۔ مذہب کی سماجی اور ثقافتی حیثیت یہی ہے کہ وہ ایسی رسوم اور طور طریقوں کو روکتا ہے جو انسانی سعادت و فلاح میں رکاوٹ ہیں۔ جو انسان کے کمال اخلاقی میں قدغن لگاتی ہیں۔ ایک طرف خدا وند تعالیٰ توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کہدو خدا صرف ایک اللہ ہے۔ دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ وہ کفار جن سے تمھیں خطرہ نہیں ہے ان پر زبردستی نہ کرو۔ اسلام دین کے نظام کے نفاذ میں کسی قسم کی رعایت اور رکاوٹ کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ دلیل، منطق اور انسان کے فطری احساسات کو اپیل کرکے قانون و نظام اسلامی کا نفاذ کیا جائے۔ اس عمل میں گھر کے تمام افراد، رشتہ دار، محلے دار، اساتذہ، روزگار پر کام کرنے کے ولی سب ذمہ دار ہیں کہ وہ قاعدے اور اصول جو معاشرے کے عقلاء اور دانشمندوں کے تجربات کے نتیجے میں وضع کیے گئےہیں ان کی مخالفت نہ کی جائے۔ظاہری طور پر تنوع کے باوجود وہ اصل او ر وہ باطنی جوہر جو تمام انسانوں میں یکساں ہے یعنی جسے ہم ضمیر بھی کہتے ہیں جو ہر انسان کو اندر سے رہنمائی کرتا ہے اس پر عمل کریں۔ یہ باطنی جوہر الہٰی ہے، یہ اندرونی اصل جو انسان کو حقائق کی طرف لیجاتی ہے جو انسانوں کو برائی اور باطل کے خلاف رکھتی ہے۔ یہ وہ اصل ہے جو شرافت، دیانت، امانت پاکیزگی، عدالت، خیر خواہی، جاں نثاری، فداکاری، مہربانی اور رحمت ، شجاعت جیسی صفات کی طرف رغبت دلاتی ہے۔ یہ اندرونی آواز ہر انسان کو خوشبختی اور سعادت کی طرف لیجانے کیلئے ہے جس میں رواداری، ملنساری، دلسوزی اور سب کو کامیابی سے ہمکنار دیکھنے کی آرزو ہے۔ اس رواداری میں شفقت آمیر اختلاف بھی ہے، مہربانہ تنوع بھی ہے۔علم والے کم علم والوں کے ذمہ دار ہیں اس ارتباط خواہ مرد و عورت ہوں، بچے یا بزرگ ہوں، مختلف اصناف کے افراد ہوں۔ اوریہ ذمہ داری خدا نے عطا کی ہے اسی لحاظ سے درست مکتب اور فرق کی نشانی اور علامت یہی ہے کہ جس کے فلسفے ہمہ گیر بھی ہوں، منطق اور دلیل و برہان پر استوار ہوں نیز ان کے علمی مباحثوں کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی دلسوزی، ملنساری، رواداری، مہربانی ، رحمت اور خیر خواہی موجود ہو۔

اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے مغربی طاقتیں جن مکاتیب کو فروغ دے رہی ہیں اس کے ذریعے وہ اپنی مادّی مفادات کے لئے علمی زمینہ ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ ان کے پس پردہ مکروہ عزام کو ظاہری خوشنما علمی ، ثقافتی اور سماجی جواز مل جائے۔ مثلاً ڈائیورسٹی اور پلورل ازم کے ذریعے یہ انسان سے اس کی فطری شناخت ختم کرکے اسے مادّی حیوان کے طور پر باور کرانا چاہ رہے۔ تاکہ کچھ مقتدر طاقتیں مذاہب خصوصا اسلام کو بھی ایک عامیانہ دین و مذہب کی طرح سمجھیں اور اس کے جامع نظام حیات کے بارے میں جاننے کی کوشش نہ کریں ، نیز خود مسلمانوں سے بھی ان کی اسلامی شناخت کو دور کرکے پلورل ازم (سب صحیح ہیں) کے نعرے میں جذب کردیا جائے۔ ڈائیورسٹی اور انکلیوژن کے ذریعے مردوں اور خواتین کے غیر روایتی، غیر اسلامی طریقوں کو رواج دیا جائے اور صنفی شناخت کو ختم کرکے سب کو معاشی مزدور میں تبدیل کرکے مقتدر سرمایہ داروں کا غلام بنادیا جائے۔ جن کی نہ اپنی کوئی سوچ و شناخت ہو، نہ ان کی زندگی میں سوائے کمانے، فضول خرچ کرنے کے علاوہ کوئی عالمی سوچ و دماغ نہ ہو جو ان عالمی سرمایہ داروں کو کسی قسم کا خوف دلا سکے۔پلورل ازم ، ڈائیورسٹی اور انکلیوژن در اصل ان چیزوں کو اپنانے کا نام ہے جس سے دین منع کرتا ہے اور ان چیزوں کو دور کرنے کا نام جس کا اسلام فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس کے ذریعے یہ اسلام مخالف طاقتیں اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر ہر اُس کلیہ کو مسمار کرنا چاہ رہے ہیں جس سے ان طاقتوں کے عزام میں رکاوٹ آتی ہو اوریہ کام یہ طاقتیں بہت میٹھے او رخوشنما فلسفوں، الفاظ، تعریفات اور نعروں کے ذریعے انجام دے رہی ہیں۔ ایک طرف یہ پلورل ازم کے تحت اسلامی اور دیگر مذاہب کو برابر قرار دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف نسلی تعصب، سیاسی تعصب کے تحت مختلف نقاط جہان میں دست درازی، ان کے وسائل کو لوٹنا، قتل و غارت روز کا معمول ہے اس کو یہ نیشنل سیکیورٹی کا نام دیتے ہیں یعنی یہاں سے پتا چلتا ہے کہ ان کی بھی کوئی سرحدیں ہیں جہاں سے غلط اور صحیح کا فرق شروع ہوتا ہے تو کم از کم اسی بنیاد پر دوسروں کو بھی اپنی عقیدتی اور مذہبی سرحدیں تعین کرنے کا حق ہے۔ایمیزون کے جنگل میں اگر چار پانچ افراد گم ہوجائیں اور راستہ صرف ایک یا دو کو پتا ہو تو اسی کے کہنے پر چلیں گے جس کوراستہ کا علم ہے، سب کو صحیح کہنے سے تو سب ہی پھنسے رہیں گے یا تکے سے نکل گئے تو نکل گئے۔۔۔ یہ انبیاء، رسل، ائمہ علیہم السلام وہی ہیں جنہیں راستے کا علم ہے لہذا سب کو صحیح کہنا یہاں مضر جان، مضر زندگی ہے۔ اپنے اپنے دلائل اور تجربات کے روشنی میں کھلے دل اور کھلے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کیجیے کہ سب صحیح کہنا درست ہے یا اس سے کوئی مستقبل تعمیر ہوگا سوائے اس کے چند سرمایہ داروں کی پس پشت دھونس اور جبر اور دنیاوی خواہشات کی تسکین ہوگی۔

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70848 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.