ملک عزیزہندوستان میں گذشتہ چند ہفتے سے مذہبی منافر ت کا
ماحول بناہواہے ۔ بی جے پی رہنما نوپور شرماکے متنازعہ بیان کے بعد آئے دن
کہیں نہ کہیں حالات بگڑے نظرآئے۔ اس نے رسول اسلام ﷺ کی شان میں گستاخانہ
بیان دے کر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کیاتھا۔ معاملہ کافی
سنگینی پکڑتا جارہا تھا،مختلف اسلامی ممالک نے ہندوستان کے سفیروں کو
بلابھیجا اور ہندوستانی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا جانے لگا تھا۔ اس وقت
بی جے پی نے نوپور شرما کو پارٹی سے بے دخل کرکے معاملہ کوسرد کرنے کی
بھرپور کوشش کی ۔احتجاج بھی ہوئے مگر رفتہ رفتہ حالات معمول پر آنے لگے
تھے اور معاملہ قریب قریب سرد خانے میں جاچکا تھالیکن گذشتہ روز ایک ایسا
واقعہ پیش آگیا جس نے پورے حالات کو یکسر تبدیل کردیا۔
اُدے پور ، راجستھان میں دو شدت پسند لوگوں نے ایک ہندو شخص کا قتل کردیا ۔
مقتول کو نوپور شرماکے بیان کی حمایت کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ اس قتل کے
بعد ہی پورا سوشل میڈیااسلام اورمسلمان کے خلاف آگ بگولہ ہوگیا جبکہ ایک
منصف مزاج اتنا تو سمجھ ہی سکتا ہے کہ دو آدمی کی حرکات سے دین اور مذہب
کو نہیں پرکھا جاتا ۔ ہر مذہب میں قاتل اورمجرم مل جائیںگے ۔ اس طرح تو ہر
مذہب ہی برا ہوگیا۔ مذہب کی حقانیت کو ماپنے کا اچھا طریقہ اس کے اصول و
ضوابط ہیں ۔ اسلام کے لیے قرآن مجید ہے ۔ اللہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی
بھی نفس کو بغیر خطا و جرم کے قتل کرے ، گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل
کیا۔یہ اسلام ہی جس نے کنہیا لال کے انصاف کے لیے ہمیں آمادہ کیا۔ کنہیا
کے قتل کے چند گھنٹوں ہی میں امت مسلمہ کے تمام ممتاز قائدین نے اس واقعہ
کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔اسلام تو کنہیا لال کے ساتھ ہے ۔قاتل کا اسلام سے
کوئی رشتہ ناطہ نہیں ۔اسلام افراط اور نہ ہی تفریط کو قبول کرتا ہے ۔ اسلام
متوسط اور درمیانی مذہب ہے ۔ یہاں شدت پسندی نہیں ۔ یہاں عقل وخرد کا کام
ہے، جذبات کا نہیں ۔
اچھی خبر یہ کہ قاتلوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور حالات پر مکمل نظر
ہے ۔ کاش مسائل یہاں تک نہ پہنچتے اور حالات کو ابتر بنانے کی ہر سعی پر
فوراً ایکشن لیا جاتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ اس مذہبی جنونی ماحول
میں حکومت ہند کو ہر وقت چوکنا رہنا ہوگاتاکہ بروقت کارروائی کی جاسکے اور
حالات پر قابوبھی پایا جاسکے ۔
|