باکمال لوگ اور عریج السدھن کی اپیل

ہم وہ باکمال لوگ جو کشکول اٹھا کر مانگنے میں لاجواب ہیں اور اپنا ثانی نہیں رکھتے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ باکمال بھکاری لاجواب کشکول تو بھی برا نہیں کیونکہ اب دوسرے ممالک والے ہماری شکل دیکھ کر ہی بھانپ جاتے ہیں کہ کشکول والے صاحب آگئے کچھ نہ کچھ دو دینا پڑے گا نہیں یقین تو وزیر اعظم کا دورہ چین اور پھر انکی گفتگو سن لیں آپ حیران رہ جائیں گے اب تو ہمارے دوست ممالک بھی ہمیں بھکاری سمجھ رہے ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ خیرات میں ملنے والا پیسہ آخر جاتا کہا ہے غریب آدمی سے ووٹ لیکر برسراقتدار آنے والے اسی غریب کو مارنے پہ ہی کیوں تلے ہوئے ہیں چین کا ذکر آیا تو ذرا رک حیران ہوئے بغیرکر یہ بھی پڑھ لیں کہ ہماری پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائیر لائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھواتھا جس پر پورے چین میں جشن منایا گیا پاکستان نے چین کو تین جہاز فروخت کیے تھے ان میں سے ایک جہاز ماؤزے تنگ استعمال کرتے رہے جس جہاز پر آج بھی ’’کرٹسی بائی پاکستان‘‘ لکھا ہے پاکستان کا ویزہ کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتا تھا لیکن آج وہ چین دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں چین آگے نکل گیابلکہ بہت آگے نکل گیا یہاں تک کہ ’’میڈ اِن چائنا‘‘ چاند تک بھی پہنچ گیاآج دنیا کے بڑے بڑے کارخانے چین میں ہیں مہنگے سے مہنگا موبائل چین میں تیار ہو رہا ہے وہاں کے سوا ارب لوگوں نہ صرف خوشحال ہیں بلکہ وہ روزگار ، صحت، تعلیم اور شاندار زندگی میں دنیا سے دو قدم آگے بڑھنے جارہے ہیں اور ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ دو قدم پیچھے کھائی میں گرتے جارہے ہیں ان لوگوں کے لیڈر اپنی قوم کے ساتھ مخلص تھے جنکی ملک کے ساتھ وفاداری، ان تھک محنت اور خودداری نے انہیں دنیا کا سین ترین ملک بنا دیا چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا اور ہم نے اپنے ہاتھ سے کشکول کبھی گرنے نہیں دیا وہ لوگ اپنے ملک کے لیے تن من اور دھن جی جان سے قربان کرنے کے ہر وقت اپنے ملک میں رہتے ہیں جبکہ ہماری ساری لیڈر شپ پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی کرپشن روپے کے الزامات ہیں ان کی جائیدادیں اور گھر باہر ،بچے باہر اور اب تو ان کی جڑیں بھی ملک سے باہر ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم کشکول ہاتھوں میں اٹھائے بھیک لینے کیلیے دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں ہم ادھار کی زندگی بسر کرنے والے وہ پاکستانی ہیں جنہیں روٹی بھی دوسرے فراہم کرتے ہیں ہمیں آج تک قوم بننے ہی نہیں دیا گیا کبھی فرقوں میں تقسیم کرکے ہمیں مارا گیا تو کبھی ذات برادری اور لوکل مہاجر کا نام دیکر ہمیں برباد کیا گیا آپ یقین کریں ہمیں74 سال ہوگئے ہیں آزاد ہوئے مگر ذہنی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں اور یہ غلامی کا طوق ہمیں کسی اور نے نہیں بلکہ ہم سے ووٹ لیکر ہم پر مسلط ہونے والوں نے پہنایا ہے اپنی جائیدادیں فروخت کرکے الیکشن لڑنے والے جیتنے کے بعد کئی گنا زیادہ جائیدادیں بنانے والوں کے پاس پیسہ کہا ں سے آتا ہے کبھی کسی نے حساب نہیں لیایہی وجہ ہے کہ ہم مردار خور اور بھکاری بن چکے ہیں ہم کبھی افغانستان میں امریکا اور روس کی پھینکی ہڈیاں چوستے ہیں تو کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دھانچے پر بیٹھ کر گوشت نوچتے ہیں ہم نے آج تک خود کو قوم سمجھا اور نہ ہی قوم کی طرح اپنی نسلوں کی پرورش کی ہم 24 کروڑ بھکاری ہیں اور ہر سال ان بھکاریوں میں پانچ دس لاکھ نئے بھکاریوں کا اضافہ کر دیتے ہیں اور اگر ہم نے اپنا طرز عمل نہ بدلا تویہ بھی بڑے ہو کر اپنے بزرگوں کی طرح کشکول لیے بھیک مانگنے کی خاطر دنیا کی طرف دیکھنے لگیں گے کاش ہم آج ہی جاگ جائیں اﷲ تعالی نے ہمیں دنیا کا حسین ترین ملک دیا ہے جو گنے کی پیداوار میں پوری دنیا میں پانچویں نمبرپر ہے اور چینی ہم باہر سے درآمد کرتے ہیں گندم کی کاشت میں ہمارا آٹھواں نمبر ہے سستی روٹی تو درکنار ہم گندم بھی باہر سے درآمد کرتے ہیں چاول کی پیداوار میں ہم دسویں نمبر پر ہیں کپاس کی پیداوار میں پاکستان چوتھا بڑا ملک ہے مگر اسکے باوجود ہر شہری با آسانی تن ڈھاپنے کا کپڑانہیں خرید سکتا کیونکہ ہم پر سرمایہ داروں، منشاؤوں، ریاضوں، جاگیرداروں، وڈیروں، زرداریوں، ترینوں، چوھدریوں، سومروں، جتوئیوں، شاہوں، ملکوں، پیروں، مجاوروں، لغاریوں، مزاریوں، کھروں، شریفوں، نیازیوں،خانوں، ن لیگیوں، گیلانیوں، چٹھوں، ان کے گماشتوں اور مذہبی و خلائی مخلوق والی اشرافیہ قابض ہے اس لیے تھوڑا نہیں پورا سوچیں اسکے بعد کرپٹ نظام کے خلاف شعور اٹھ کھڑیں ہو ں اپنے جیسے عام لوگوں کو ووٹ دیکر آگے لائیں جنہیں پروٹوکول کی ضرورت ہوگی نہ باہر بیٹھے ہوئے بچوں کی ۔آخر میں ایک ای میل جو میرے نام لکھی ہوئی تھی اسے بھی شامل کال کر لیتے ہیں ۔میرا نام عریج السدھان ہے اور میں امریکہ میں انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر آپ کو اپنے بھائی عبدالرحمن السدھن کے بارے لکھ رہی ہوں عبدالرحمن سعودی عرب میں ہلال احمر کے لیے کام کرتے تھے جو کہ ایک عالمی انسانی نیٹ ورک ہے 2018 میں وہ گرفتاری کے بعدسے وہ غائب ہو گیا اور اسے 3 سال تک بغیر کسی الزام کے قید رکھا گیا بعد میں اسے ایک خفیہ مقدمے میں سزا سنائی گئی جبکہ مجھے حراست میں لیے جانے یا سفری پابندی میں ڈالے جانے کا خدشہ ہے ہماری آن لائن پٹیشن پر دستخط کریں اور شاہ سلمان سے مطالبہ کریں کہ وہ کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں، اور ان کے خاندان کے افراد پر سے من مانی سفری پابندیاں اٹھائیں!سعودی عرب نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیاہوا ہے لیکن اس کے باوجود بولنے والے بہت سے کارکنوں اور ان کے خاندان کے افراد پر سفری پابندیاں عائدہیں آپکی ہمدردی کی منتظر عریج السدھن بہن عبدالرحمن السدھان ۔


 
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 510874 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.