کریمنل جسٹس (تبصرہ ایک دوسرے پہلو سے)

کریمنل جسٹس نامی ویب سائٹ بھارت میں او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز کی گئی ہے۔ اس ویب سائٹ میں بر صغیر پاک و ہند کے ابتر نظام انصاف کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔

چند روز قبل "کریمنل جسٹس" نامی ایک ویب سیریز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جن حالت و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ویب سیریز ترتیب دی گئ ہے اس سے پاکستان اور بھارت میں رہنے والے ہر شہری کا بلواسطہ یا بلاواسطہ پالا پڑتا ہے۔ چونکہ آزادی کے بعد بھی ہم اسی فرسودہ نظام انصاف میں موجود ہیں جو انگریز کے آنے کے بعد ہم پر تھوپ دیا گیا تھا اسی لئے اس ناقص نظام کا خمیازہ ہر دور میں ہم نے بھگتا ہے اور اب تک بھگت رہے ہیں۔ موجودہ دور میں اس نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔

کریمنل جسٹس نامی یہ ویب سیریز در اصل برطانیہ کے مشہور ادارے BBC کی تیار کردہ ہے جسکے حقوق بھارت میں ویب سیریز کو نشر کرنے والے ایک ادارے hotstarHD نے خریدے بعد ازاں اسکو ہندی/اردو میں re direct کرکے رواں سال کے اوائل میں نشر کیا گیا۔ قسط کا دورانیہ 41 تا 60 منٹ پر مشتمل ہے۔ کل اقساط کی تعداد 10 ہے۔

کہانی ایک ایسے فرد(ادیتیا) کے گرد گھومتی ہے جو ایک متوسط طبقے کے ایک سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی زندگی کو ایک مخصوص رفتار سے ترقی کی منزل کی جانب گامزن کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ ادیتیا ایک نجی ٹیکسی سروس میں بطور ڈرائیور پارٹ ٹائم کام کرتا ہے۔

اسی اثناء میں دوسرا کردار سکرین پر جلوہ گر ہوتا ہے۔۔ "سنایا" نامی یہ لڑکی در اصل کہانی کا دوسرا مرکزی کردار ہے۔ایک لا ابالی سی شخصیت جو کہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔۔ایک زمانے میں منشیات کی عادی تھی مگر اب اپنی عادت کو ترک کر کے ایک ایسی نجی غیر سرکاری تنظیم میں کام کرتی ہے جو بچوں کے استحصال،بچہ مزدوری کو روکنے سے متعلق ہے۔

سنایا کی ادیتیا سے ملاقات ادیتیا کی ٹیکسی میں ہوتی ہے۔ سنایا ایک مخصوص destination کے ساتھ سفر کا آغاز کرتی ہے مگر ہر بار پہنچنے سے قبل ہی بدل دیتی ہے۔ بارہا بدلنے کے باعث دونوں میں تلخ کلامی ہوتی ہے جس کے باعث صورتحال نا خوشگوار ہوجاتی ہے۔ آخر کار سنایا آخری بار اپنی destination بدلتی ہے اور اب کی بار اس کی destination اسکا اپنا گھر ہوتا ہے۔ ادیتیا سنایا کو گھر پر چھوڑنے کے بعد اپنے گھر کا رخ کرتا ہے اسی دوران سنایا اسکو اپنے گھر مدعو کرلیتی ہے۔ ٹیکسی میں ہونے والی تلخ کلامی دونوں کے ذہن میں تازہ ہوتی ہے اس وجہ سے ادیتیا اسکی دعوت کو رد نہیں کر پاتا۔

مذہب سے دوری نے نوجوان نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اسکی مثال ہمارے معاشروں میں با آسانی دیکھی جاسکتی ہے۔

شراب اور ناچ گانے کا دور شروع ہوتا ہے اور اسکا اختتام دونوں کی نشے میں دھت ہونے پر ہوتا ہے۔
آنکھ کھلنے کے نتیجے میں یہ بات ادیتیا پر واضح ہوتی ہے کہ رات کافی بیت چکی ہے۔ گھر واپس جانے کا فیصلہ کر کے وہ جانے کیلئے کھڑا ہوجاتاہے۔ جانے کی اطلاع دینے کیلئے جیسے ہی وہ سنایا کے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو وہاں کا منظر دیکھ کر اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ جاتا ہے۔ کمرے میں سنایا کی لاش موجود ہوتی ہے۔ خنجر کے پے در پے وار کر کے اسکو موت کے حوالے کیا گیا ہوتا ہے۔ نہایت عجلت کی حالت میں ادیتیا وہاں سے فرار ہوجاتا ہے۔

"کرائم سین" پر پولیس پہنچتی ہے اور پوچھ گچھ کے بعد اس اندوہناک واقعے کی FIR درج کرلیتی ہے۔ واقعے کی اطلاع سنایا کا پڑوسی پولیس کو کرتا ہے۔وہاں ہڑبڑاہٹ کے عالم میں ادیتیا اپنی گاڑی روڈ پر دوڑارہا ہوتا ہے۔ ان گنت خیالات اسکی توجہ ڈرائیونگ سے ہٹا دیتے ہیں جسکے نتیجے میں روڈ کی ایک طرف سے گھومتے ہوئے وہ سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکرا جاتا ہے۔

موقع پر پولیس پہنچ کر دونوں کو گرفتار کر کے تھانے لے جاتی ہے۔ جہاں سنایا کا پڑوسی تھانے میں سنایا کے قتل کے حوالے سے پولیس کی تفتیش میں مدد کرنے کی نیت سے موجود ہوتا ہے۔ اسی دوران اسکی نظر ادیتیا پر پڑتی ہے اور اگلے لمحے وہ اسکو پہچان لیتا ہے۔

پولیس ادیتیا کو سنایا کے قتل کے جرم میں گرفتار کرلیتی ہے ۔ تلاشی کے دوران ایک خنجر ادیتیا کے پاس سے بر آمد ہوتا ہے جسکی جانچ میں یہ بات واضح ہوتی ہے کے اس پر ادیتیا کے انگلیوں کے نشانات جبکہ سنایا کا خون ملتا ہے۔

ملزم ادیتیا کو حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ گاڑی پولیس اپنے قبضے میں لے لیتی ہے۔
یہاں ایک اور کردار مادھو مشرا(جو کہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہے اور اسکی وجہ شہرت اچھی نہیں ہے) اس کیس کو ادیتیا کی جانب سے لڑتا ہے۔ موجودہ دور میں وکالت جیسا شعبہ بھی بدعنوان افراد سے محفوظ نہیں۔ نظام کی خرابی نے جہاں دیگر شعبہ جات کو متاثر کیا وہیں عدالتی نظام بھی اسکا شکار ہے۔جج سے لے کر چپڑاسی تک ہر فرد بدعنوانی میں ملوث ہے۔ برائ کے اس دور میں واقعتا نیک لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہی رہ گئے ہیں۔

عدالتی کاروائی شروع ہوتی ہے جس کا اختتام ادیتیا کو 7 سال عمر قید کی سزا سنانے پر ختم ہوتا ہے ۔

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جن سزاوں کا اطلاق دین اسلام مجرم پر کرتا ہے اسکا مقصد اجتماعی اصلاح ہے۔ مثلا چوری کرنے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے اس سزا کا مقصد یہ ہے کہ مجرم کو دیکھ کر ہر وہ فرد جو چوری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو باز آجاے اور عبرت حاصل کرتے ہوے اپنے ارادوں کو ترک کردے۔

جیل میں جانے کے بعد ادیتیا کا سامنا سنگین جرائم میں ملوث عادی مجرموں سے ہوتا ہے۔
دین سے بے بہرہ معاشروں میں معاشرتی برائیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ اپنی عزت اور جان کی قیمت وہ پانچ لاکھ روپے کی صورت میں جیل میں موجود مافیا کو ادا کرتا ہے۔ ان پیسوں سے متعلق درخواست وہ اپنی بہن سے کرتا ہے جس کے نتائج اسکی بہن اپنے شوہر سے کشیدہ حالات کی صورت میں بھگتتی ہے اور بالآخر یہ وجہ ان میں طلاق کی وجہ بن جاتی ہے۔

مختصر یہ کہ مادھو مشرا (وکیل) کیس کی دوبارہ جانچ پڑتال شروع کرتا ہے۔ سخت محنت کے بعد سنایا کی زندگی کے پہلو کھوج نکالتا ہے جہاں اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سنایا جس NGO میں کام کرتی تھی در حقیقت وہ بچوں کی "غیر قانونی اسمگلنگ"اور ان سے "جسم فروشی" کروانے جیسے قبیح اور مکروہ فعل میں ملوث تھی۔ یہ حقائق جب سنایا پر واضح ہوے تو اس نے ان کے خلاف جانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ موت کا شکار ہوئ۔

وکیل شواہد جمع کرتا ہے اور پولیس سے نئے سرے سے تحقیقات کے آغاز کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
پولیس اس کی رائے کو مان کر تحقیقات دوبارہ شروع کرتی ہے۔ اپنی تحقیقات کا رخ جب پولیس NGO کے مالک اور اسکی بیوی کی طرف کرتی ہے تو کیس مکمل طور پر ایک نیا رخ لے لیتا ہے۔ تفتیش کے دوران یہ بات پولیس پر واضح ہوجاتی ہے کے اس قتل کی واردات میں ادیتیا نہیں بلکہ NGO کے مالک کی بیوی ملوث ہوتی ہے۔واردات کی شب وہ وہاں موجود ہوتی ہے اور موقع پا کر سنایا کو قتل کر کے فرار ہوجاتی ہے۔

دوران تفتیش وہ اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ سنایا ان کے "کاروبار" کیلئے خطرہ بن گئی تھی۔ جب کہ وہاں موجود ادیتیا اس گھناؤنی سازش کا شکار ہوجاتا ہے۔ بالآخر 17 ماہ کے طویل عرصے کے بعد عدالت اپنا پرانا فیصلہ خارج کرتی ہے اور ادیتیا کو باعزت بری کر دیتی ہے۔

○معاشروں میں بڑھتی ہوئ بے راہ روی، بے چینی اور بے حیائی کا ایک سبب محرم نا محرم میں کوئ تمیز نہ رکھنا بھی ہے۔

○جہاں پولیس کا فرسودہ نظام ہمارے معاشروں کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے وہیں اسکا غیر پیشہ ورانہ رویہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ کسی ملزم کے مجرم ثابت ہونے تک کی کاروائ ہی دراصل پولیس افسر کا امتحان ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ملزم کو فورا ہی مجرم مان لیا جاتا ہے۔

**چند سوالات**
○دوران قید ادیتیا کے ساتھ ہونے والی نا انصافی، 17 ماہ جو اس نے قید میں ناکردہ جرم کے باعث کاٹے اسکا ازالہ کیسے ممکن ہے ؟

○جس کرب و کشمکش سے فرد کا خاندان گزرا اس جرم کی سزا کہیں نہ کہیں ادیتیا کی بہن کو بھی ملی ۔۔ کیا اسکا ازالہ ممکن ہے ؟

○کیا جیل کا نظام ایک عارضی مجرم کو عادی مجرم بنانے میں معاون ہے یا معاشرے سے مخلص شہری بنانے میں ؟

**حرف آخر**
ان سوالات کا ابھرنا اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کا انسان کیلئے وضع کردہ نظام نقائص سے بھرا ہوا ہے۔خدا کی ذات وہ واحد ذات ہے جو بنی نوع کیلئے کسی غرض سے پاک نظام دیتی ہے۔ دینی نظام کسی خاص رنگ نسل یا طبقے کیلئے نہیں بلکہ یہ نظام ہر دور کے انسانوں کیلئے موجود ہے۔ قرآن کریم کی آیت مبارکہ مین اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں:

"اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا‌ؕ○
ترجمہ:(اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔

دین کی معاشرت کا تصور رب کریم کی ذات سے منسلک ہے۔ قوانین اور اصول جب رب کے وضع کردہ ہونگے تو وہاں خرابی کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ اسلام ایک ایسا معاشرہ ترتیب دیتا ہے جہاں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو۔ غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیاوی قوانین جرائم کہ بعد قابل عمل ہوتے ہیں اس کے برعکس خدائی نظام انسان کو وہاں تک جانے سے قبل ہی روک دیتا ہے۔

**بلا شبہ ہر معاشرتی برائ اپنا اختتام جرم پر کرتی ہے**
"متلاشی حق"
مانی

#criminaljustice
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.