مہاراشٹر کے اندر ایک ہی نظریہ کے حاملین ایک دوسرے سے
برسرِ پیکار ہیں۔ان کی یہ جوتم پیزار قرآن مجید میں بیان کردہ بنی اسرائیل
کی حالت سے مماثل ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے
مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے
کو گھر سے بے گھر کرنا تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ
ہو‘‘۔یہ شیوسینک برسوں سےآپس میں شیر و شکر تھے اور بار ہاباہمی عہدو
پیمان کرچکے تھے لیکن اب خون کے پیاسے ہیں ۔ ان کی حالیہ کیفیت یہ ہے کہ
:’’ مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے
کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو ‘‘۔ ان کا ایک گروہ فی الحال دوسرے کو
گھر اور دفاتر میں گھسنےسے روک رہا ہے اور وہ خوف کے مارےدر بدربھٹکنے پر
مجبور ہیں ۔ یہ قافلہ کبھی سورت سے گوہاٹی جاتاہے اور لوٹتے ہوئے براہِ
راست آنے کے بجائے گوا سے ہوکرآتاہے کیونکہ یہ :’’ ظلم و زیادتی کے ساتھ
ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو‘‘۔ دشمنوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی حق
تلفی کرنے کے جرم نے آج ان کو اس کسمپرسی میں مبتلا کردیا ہے۔
اس معاملے میں آگے جو من مٹاو متوقع ہے اس کی قرآنی تمثیل یہ ہے کہ:’’
اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں، تو ان کی رہائی کے لیے
فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے
تم پر حرام تھا تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے
کے ساتھ کفر کرتے ہو پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا
اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ
موجودہ صورتحال میں دونوں فریق یعنی اقتدار پانے اور کھونے والے کے درمیان
ذلت و رسوائی مشترک ہے۔ یہ عارضی انجام ہے، اس کرتوت کی بڑی سزا تو یہ ہے
کہ :’’ آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے
بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو ‘‘۔
پچھلے ڈھائی سال سے بی جے پی ان پر حملہ آور تھی اور اس مقابلہ انہیں متحد
ہوکر اسی طرح کرنا چاہیے تھا جس کی تاکید مسلمانوں کو کی گئی: ’’ اے ایمان
لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو‘‘۔ اس کے
برعکس اختیار کیے جانے و الے رویہ کا انجام یہ بتایا گیا کہ :’’ آپس میں
جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ
جائے گی۰۰۰‘‘۔ اس میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ آگے چل شیوسینا کا
رعب دبدبہ بری طرح متاثر ہوگا۔ دونوں متحارب گروہ فی الحال خود کو سچا
ہندوتوانواز اور مخالف کو جھوٹا ثابت کرنے کی الزام تراشی میں مصروف ہیں ۔
اسے دیکھ کر یہود و نصاریٰ کے درمیان ہونے والا بحث و مباحثہ یاد آتا ہے۔
ارشادِ قرآنی ہے:’’ یہودی کہتے ہیں; عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں عیسائی کہتے
ہیں; یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم
کے دعوے ان لوگوں کے بھی ہیں، جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ہے یہ اختلافات
جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں، ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا‘‘۔
اس آیت کے آخر میں غیر اہل کتاب کا بھی ذکر ہے اور سچ تو یہی ہے کہ ان
تینوں کے پاس عملاً وہ نظریات و اقدار موجودنہیں ہیں جن کا دعویٰ کیا جاتا
ہے بلکہ دولت و اقتدار کی ہوس اور اس کے حصول کی خاطر رسہ کشی کے سوا کچھ
بھی نہیں ہے۔ اس سرپھٹول نے ان کی حا لت زار پر یہ قرآنی مثال صادق آتی
ہے کہ:’’ تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت
کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ‘‘۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے
کہ:’’تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو
تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے‘‘۔مفاد پرستی کی بنیاد پر
آپسی مکرو فریب کا انجام قرآن حکیم اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ : ’’ تم
اپنی قسموں کو آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بنا لینا، کہیں
ایسا نہ ہو کہ کوئی قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائے اور اِس جرم کی پاداش میں کہ
تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا، تم برا نتیجہ دیکھو اور سخت سزا بھگتو
‘‘۔ فی الحال شیوسینا مکافات عمل کے اس جبر کا شکار ہوکرمحکومی و مظلومی کے
تباہ کن انجام کی جانب رواں دواں ۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال؎
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
|