انسان چاہے بوڑھا کیوں نہ ہوجائے ، سکول کی یادیں
ہمیشہ دامن گیر رہتی ہیں ۔ان اساتذہ کرام کی شکلیں اور انداز گفتگو بھی
ہمیشہ کے لئے ذہنوں میں نقش ہو جاتی ہیں ۔مجھے آج تک یاد ہے کہ ہمارے زمانے
میں گلبرگ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر اشرف صاحب ہوا کرتے تھے ۔مجھے نہیں معلوم
کہ رہتے کہاں تھے لیکن میں تو اتنا جانتا ہوں کہ باؤ ٹرین سے اتر ریلوے
لائن کے ساتھ ساتھ پیدل ہی چلتے ہوئے سکول پہنچتے اور اپنے لئے مخصوص دفتر
میں جا بیٹھتے ۔بہت کم کلاسوں میں وہ آیا کرتے تھے لیکن ان کا رعب اور
دبدبہ اتنا تھا کہ ہر طالب علم ان کے دفتر کے سامنے سے گزرتا ہوا بھی ڈرتا
تھا ،چونکہ سکول کا بڑا گیٹ ان کے دفتر سے متصل تھا اس لئے آدھی چھٹی اور
پوری چھٹی کے وقت بھی ہمیں پہلو بچا کر وہیں سے گزرنا پڑتا کہ ان کی نظر ہم
پر نہ پڑجائے ۔اسی طرح وہ دوست (کلاس فیلو کے روپ میں ہمارے ساتھ لکڑی کے
بینچوں پر بیٹھ پڑھتے تھے ) اب تک یاد ہیں ۔کئی ایک کلاس فیلوز سے اب بھی
رابطہ رہتا ہے جن میں محمد اسلم آرائیں ، اسلم مکرم ، محمد اشرف
گورومانگٹ،اقبال غوری ، حسن عباس اور ڈاکٹر محمد افضل شامل ہیں ۔درج ذیل
آرٹیکل سکول کے دوران واقعات کا احاطہ کرتا ہے ،جسے میں پڑھتا ہوں تو ایک
بار پھر جوان ہو جاتا ہوں ۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ پہلے سینئر ہیڈ ماسٹر
سید شبیر شاہ صاحب ملاقات ہوئی ،ان کے بعد پرنسپل ایاز قریشی سے جان پہچان
اور دوستی کا رشتہ تو کچھ زیادہ ہی دراز رہا ۔ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد شاہد
تنویر صاحب نے چارج سنبھال لیا 2021 ء میں وہ بھی ریٹائر ہوچکے ہیں ان کی
الوداعی تقریب شالیمار ہال پرل کانٹی ننٹل ہوٹل میں خوب انجوائے کی ۔ان کی
ریٹائر منٹ کے بعد اب گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ کے پرنسپل جناب مطیع
الرحمن صاحب ہیں ان سے شاہد تنویر صاحب کی ریٹائرمنٹ پر ملاقات ہوچکی ہے وہ
بھی بہت شفیق انسان دکھائی دیئے ۔جبکہ موجودہ اور ہر دلعزیز اساتذہ میں
عبدالقدوس صاحب، آغا رضوان علی صاحب ، علی نواز صاحب ، محمدعمران صاحب
،شاہنواز شاہد صاحب ، غلام مرتضے شیرازی صاحب، سہیل احمد اعوان صاحب ، محمد
جاوید اقبال صاحب ،شیرون کلیم صاحب ،محمد دوست پرویز صاحب، محمد زبیر خضر
صاحب ، مقصود احمد صاحب ، سلیم طاہر صاحب ،قاری مقصود احمد صاحب ،محمد
جاوید صاحب ، شفقت اﷲ شاہ صاحب ، محمد بلال صاحب ، انیس احمد صاحب، ماجد
علی صاحب ، فرمان علی صاحب ، محمد فاروق صاحب ،سلیم شہزاد صاحب ، محمد
عمران صاحب ، انس خالد صاحب ، شہیم انور صاحب شامل ہیں ۔لیجیئے اب میرے
سکول کی کہانی بھی سنتے جایئے-:
...................
ٹھیک دس سال کی عمر میں جب میں گلبرگ ہائی سکول لاہور میں 1965ء کے ماہ
اپریل میں چھٹی کلاس میں داخل ہوا تو یہ سکول دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک
حصہ پرائمری سطح پر مشتمل تھا جبکہ بڑے بڑے کمروں کی لمبی قطاریں ہائی
کلاسز کے لئے مختص تھیں۔ چھٹی کلاس میں داخل ہوا تو مجھے ہائی کلاسزکی
پچھلی جانب ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ یہاں میرے پہلے استاد لال دین صاحب
تھے وہ عمر کے لحاظ سے نوجوان دکھائی دیتے تھے انتہائی دھیمے انداز میں
پڑھانے والے سانولے سلونے سے یہ استاد سبھی شاگردوں کے لئے ایک مثال تھے۔
ایک روز اسی کلاس میں چھت پر نصب پنکھے کا نچلا حصہ نیچے بیٹھے ہوئے لڑکے
مجاہد کے کندھے پر آ گرا جو ہم سب سے قدرے بڑا تھا۔ عمر پختہ ہونے کی وجہ
سے وہ اس چوٹ کو برداشت کر گیا خدانخواستہ یہ حادثہ میرے ساتھ پیش آتا تو
کوئی نہ کوئی ہڈی توڑ ڈالتا۔ ایک سال پڑھنے کے بعد ساتویں میں پہنچ گئے۔
ایک رات زبردست طوفان باد باراں آیا اور شہر بھر میں بڑے بڑے درخت جڑوں سے
اکھڑ گئے‘ شدید ژالہ باری بھی ہوئی۔ جس کی وجہ سے مکانوں کی چھتیں سفید ہو
گئیں جب دوسری صبح سکول پہنچے تو ہر جانب مردہ چڑیاں اور جانور بکھرے ہوئے
تھے ان کو اکٹھا کیا گیا تو خاصا اونچا ڈھیر لگ گیا ۔ میں چونکہ مردہ جانور
دیکھ کر اور ان کے قریب سے گزرا خوف محسوس کرتا ہوں‘ میرے جسم میں عجیب سی
تھرتھراہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے میں بہت پریشان ہوا۔ میرے قدم جدھر بھی
اٹھتے مردہ چڑیوں سے سامنا ہو جاتا۔ شرارتی لڑکے مردہ چڑیوں کو اٹھا کر ایک
دوسرے پر پھینکنے لگے۔ اس حالت میں میرے جیسی طبیعت کیطالب علم بہت مشکل
میں نظر آ رہے تھے۔ کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ اس صورت حال سے میرا دل پھٹ
جائے گا۔ پھر حوصلہ پکڑتا تو کوئی شرارتی لڑکا مجھ پر مردہ جانور پھینک کر
میرے دفاعی حصار کو پاش پاش کر دیتا۔ اس طرح کئی دنوں تک مردہ جانوروں سے
وقتاً فوقتاً واسطہ پڑتا رہا۔
اس سکول میں راج محمد‘ چپڑاسی کی حیثیت سے عرصہ دراز سے تعینات تھا۔ وہ
انتہائی دھیما اور سلجھا ہوا انسان تھا‘ طالب علموں پر رعب جھاڑنے کی بجائے
ہر ایک سے شفقت اور محبت سے پیش آتا۔ یہ سکول چونکہ ان دنوں شیخ عارف کی
ملکیت تھا ان کے دو تین اور بھی سکول اسی شہر میں موجود تھے بالخصوص اس
علاقے میں گلبرگ ہائی سکول کا ثانی کوئی اور نہیں تھا۔ تھوڑے ہی فاصلے پر
گورنمنٹ ہائی سکول تھا جو پرانی فوجی بارکوں میں قائم کیا گیا تھا لیکن
وہاں پڑھنے والے بچے کھلے میدانوں میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھا کرتے
جبکہ گلبرگ ہائی سکول میں طلبہ کے بیٹھنے اور پڑھنے کا انتہائی معقول
انتظام تھا۔ اس کے ساتھ ایک وسیع اور کشادہ میدان بھی تھا۔ جس میں سکول کے
لڑکے کرکٹ‘ ہاکی اور فٹ بال کھیلا کرتے تھے بعد میں اسی میدان میں سائنس کی
لیبارٹری بن گئی۔ ایک کونے میں سائنس کی لیبارٹری کی تعمیر سے کھیل کا
میدان قدرے چھوٹا ہو گیا پھر بھی اسے معیاری قرار دیا جا سکتا تھا۔
شیخ عارف لمبی سی پرانی کار میں بیٹھے ہوئے جب سکول آتے تو ہر جانب خاموشی
چھا جاتی۔ کسی بچے کو کلاس سے باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوتی۔ اساتذہ کرام
بھی خوف زدہ ہو جاتے کہ شیخ عارف کہیں ان کی کلاس میں نہ آ جائیں۔ کیونکہ
وہ اکثر کسی بھی کلاس میں جا کر بچوں کے تعلیمی معیار کا خود جائزہ لیا
کرتے تھے۔ انہوں نے سکول کے اساتذہ کرام پر واضح کر رکھا تھا کہ اگر کسی
کلاس کے بچوں کا تعلیمی معیار مناسب نہ ہوا تو اس کلاس کے انچارج ٹیچر کو
فارغ کر دیا جائے گا۔ اس وقت سکول ٹیچر کا ہمارے معاشرے میں بہت احترام ہوا
کرتا تھا محلے کے چھوٹے بڑے سبھی اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ گلبرگ
ہائی سکول میں پڑھنے والے بچے کافی دور دور سے آتے تھے اور جہاں بھی کسی
بچے کو اپنا استاد نظر آتا تو وہ فوراً سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سلام کرنے کے
لئے بھاگ کھڑا ہوتا۔ سکول کا ہر بچہ ہیڈماسٹر سے اس قدر ڈرتا تھا جیسے یہ
انسان نہیں کوئی خوفناک مخلوق ہو۔ جب میں ساتویں پاس کر کے آٹھویں جماعت
میں پہنچا تو قدرت نے مجھے بہت سے دوستوں سے بھی نواز دیا۔ ساتویں جماعت
میں ریلوے کوارٹروں کے اور بھی بہت سے لڑکے پڑھتے تھے جن میں افضل‘ جاوید‘
مسلم شاہ اور بڑے باؤ کا بیٹا اکبر شامل تھے عتیق جو بذات خود ایک سکول
ٹیچر کا بیٹا تھا وہ بھی میرے خاصا قریب تھا وہمیٹرک تک پہنچنے سے پہلے ہی
اﷲ کو پیارا ہو گیا جبکہ جاوید ریلوے میں بطور ٹکٹ کلکٹر کام کر رہا ہے اس
سے ملاقات کو بھی عرصہ گزر چکا ہے۔ مسلم شاہ مردان کی خوبصورت وادیوں میں
ایسا کھویا کہ مجھے ہی بھول گیا چند سال پہلے روزنامہ ’’آج‘‘ پشاور میں
مسلم شاہ نامی مجاہد کی کشمیر میں شہادت کا آرٹیکل پڑھا۔ اب یہ بات یقین سے
نہیں کہی جا سکتی کہ یہ مسلم شاہ میرا ہی دوست تھا یا کوئی اور خوش نصیب۔
بہرکیف آٹھویں۔ بی کے لئے اس کمرے کا انتخاب کیا گیا جو مین دروازے کے
بالکل متوازی تھا۔ اس وقت میری عمر 13سال ہو چکی تھی۔ اس لئے کہا جا سکتا
ہے کہ میں کافی سمجھدار ہو گیا تھا۔ ڈرائنگ کا پیریڈ راجہ اختر صاحب لیا
کرتے تھے‘ یہ ان کا پانچواں پیریڈ یعنی آدھی چھٹی سے پہلے آخری پیریڈ ہوا
کرتا تھا۔ وہ اکثر مانیٹر کی ڈیوٹی لگا کر کچھ دیر کے لئے کلاس روم سے باہر
چلے جاتے اور جب واپسی ہوتی تو آتے ہی مانیٹر سے پوچھتے کہ ان لڑکوں کے نام
بتاؤ جو شور مچاتے رہے ہیں۔ ہماری جماعت کا مانیٹر اسلم طوطا (جسے ہم لمبی
ناک کی وجہ سے طوطا کہہ کر پکارتے تھے) جبکہ سیکنڈ مانیٹر حسن عباس تھا۔ ہر
روز جب شور مچانے والوں کے نام پکارے جاتے تو میرا اور میرے ساتھیوں کا نام
اس فہرست میں شامل ہوتا جس کی وجہ سے ہر روز مفت میں پٹائی ہو جاتی۔ مانیٹر
نے اپنے اردگرد چمچوں کا اچھا خاصا حلقہ بنا رکھا تھا جو اس کی تعریفوں اور
خاطر تواضع میں لگا رہتا تھا۔ دنیا جہان کی شرارتیں وہ کرتے لیکن مانیٹر
جان بوجھ کر ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتا۔ دوسری جانب میرے گروپ کے کسی
بھی لڑکے سے شرارت سرزد ہو جاتی تو فوراً اس کا نام شور مچانے والوں کی
فہرست میں لکھ لیا جاتا۔ بے شک میں کلاس میں مانیٹر جیسے اثر و رسوخ کا
مالک تو نہیں تھا لیکن مانیٹر کے خلاف دل میں نفرت اور غم و غصہ ضرور رکھتا
تھا۔ حسب معمول ایک دن راجہ اختر صاحب اپنے پیریڈ میں تشریف لائے اور آتے
ہی حکم دیا کہ شور مچانے والوں کے نام بلند آواز میں پڑھے جائیں۔ مانیٹر نے
جو نام پکارے ان میں مجھ سمیت میرے تمام ساتھیوں کے نام شامل تھے اس پر میں
آگ بگولہ ہو گیا اور میں نے مانیٹر کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا تمام
ساتھی بھی مکمل طور پر میرے ساتھ تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ماسٹر صاحب سے
ڈرتے تھے۔ راجہ اختر صاحب جب لڑکوں کو ڈنڈے مارتے ہوئے میرے پاس آئے تو میں
نے حسب معمول ان کے سامنے مار کھانے کے لئے ہاتھ نہ بڑھایا۔ انہوں نے مجھے
ہاتھ بڑھانے کا حکم دیا لیکن میں خاموش کھڑا رہا۔ پہلے تو راجہ اختر صاحب
کو بہت غصہ آیا لیکن پھر وہ حیران ہوئے کہ اتنا فرمانبردار لڑکا یکدم بغاوت
پر کیوں اتر آیا ہے۔ انہوں نے مجھ سے اس بغاوت اور حکم عدولی کی وجہ پوچھی۔
میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے نام ہر روز مانیٹر جان بوجھ کر شور مچانے
والوں کی فہرست میں لکھ لیتا ہے۔ شور مانیٹر اور اس کے ساتھی خود مچاتے ہیں
لیکن سزا دلوانے کے لئے ہر روز ہمیں منتخب کر لیا جاتا ہے۔
میری باتیں توجہ سے سننے کے بعد راجہ اختر صاحب نے مجھے کلاس کا مانیٹر
بنانے کا اعلان کر دیا جس پر میرے ساتھیوں کے چہروں پر رونق آ گئی اور
مخالف گروپ کے چہرے مرجھا گئے۔ مانیٹر بننے کے بعد مجھے ایسے لگ رہا تھا
جیسے دنیا کی حکمرانی میرے ہاتھ آ گئی ہے اور میں سیاہ وسفید کا مالک بن
چکا ہوں۔ مسلم شاہ‘ عتیق اور دیگر احباب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ چھٹی
کے بعد ہم سب خوشی خوشی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور بے تابی سے دوسری
صبح کا انتظار کرنے لگے جو کلاس میں ہماری حکمرانی کا پہلا دن تھا۔ جب کافی
انتظار و تجسس کے بعد راجہ اختر صاحب کا پیریڈ آیا تو مجھے مانیٹر کے تمام
تر اختیارات حاصل تھے۔ میں بلند آواز میں شرارتی لڑکوں کے نام اپنے ساتھیوں
کو لکھواتا رہا میرے مخالف لڑکے حیرانی سے میرا چہرہ دیکھتے رہے جب کلاس کے
تمام غنڈہ عناصر کے نام لکھ لئے گئے تو اسی اثناء میں راجہ اختر صاحب آ
گئے۔ انہوں نے آتے ہی شور مچانے والوں کے نام پکارنے کا حکم دیا۔ میں شور
مچانے والوں کے نام بلند آواز میں پکارنے لگا‘ نام سن کر جہاں ان لڑکوں کے
چہرے لٹک گئے جو اپنی چودہراہٹ کی وجہ سے ہمیشہ سزا سے بچتے آئے تھے وہاں
ماسٹر صاحب کا چہرہ بھی کھلنے لگا کہ آج موٹے موٹے شکار ہاتھ آئے ہیں۔ راجہ
صاحب نے جی بھر کر ان کی پٹائی کی۔ ان سب کے منہ سے ایسے سوسو کی آوازیں
نکل رہی تھیں جیسے انہوں نے تیز مرچوں کا بھنا ہوا گوشت کھا لیا ہے۔ مار تو
انہوں نے کھالی لیکن ساتھ ساتھ مجھے بھی گھورتے رہے بلکہ اپنے منہ پر ہاتھ
پھیرتے کہ آدھی چھٹی میں نمٹ لیں گے۔ اسی دوران میں نے اپنے ساتھیوں سے
مشورہ کیا کہ حالات خاصے کشیدہ معلوم ہوتے ہیں دشمنوں کے عزائم اچھے نہیں
ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ چنانچہ ہم نے باہمی طور پر فیصلہ کیا
کہ آدھی چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی ہم ریلوے لائن کی دوسری جانب عتیق کے گھر جا
کر پناہ لیں گے اور آدھی چھٹی ختم ہونے کے بعد سکول واپس آ جائیں گے جبکہ
مانیٹر اسلم طوطا اور اس کے حواری ہمیں پھینٹی لگانے کی تیاریوں میں مصروف
تھے۔
ادھر آدھی چھٹی کی گھنٹی بجی‘ ادھر ہم نے دوڑ لگا دی اور پلک جھپکتے ہی
ریلوے لائن کے اس پار عتیق کے گھر جا کر پناہ لے لی۔ ہم جتنی رفتار سے بھاگ
رہے تھے مخالفین بھی اس رفتار سے ہمارے پیچھے تھے لیکن ہم ان کے ہاتھ اس
لئے نہ آ سکے کہ انہیں ہاتھوں میں پتھر اٹھانے کے لئے بھی تو وقت درکار
تھا۔ بہرکیف وہ گھر کے باہر ریلوے لائن پر بیٹھ کر بے تابی سے ہمارا انتظار
کرتے رہے۔ اتنے میں آدھی چھٹی ختم ہو گئی اور انہیں مجبوراً واپس کلاس میں
جانا پڑا۔ میں نے ایک لڑکے کو ہدایت کی کہ وہ گھر سے باہر جا کر حالات کا
جائزہ لے اور صحیح صورت حال کے بارے میں اطلاع دے۔ جب اطمینان ہو گیا کہ
ہمارے مشترکہ دشمن سکول میں واپس جا چکے ہیں تو ہم باجماعت گھر سے نکل کر
کلاس روم میں پہنچ گئے۔ اس وقت تک ٹیچر بھی کلاس میں آچکا تھا اور ٹیچر کی
موجودگی میں ہمیں کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا لیکن آنکھوں ہی آنکھوں میں
مخالفین ہمیں گھور ضرور رہے تھے۔ ہم بھی پچھلے بینچوں پر بیٹھے ہوئے دفاعی
حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف تھے کہ دشمن کے شر سے ہمیں کیسے محفوظ رہنا
ہے۔ جب مکمل چھٹی ہوئی تو ہم نے ایک بار پھر وہی حربہ آزمایا اور عتیق کے
گھر جا کر پناہ لے لی۔ جب سب لوگ چلے گئے تو ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو
واپس چلے گئے۔ ہمارا ایک دوست مسلم شاہ پٹھان تھا اور اپنی جیب میں ہر وقت
چاقو رکھتا تھا ۔ چاقو کی وجہ سے لڑکے اس سے ڈرتے بھی تھے کہ کہیں مار ہی
نہ دے۔ قصہ مختصر جب تیسرے دن راجہ اختر صاحب کا دوبارہ پیریڈ آیا تو دست
بدستہ ان سے عرض کی کہ ہم مانیٹری سے باز آئے کیونکہ مانیٹری کی وجہ سے ہم
عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ راجہ صاحب نے کہا کہ تم مانیٹر رہو اگر تمہیں
کوئی لڑکا ہاتھ لگائے گا تو میں اسے دیکھ لوں گا۔ میں نے کہا کہ جناب جب آپ
تک بات پہنچے گی تب تک ہماری درگت بن چکی ہو گی۔ وہ لڑکے زیادہ بھی ہیں اور
بااثر بھی۔ اس لئے میری طرف سے معذرت سمجھیں‘ میرے لئے ایک ہی دن کی
مانیٹری کافی ہے۔
یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ ہم عموماً کلاس کے درمیان میں بیٹھا کرتے تھے۔
ہمارے پاس دو قسم کے بینچ تھے ایک کی اونچائی معیار کے مطابق تھی کہ دوسرے
بینچ کی اونچائی خاصی کم تھی ان پر بیٹھ کر دن میں کئی بار ہم استاد کی
نظروں سے اوجھل ہو جاتے جس پیریڈ کا کام نہ کیا ہوتا اس پیریڈ میں ہم چھوٹے
بینچ استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اپنی جگہ پر کھڑا
ہوا‘ استاد ہمیں دیکھ نہیں پاتا تھا اور ہم ڈانٹ ڈپٹ سے محفوظ ہو جاتے تھے۔
’’مسلم شاہ‘‘ میرا بہت وفادار دوست تھا وہ میری ہر لڑائی میں مجھ سے زیادہ
حصہ لیتا۔ میرے خلاف اگر کوئی بات کرتا اور مسلم شاہ کو خبر ہو جاتی تو وہ
مجھ سے پوچھے بغیر ہی اس شخص کے گلے پڑ جاتا۔ جب مجھے علم ہوتا تو میں اسے
ڈانٹتا کہ لڑائی شروع کرنے سے پہلے مجھے تو اطلاع کر دیا کرو۔ خدانخواستہ
اگر زیادہ لڑکے حملہ آور ہو جائیں تو اکیلے کیسے مقابلہ کر پاؤ گے۔ میرے
کہنے کے باوجود بھی وہ باز نہ آتا تو میرے دفاع میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار
بن کر کھڑا ہو جاتا۔ زندگی کے آنے والے دنوں میں اس نے مجھے اتنی اہمیت دی
کہ میں حیران ہونے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات پریشان بھی ہو جاتا تھا‘ دیکھنے
والے ہماری دوستی کو دیکھ کر رشک کیا کرتے تھے۔
ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کے پلیٹ فارم کے شروع میں ہی پیلی سی عمارت میں
گودام آفس ہوا کرتا تھا۔ اس سے ملحقہ ایک بیری کا درخت تھا جس پر ڈھیروں
بیر لگے ہوتے۔ سکول سے واپسی پر وہاں سے بیر توڑنا ہمارا روز کا معمول تھا
کبھی کبھی کوئی روک دیتا تو اگلے دن ہم مزید ہوشیاری سے کام کرتے۔ ایک دن
بیک وقت میں نے اور میرے دوست جاوید نے (جو ریلوے کوارٹروں ہی میں رہائش
پذیر تھا) بیری کو پتھر مارے‘ پتھر لگنے سے جو بیر گرے ان پر اکیلا
جاویددعویٰ کرنے لگا جبکہ میں نے کہا کہ ان بیروں میں میرا بھی حصہ شامل
ہے۔کیونکہ میرا بھی پتھر بیروں کا لگا تھا لیکن وہ ماننے کو تیار نہ ہوا
چنانچہ ہم دونوں کے درمیان ہاتھاپائی شروع ہوگئی۔ جاوید چونکہ مجھ سے چھوٹا
تھا اس لئے اس کی قسمت میں زیادہ مار آئی۔ وہ مجھے گالیاں دیتا ہوا گھر کی
جانب بھاگ کھڑا ہوا جبکہ میرا راستہ بھی وہی تھا۔ میں نے پیش آمدہ خطرے کو
بھانپتے ہوئے گھر آتے ہی والد صاحب کو بڑی معصومیت سے تمام واقعے سے آگاہ
کر دیا کہ جاوید نے مجھے گالی دی تھی جس سے مشتعل ہو کر میں نے اس کے منہ
پر گھونسا دے مارا۔ مجھے خدشہ تھا کہ جاوید اپنے باپ کو لے کر میری شکایت
لگانے کے لئے آئے گا۔ کچھ ہی دیر بعد جاوید اپنے والد کے ہمراہ ہمارے گھر
کے دروازے پر دستک دے رہا تھا چونکہ میں نے اپنے والد صاحب کو پہلے ہی
مطمئن کر رکھا تھا اس لئے مجھے کسی قسم کی فکر نہ تھی۔ والد صاحب گھر سے
باہر نکلے‘ آمد کی وجہ پوچھی تو جاوید کے والد کا رویہ خاصا تلخ تھا جبکہ
میرے والد بھی کسی سے کم نہ تھے۔ انہوں نے بھی اسی تلخ لہجے میں بات کی اور
جاوید کے والد کو بتایا کہ تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کو گالی دی تھی جس کی
سزا اس نے بھگت لی‘ یہاں آنے کی بجائے اپنے بیٹے کو تمیز دو۔ کچھ دیر کی
گرمی سردی کے بعد بات رفع دفع ہو گئی اور دونوں باپ بیٹا اپنے گھر واپس
ہوگئے لیکن اس جھگڑے کا نقصان یہ ہوا کہ ہم تمام دوست دو گروپوں میں تقسیم
ہو گئے۔
اے ایس ایم کے لئے مخصوص کوارٹروں میں چوہدری سردار محمد بھی ٹرانسفر ہو کر
آئے۔ یوں تو ان کے کئی بچے تھے لیکن ہماری عمر کے دو ہی تھے ایک کا نام
افضل اور دوسرا کا ظفر تھا۔ افضل میری کلاس میں پڑھتا تھا اور شروع ہی سے
وہ مینڈکوں کا آپریشن کرنے کا شوقین تھا۔ اس کا رجحان میڈیکل کے شعبے کی
طرف تھا جس دن بارش ہوتی برساتی مینڈک زمین سے نکل آتے اور افضل کی موج ہو
جاتی وہ کئی مینڈکوں کو پکڑ کر گھر لے آتا اور ان کا جسم چیر پھاڑ دیتا ۔
یہ دیکھ کر مجھے بہت حیرانی ہوتی کہ افضل آخر مینڈک کے جسم سے کیا تلاش
کرتا ہے۔ پڑھائی میں وہ مجھ سے زیادہ تیز تھا۔ ایک چھوٹی سی بات نے ہمارے
درمیان اتنی بڑی خلیج پیدا کر دی کہ دس بارہ سال تک ہماری بول چال بند رہی۔
پھر ان کے والد چودھری سردار محمد جو لاہور ریلوے اسٹیشن پر اسسٹنٹ اسٹیشن
ماسٹر کے عہدے پر فائز تھے ،ریٹائر ہوگئے۔اس طرح انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی
ریلوے کوارٹر چھوڑنا پڑا۔
کبھی وہ وقت بھی تھا کہ ہم جہاں بھی جاتے اکٹھے جاتے، صبح سے شام تک ایک
دوسرے کی رفاقت پر ہمیں ناز ہوتا لیکن افضل کو ’’چنی منی‘‘ کہنے سے بات بگڑ
گئی اور وہ مجھ سے ناراض ہو گیا۔ میں نے اسے منانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ
نہ مانا‘ حتی کی مجھ پر بھی خفگی کا عنصر غالب آ گیا۔ پھر وہ مجھے مناتا
رہا لیکن میں اس کی شکل دیکھنے سے بھی بیزار ہوگیا۔ کئی احباب نے مسجد میں
بیٹھ کر ہماری صلح کروائی لیکن مسجد کی دہلیز پار کرتے ہی صلح کا معاہدہ
ختم ہو جاتا اور پھر دونوں پر ایک ہیجانی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اب عرصہ
دراز کے بعد افضل سے ملاقات ہوئی تو وہ صرف افضل نہیں‘ ڈاکٹر افضل بن چکا
تھا لیکن ہماری دوستی پرانی نہج پر واپس نہ آ سکی۔ چونکہ میرے والدین کا
گھر پہلے ریلوے کالونی میں تھا ، والد صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے
کچی آبادی قربان لائن میں ہی ایک زمین کا قطعہ خرید کر اس پر پختہ مکان
بنالیا اور اپنی مستقل رہائش اس گھر میں رکھ لی۔میں چونکہ نومبر 1984ء کو
والدین سے علیحدگی اختیار کرکے گلبرگ کے آخری حصے میں واقع مکہ کالونی میں
چار مرلے کا ایک بوسیدہ سا مکان 28ہزار میں خرید لیا پھر اس کھنڈر نما مکان
کو گھر بنانے میں دس سال لگ گئے ۔اس وقت ڈاکٹر افضل کی شہرت مکہ کالونی تک
پہنچ چکی تھی ،بلکہ مکہ کالونی کے کئی لوگ ان کے پاس علاج کے لئے آتے ،ایک
دوست سے جب ان کا تذکرہ سنا تو مجھے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر افضل نام میں شاید
میرا سکول فیلو چھپا ہوا جب میں نے مزید جستجو کی تو مجھے خوشی ہوئی کہ
ڈاکٹر افضل وہی تھا جو میرا بچپن کا دوست اور کلاس فیلو تھا۔اب ماشا اﷲ وہ
اپنی قابلیت اور اہلیت کی بناپر پورے علاقے میں مشہور ہوچکا ہے ۔میری رہائش
مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ میں تھی جبکہ ڈاکٹر افضل کا کلینک مدینہ کالونی میں
تھاگویا میرے اور اس کے درمیان صرف ریلوے لائن حائل تھی لیکن بالمشافہ
ملاقاتوں کو بھی سالوں گزر جاتے ہیں۔ نہ اب اس کو مجھ سے ملنے کی خواہش تھی
اور نہ ہی میری مصروفیات اس سے ملنے کی فرصت فراہم کر تی ہیں۔میں بھی پہلے
پی آئی ڈی بی میں ملازمت کرتا تھا تو شام ہونے تک پارٹ ٹائم ملازمت کرتا
،گھر واپسی شام سات آٹھ بجے ہوتی ۔جب میں بنک آف پنجاب میں ملازمت کرنے لگا
تو بنک کے اوقات کار ہی شام تک مصروف رکھتے تھے اس لئے ملاقات کی بہت کم
نوبت آئی۔ لیکن اتنا احساس ہم دونوں کو تھا کہ ہم پرانے دونوں دوست ہیں۔
....................
بہرکیف گلبرگ ہائی سکول جس کی پڑھائی اور ڈسپلن کے پورے شہر میں چرچے تھے
قومی تحویل میں آنے کے بعد اپنی ساکھ برقرار نہ رکھ سکا۔ قومی تحویل کے بعد
سب سے پہلے ہیڈماسٹر رانا صاحب آئے جو گورنمنٹ ہائی سکول لاہور کینٹ میں
ہیڈماسٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ رانا صاحب طبیعت اور مزاج کے
بہت سخت تھے اور اپنی طبیعت کا استعمال اساتذہ کرام اور طلبہ دونوں پر
برابر کرتے تھے۔ میں اس وقت نویں کلاس میں پہنچ چکا تھا اور مجھے اپنی
ذہانت اور جسامت کے لحاظ سے نویں بی میں رکھا گیا تھا جبکہ ذہین لڑکوں کو
اے گروپ میں شامل کیا گیا تھا۔ ویسے بھی آرٹس گروپ کے لڑکے ذہن کی بجائے
جسامت کے بھاری ہوتیتھے۔
اس کلاس میں پہنچ کر آٹھویں جماعت کے مانیٹر‘ اسلم طوطا اور حسن عباس سے
جان چھوٹ گئی۔ نویں کلاس میں بھاری بھر کم جسامت کے طلعت حسین مانیٹر اور
زاہد شفیق سیکنڈ مانیٹر بن گئے۔ یہ دونوں نوجوان ہر لڑکے کے دل پر راج کرتے
تھے۔ بے شک میں طلعت کا بھی بہت احترام کرتا تھا لیکن زاہد شفیق سے مجھے بے
حد پیار اورمحبت تھی اگر یہ کہا جائے کہ وہ میرا آئیڈیل تھا تو بے جا نہ ہو
گا۔ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور گلبرگ تھرڈ میں اس کی رہائش
تھی وہ بھی مجھ سے خاصا لگاؤ رکھتا تھا۔ قدرت نے بیس بائیس سالوں بعد ہمیں
ایک بار پھر اس وقت ملا دیا جب وہ کونسلر کے الیکشن میں ووٹ لینے کے لئے
میرے گھر کی دہلیز پر کھڑا نظر آیا اسے دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ بچپن
کی حسین یادیں ایک بار پھر تازہ ہو گئیں بلکہ فلم کی مانند آنکھوں کی سکرین
پر چلنے لگیں۔ سیاسی اختلاف کے باوجود میں اسے ووٹ دینے پر مجبو ر ہو گیا۔
بعد میں نہ صرف وہ کونسلر منتخب ہو گیا بلکہ بے نظیر حکومت میں سیاسی
اعتبار سے بہت آگے تک چلا گیا۔
بہرحال رانا صاحب کے آنے پر تمام کلاسوں کے لڑکے خفا تھے لیکن کسی کوآواز
اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن نویں بی کے تمام لڑکوں نے اعلان بغاوت کر
دیا۔ سارے لڑکے سکول کے بالکل سامنے ریلوے لائن پر چڑھ گئے۔ شور مچانے سے
اردگرد کے لوگوں کو خبر ہو گئی جبکہ دوسری کلاسوں کے لڑکے بھی نظارہ دیکھنے
کے لئے کلاسوں سے باہر نکل آئے۔ ہیڈماسٹر صاحب کو ہماری بغاوت سے بہت دکھ
ہوا وہ ایک بہادر جرنیل کی طرح اساتذہ کرام کو ہدایات دے رہے تھے اور
اساتذہ کرام ہیڈماسٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں سکول واپس لانے کی
کوششیں کر رہے تھے۔ تاکہ ہماری بغاوت کی خبر کہیں اخبارات کی زینت نہ بن
جائے جس سے ہیڈماسٹر صاحب کی سبکی ہو۔ جب اساتذہ نے لڑکوں پر لاٹھی چارج
شروع کیا تو چند لڑکوں نے سکول کی جانب پتھر چلانے شروع کر دیئے جس سے
ہیڈماسٹر کے کمرے کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ کنٹرول سے باہر نکلتی ہوئی
صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہیڈماسٹر صاحب بھی سہم گئے۔ ایک دو دن تک ہڑتال
چلتی رہی۔ بعد میں اعلیٰ حکام تک بھی خبر پہنچ گئی تو ہیڈماسٹر کو تبدیل کر
کے سیکنڈ ہیڈماسٹر خان لطیف خان کو ہیڈماسٹر بنا دیا گیا جو انتہائی دھیمی
طبیعت کے رحم دل انسان تھے۔ انہوں نے نویں بی کے تمام لڑکوں کو سمجھا بجھا
کر پڑھائی کی طرف دوبارہ راغب کیا۔
اس سے پہلے ہیڈماسٹر اشرف صاحب کے دورمیں بھی ایک واقعہ رونما ہوا تھا جس
کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے۔ سرور ساقی صاحب ہمیں حساب پڑھایا کرتے تھے حساب
مجھے بھی خوب آتا تھا اور میں باقاعدگی سے استاد کا دیا ہوا ہوم ورک گھر سے
کر کے لاتا تھا۔ ساقی صاحب میری کارکردگی سے بالکل مطمئن تھے۔ میرے ساتھ
اشرف اور اقبال بیٹھا کرتے تھے لیکن ایک دن کے لئے میرے ساتھ خلیل بٹ بیٹھ
گیا جس کی ان دنوں گلبرگ مین مارکیٹ میں بٹ تکہ شاپ کے نام سے دوکان بھی
تھی وہ ایک ریٹائرڈجج کا بیٹا تھا۔ ساقی صاحب بلیک بورڈ پر سوال سمجھا رہے
تھے اور میں پوری توجہ کے ساتھ سوال سمجھ بھی رہا تھا جبکہ میرے ساتھ بیٹھا
ہوا خلیل بٹ میری ہی کاپی کے نچلے صفحے پر سکہ رکھ کر اس پر پنسل پھیر رہا
تھا اس سے اوپر والے صفحے پر سکے کا عکس ابھر آیا۔ ساقی صاحب نے اچانک یہ
سب کچھ دیکھ لیا۔ وہ فوراً ہمارے قریب آئے اور کاپی چھین لی جس پر سکے کا
نشان بنایا جا رہا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کاپی کس کی ہے؟ میں نے کہا یہ
کاپی میری ہے۔ انہوں نے غصے کے عالم میں کہا کہ میں بلیک بورڈ پر سوال
سمجھا رہا ہوں اور تم شرارتیں کر رہے ہو۔ میں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش
کی کہ جناب کاپی ضرور میری ہے لیکن اس پر سکے کا نشان میں نہیں بنا رہا تھا
بلکہ میرے ساتھ بیٹھنے والا خلیل بٹ یہ کام کر رہا تھا۔ میری تو تمام تر
توجہ بلیک بورڈ کی جانب مرکوز تھی اگر یقین نہیں آتا تو آپ مجھ سے وہ سوال
پوچھ سکتے ہیں جو آپ بلیک بورڈ پر سمجھا رہے تھے لیکن ساقی صاحب کی تسلی نہ
ہوئی۔ انہوں نے ڈیسک کا ڈنڈا نکال کر ہمیں مارنا شروع کر دیا۔ خلیل کو تو
دو تین ڈنڈے مار کر چھوڑ دیا گیا لیکن میری پٹائی اہتمام سے ہونے لگی۔ میرے
اندر غصے سے بھرا ہوا انسان جاگ اٹھا۔ میں نے جذبات میں آتے ہوئے بے ساختہ
اور بے ارادہ ساقی صاحب کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھا لیا جس پر ساقی صاحب
مجھے اور بھی زور سے مارنے لگے۔ مجھے غصے کے عالم میں ذرا بھی پتہ
نہیں چل رہا تھا کہ مجھے کہاں کہاں مار پڑ رہی ہے۔ جیسے ہی میں نے ساقی
صاحب کو زمین پر کھڑا کیا تو انہوں نے مارنا بند کر دیا۔ اس زیادتی کے خلاف
احتجاج کرتے ہوئے میں آدھی چھٹی ہوتے ہی بستہ اٹھا کر گھر پہنچ گیا۔ والدین
میری غیرمتوقع آمد دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ انہوں نے آنے کی وجہ پوچھی تو
میں نے سارا ماجرا سنایا۔ چونکہ ہیڈماسٹر والد صاحب کو ذاتی طور پر جانتے
تھے اس لئے وہ میرے ساتھ چل کر سکول آئے اور ہیڈماسٹر کے روبرو ساقی صاحب
کے رویے کی شکایت کی۔ ہیڈماسٹرصاحب نے ساقی صاحب کو بلوایا اور اس واقعے کے
بارے میں دریافت کیا۔ ساقی صاحب جو اب بڑی حد تک نارمل ہو چکے تھے ان کا
غصہ بھی اتر چکا تھا۔ انہوں نے والد صاحب کے سامنے اپنی غلطی تسلیم کرتے
ہوئے معذرت کی۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا مجھے ہیڈماسٹر صاحب نے اپنے کمرے
سے باہر بٹھایا ہوا تھا۔ بعد میں مجھے کمرے میں بلوایا تو ہیڈماسٹر مجھ سے
سوال پوچھنے لگے۔ آخری سوال میرے بستے کے بارے میں تھا کہ وہ کہاں ہے؟ میں
نے بتایا کہ وہ تو گھر پر ہے یہ سنتے ہی وہ مجھ پر برس پڑے اور حکم دیا کہ
فوراً بستہ لے کر آؤ ورنہ میں تمہیں سکول سے نکال دوں گا۔ ہیڈماسٹر صاحب یہ
دھمکی والد صاحب کے سامنے اس لئے دے رہے تھے کہ کہیں میں استاد کی معذرت کو
اپنی جیت نہ سمجھ لوں۔ چنانچہ میں دوڑتا ہانپتا گھر سے بستہ لے کر سکول
پہنچ گیا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ان دنوں سکول اور گھر کا فاصلہ آنا جانا
دو میل تھا ۔ اس کے بعد ساقی صاحب نے مجھے کبھی کچھ نہیں کہا بلکہ ہمیشہ
پیار اور محبت سے پیش آتے رہے اور میں نے بھی ان کے احترام میں کوئی کسر نہ
چھوڑی۔
اسی دوران ایک اور واقعہ رونما ہوا جو ہم سب کے لئے سبق کا باعث تھا۔ بسنت
کی آمد آمد تھی ہر جانب پتنگیں اڑرہی تھیں شوقین لڑکے انہیں پکڑنے اور
اڑانے میں پیش پیش تھے۔ والٹن سے ایک خوبروجو لباس اور جسامت دونوں اعتبار
سے مجھ سے بہتر اور خوبصورت تھا بذریعہ ٹرین روزانہ گلبرگ ہائی سکول میں
پڑھنے کے لئے آتا تھا۔ اسے دیکھ کر ہمیں بھی رشک ہوتا کہ کبھی ہم بھی اس
جیسا خوبصورت لباس پہن سکیں گے۔وہ لڑکا پتنگ بازی کا بہت شوقین تھا۔ ایک دن
جب سکول سے چھٹی ہوئی تو ہم سب اپنے اپنے گھروں کو آ رہے تھے اور وہ بھی
ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کی جانب آ رہا تھا کہ
ایک خوبصورت پتنگ بے وفا محبوبہ کی طرح ہچکولے کھاتی ہوئی ہوا کے دوش بدوش
اڑتی نظر آتی تھی۔ ریلوے لائن کے مشرق میں تھوڑے ہی فاصلے پر جہاں ان دنوں
آبادی ہو چکی ہے‘ صابن بنانے والی فیکٹری تھی اس فیکٹری کی میل غلاظت بھرے
جوہڑ کے اوپر ڈال دی جاتی جو بظاہر سوکھی نظر آتی تھی لیکن اندر سے دلدل کی
صورت اختیار کر چکی تھی۔ وہ لڑکا پتنگ کے پیچھے بھاگتا ہوا اس دلدل میں جا
پھنسا اور گردن تک غلاظت میں چلا گیا۔ اس کی کتابوں کے اوراق بکھر گئے‘
کپڑے غلاظت سے آلودہ ہو گئے۔ وہ نوجوان غلاظت میں کاندھوں تک دھنس چکا تھا
اور مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ سکول کے لڑکے اس سے تھوڑی دور موجود تو ضرور
تھے لیکن آگے کوئی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ جو بھی آگے جاتا دلدل میں پھنس
جاتا یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہ تھا۔ چیخ و پکار سن کر
قریبی گھروں کے لوگ بھی نکل آئے اور رسے کی مدد سے اسے اس غلاظت بھرے جوہڑ
سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ کافی تگ و دو کے بعد اسے جوہڑ سے نکال لیا گیا
اس خوبصورت لڑکے کے جسم اور کپڑوں سے بدبو کے بھبھو کے اٹھ رہے تھے۔ اسے
سرے عام سرِ پاؤں تک پانی سے غسل دیا گیا اور کسی خدا ترس انسان نے پہننے
کے لئے اپنے کپڑے دیئے جنہیں پہن کر وہ اپنے گھرروانہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے
کہ اتنی خواری کے باوجود بے وفا محبوبہ کی طرح وہ پتنگ کسی اور کی ہو چکی
تھی۔
ہمارے زمانے میں بچوں کی اسمبلی سکول سے باہر ریلوے لائن کے قریب کھلے
میدان میں ہوا کرتی تھی جس میں تلاوت کلام پاک‘ ہیڈماسٹر صاحب کا خطاب اور
بیک زبان قومی ترانہ بھی پڑھا جاتا تھا۔ انہی دنوں پاکستان ریلوے نئی
الیکٹرک ٹرین متعارف کروا رہی تھی جس کے بارے میں ہیڈماسٹر صاحب نصیحت آمیز
لہجے میں فرمایا کرتے تھے کہ وہ ٹرین اتنی تیز رفتارہو گی کہ پلک جھپکتے ہی
قریب آ جائے گی اس لئے بچے ریلوے لائن پر نہ بیٹھا کریں اور نہ ہی لائن کے
درمیان پیدل چلا کریں تاکہ کسی بھی متوقع جانی نقصان سے بچا جا سکے۔
ہیڈماسٹر صاحب کی باتیں سن کر اس ٹرین کو دیکھنے کا تجسس اور بڑھ گیا۔ ہم
نے دوستوں سے مشورہ کیا کہ آزمائشی طور پر لاہور کینٹ سے رائے ونڈ تک چلانی
جانے والی ٹرین پر سفر ضرور کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک دن وقت نکال کر ہم
والدین کو بتائے بغیر اس ٹرین میں جا بیٹھے جس میں حفاظتی نقطہ نگاہ سے
انسانوں کی بجائے ریت کی بوریاں رکھی ہوئی تھی تاکہ خدانخواستہ یہ ٹرین تیز
رفتاری کی وجہ سے پٹڑی سے اتر بھی جائے تو جانی نقصان نہ ہو۔
الیکٹرک ٹرین کی رفتار دیکھ کر ہیڈماسٹر کی وہ بات تو سو فیصد درست معلوم
نہ ہوئی کہ الیکٹرک ٹرین دور سے پلک جھپکتے ہی قریب آ جائے گی لیکن پہلے سے
چلنے والی ٹرینوں کی نسبت اس کی رفتار زیادہ ضرور پائی۔ رائے ونڈ تک کے سفر
کا بہت لطف آیا کیونکہ ہم کافی دوست اس ٹرین میں ہلہ گلہ کرنے کے ساتھ ساتھ
خوب انجوائے کر رہے تھے شام چار بجے ہم واپس لاہور کینٹ آ گئے۔ یوں الیکٹرک
ٹرین پر سفر کرنے کی حسرت بھی پوری ہو گئی۔
میرے والد ریلوے میں چونکہ کیبن مین تھے اور ہر اسٹیشن کی طرح لاہور کینٹ
اسٹیشن پر بھی دو کیبن تھیں۔ ایک کو جنوبی کیبن کے نام سے پکارا جاتا تھا
اور دوسری کو شمالی کیبن۔ سکول اور گھر کے راستے میں جنوبی کیبن ہی آتی
تھی۔ دوران امتحان میری یہ کوشش ہوتی کہ میں والد صاحب کی نظروں سے بچ کر
کیبن کے قریب سے گزرنے میں کامیاب ہو جاؤں اور والد صاحب مجھ سے پرچے میں
آنے والے سوالوں کے جواب نہ پوچھ سکیں لیکن بچہ اپنی طرف سے جتنی بھی
چالاکی کر لے باپ تو باپ ہی ہوتا ہے اور وہ بچے کی نفسیات کو مکمل طور پر
جانتا بھی ہے۔ اس لئے تمام تر ہوشیاری کے باوجود میں والد صاحب کے قابو آ
جاتا اور وہ مجھ سے پرچے کے بارے میں سوال پوچھنے لگتے اور اگر جواب
اطمینان بخش نہ ہوتا تو میری کمبختی وہیں شروع ہو جاتی۔ بعض اوقات تو تھپڑ
بھی کھانے پڑتے۔ لیکن میں خاموشی سے والد صاحب کی ہر بات برداشت کرنے ہی
میں عافیت تصور کرتا اگر کبھی کیبن سے بچ کر گھر نکل جاتا تو شام چار بجے
(جب والد صاحب کی ڈیوٹی سے واپسی ہوتی) کا خوف مجھ پر ہر لمحے طاری رہتا
اور میری کوشش ہوتی کہ جتنی دیر تک والد صاحب سے چھپ سکتا ہوں چھپا رہوں۔
کہیں ایسا نہ ہو انہیں یاد آ جائے اور اپنی بنی بنائی عزت خطرے میں پڑ
جائے۔ جب والد صاحب کو غصہ آتا تو والدہ بھی مجھے بچا نہ سکتی تھی‘ صرف
پڑھائی ہی پر مجھے ڈانٹ پڑنے کا امکان ہوتا تھا۔ والد صاحب سب سے زیادہ
پیار مجھے ہی کرتے اور میں جتنا پیار اپنی والدہ سے کرتا تھا اس کی تو
انتہا نہ تھی ان کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے میں شوق سے کھاتا بالخصوص
ساگ‘گوبھی‘ مٹر گوشت‘ کھیر‘ دلیہ‘ گڑ کے میٹھے چاول‘ شکر گھی سے بنی ہوئی
روٹی کی چوری وغیرہ۔
ایک مرتبہ میں اردو کا پرچہ دے کر گھر لوٹ رہا تھا کہ والد صاحب نے آواز دے
کر مجھے کیبن پر بلا لیا اور پرچے کو دیکھ کر باقی سوالات کے علاوہ مجھ سے
کشمکش کا مطلب پوچھا مجھے نہ آیا تو وہیں پر ایک خاکروب ’’صوبہ مسیح‘‘
جھاڑو پھیر رہا تھا۔ والد صاحب نے اس سے پوچھا تو اس نے بالکل صحیح جواب دے
دیا۔ والد صاحب نے خوب ڈانٹ پلائی کہ مجھ سے تو یہ خاکروب ہی اچھا ہے جسے
مجھ سے زیادہ اردو آتی ہے۔
اسی جماعت میں کئی اور اساتذہ کرام کی شفقت بھی مجھے حاصل رہی جن میں مشتاق
صاحب‘ شہزاد صاحب‘ کرول کنگ (اصل نام یاد نہیں ان دنوں یہی نام لیا جاتا
تھا) مجید صاحب‘ عنایت اﷲ ورک صاحب‘ فیضی صاحب‘ صابر صاحب‘ یعقوب صاحب اور
آصف رانجھا (ان کو رانجھا ہم اس لئے کہتے تھے کہ ان کے پاس بانسری نما
رنگین ڈنڈا ہر وقت موجود ہوتا تھا)۔ نمایاں ہیں۔
جب اردو کا پیریڈ ہوتا تو صابر صاحب کلاس میں آتے ہی مجھے کھڑا کر دیتے۔
میں وجہ پوچھتا تو وہ بتاتے کہ تمہارے ماتھے پر شرارتی لکھا ہوا ہے۔ میں نے
کئی بار معصومیت سے ماتھے کو صاف بھی کیا لیکن اس کے باوجود بھی صابر صاحب
کا ظلم مجھ پر جاری رہا۔ ویسے وہ بہت اچھے استاد تھے اکثر نشے میں دکھائی
دیتے یہ معلوم نہیں کہ نشہ شراب کا تھا یا شاعری کا ویسے وہ غزلوں کی بہت
اچھی تشریح کرتے تھے۔ مجید صاحب جو کبھی کبھی انگلش کا پیریڈ لیا کرتے تھے
بہت خوش لباس تھے۔ ہر روز صبح کلف لگے ہوئے کپڑے پہن کر آتے اور اپنی خوش
لباسی کی بناء پر وہ ہمارے دلوں میں بہت قدر و منزلت رکھتے تھے۔ عنایت اﷲ
ورک صاحب تو بہت ہی قابل ذکر شخصیت کے مالک تھے بلکہ ہمارے آئیڈیل استاد
تھے۔ فیضی صاحب کا انداز تدریس بہت خوب تھا جبکہ شہزادہ صاحب جو ہمیں کچھ
عرصہ کے لئے حساب پڑھاتے رہے ان کی ایک آنکھ خراب تھی۔ کلاس کے لڑکے ان کی
اس کمزوری سے بہت فائدہ اٹھاتے‘ خود میں نے بھی ایک موقع پر (جب گرمیوں کی
چھٹیوں کا کام چیک کیا جانے والا تھا) فائدہ اٹھایا تھا۔ تفصیل کچھ یوں ہے
کہ شہزادہ صاحب نے کہا کہ جن لڑکوں نے کام کیا ہے وہ ایک طرف کھڑے ہو جائیں
اور جن لڑکوں نے بالکل کام نہیں کیا وہ دوسری طرف کھڑے ہو جائیں۔ میں نے
کام تو کیا تھا لیکن مکمل نہیں کر سکا تھا اس لئے مجھے بھی مار کھانے والوں
میں کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ حساب کی
آخری مشق کر کے شہزادہ صاحب کے اس جانب کھڑا ہو جاؤں جس جانب کی آنکھ خراب
تھی۔ پکڑا جانے پر مجھے دوسروں سے زیادہ مار بھی پڑ سکتی تھی لیکن بچ جانے
کے امکانات بھی تھے۔ جب میں اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لئے شہزادہ
صاحب کے پاس کام چیک کروانے کے لئے گیا تو انہوں نے بغیر سارا کام دیکھے
آخری صفحے پر دستخط کر دیئے جبکہ دوسروں لڑکوں کو خوب مار پڑی۔
آدھی چھٹی کو میں اور میرا پیارا دوست اشرف جسے لوگ ارشد کے نام سے بھی
پکارتے تھے اکٹھے روٹی کھاتے‘ چار آنے میرے ہوتے جبکہ بارہ آنے اشرف ڈالتا۔
مجھے چونکہ گھر سے ملتے ہی اتنے پیسے تھے۔ اس لئے اس سے زیادہ دینے کی
استطاعت نہیں رکھتا تھا جبکہ اشرف اپنے گھر میں ڈرائی کلینر کا کام کرتا
تھا اور اسے وہاں سے کافی پیسے مل جاتے تھے۔ اس لئے وہ مجھ سے زیادہ خرچ
کرنے کی پوزیشن میں تھا لیکن کبھی اس نے اس بات کا شکوہ نہ کیا۔ اسی کلاس
کے کئی اور لڑکے جن میں اقبال (کبوتر شاہ) اور نسیم نمایاں تھے اکثر اوقات
آدھی چھٹی میں روٹی کھانے کے معاملے پر دست و گریباں ہوتے جس کا داؤ چلتا
وہ روٹی اور سالن کی پلیٹ پکڑ کر بھاگ کھڑا ہوتا اور دوسرا اس کے پیچھے
بھاگتا رہتا۔ یوں دوڑتے دوڑتے آدھی چھٹی ختم ہو جاتی۔ ہر روز ان کی یہی
روٹین تھی۔ ہماری کلاس میں اقبال (بالی) جو ریلوے کوارٹروں میں ہی رہائش
پذیر تھا۔ اس کو ہر پیریڈ کے بعد بھوگ لگ جاتی تھی جسامت کے اعتبار سے
چونکہ خاصا توانا تھا اس لئے کئی ماسٹر بھی اس سے ڈرتے تھے اور بخوشی روٹی
کھانے کے لئے اسے چھٹی دے دیتے تھے۔
جب خان لطیف خان سکول کے ہیڈماسٹر بن گئے تو نویں۔ بی کو انگلش پڑھانے کا
ذمہ انہوں نے خود لے لیا۔ وہ کلاس میں آ کر کرسی ہی پر سو جاتے اور ہمیں
باری باری پڑھنے کے لئے کہہ دیتے۔ ہم یہ سمجھتے کہ وہ آنکھیں بند کر کے سو
رہے ہیں لیکن ان کی توجہ ہماری ہی جانب مرکوز ہوتی۔ جب کوئی غلط انگریزی
پڑھتا تو فوراً کان سے پکڑ لیتے اور کان کو مروڑنا شروع کر دیتے۔ ایک لڑکا
حمید جو گورے قبرستان میں رہتا تھا وہ اکثر غلط انگریزی پڑھا کرتا تھا۔ ایک
دن ہیڈماسٹر صاحب نے اسے کان سے پکڑ کر پوچھا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ اس نے
جواب دیا کہ میں گورا قبرستان میں رہتا ہوں۔ یہ سن کر ہیڈماسٹر صاحب نے کہا
کہ اگر تم کسی گورے کی قبر کے ساتھ ہی کان لگا کر بیٹھ جایا کرو تو مجھے
یقین ہے کہ تمہیں انگریزی بولنی آ جائے گی۔ اس بات پر پوری کلاس میں قہقہہ
پڑا اور حمید بے چارہ سخت شرمندہ ہوا۔
اسی کلاس میں دو محمود نامی لڑکے پڑھتے تھے۔ ایک موٹا اور کالے رنگ کا تھا
جبکہ دوسرا کی نسبت سمارٹ اور خوبصورت بھی تھا۔ دونوں ہی سے میری شناسائی
تھی اور دونوں ہی میرے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ خوبصورت محمود کو جب بھی
کوئی لڑکا تنگ کرتا تو وہ میری مدد طلب کرتا۔ یہ دونوں حسنین آباد لاہور
کینٹ میں ہی رہتے تھے اور میرے گھر ان دونوں کا خوب آنا جانا تھا۔ موٹا
محمود توسکول چھوڑنے کے بعد ایسا غائب ہوا کہ کبھی نظر نہیں آیا لیکن چٹا
محمود مجھے 1974ء میں اس وقت ملا تھا جب میں ہیکو آئس کریم کی فیکٹری میں
کام کرتا تھا۔ اسے دیکھ کر اس خیال سے نہ بلا سکا کہ وہ پہلے مجھے بلائے گا
اور یہی کیفیت اس پر طاری تھی۔ چنانچہ چار سال بعد ایک دوسرے کے سامنے آ کر
ہم پھر مدتوں کے لئے بچھڑ گئے۔ اب بھی میں اچھے دوست کی حیثیت سے اس کی کمی
محسوس کرتا ہوں۔ سکول چھوڑے ہوئے بتیس سال ہو چکے ہیں لیکن اسلم مکرم سمیت
سکول کے کئی دوستوں کی یادیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔
نویں کلاس میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ ہیڈماسٹر خان لطیف خان سائیکل پر
سکول آیا کرتے تھے۔ ہم سب کی یہ کوشش ہوتی کہ جیسے ہی وہ سائیکل سے اتریں
ہم احتراماً ان کا سائیکل پکڑ لیں اور مخصوص جگہ پر جا کر کھڑی کر کے چابی
ان کے سپرد کر دیں۔ ہر صبح سکول کے کئی لڑکے موقع کی تلاش میں رہتے تاکہ
ہیڈماسٹر صاحب کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی
حاصل کی جا سکے اور اس بہانے ان سے ذاتی جان پہچان بھی ہو جائے۔ ہماری
جماعت میں مانیٹر طلعت کا چھوٹا بھائی رفعت بھی پڑھتا تھا جو اپنے بڑے
بھائی کی وجہ سے خاصا خود سر تھا۔ وہ اپنے بھائی کی سرپرستی میں بڑی بڑی
شرارتیں بھی کر جاتا ان کے والد ٹھیکیدار تھے۔ ایک دن رفعت کو شرارت سوجھی۔
اس نے ہیڈماسٹر صاحب کی سائیکل کے ایک پہیے سے ہوا نکال دی اور خاموشی سے آ
کر کلاس میں بیٹھ گیا۔ چھٹی کے بعد جب ہیڈماسٹر گھر واپس جانے لگے تو
سائیکل کے پہیے میں ہوا نہ دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ پنکچر لگوانے کے لئے
مستری کے پاس گئے تو اس نے بتایا کہ ہر چیز ٹھیک ٹھاک ہے کسی نے شرارت سے
ہوا نکال دی تھی۔ یہ سنتے ہی ہیڈماسٹر صاحب کا شک نویں بی کے لڑکوں پر گیا
کیونکہ سکول میں جتنی شرارتیں ہوتی تھیں ان میں زیادہ تر اسی کلاس کے لڑکے
ملوث ہوتے تھے۔ نویں بی کے لڑکے پڑھنے سے زیادہ جسمانی اور ذہنی شرارتوں
میں مصروف رہنا پسند کرتے (اسی لئے جب میٹرک کا نتیجہ آیا تو پوری کلاس میں
سے صرف دو لڑکے پاس ہوئے باقی سب فیل تھے)۔ اگلی صبح ہیڈماسٹر صاحب اپنے
کمرے میں جانے کی بجائے سیدھے ہماری کلاس میں آئے اور ساری کلاس کو کھڑا کر
کے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ میری سائیکل کے پہیے سے ہوا کس نے نکالی تھی؟ اب
کسے جرأت تھی کہ وہ اقرار کرے‘ ساری کلاس سر جھکائے خاموش کھڑی تھی جیسے سب
کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ جب کسی جانب سے ہاں یا ناں کی آواز نہ آئی تو
ہیڈماسٹر خان لطیف خان صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا وہ غصے سے دھاڑے
کہ مجھے خود ہی وہ شخص بتا دے ورنہ میں ساری کلاس کو سزا دوں گا۔ یہ سن کر
ہماری جان پر بھی بن گئی کہ ہم تو یہ کام کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے
اور سزا ہمیں بھی ملے گی۔ مجھے طلعت کے چھوٹے بھائی پر پہلے ہی شک تھا
کیونکہ کل سے اس کی سرگرمیاں بدلی بدلی سی لگ رہی تھیں۔ تشویش اس کے چہرے
پر عیاں ہو رہی تھی لیکن میں اس کا نام اس لئے نہیں لینا چاہتا تھا کہ اس
طرح خواہ مخواہ مانیٹر سے دشمنی پڑ جائے گی۔ کلاس میں رہنے کے لئے مانیٹر
کی دشمنی سے بچنا ہی پڑتا ہے جیسے بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر دریا میں رہنا
تو مگرمچھ سے دشمنی نہیں ڈالنی چاہیے۔ مانیٹر کلاس کا مگرمچھ ہی تو ہوتا ہے
کیونکہ اساتذہ کرام اسی کی بات کو حتمی سمجھتے ہیں چناننچہ بہت سوچ سمجھ کر
میں نے خاموش رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ کلاس کے دوسرے لڑکوں کا بھی یہی عالم
تھا ۔ کوئی بھی مانیٹر کے ڈر سے زبان کھولنے پر آمادہ نہ تھا جبکہ ہیڈماسٹر
صاحب کو کسی مخبر نے خفیہ طور پر خبر کر دی تھی کہ سائیکل کے پہییے سے ہوا
مانیٹر کے چھوٹے بھائی رفعت نے نکالی ہے۔ سب کو خاموش دیکھ کر وہ آگ بگولہ
ہو گئے۔ انہوں نے رفعت کو کلاس سے باہر نکال دیا اور کہا کہ کل اپنے والد
کو لے کر آؤ ورنہ تم کلاس میں نہیں بیٹھ سکتے۔ اپنی چوری پکڑے جانے کی بناء
پر وہ سخت شرمندہ تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح بات یہیں پر ختم ہو جائے
لیکن ہیڈماسٹر صاحب نے (جو ہمیشہ تحمل مزاج اور بہت نرم دل ہوتے تھے) یکسر
مختلف نظر آ رہے تھے اور ہر صورت ذمہ دار کو سزا دینا چاہتے تھے۔
دوسرے دن رفعت اپنے اصلی باپ کو لانے کی بجائے گاندھی پارک سے ایک ایسے شخص
کو اپنا باپ بنا کر لے آیا جو وہاں گنڈیریوں کی ریڑھی لگاتا تھا۔ رفعت کی
بدقسمتی کہ ہیڈماسٹر نے چند روز پہلے اسی سے گنڈیریاں خرید کر کھائی تھیں
اور وہ اسے بخوبی پہچانتے تھے۔ جب رفعت گنڈیریوں والے کے ساتھ کلاس میں
داخل ہوا تو ہیڈماسٹر صاحب کو بیٹھا دیکھ کر اس کے حواس اڑ گئے لیکن اب اس
کی واپسی کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ رفعت بڑے ادب سے ہیڈماسٹر صاحب سے
کہنے لگا جناب میرے والد صاحب حاضر ہیں۔ سر سے پاؤں تک دیکھ کر ہیڈماسٹر
صاحب نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا تم گاندھی پارک میں گنڈیریاں فروخت نہیں
کرتے؟ اس نے کہا جی ہاں۔ تو پھر تم رفعت کے باپ کب سے بن گئے؟ اپنی چوری
پکڑے جانے کے خوف سے وہ تھرتھر کانپنے اور معافی مانگنے لگا۔ پھر رفعت کو
مخاطب کرتے ہوئے ہیڈماسٹر صاحب نے فرمایا کتنے پیسے دے کر اسے باپ بنایا ہے
وہ نظریں جھکائے خاموش کھڑا رہا۔ اس پر ہیڈماسٹر صاحب نے کہا کہ میری نظروں
سے دور ہو جاؤ ورنہ میں تم دونوں کو جعلسازی کے الزام میں پولیس کے حوالے
کر دوں گا۔ یہ سن کر گنڈیروں والا تو رفو چکر ہو گیا لیکن رفعت کی شامت آ
گئی۔ کافی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اسے کلاس سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ کل اپنے
اصلی باپ کو لے کر آئے ورنہ خود کو سکول سے خارج سمجھے۔ دوسری صبح وہ اپنے
حقیقی باپ کو لے آیا جو ٹھیکیدار تھا ۔ ہیڈماسٹر صاحب نے رفعت کی نازیبا
اور گستاخانہ حرکت پر والد سے شکایت کی۔ رفعت کے والد نے ہیڈماسٹر صاحب سے
معذرت کی اور آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی بھی کروائی تب کہیں جا کر
معاملہ رفع دفع ہوا۔
نویں جماعت کا امتحان قریب آیا تو میرے دائیں پاؤں کی ایڑی میں شدید درد
ہونے لگا۔ بظاہر تو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن ایڑی کے اندر ہی اندر
لاوہ پک رہا تھا جو مجھے چلنے پھرنے نہ دیتا تھا۔ درد اتنا شدید تھا کہ
پڑھنا لکھنا بھی مشکل ہو چکا تھا‘ بغیر پڑھے ہی میں نے تمام پرچے دے ڈالے۔
بڑے بھائی رمضان ہر صبح مجھے سائیکل پرسکول پہنچا دیتے اور پرچہ ختم ہونے
کے بعد مجھے لینے بھی آ جاتے۔ اس طرح سارے امتحان کے دوران بھائی رمضان نے
میری بہت مدد کی لیکن مناسب تیاری نہ ہونے کی وجہ سے پاس ہونے کی بجائے فیل
ہونے کے زیادہ امکانات تھے۔ اس دوران اپنے پروردگار سے کامیابی کی دعائیں
کرتا رہا کہ وہی میری ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز
پر قادر ہے۔ اسے حسن اتفاق کہئے کہ نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی مجھے خواب میں
نئی کتابیں نظر آنے لگتی تھیں اسے میں کامیابی کی دلیل سمجھتا تھا اور خدا
کے فضل و کرم سے کچی سے نویں تک مسلسل پاس ہوتا آیا تھا اور کسی بھی سال
مجھے ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
نتیجے کا دن آیا تو میں بھی دوسرے لڑکوں کی طرح علی الصبح بیدار ہو کر
فورٹریس سٹیڈیم کے نزدیک ایوب گارڈن پہنچ گیا وہاں مجھ سے پہلے لڑکے پھولوں
کو ان کی ٹہنیوں سے الگ کر چکے تھے۔ بہرکیف میرے ہاتھ کچھ نہ کچھ پھول آ ہی
گئے جن کا گلدستہ تیار کر کے میں بھی خوشی خوشی سکول روانہ ہو گیا۔ راستے
میں کئی اساتذہ کا سامنا ہوا۔ بڑے ادب و احترام سے انہیں سلام کر کے اس
امید پر سکول پہنچا کہ میں بھی آج کامیاب لوٹوں گا۔ سکول پہنچے تو ہر جانب
رنگ برنگے خوبصورت کپڑے پہنے لڑکے خوشی خوشی دوڑ بھاگ رہے تھے اور ان
خوشگوار لمحات کی آمد کا شدت سے انتظار کر رہے تھے جب نتیجہ سنایا جانا
تھا۔ تقریباً دس بجے سبھی لڑکے اپنے اپنے کلاس روم میں پہنچ گئے ابھی استاد
نیتجہ لے کر نہیں آتے تھے دوستوں میں خوب گپیں چل رہی تھیں اتنے میں کلاس
کے انچارج نتیجہ لے کر آ گئے۔
بڑا سا رجسٹر ان کے ہاتھ میں تھا۔ پہلے انہوں نے فیل ہونے والے لڑکوں کے
نام پکارے جن میں میرا نام شامل نہیں تھا ۔ پھر آواز آئی کہ باقی سب لڑکے
پاس ہیں تب میری جان میں جان آئی۔ نتیجے کا اعلان ہوتے ہی پاس ہونے والے
لڑکے اتنے بے قابو ہو گئے کہ پھولوں کے گلدستے دور سے ہی استاد پر نچھاور
کرنے لگے جن سے بچنے کے لئے استاد کو بڑا سا رجسٹر اپنے بچاؤ کے لئے سامنے
رکھنا پڑا جبکہ فیل ہونے والے بچے غم سے نڈھال نظر آ رہے تھے آج شرمندگی ان
کا مقدر بن چکی تھی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اڑ کے اپنے گھر پہنچ جاؤں اور
والدین کو پاس ہونے کی خوشخبری سناؤں کیونکہ اس مرتبہ میرے والدین بھی میری
کامیابی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں تھے۔
جب میں گھر پہنچا تو سب سے پہلے والدہ کو یہ خوشخبری سنائی وہ بہت خوش
ہوئیں لیکن والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ وہ کینٹ اسٹیشن ڈیوٹی پر گئے
ہوئے تھے ان کی واپسی شام چار بجے تھی اس وقت تک کون انتظار کرتا ۔ میں
بھاگا بھاگا اسٹیشن پر جا پہنچا اور والد صاحب کو تلاش کر کے انہیں یہ
خوشخبری سنائی وہ بہت ہی خوش ہوئے اور خوشی سے میرا ماتھا چوما۔ بے شک
ماتھا چومنا ہی میرے لئے بہت بڑا انعام تھا اپنے باپ کی آنکھوں میں میں نے
خوشی کے ستارے ٹمٹماتے ہوئے بھی دیکھے۔ وہاں موجود ریلوے ملازمین والد صاحب
کو مبارک بادیں دے رہے تھے جنہیں وہ بڑے فخر سے وصول کر رہے تھے۔
اسی دوران جب ہم گھر سے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ پیدل سکول جایا کرتے تھے
تو ایک خوبرو لڑکا جو عمر میں مجھ سے دو سال بڑا تھا‘ بڑی شان و شوکت کے
ساتھ سائیکل چلاتا ہوا ہمارے قریب سے گزرتا اسے دیکھ کر ہمیں بھی حسرت ہوتی
کہ کاش ہمارے پاس بھی سائیکل ہوتی ہم بھی سائیکل پر مزے سے سکول جاتے لیکن
والدین کے وسائل اتنے نہیں تھے کہ وہ سائیکل خرید سکتے۔ حسن اتفاق سے وہی
لڑکا بعد میں میرا برادر نسبتی بنا اس کا نام مشتاق احمد خاں ہے۔
انہی دنوں ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ پر بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں پر گروپ کا
حملہ ہوا چونکہ ہمارا بھی سکول آنا اور جانا پلیٹ فارم ہی سے ہوتا تھا۔
ہمیں بروقت گروپ کے چھاپے کی خبر مل گئی اس لئے ہم تو بچ گئے لیکن جب ہم
پلیٹ فارم کی حدود سے باہر سکول سے گھر آ رہے تھے تو ایک ٹرین آ کر پلیٹ
فارم پر رکی۔ ٹرین کے رکتے ہی ٹکٹ چیکر اور پولیس اہلکاروں نے ٹرین کے
مسافروں پر شہد کی مکھیوں کی طرح حملہ کر دیا۔ بعض بغیر ٹکٹ مسافر تو آسانی
سے پکڑے گئے اور بعض بھاگنے کے راستے تلاش کرنے لگے۔ اسی اثناء میں ایک
ایسا شخص بھاگتا ہوا دکھائی دیا جس نے تہمند اور کرتہ پہن رکھا تھا وہ آگے
آگے بھاگ رہا تھا جبکہ پولیس کے جوان اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ جب راستے میں
کھڑے ہوئے کسی پولیس والے نے کرتا پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو اس کا
کرتا اتر گیا لیکن اس شخص کے بھاگنے کی رفتار میں کوئی کمی نہ آئی۔ پلیٹ
فارم کے آخری حصے میں ایک اور پولیس والا اس بھاگتے ہوئے شخص کو پکڑنے لگا
تو اس کے ہاتھ میں اس کا تہمند آ گیا۔ نتیجتاً تہمند بھی پولیس والے کے
ہاتھ میں رہ گیا اور وہ شخص ننگا ہی بھاگتا ہوا ریلوے کی حدود سے باہر نکل
آیا۔ اسے ننگا دیکھ کر وہاں موجود افراد کی ہنسی نہ رکتی تھی جب وہ اپنے
کپڑے واپس لینے گیا تو پولیس والوں نے اسے پکڑ لیا۔ تب اس نے پولیس والوں
سے پوچھا کہ تم نے مجھے کیوں پکڑا ہے تو انہوں نے کہا کہ تم بغیر ٹکٹ ہو۔
اس نے کہا کون کہتا ہے کہ میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ میرا کرتا لاؤ جب کرتا
لایا گیا تو اس نے جیب سے ٹکٹ نکال کر پولیس والوں کے حوالے کر دیا جس پر
سبھی لوگ حیران رہ گئے۔ پولیس والے اور ایس ٹی حضرات بھی اس شخص کی حرکتوں
پر ہنس رہے تھے۔ ایک پولیس والے نے کہا کہ اگر تمہارے پاس ٹکٹ تھا تو تم
بھاگے کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ میں سمجھا کسی اور چکر میں لوگوں کو پکڑا جا
رہا ہے اس لئے میں بھی جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔
جب میٹرک کا امتحان ہو تو دسویں بی کے صرف دو لڑکے پاس ہوئے باقی ساری کلاس
فیل ہوگئی۔ کسی کی دو مضامین میں کمپارٹ تھی‘ کوئی سات مضامین میں فیل تھا
اور کوئی پانچ میں فیل۔ جس دن نتیجہ نکلا ہم نے اخبار بڑے شوق سے خریدا اور
اس میں اپنا رول نمبر 25039دیکھنے کی بجائے 2539دیکھ لیا۔ اس رول نمبر والے
امیدوار کے نمبر ساڑھے پانچ سو تھے۔ میں اپنے اتنے نمبر دیکھ کر بہت خوش
ہوا اور اپنے والدین کو بھی خوشخبری سنا دی۔ جنہوں نے اردگرد سے مبارک
بادیں بھی وصول کر لیں لیکن اقبال (بالی) جو میرے گھر کے قریب ہی رہتا تھا
وہ اس نتیجے کو ماننے کے لئے ہرگز تیار نہ تھا اس کا کہنا تھا کہ وہ کبھی
پاس ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا باپ بھی رزلٹ کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔ اس
کی وجہ یہ تھی کہ زمانہ سکول میں اقبال نے کبھی پڑھائی پر توجہ نہیں دی تھی
اور کوئی بھی تعلیمی ٹسٹ اس نے پاس نہ کیا تھا۔ میٹرک کے امتحان کے لئے اس
کا داخلہ اس لئے بھیج دیا گیا کہ وہ اساتذہ کو خوب کھلاتا پلاتا تھا بلکہ
ہر دوسرے پیریڈ میں اسے بھوک لگ جاتی تھی۔ اس طرح وہ دن میں کئی بار کلاس
سے نکل کر نان چھولے کھا کہ اپنے پیٹ کی آگ بھجاتا تھا۔ رزلٹ تسلیم نہ کرنے
کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس نے بغیر تیاری کے امتحان دیا تھا تو پھر کامیابی
کی امید کیسے کی جا سکتی تھی۔ بہرکیف جب ہم سب دوست سکول سے صحیح صورت حال
کا پتہ کرنے کے لئے گئے تو وہاں ہیڈماسٹر خاں لطیف خاں صاحب سے ملاقات ہو
گئی۔ انہوں نے بڑے طنزیہ لہجے میں ہمیں مبارک دیتے ہوئے وہ کھاتہ کھول لیا
جس میں دسویں بی کے لڑکوں کا نتیجہ لکھا ہوا تھا۔ سب سے پہلے ہیڈماسٹر صاحب
نے جاوید (چٹے) کو بلوایا اس کی سات مضمونوں میں کمپارٹ تھی۔ اقبال کبوتر
شاہ پانچ میں فیل تھا جبکہ میں بھی دو مضامین انگلش اور حساب میں فیل تھا۔
مایوس کن نتیجہ سنتے ہی ہمارے چہرے لٹک گئے اب ہمیں فکر لاحق ہوئی کہ اپنے
والدین کو کس طرح یہ منحوس خبر سنائیں گے کیونکہ وہ تو محلے داروں سے ہمارے
پاس ہونے کی مبارکیں بھی وصول کر چکے تھے۔ بہرکیف بوجھل قدموں کے ساتھ گھر
پہنچے تو والدین ہمارے لٹکے چہرے دیکھ کر ہی رزلٹ کا اندازہ کر چکے تھے
ہمیں بتانے میں زیادہ مشکل پیش نہ آئی۔ جب اپنے دیگر ساتھیوں کے گھر پہنچے
تو وہ بھی ہماری طرح خوش فہمی کا شکار تھے جن کی خوش فہمیوں کو صحیح نتیجہ
سنا کر ہم نے دور کر دیا۔ جہاں کامیابی کے شادیانے بجائے جا رہے تھے وہاں
ناکامی کے منحوس سائے اترنے لگے۔
مجھے گلبرگ ہائی سکول چھوڑے 32سال کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن جب بھی اپنے سکول
کو دیکھتا ہوں یا اس کے قریب سے گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو اس کے درو دیوار
سے مجھے اپنے بچپن کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ بے ساختہ جی چاہتا ہے کہ میں ایک
بار پھر بستہ گلے میں ڈال کر سکول جاؤں اور کلاس میں جا بیٹھوں۔ پھر سوچتا
ہوں کہ اب میں بچہ تو نہیں رہا‘ معاشرے کا ایک ذمے دار فرد بن چکا ہوں بلکہ
اپنی حقیقی زندگی میں بھرپور طریقے سے قدم رکھ چکا ہوں۔ میں اس معاشرے میں
رہتے ہوئے اپنے ملک و قوم کی جو خدمت کروں گا اس کا کریڈٹ بلاشبہ گلبرگ
ہائی سکول اور اس کے قابل احترام اساتذہ کو بھی جائے گا جس نے مجھے زیور
تعلیم سے آراستہ کیا‘ مجھے بہتر سوچنے اور سمجھنے کی قوت بخشی‘ میرے شعور
کو بیدار کیا۔ وہ اساتذہ کرام جن سے میں نے تعلیم حاصل کی ان کی محبت اور
شفقت کو میں زندگی بھر بھلا نہ پاؤں گا اور جن دوستوں کے ساتھ لکڑی کے
بینچوں پر بیٹھ کر میں نے تعلیم حاصل کی ان کی یاد زندگی میں قدم قدم پر
میرے ساتھ رہے گی۔ جو دوست اس وقت بھی میرے حلقہ احباب میں شامل ہیں ان کی
قربت سے تو میں لطف اندوزہو رہا ہوں لیکن بہت سے دوست ایسے ہیں جن کی یاد
تو میرے دل میں موجود ہے لیکن وہ دنیا کی گہماگہمی میں کہیں ایسے گم ہوتے
گئے کہ ان کی اب کوئی خبر نہیں۔ عتیق اور طلعت حسین اس فانی دنیا سے کوچ کر
چکے ہیں جبکہ باقی لوگوں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ محمد اشرف‘ اقبال
غوری‘ اقبال (کبوتر شاہ)‘ اسلم مکرم‘ محمد اعجاز کھوکھر‘ محمد پرویز‘ بہرام
لودھی‘ اشتیاق‘ خالد محمود اور محمد حسین سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے۔
محمد اشرف میرا سب سے قابل اعتماد دوست ہے جس نے زندگی کے کسی بھی لمحے میں
مجھے فراموش نہیں کیا۔ بہرکیف جب بھی مجھے اپنے سکول کا کوئی کھویا ہوا
ساتھی ملتا ہے تو لڑکپن کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور دل ایک بار پھر انہی
ایام کی جانب لوٹنے کو چاہتا ہے لیکن گزرے ہوئے وقت کو کون پیچھے لا سکتا
ہے۔
یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ میرے کلاس فیلو میں سے طلعت فوت ہو چکا ہے۔ زاہد
شفیق امریکہ میں مقیم ہے۔ اعجاز کھوکھر کونسلر بن کر عوام کی خدمت کر رہا
ہے۔ نثار وگین چلا رہا ہے۔ حسن عباس ڈرائی پورٹ پر تعینات ہے۔ رؤف بھی
سرکاری ملازمت سے وابستہ ہے۔ محمد اسلم ایک پرائیویٹ جاب کر رہا ہے۔ قیصر
اور کوثر کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ اسلم مکرم روٹری کلب سے وابستہہے۔
میرے لئے یہ بات بھی اعزاز کا باعث ہے کہ میرا بڑا بیٹا ’’شاہد اسلم‘‘اسی
سکول سے میٹرک کر چکا ہے۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا زاہد اسلم بھی گورنمنٹ
گلبرگ ہائی سکول کو خیرباد کہہ چکا ہے لیکن اس حوالے سے یہ کہنا چاہتا ہوں
کہ کسی بھی انسان کی کامیابیوں میں ماں‘ باپ‘ بہن‘ بھائی‘ دوست احباب کے
علاوہ درس گاہ کا ماحول‘ اساتذہ کرام کا شاگردوں سے رویہ اور سکول کے
دوستوں کی چاہتوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ گلبرگ ہائی سکول اس تعلیمی ادارے کا
نام ہے جس نے 1960ء سے آج تک لاکھوں نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر
کے ملک و قوم کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لئے تیار کیا۔ آج اگر زندگی کے ہر
شعبے میں گلبرگ ہائی سکول کا کوئی نہ کوئی طالب علم موجود ہے تو اس کا
کریڈٹ نہ صرف اس تعلیمی ادارے کو جاتا ہے بلکہ شیخ محمد عارف اور شیخ محمد
خالد بھی اتنی ہی تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے اس سکول کی بنیاد رکھی۔ اگر
آج سرسید احمد خاں کو دنیا اس لئے یاد کرتی ہے کہ ان کے تعلیمی ادارے سے
پڑھنے والے بچوں نے بڑے ہو کر قیام پاکستان کا کارنامہ انجام دیا تو اس ملک
کو اقتصادی‘ صحافتی‘ سیاسی اور مذہبی اعتبار سے مضبوط بنانے میں گلبرگ ہائی
سکول لاہور کینٹ کا کردار بھی کسی دوسرے ادارے تعلیمی سے کم نہیں۔ بے شک آج
یہ تعلیمی ادارہ حکومتی تحویل میں ہے لیکن اس ادارے کے بانیوں اور اس میں
درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کرام کی تعلیمی خدمات کو کسی
بھی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
|