یہ شمعِ فروزاں آزدی کی یہ بزم ِوفا پروانوں کی
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(تعلیمی اداروں کے تحت یوم آزادی منانے کے ممکنہ طریقے ) |
|
راجہ محمد عتیق افسر اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ،قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098, [email protected] یوم یوم آزادی کسی بھی ملک یا قوم کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ کسی بھی قوم کی اقدار کا آئینہ دار ہوتاہے ۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے وہی قومیں دنیا میں سر اٹھا کر جی سکتی ہیں جنہیں یہ نعمت میسر ہو ۔ اس نعمت کا حسول کوئی آسان امر نہیں ہوتا ۔ جانوں کے نذرانے دے کر قومیں آزادی حاصل کرتی ہیں ۔ جب پودے خون سے سنچتے ہیں بے جان کلی تب ہی کھلتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اس دن کو خصوصی اہمیت دیتی ہے اور اسے شایان شان طریقے سے مناتی ہے ۔ پاکستان بھی اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ نعمت ہے ۔ 14 اگست 1947 کو انگریزی استبداد کا خاتمہ ہوا اور ہم انگریز کے سیاسی تسلط سے آزاد ہوئے ۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے لاکھوں افراد کی جانیں قربان ہوئیں اور لاکھوں نے گھر بار چھوڑے اور ہجرت کی ۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ یہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت تھی تو شاید غلط نہ ہو گا۔ ان قربانیوں کے طفیل آج ہم ایک آزاد مملکت میں بیٹھے ہیں ۔ آزادی کا ثمر گو آج بھی ناپید ہے لیکن اس درخت کی گھنی چھاؤں کسی ثمر سے کم بھی نہیں ۔ لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی ملک بھر میں ہر سال یوم آزادی روائیتی جوش اور جذبے کے تحت منایا جاتا ہے ۔تمام ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ ہر جانب سبز ہلالی پرچم کی بہار دیکھنے کو ملتی ہے ۔ عمارتوں ، گاڑیوں ، سائیکلوں اور دیگر مقامات پر قومی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں ۔ شہروں ، قصبوں مکانوں ، بازاروں اور سرکاری و نجی دفاتر کو جھنڈیوں و قمقموں سے سجایا جاتا ہے ۔ قومی لباس پہن کر اسے وطن عزیز کے ساتھ محبت کے جذبات والے بیج اور پٹیاں لگا اپنی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔تعلیمی اداروں ، دفاتر اور عوامی مراکز میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ ہر جانب ملی نغموں کی صدائیں بازگشت کرتی ہیں ۔ ٹی وی چینل اس حوالے سے خصوصی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہ سب اسلیے کیا جاتا ہے کہ قوم کو اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے اور یہ عہد کیا جائے کہ وطن کو ہم عظیم سے عظیم تر بنائیں گے ۔ ایک جانب تو جذبہ حب الوطنی سے بھر پور سرگرمیاں ہیں تو دوسری جانب ملک کی ایک بڑی آبادی نے اس آزادی کا نہایت ہی منفی معنی اخذ کیا ہے اور وہ اس دن ایسی سرگرمیاں کرتے ہیں جس سے یوم آزادی کا مقصد فوت ہو کر رہ جاتا ہے ۔ان کی سرگرمیوں کو آوارہ گردی سے زیادہ کسی اور مہذب صیغے میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لوگوں کا ایک جم غفیر سڑکوں پہ نکل کر اوچھی حرکتیں کرتا نظر آتا ہے ۔ شور شرابا کرنا،گالم گلوچ کرنا، آوازیں کسنا ، پریشر ہارن کا استعمال کرنا، سڑکوں پہ مجمے لگا کر رقص کرنا ، ہوائی فائرنگ کرنا، اسی طرح موسیقی کی محافل کا اہتمام کرنا اور اس میں پڑوسی ملک کے فلمی گانوں پہ رقص کرنا وغیرہ وغیرہ کسی بھی طور پر ہماری اخلاقی اقدار کی عکاسی نہیں کرتا۔ یوم آزادی کے موقع پر ہر شخص خود کو ہر قسم کی سماجی ، قانونی و مذہبی قید سے آزاد سمجھنے لگتا ہے ۔ آزادی کا یہ تصور کسی صورت ہماری نظریاتی اساس کی ترجمانی نہیں کرتا ۔اس غلط تصور آزادی اور یوم آزادی پہ ہونے والی اس بے ہودگی کو شعور اور آگہی سے ختم کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کا کردار مسلّم ہے۔ صحیح سمت میں جشن آزادی منانے کے لیے تعلیمی ادارے مختلف طریقے اپنا سکتے ہیں ۔ 1. ہماری بدقسمتی کہیے کہ ہم ابھی تک سکول سکول اور مسجد کے بیچ پل نہیں بنا سکے ۔ اگر یہ ہوتا تو بہت ہی بہتر ہوتا ۔ یوم آزادی کا آغاز نماز فجر کے بعد وطن عزیز کے لیے اجتماعی دعا سے ہونا چاہیے ۔ یہ کسی حد تک ہمارے لیے مشکل ہے لیکن اس دعا کو انفرادی طور پر ہر طالب علم کو کارِ مفوضہ (ہوم ورک/اسائنمنٹ) کے طور پر تفویض کیا جائے ۔ ہر طالب علم سے کہا جائے کہ وہ نماز فجر کے بعد وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کے لیے اللہ کے حضور خصوصی دعا کرے ۔ نماز فجر تو ہم روزانہ پڑھتے ہیں ہمیں تمام مسلمانوں کے لیے دعا کو اپنا معمول بنا لینا چاہیے ۔ 2. اول تو اس روز عام تعطیل ہوتی ہے اور تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں اور ان دنوں میں موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے بھی تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں ۔ اگر منصوبہ بندی کی جائے تو تعطیلات سے قبل یا دوران تعطیلات طلبہ کو آگاہ کر دیا جائے کہ 14 اگست کو ان کے تعلیمی ادارے میں تقریب ہے جس میں شرکت لازمی قرار دی جائے ۔ تمام شرکاءقومی لباس میں ملبوس ہو کر تقریب میں شرکت کریں ۔ تمام اساتذہ طلبہ و طالبات خود اپنے ادارے کو سجائیں ۔ اس حوالے سے طلبہ کے مابین سجاوٹ کا مقابلہ بھی کروایا جا سکتا ہے ۔ تعلیمی ادارے کو اس طرح سجائیں کہ اس سے پاکستانی قومیت جھلک کر سامنے آئے ۔اس موقع پر حب الوطنی کا ماحول بنائیں ۔اس سرگرمی کے نتیجے میں قوم کا شباب صحیح طریقے سے جشن منانے میں اپنی توانائیاں صرف کرے گا۔ 3. خصوصی سکول اسمبلی کا انعقاد کیا جائے جس میں پرچم کشائی کی تقریب ہو اورقومی ترانہ پڑھا جائے ۔ اس تقریب میں مہمان خصوصی ایسے فرد کو بنایا جائے جس کا تحریک پاکستان میں کوئی حصہ ہو یا پھر اس کا ملکی تعمیر و ترقی میں کوئی بڑا کارنامہ ہو ۔ قومی پرچم کو سربلند ہوتا دیکھنا دل میں اسے سربلند رکھنے کا تحرک پیدا کرتا ہے ۔ طلبہ و طالبات کو باور کرایا جائے کہ ہر قیمت پر اپنے قومی پرچم کو دنیا میں بلند رکھنے کے لیے کوشاں رہنا ہے ۔ اسی تقریب میں ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے دعا بھی کی جائے ۔ 4. اس دن کی مناسبت سے تقریری مقابلے کا انعقاد کیا جائے ۔ اس مقابلے میں طلبہ اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ کس طرح ملک کو عظیم تر بنانا ہے ۔ مقابلے میں ملک کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا تذکرہ کیا جائے اور ایسا نقطہ نظر بیان کیا جائے جو ان کی زندگی میں وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ انڈیل دے ۔ تقریری مقابلے کے دوران داد دینے کے لیے پاکستان کے حق میں نعرے لگائے جائیں۔ تحریک پاکستان کے موقع پر لگائے گئے نعرے خصوصی طور پر لگائے جائیں ۔ اسی طرح تقاریر کے درمیان ملی نغمے پیش کیے جائیں۔نعروں اور نغموں کے لیے طلبہ و طالبات سے ہی کام لیا جائے ۔اس تقریری مقابلے کے لیے ایسی شخصیات کو مہمان خصوصی بنایا جائے جو قیام پاکستان کے مقاصد کو طلبہ تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور طلبہ کو موثر انداز میں وطن کی خاطر کچھ کرنے کا درس دے سکیں ۔ 5. ملی نغموں کے مقابلے کا اہتمام کیا جائے اور طلبہ و طالبات اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ محض ٹیپ ریکارڈر یا سی ڈی سے ملی نغمے سنانے کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا خود پیش کرنے کا ہوتا ہے ۔ اساتذہ کرام اس سرگرمی کے لیے تیاری کریں اور طلبہ و طالبات کو تیار کریں ۔ اگر تعلیمی ادارے اس طرح کی سرگرمیاں کریں گے تو موسیقی سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان مثبت انداز میں اپنے شوق پورا کر سکیں گے۔ 6. جذبہ حب الوطنی سے سرشار ڈرامے یا خاکے تیار کرا کر پیش کیے جائیں ۔ ان میں قیام پاکستان کے واقعات کو پیش کیا جائے اور شہداء اور مہاجرین کی قربانیوں کو سلام پیش کیا جائے ۔ پاکستان کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے اور ان کا حل اپیش کیا جائے ۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے اٹھائے جانے والےممکنہ اقدامات کو پیش کیا جائے ۔ جو بات تقریر اور تحریر کے ذریعے نہیں پہنچائی جا سکتی وہ اس طرح کی سرگرمی کے ذریعے باآسانی پہنچائی جا سکتی ہے ۔ 7. طلبہ عدالت یا طلبہ اسمبلی کا انعقاد کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں ملک کی نابغہ روزگار شخصیات کو بلایا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کو درپیش مسائل کو اچھے انداز میں پیش کر کے ان کا حل تجویز کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے طلبہ میں سوچنے اور اسے بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور ان میں دلیل کی بنیاد پہ بحث مباحثہ کرنے کا رجحان پیدا ہوگا جس کی اس وقت معاشرے میں اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔ 8. طلبہ و طالبات کے لیے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا جائے جس میں وہ طلبہ و طالبات شریک ہوں جو شاعری کرتے ہوں ۔ وطن عزیز کے لیے اپنے جذبات کو شعر کے ذریعے بیان کر سکتے ہوں ۔ ایسے طلبہ و طالبات کی شاعری پہ داد تحسین دی جائے اور انہیں سراہا جائے ۔ جذباتی اشعار کی داد حب الوطنی سے بھرپور نعروں سے دی جائے ۔ طلبہ کو احساس ہونا چاہیے کہ شاعری محض مجنون لیلہ کے قصے بیان کرنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ قوم و وطن بھی محبوب ہے جس سے محبت کا اظہار شعر کے ذریعے کیا جا سکتا ہے ۔ 9. کچھ لوگ اپنے خیالات کا اظہار تقریر یا شعر کے ذریعے کرنے کے بجائے لکھ کر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ایسے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے یوم آزادی کے حوالے سے مضمون نویسی یا کہانی نویسی کا مقابلہ کروایا جائے ۔اس حوالے سے مختلف درجات کے طلبہ و طالبات کے درمیان نوشتہ دیوار (پوسٹر/وال پیپر) تحریر کرنے کے مقابلے بھی کرائے جا سکتے ہیں ۔ 10. فن مصوری بھی ظہار کا بہترین ذریعہ ہے ۔ یوم پاکستان کے حوالے سے ایک تصویری نمائش کا انعقاد کیا جا سکتا ہے ۔ اس نمائش میں طلبہ و طالبات وطن سے اپنی محبت کا اظہار تصویر کی شکل میں کریں ۔ جو لوگ مجسمہ یا کوئی اور ڈھانچہ تیار کر سکتے ہیں وہ اس نمائش میں اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کریں ۔ 11. طلبہ و طالبات اپنے تعلیمی میدان میں وطن کا نام روشن کرنے کے لیے کوئی کام کر رہے ہوں تو اس کے اظہار کا موقع دیا جائے ۔ ایک نمائش سائنسی ایجادات یا دریافت وغیرہ یا کسی معاشرتی سرگرمی کے لیے مختص ہونا چاہیے ۔ 12. سکول انتظامیہ جلوس / ریلی کا اہتمام کرے اور تمام طلبہ و طالبات اس میں شریک ہوں ۔ وطن کے حق میں نعرے لگائے جائیں ۔ اوراساتذہ اس موقع پر طلبہ کو نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ کرائیں ۔ انہیں تربیت دیں کہ ہجوم کی شکل میں اخلاقیات کا خیال کیسے رکھا جائے اور کیسے قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی بات پیش کی جائے ۔ سرکاری و نجی املاک کے نقصان سے کیسے بچا جائے ۔ اگر یہ اقدار طلبہ و طالبات تک منتقل ہوئیں تو مستقبل میں اچھی سیاسی فضا قائم کی جا سکے گی ۔ 13. اگست کے مہینے میں برسات کا موسم ہوتا ہے ۔ ملک کے بعض علاقوں میں بارشوں سے نقصان ہوتا ہے بعض علاقوں میں سیلاب سے اور بعض اوقات خشک سالی سئے بعض علاقے متاثر ہوتے ہیں ۔ ایسے مواقع پر متاثرین کی امداد کا عملی مظاہرہ بھی کرایا جا سکتا ہے ۔ چندہ جمع کیا جا سکتا ہے اور امدادی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں ۔ 14. دنیا کے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز بھی آلودگی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر طالب عل سے کم از کم ایک پودا ضرور لگوا دیا جائے ۔ یہ صدقہ جاریہ بھی ہو گا اور ملک کے ساتھ محبت کا مثبت اظہار بھی ۔ 15. تمام سرگرمیوں کے آخر میں کھانے کی محفل کا اہتمام کیا جائے ۔ خیار رکھا جائے کہ ہر طالب علم اپنے گھر سے کچھ لے کر آئے ۔ پاکستانی ثقافت کو فروغ دیں ۔ علاقائی کھابوں کو رواج دیں ۔ آپ کے پورے دن کی سرگرمیوں کا محور پاکستان ہی ہونا چاہیے ۔ 16. یوم آزادی مناتے وقت ہم اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ کوچہ و بازار بھی ہمارے ہیں اور سڑکیں اور گلیاں بھی ۔ لوگ جشن مناتے وقت گلی کوچوں کو ردی کا ڈھیر بنا دیتے ہیں ۔ طلبہ و طالبات کو آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنے گلی کوچوں کو صاف رکھیں ۔جشن کے دوران لوگوں کو بھی ردی پھینکنے سے منع کریں اور جو یہ کام کر جائیں ان سے لڑنے کے بجائے اپنے محلے اور گل کی صفائی خود کریں ۔ وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رکڑنے دے مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا یوم آزادی کی اہمیت دو چند ہوتی ہے ۔ وطن نے ہمیں جو کچھ دیا ہے اس کے بدلے میں ایک دن منا لینے سے حق تو ادا نہیں ہو سکتا ۔قومی پرچم کا خصوصی خیال رکھیں ۔ یوم آزادی تک اسے لہرائیں لیکن اس کے بعد اسے عزت و احترام سے اتار کر محفوظ کر لیں ۔ گلی کوچوں میں بکھری پاکستان کی جھنڈیاں لمحہ فکریہ ہیں ۔ ہمیں ہر دن اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہنا ہے ۔اپنے پرچم کو سربلند رکھنا ہے اور وطن کی بقا کے لیے اپنے رب سے دعا کرتے رہنا ہے ۔ اس بار ہم یہ عزم صمیم کریں کہ وطن کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے ۔ خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے وہ فصل گل جسے انیشہ زوال نہ ہو یہاں جو بھی پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں یہاں خزاں کو بھی گزرنے کی مجال نہ ہو
|