معروف بھارتی سنگر سدھو موسے والا وہی گلوکار ہیں کہ
جنہیں دن دیہاڑے لارڈ بشنوئی نامی گنگسٹر کے گنڈوں نے قتل کردیا تھا۔ اس کے
قتل میں کئی سازشی تھیوریز شامل ہیں تاہم، سچ یہی ہے کہ حقیقت سمجھ جانے
والوں کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
آج اس کے 295 دی لاسٹ رائیڈ نامی گانے سننے کا اتفاق ہوا۔ویڈیو کی یہ لیرکس
اپنے اندر میڈیا اور موجودہ صحافت کا عکس رکھتی ہیں۔
بھارت اور پاکستان کی اشرافیہ میں ایک بات مشترک ہے جب کبھی انہیں احساس
ہوتا کہ شعور پیدا کرنے والا کوئی پیدا ہوگیا ہے تو اسکو ابدی نیند سلا
دیتے ہیں۔
سدھو موسے والا ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ الیکٹرکل انجینئرنگ میں ڈگری
رکھنے والا یہ فرد اپنے گانوں میں سماجی مسائل اور سکھ اقلیت پر جاری ظلم
کو سامنے رکھتا تھا۔
سکھ اقلیت، عیار و مکار ہندو قیادت کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنتی آرہی ہے۔
آزادی سے قبل 1919 میں سانحہ جلیانوالہ باغ امرتسر میں اسی اقلیت کو انگریز
نے نشانہ بنایا۔ لگ بھگ 1200 افراد کو اس واقعہ میں قتل کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس وقت کوئی ایسا گھر امرتسر میں نہیں تھا کہ جس میں کوئی
قتل نہ ہوا ہو۔ 1984 میں گولڈن ٹمپل سانحہ میں بھی مکار ہندو قیادت نے انکو
نشانہ بنایا۔
حالیہ دور میں بی جے پی سرکار نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔
نتیجتا آج بھارتی پنجاب میں اس اقلیت کا نوجوان منشیات کا عادی ہے۔ انہی
میں سے کوئی سدھو موسے والا اگر کھڑا ہوجائے تو اسکو یہ اشرافیہ ختم کر
دیتی ہے۔
یہی صورتحال وطن عزیز میں بھی ہے اور شاید یہی ہمیں دیکھنا ہو کہ جو کوئی
اشرافیہ کے جرائم پر سے پردہ اٹھانے یا ان کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرے گا
تو اس کا حشر 11 گولیوں کی شکل میں دی جانے والی موت ہوگی۔
|