آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور انسان کی سب سے
بڑی قوت اس کی ذہنی و فکری آزادی ہے۔ جب انسان ذہنی طور پر آزاد ہو تو وہ
ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ غلامی کا وجود آج بھی ہے۔ البتہ
اسکا انداز بدل گیا ہے گویا غلامی ایک نئے انداز میں تبدیل ہو چکی ہے۔۔
زنجیریں آج بھی موجود بھی ہیں مگر نظر نہیں آتیں۔ سوچ کو ابھی تک آزادی
نہیں مل سکی، وہ سوچ جو پرندہ ہے مگر کسی سفاک صیاد کے پنجرے میں قید ہے۔
اس پنجرے کو وہ قسمت کہتا ہے۔ پنجرہ جتنا بھی وسیع ہو مگر اس کے گرد آہنی
سلاخوں کا حلقہ موجود رہتا ہے، جس نے خوف کا روپ دھار کے ذات کو زنداں بنا
رکھا ہے۔ ہم بظاہر آزاد ہیں لیکن پھر بھی غلام ہیں۔ ہمیں احترام کی بجائے
تابعداری کا سبق پڑھایا گیا ہے۔ اور تابعداری کا فیصلہ ہمارے معاشرے نے
کرنا ہے چاہے شعور اس کی منطقی تردید ہی کیوں نہ کرے۔ انسانی تاریخ میں بہت
کم ایسا ہوا ہے کہ جب انسانی طاقت نے انسانوں کے حقوق کے لیے جبر،طاقت اور
ظلم کا استعمال کیا ہو۔ جدید دور میں انسانوں کی انفرادی، خاندان، ملک، خطے
اور عالمی آزادی کو مذہب، فرقے، نسل، علاقے اور مادی مفادات کے نام پر
مغلوب کرتے ہوئے انسانی حرمت اور انسان کے حق آزادی کے تصورات پر بری طرح
سے ڈاکہ زنی کی گئی ہے۔۔ یہ اجناس کی طرح بکتے ہیں کہیں زیادہ دام مل گئے
کہیں کم آزاد زہن غلامی کو پسند نہیں کرتے غلامی ایک استحصالی نظام ہے جس
کی تاریخ بہت ہی وحشتناک ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں غلامی کئی شکلوں میں
موجود ہے خواہ پیروں اور مذہبی پیشواؤں کے مریدوں کی بیپناہ عقیدت کی شکل
میں ہو خواہ گھریلو ملازمین کی شکل میں ہو خواہ جاگیرداروں کے ہاریوں اور
سرمایہ داروں کے ملازموں کی شکل میں ہو خواہ بھٹہ مالکان کی ملکیت میں ہو
ہم اسے غلامی کہتے ہیں۔ جب تک غلامی کی یہ اشکال موجود ہیں تب تک ہمارے
معاشرے میں تبدیلی یا ترقی ایک خواب ہی رہے گی اور ہم پر بار بار وہی لوگ
مسلط ہوتے رہیں گے جنہوں نے کء سالوں میں اپنے ان ذہنی غلام ووٹرز کو اپنا
متیع بنا رکھا ہے۔ غلامی کی بدترین شکل وہ ہے جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے
پیار ہو جائے اس غلامی کو زہنی غلامی کہتے ہیں جسمانی غلامی اتنی خطرناک
نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے جسمانی غلامی سے تو آزادی مل سکتی ہے
لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کر دیتی ہے۔ جب انسان ذہنی طور پر آزاد ہو تو
وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ جو قوم جسمانی طور پر غلام اور
ذہنی طور پر آزاد ہو، وہ بہت جلد جسمانی آزادی حاصل کر لیتی ہے۔ ذہنی غلامی
میں مبتلا قوم اپنے آپ کو غلام ہی نہیں سمجھتی اس لیے آزادی کا تو سوال ہی
پیدا نہیں ہوتا۔ ہم جسمانی طور پر اگرچہ آزاد ہیں مگر غیروں کے ذہنی غلام
ہیں اس لیے جب تک ہم اپنے آپ کو ذہنی طور پر آزاد نہیں کرتے اس وقت تک
آزادی کی منزل بہت دور ہے۔
غلبہ یا تسلط دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک سیاسی غلبہ، جس میں کوئی ملک کسی
دوسرے ملک پر قبضہ کر لیتا ہے، دوسرے کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر فوجی قبضہ
نہیں کرتا بلکہ مختلف حربوں سے اس کے عوام کے ذہنوں پر مسلط ہو جاتا ہے۔
اسے ذہنی غلامی کہا جاتا ہے۔
بھارت میں ایک کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں
جبکہ بھارت کے بعد چین آتا ہے جہاں یہ تعداد 30 لاکھ ہے۔ چین کے بعد
پاکستان اور اس کے بعد ازبکستان کا نام آتا ہے جہاں پر اب بھی غلامی اپنی
مختلف اشکا؛ل میں موجود ہے۔ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور انسان کی سب
سے بڑی قوت اس کی ذہنی و فکری آزادی ہے۔ ہم جسمانی طور پر اگرچہ آزاد ہیں
مگر غیروں کے ذہنی غلام ہیں اس لیے جب تک ہم اپنے آپ کو ذہنی طور پر آزاد
نہیں کرتے اس وقت تک آزادی کی منزل بہت دور ہے۔ غلبہ یا تسلط دو طرح کا
ہوتا ہے۔ ایک سیاسی غلبہ، جس میں کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر قبضہ کر لیتا
ہے، دوسرے کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر فوجی قبضہ نہیں کرتا بلکہ مختلف حربوں
سے اس کے عوام کے ذہنوں پر مسلط ہو جاتا ہے۔ اسے ذہنی غلامی کہا جاتا ہے۔
تیسری دنیا کے زیادہ تر حکمرانوں کی طرح پاکستان کا حکمراں طبقہ بھی مغرب
کا ذہنی غلام ہے اور اس کی نظر میں مغرب کی زبان، ان کا رہن سہن، ان کا
طریقہ معاش سب بغیر سوچے سمجھے اختیار کرنا ہی ترقی کی علامت ہے۔ ذہنی
غلامی کی ہی ایک قسم رسم و رواج کی غلامی ہے۔
|