ہمارے سیاستدان باتیں سمجھتے تو ہیں مگر جانے کیوں عمل کے
وقت بڑے ناکارہ اور صفر نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ باتیں بہت کرتے ہیں ۔اقبال کے
بقول یہ گفتار کے غازی میرٹ اور گڈ گورننس کی باتیں تو بہت کرتے ہیں۔ لیکن
کردار کے حوالے، کبھی آپ کو میرٹ نظر آ جائے یہ ممکن ہی نہیں اور گڈ گورننس
تو دور کی بات ہے، پورے پنجاب کے صوبے بلکہ پاکستان بھر میں آپ کوگڈ گورننس
تو کیا، گورننس بھی بہت کم نظر آتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر نوجوانوں
کی عملی زندگی میں یونیورسٹیوں کا اپنا کردار ہوتا ہے اور یونیورسٹیوں کے
وائس چانسلرز کا عہدہ انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔ برساتی مینڈکوں کی طرح
جنم لینے والی یونیورسٹیوں کی پیدائش سے قبل پنجاب یونیورسٹی کا وائس
چانسلر پروٹوکول کے لحاظ سے گورنر پنجاب کے بعد دوسرے نمبر پر شمار ہوتا
تھا اور تمام حکومتی میٹنگز میں اسے اس کا جائز مقام دیا جاتا تھا۔آج نہ وہ
وائس چانسلر رہے، نہ وہ کردار والے سیاستدان۔نام نہاد سرچ کمیٹیوں اور
سیاسی مداخلت نے نے اس عہدے کی جس قدر بے توقیری کی ہے اس کا شمار نہیں۔ اس
سونے پر سہاگہ یہ کہ پی ایچ ڈی کے نام پر جو علمیت پھیلائی جا رہی ہے اسے
دیکھ اور محسوس کرکے اہل علم بھی شرماتے ہیں۔ یونیورسٹیاں ہیں کہ پہلے صرف
صوبے میں ہوتی تھیں، پھر یہ ضلعوں میں آئی، اب تحصیل کی سطح پر اپنی جگہ
بنا رہی ہیں اور امید ہے بہت جلد ہر بڑے محلے میں ایک یونیورسٹی ہو گی۔
اس وقت پنجاب کی چھ سات یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی آسامیاں خالی ہیں۔
ان پر تعیناتی حکومت نے ایک مشکل عمل بنایا ہوا ہے، حالانکہ سلیکشن کا
معیار بہت گر چکا ہے۔ مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اپنی مرضی کا کوئی ایسا
شخص لگایا جائے جو ان کے مفادات بھی دیکھ سکے اور ان مفادات کا تحفظ بھی کر
سکے۔ سیاست میں ان کا دست راست بن سکے۔اس سارے عمل کے دوران بہت سے حق
داروں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے وہ لوگ جن کے پاس حوالے نہیں ہوتے یا حوالے
کمزور ہوتے ہیں وہ دیکھتے رہ جاتے ہیں بلکہ بہت سے ا یسی سرچ کمیٹی کو
انٹرویو دینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں اور حوالے والے جیسے جادو کے قالین
پر بیٹھے بلندیوں کی طرف محو پرواز ہوتے ہیں، اچھے حوالے والے لوگ تو ایک
وقت میں دو دو یونیورسٹیوں کا بار اٹھا لیتے ہیں۔ پنجاب کے ایک پسماندہ
علاقے کی ایک یونیورسٹی میں ایک نابالغ پی ایچ ڈی پروفیسر کی بطور وائس
چانسلر تعیناتی کی گئی ۔ ابھی وہ سنبھلے بھی نہ پائے تھے کہ انہیں ایک اور
یونیورسٹی کا ایڈیشنل چارج دے دی گیا کہ بھائی جہاں ایک کا ستیا ناس کرنا
ہے لگے ہاتھوں یہی کام دوسری میں بھی کردو۔مگر کسی سیاستدان کو اس سے
کیا۔سیاستدان کو قومی مفاد سے کوئی غرض نہیں ہوتی وہ ذاتی مفاد ہی کو قومی
مفاد جانتا اور سمجھتا ہے۔دنیا بھر میں سیاست خدمت خلق ہے اور اس میں سب سے
اہم چیز برداشت ہے۔پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سیاست کاروبار ہے
اور یہاں کی سیاست میں سب سے اہم چیز سفاکی ہے۔ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی
کہ ہماری بہت سی یونیورسٹیوں نے پروفیسروں کی ایک فوج ظفر موج تیار کر لی
ہے ، لائن میں لگے ہر شخص کو پروموشن کا حق دار جان کر اگلا گریڈ دے دیا
گیا ہے۔ اب ایک ایسی فوج تیار ہے جو پروفیسری کے مرتبے سے بھی پوری واقف
نہیں مگرجس طرح کوئی اندھا بٹیر پکڑ کر خود کو شکاری جانتا ہے اسی طرح
پروموشن کی لوٹ مار میں حصہ ڈال کر یہ لوگ خود کو واقعی پروفیسر جاننے لگے
ہیں۔
پنجاب کے گورنر نئے نئے آئے ہیں اور شاید نمک کے ساتھ نمک نہیں ہوئے اس لئے
بڑے اچھے ارشادات فرما رہے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’وائس چانسلر کی بروقت تقرری
تعلیمی امور چلانے کے لئے ضروری ہے‘‘۔بطور چانسلر پنجاب کی پبلک سیکٹر
یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی بیشتر خالی آسامیوں کا نوٹس لیتے ہوئے
انہوں نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی ہے کہ انہیں کسی وائس چانسلر کی مدت
ملازمت ختم ہونے سے چھ ماہ قبل تعیناتی کا عمل شروع کر دینا چائیے تاکہ
جامعات کے تعلیمی اور انتظامی امور موثر طور پر چلائے جا سکیں۔انہوں نے
موجودہ خالی آسامیوں پر نامزگیاں بھی مانگ لی ہیں اور ہدایت کی ہے کہ
تعیناتی کا عمل تیز کیا جائے۔ حکومت جس تیزی سے ہر ضلعے اور ہر تحصیل میں
نئی نئی یونیورسٹیاں بنا رہی ہے ، اس کے لئے استاد بھی وسیع پیمانے پر
امپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ یونیورسٹیوں میں جو استادوں کا قحط ہے اسے
بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہائر ایجوکیشن کے بارے میں مکمل پالیسی کی اوور
ہالنگ آج وقت کی ضرورت ہے۔ویسے گورنرز کے اختیارات بڑے محدود ہوتے ہیں۔
میرے ایک دوست کی پوسٹنگ کا مسئلہ تھا۔ میرٹ پر نمبر ون تھے۔ کیس گورنر کو
بھیجا گیا۔ ایک مہینے تک کوئی جواب نہ آیا تو میں نے اس وقت کے گورنر تک
کسی طرح رسائی حاصل کی اور انہیں اس دوست کا مسئلہ بتایا۔ کہنے لگے فائل لے
آؤ، ابھی کر دوں گا۔پتہ چلا وہ فائل اس وقت تک وزیر تعلیم کے پاس ہی تھی۔
تقریباً پانچ ماہ بعد جب فائل واپس آئی تو پتہ چلا کہ ان کی بجائے ایک ایسے
شخص کی پوسٹنگ ہو گئی ہے کہ جو سینارٹی لسٹ میں بہت جونیئر تھا ، بھیجے گئے
ناموں میں وہ شامل بھی نہیں تھا مگر بہر حال حوالہ تھا وہ بھی بہت تگڑا۔
میں نے تو یہاں یہی جانا ہے کہ میرٹ اچھے حوالے کا ہی نام ہے۔
حکومت کو سوچنا چائیے کہ پنجاب، ملتا ن اور بہاولپور کی یونیورسٹیاں یا
ایسی بڑی جامعات، جہاں پروفیسروں کی بہتات ہے، وہاں سلیکشن کمیٹی ایک بے
معنیٰ چیز ہے۔ بہتر ہے کہ وائس چانسلر کے عہدے کے خالی ہونے سے پہلے تین ،
چار یا پانچ سینئر ترین لوگوں میں سے کسی ایک کو سینارٹی کم فٹ نس کے اصول
پروائس چانسلر لگا دیا جائے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے سلیکشن میں دیر ہو رہی ہو
تو جو سینئر موسٹ ہے اسے خود بخود چارج دے دیا جائے۔ یہ سلسلہ خود کار ہونا
چائیے ۔وائس چانسلر کی جگہ خالی نہیں چھوڑنی چائیے۔ ہر شخص کی یہ فطری
خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس ادارے میں ساری عمر کام کرتا رہا ہے وہاں کا اعلیٰ
ترین عہدہ بھی کچھ دن انجوائے کرے ۔ اس میں برائی بھی کوئی نہیں۔ برائی اس
سیاست میں ہے جو لوگوں کو ان کے جائز حق سے محروم کرتی ہے۔دوسرا یونیورسٹی
میں کام کرنے والے شخص کو یونیورسٹی کے ماحول، اس کے ملازمین، اس کے اساتذہ
اور وہاں کے طلبا کے مزاج اور حالات کی پوری خبر ہوتی ہے۔ اسے خود کو اس
جگہ ایڈجسٹ ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ باہر سے آنے والے کو زمینی حقائق کا کم
پتہ ہوتا ہے اس لئے وہ ایڈجسٹ ہونے میں کافی وقت لیتا ہے۔
|