دنیا بھر کے مسلمانوں نےہمیشہ کی طرح اس سال بھی عید
الاضحی بڑے جوش و خروش سے مناٸی ہے۔اور سنتِ ابراہیمی کی یاد کو تازہ کیا
ہے۔جہاں اس فعلی عبادت کو سر انجام دینے کی الگ فضیلت ہے۔وہیں اس بات کو
سمجھنا بھی ایک ضروری امر ہے کہ قربانی کا اصل مقصد کیا ہے؟
کیا قربانی کا مقصد صرف جانور کا ذبح کرنا ہی ہے؟
کیا کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے اور غور کرنے کے بعد کچھ سیکھا بھی ہے؟
اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو آپ خوش نصیب ہیں اور اگر نہیں ہے تو سوال پھر یہ
ہے کہ ہم غور آخر کب کریں گے؟
ہم میں سے بہت سے لوگ اس لیے بِنا غور و فکر کیے قربانی کرتے آ رہے ہیں کہ
ہمارے آباٶ اجداد یہ قربانی کرتے آۓ ہیں۔لیکن ہم نے کبھی یہ نہی سوچا کہ اس
قربانی کے پس پردہ ہمیں کس چیز کی ترغیب دی جا رہی ہے۔قربانی ہمیں سکھانا
کیا چاہتی ہے؟
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا قربانی ہمیں بس یہی سکھاتی ہے کہ سال
میں کچھ رقم اکٹھی کی جاۓ ایک جانور خریدا جاۓ اور اس کی قربانی کی جاۓ؟
پھر میرا دل کہتا ہے نہیں قربانی فقط کسی مادی چیز(وجود) کو قربان کرنے کا
نام نہیں ہو سکتا۔ شاید قربانی انسان کے اندر چھپے جانور کی قربانی کا نام
ہے اور اس جانور کی مختلف حالتیں اور صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یہ جانور ڈر, غصہ,
,نفرت, پیار ,بغض, حسد, شک یا وسوسہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جب حضرت ابراہیم(ع) نےحضرت اسماعیل(ع) کے گلے
پر چھری پھیری تھی تو اس وقت آپ کس قسم کی کشمکش سے دوچار ہوۓ ہوں گے؟ ان
کے دل میں شیطان نے انسانی عقلی مصلحت کی فریب کاری کے سہارے کتنے وسوسے
ڈالے ہوں گے؟
اور جب اللہ نے مینڈھا بھیج کر حضرت اسماعیل (ع) کو بچالیا اور اسماعیل (ع)
کی جگہ مینڈھا ذبح ہوا تو کیا قربانی صرف مینڈھے کی ہوٸی تھی؟
میں سمجھتا ہوں کہ مینڈھا تو بہانا تھا اصل قربانی تو دل میں اٹھتے انسانی
عقلی مصلحت کی فریب کاری سے بنے وسوسوں کی ہوٸی تھی, بیٹے کے پیار کی ہوٸی
تھی۔آپ (ع) کو اللہ پر اعتبار اتنا ذیادہ تھا کہ آپ(ع) نے اپنے بیٹے کے گلہ
پر چھڑی پھیرنے سے گریز نہیں کیا چاہے بیٹے کے پیار نے انہیں آنکھوں پر پٹی
باندھنے پر مجبور کر دیا ہو لیکن آپ (ع) نے اللہ کی رضا میں یہ سب کچھ کیا
اور اپنے وسوسے, پیار اور اس پیار کی وجہ سے پیدا ہونے والے ڈر کو قربان
کیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آج کیا کر رہے ہیں؟
ہم صرف فعلی عبادت کو سر انجام دے رہے ہیں( اس بات میں کوٸی شک نہیں کہ اس
فعلی عبادت کی اپنی ہی ایک فضیلت ہے) لیکن ہم اس کے اصل مقصد سے کوسوں دور
ہیں کیوں کہ ہم غور نہیں کرتے۔ ٹھیک ایسے ہی جیسے ایک شخص کو ہیروں اور
اشرفیوں سے بھرا ہوا ایک چمکتا دمکتا بند ڈبہ ملا ہو اور وہ شخص اس ڈبے کو
کھولے بغیر صرف اس ڈبے کی چمک دمک کےسحر میں جکڑا رہے اور اس ڈبے کی حقیقت
اور قدروقیمت سے غافل رہے۔
چلیں میں اپنی مثال لے لیتا ہوں اور سوال کا جواب آپ پر چھوڑدیتا ہوں۔
اگر میں آج اپنے کسی مسلمان بھاٸی کی چند سو روپے کی مالی امداد اس لیے
نہیں کرتا کہ شاید وہ مجھے یہ پیسے اپنی مفلسی کی وجہ سے واپس نہیں کر سکے
گا حالانکہ میں جانتا ہوں کہ اس کو ان پیسوں کی اشد ضرورت ہے لیکن میں نہیں
کرتا۔
اور اگلے دن میں منڈی جا کر ہزاروں روپے کا جانور لے کر اللہ کی رضا کیلیۓ
قربانی کر لیتا ہوں تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں نے سہی معنی میں لفظ
قربانی کے ساتھ انصاف کیا ہے؟
کیا میرا جانور کی قربانی کرنا مناسب ترین انتخاب تھا؟
اس تحریر میں کسی غیر مذہب شخص کی بات کا حوالہ دینا شاید تھوڑا غیر مناسب
لگے لیکن تھوڑا سا برداشت کیجیۓ گا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ صحیح بات صحیح
ہوتی ہے, چاہے وہ مسلمان کی زبان سے نکلے یا غیر مسلم کی ذبان سے
مارٹن لوتھر کنگ کہتے ہیں ,
"God does not need your good works, but your neighbor does."
میں اس بات کی ترغیب ہر گز بھی نہیں دے رہا کہ آپ اس قربانی کے عمل کو
بالکل ہی چھوڑ دیں۔بلکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس سنتِ ابراہیمی کو پورے جوش
و خروش اور جذبے کے ساتھ انجام دیں۔لیکن میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تصویر
کے دوسرے رخ پر بھی غور کریں میرے خیال میں قربانی بہت مقدس اور وسیع عمل
ہے۔یہ فقط جانور کے ذبح کرنے تک محدود نہیں ہے۔ اس کی مخصوص قسم کی صورت
حال میں مختلف صورتیں ہیں جن میں سے آپ کو مناسب ترین صورت کا انتخاب اپنی
ذات کا محاسبہ کر کے اور صورت حال کا جاٸزہ لے کر کرنا ہے۔
اللہ میرا, آپکا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
|