ارشادِ ربانی ہے:’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت
ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں‘‘۔ اس آیت کریمہ میں امت
کے اس خوش بخت گروہ ہونے کا ذکر ہے جو خیر کی جانب بلائے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین بار یہ ارشاد فرمایا: ’’دین سراسر
خیرخواہی کا نام ہے۔‘‘ اس لیے خیر کی دعوت گویا دین کی دعوت ہے۔ تمام ہی
انبیاء کی بعثت کا یہ اہم ترین مقصد اور اقامتِ دین کی ہمہ جہت جدوجہد کا
اولین مرحلہ ہے ۔ اس لیے اسے طویل المدتی حکمت عملی(long term strategy) کا
محورہونا چاہیےکیونکہ وارث لانبیاء امت مسلمہ کو زمان و مکان کی قید سے
اوپر اٹھ کر یہ ذمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے ۔ ۔ وقت اور علاقہ کے لحاظ سے
آزمائش مختلف ہوسکتی ہے اور اس کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے قلیل مدتی
سرگرمیاں (short term activities) طے کی جانی چاہئیں۔ یہ سرگرمیاں زمان و
مکان کی قیدو بند سے آزاد نہیں ہوسکتیں۔
آیت کے اگلے حصے میں اس گروہ کا کام بتایا گیا :’’ اور بھلائی کا حکم دیں
اور برائی سے روکیں‘‘۔گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر دین کے مختلف اہم پہلووں
کی جانب سے امت کی توجہ ہٹ جاتی ہے مثلاً کسی وقت میوات جیسے علاقہ میں
ارتداد کا خطرہ وارد ہوجائے ، لوگ کلمہ تک بھول جائیں اور ان کے اندر سے
پنچگانہ نماز تک کا احساس تک جاتا رہے ۔ اس تناظر میں تبلیغی جماعت کی عملی
جدوجہد وقت کی اہم ضرورت بن گئی۔ مغرب کی فکری یلغار نے دین اسلام کو ذاتی
زندگی تک محدود کرکے اجتماعی شعبوں کو گمراہی میں جھونکنے کی دعوت دی تو
جماعت اسلامی کی فکری کاوش نے اس کا مقابلہ کیا ۔ اس طرح جو بھلائی امت کی
نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی اس کا حکم دیا گیا اور جو برائی ملت میں پیر پسار
رہی تھی اس کی تدارک کا سامان کیا گیا۔ ان مثالوں کے علاوہ غیر مسلمین تک
دعوت دین کی جانب سے دھیان ہٹ جانےپر توجہ دہانی، بابری مسجد کی بازیابی یا
شریعت میں مداخلت کے خلاف تحریک چلانا بھی قلیل مدتی حکمت عملی کا قابلِ
قدر حصہ ہیں ۔مذکورہ بالا ذمہ داریاں کسی مخصوص جماعت کی نہیں بلکہ پوری
ملت کا فرض منصبی ہیں۔
اس آیت کے اختتام میں فرمانِ ربانی ہے: ’’ اور وہی لوگ بامراد ہیں‘‘۔ یعنی
ان سے صرفِ نظر کرنا ناکامی و نامراد ی کا سبب ہوگا۔ اس آیت کا ایک ترجمہ
یہ بھی ہے کہ ’’اور تمہیں اس گروہ میں ہونا چاہیے کہ جو نیکی کی طرف
بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں
گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کا
اندازہ نبی کریم ﷺ کی اس حدیث سے ہوتا ہے:’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں
میری جان ہے تم اچھائی کا حکم اور برائیوں سے مخالفت کرتے رہو ورنہ عنقریب
اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل فرما دے گا پھر تم دعائیں کرو گے لیکن
قبول نہ ہوں گی‘‘۔ یعنی احیائے امت کی خاطر دعوت کے ساتھ مزاحمت کی بھی
یکساں اہمیت ہے۔ اس کے بعد والی آیت امت کی موجودہ حالت کی ترجمانی کرتی
ہے۔ ارشادِ حق ہے:’’ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے
تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے،
اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے‘‘۔
امت کے اندر کئی طرح کے اختلافات ہیں مثلاً انفرادی زندگی میں دین و دنیا
کی تفریق اور اجتماعی سطح پر دعوت اور مزاحمت میں فرق کرنا ۔ امت کی جو
جماعتیں دعوت و اصلاح کو اہم سمجھتی ہیں ان کی توجہ مزاحمت کی جانب نہیں یا
بہت کم ہوتی ہے اور جولوگ ملی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں وہ دعوت و
تبلیغ کواہمیت نہیں دیتے حالانکہ دونوں کا حکم ایک ساتھ دیا گیا ۔ دعوت و
مزاحمت ایک دوسرے کو تقویت دینے والے کام ہیں لیکن اگر ان کو مختلف خانوں
میں تقسیم کرد یاجائے تو وہ بڑی حد تک بے اثر ہوجاتے ہیں بلکہ کبھی کبھار
ایک دوسرے کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں ۔ اس کے کئی مضرات ہیں مثلاً مذکورہ
گروہوں کا ایک دوسرے کے کام کوحقیر بلکہ امت کے احیاء میں رکاوٹ سمجھنا۔ اس
تنگ نظری کے سبب دعوت دینے والا مزاحمت سے دور رہتا ہے اور کشمکش کرنے والا
تبلیغ کی صلاحیت سے محروم ہوجاتاہے ۔ دعوت و مزاحمت کی تفریق کا خاتمہ وقت
کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کے بغیرامت کی طویل المدتی حکمت عملی یعنی
دعوت سے ملت کی مزاحمت ہم آہنگ نہیں ہو سکے گی اور مسائل کا دیرپا حل بھی
نہیں نکل سکے گا۔
|