پاکستانی ڈراموں کا نوحہ

ڈرامے کی ریٹنگ چاہیے تو عورت کو خوب نوچو، مارو اور اسکے کپڑے بھی پھاڑ ڈالو، پھر دیکھو کیسی ریٹنگ آتی ہے۔

پاکستانی ڈراموں کا نوحہ

پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینلوں پرکافی عرصے سے لگاتار ایسے ڈرامے نشر کیے جارہے ہیں جو انیس بیس کے فرق سے تقریباً ایک ہی جیسے ہیں ، جوبھی چینل لگاؤ ہر جگہ ایک جیسے ڈرامے نظر آتے ہیں ۔ اسوقت اکثریت سے پاکستانی ڈرامے یکسانیت کا شکار ہیں جسے دیکھ کر شدید کوفت ہوتی ہے ۔ان ڈراموں کی وجہ سے یہ چینلز انٹرٹیمنٹ سے زیادہ ڈپریسیو چینل لگنے لگے ہیں اور گھٹن محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے پاکستانی ڈرامے کسی قدر زوال کی پستیوں میں جا چکے ہیں ۔ ڈرامے کی کامیابی کا میعار ریٹنگ اور یوٹیوب پر میلن بلین ویوز کو سمجھا جانے لگا ہے۔ ضروری نہیں کہ جس ڈرامے کی ریٹنگ اور یوٹیوب ویوز زیادہ ہوں وہ ڈرامہ میعاری اور بہترین ہو اور ادب کے تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہو۔آپ کو ہر دوسرے ڈرامے میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں، کسی میں دو لڑکے ایک لڑکی، امیر لڑکا اور غریب لڑکی تو کسی میں ظالم ساس سسرال اور کسی میں امیر لڑکا زبردستی غریب لڑکی کے پیچھے پڑا نظر آے گا ۔ توکہیں ڈرامے کو صوفیائی روحانی رنگ دے دیا جاتا ہے ،

اکثر پاکستانی ڈراموں کی کہانیوں کا محور یہی گھسے پٹے موضوعات ہی رہ گئے ہیں۔ اگر اس سے بھی کام نہیں بنتا تو روتی پیٹتی عورت کی بے بسی کے آزمودہ موضوع کو لے کر نئے لفافے میں لپیٹ کر پیش کردیتے ہیں اس پرمشہور سنگرز سے زبردست سا او ایس ٹی تیار کروا کر لے آتے ہیں ، لیجیے ڈرامے بازوں کا ایک نیا ڈرامہ تیار ہوگیا۔(لاھولاولاقوۃ)

1980-90 کی دھائی میں بھی ڈرامے بنا کرتے تھے،، انکے موضوعات کا محور محض لڑکا لڑکی کی ذات نہیں بلکہ معاشرے کا ایک پہلو ہوا کرتا تھا جسے دیکھ کر ایک سوچ ڈیویلپ ہوتی تھی ۔ ان ڈراموں میں روتی بلکتی مظلوم مسکین عورتوں کو نہیں دکھایا جاتا تھا۔ اسکے برعکس وومن امپاورمنٹ کی جھلک نظر آتی تھی ۔ جسکی بات تو آج یہ سب اداکار، ہدایت کار وغیرہ سب کرتے ہیں مگر عمل ندارد ہے۔کچھ دن پہلے ایک مشہور اخبار میں ایک ڈرامے کا اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا ، اس میں لڑکی کا روتا ہوا چہرہ بنا ہے اور ہاتھ زنجیروں میں جکڑے ہوےَ ہیں اور اسکا سرا لڑکے کے ہاتھ میں ہے جو چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے ہوے ہے ۔اس پوسٹر کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ڈرامہ زوال کی شدید پستیوں میں گرا پڑا ہے ۔عورت کی تذلیل کو ڈرامے کی پزیرائی کا ذریعہ سمجھنا ہمارے ڈرامہ سازوں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے ، ڈرامے کی ریٹنگ چاہیے تو عورت کو خوب نوچو، مارو اور اسکے کپڑے بھی پھاڑ ڈالو، پھر دیکھو کیسی ریٹنگ آتی ہے۔

۔ایسے ماحول میں صنف نازک کو صنف آہن میں ڈھالنے کا نظریہ بھی سامنے آیا۔اچھا نظریہ تھا مگراس نظریے کی بھی مٹی پلید کردی گئ میرا ان حلقوں سے سوال یہ ہے کہ عورت کو صنف آہن ثابت کرنے کے لئے بندوق اٹھانا ضروی ہے ؟؟ کیا بندوق اٹھاےَ بغیر عورت کا صنف ، نازک سے آہن نہیں بن سکتا اسکے لئے بندوق اٹھا کر مردوں کی مشابہت کرنا ہی ضروری ہے ؟؟ عورت اپنے ہی آپ میں آہن کیوں نہیں ؟ یہ ڈرامہ بھی ایک بیمار ذہن کی پیداوار تھا۔ اسوقت پاکستانی جینلوں پر ایک سے بڑھ کر ایک گھٹیا اور غیر میعاری ڈراموں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے جسے مسمار کرنے والا کوئی نہیں ۔ ان فضول بے مقصد گھٹیا چربہ ڈراموں کی بھیڑ میں پاکستانی ڈراموں کا شاندار ماضی کہیں لاپتہ ہوگیا ہے جسے بڑی محنت اور لگن سے فاطمہ ثریا بجیا ، انور مقصود، بانو قدسیہ ، اشفاق احمد اور حسینہ معین جیسے نامور تخلیق کاروں نے پروان چڑھایا تھا ۔

ڈرامہ ادب کی ایک زبردست اور لاجواب صنف ہے جو انگریزی ادب سے اردو ادب میں لایا گیا اورماضی میں ہمارے تخلیق کاروں نے اسکی خوب نوک پلک سنواری اور اسے محبت سے سینچا ۔ مگر پحھلے کچھ عرصے میں دولت اور شہرت کے بھوکے نام نہاد ڈائریکٹروں ، رائٹروں اور پروڈیوسروں نے ڈرامے کا جو حشر کیا ہے وہ قابل ترس ہے ۔ یہ لوگ شاندار ماضی رکھنے والے پاکستانی ڈرامے کی بوٹیاں نوچ کر کھا رہے ہیں اور ادب کے میعار پر پورا اترنا توبہت ہی دور کی بات ہے۔اسوقت پاکستانی ڈرامہ شدید بحران کی کیفیت میں ہے ،ہمارے ملک میں ڈرامے کی صنف وینٹیلیٹر پر ہے۔جو کسی بھی وقت دم توڑ جاےَ گی، اگر ان بے تکےڈراموں کی سمت کا تعین نہ کیا گیا اوراس میں بہتری نہ لائی گئی تو ہمارے ڈرامے کا ذکرمحض ماضی کا قصہ بن جائے گا۔
 

Adnan
About the Author: Adnan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.