پاکستان کی آزاد کشمیر کے لئے مجبوزہ15ویں آئینی ترمیم اور عوامی خدشات
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
پاکستان کی آزاد کشمیر کے لئے مجبوزہ15ویں آئینی ترمیم اور عوامی خدشات اطہر مسعود وانی
حکومت پاکستان کی وزارت امور کشمیر کے جائنٹ سیکرٹری نے یکم جولائی2022کو چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کو ایک مکتوب میں لکھا کہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین1974میں15ویں ترمیم کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کی قائم کردہ میں30جون2022کو اجلاس میں عبوری آئیں میں 15ویں ترمیم کے مسودے کوحتمی شکل دینے کے لئے چھ رکنی سب کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں حکومت پاکستان کی طرف سے قانون، دفاع اور امور کشمیر کے وزراء ممبر ہیں، اس سب کمیٹی کے لئے31جولائی2022تک آزاد کشمیر حکومت کے تین نمائندوں کے تقرر کئے جانے کے خط پر چیف سیکرٹری کی طرف سے دی گئی تجاویز کی روشنی میں وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے آزاد کشمیر حکومت کے تین انتظامی افسران ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل، سیکرٹری قانون اورمسٹر ارشاد قریشی سیکرٹری زراعت کوسب کمیٹی میں حکومت آزاد کشمیر کی نمائندگی کیلئے مقرر کیا ہے۔اگرچہ یہ تعجب انگیز بات ہے کہ وزار ت امور کشمیر کے خط کے مندرجات کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم کا معاملہ تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کا مسئلہ ہے اور اسی لئے پاکستان کی جانب سے سب کمیٹی میں وفاقی وزرائے خارجہ، خزانہ اور امور کشمیر کو شامل کیا گیا مگر آزاد کشمیر حکومت نے معاملہ کی اہمیت اور نزاکت کا احساس کئے بغیر سرکاری ملازمین کو ریاست کے اہم ترین سیاسی معاملہ میں وفاق کے سیاسی زعماء کے ساتھ شامل کیا گیا ہے جس سے آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت نے سیاسی بالغ النظری کا منقود ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
وزیر اعظم آزادکشمیر تنویر الیاس نے اپنے بیانات میں 15آئینی ترامیم کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا۔22جولائی کو آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں ممبر اسمبلی، سابق وزیر اعظم آزاد جموں وکشمیر راجہ فاروق حیدر خان کی تحریک التوا پر بحث سمیٹتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن ممبران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 84471مربع میل پر پھیلی ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت سمیت ریاست جموں وکشمیر کے تشخص اور آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات میں اضافے کے لئے منظور کی گئی13ویں ترمیم ،13ویں ترمیم کے ذریعے حاصل ہونے والے قانون سازی ، مالیاتی ا ور انتظامی اختیارات کیلئے کسی قسم کے دبا ئوکو خاطر میں نہ لایا جائیگا۔آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی نے عبوری آئین ایکٹ 1974 میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے حاصل ہونے والے اختیارات کے تحفظ، ریاست جموں وکشمیر کی جغرافیائی حیثیت میں تبدیلی اور ریاستی وسائل کی فروخت کے خلاف متفقہ مزاحمت کا اعلان کیا ۔راجہ فاروق حیدر نے تحریک التوا میں تحریر کیا کہ '' محسوس ہوتا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان اور حکومت ہندوستان کسی غیر تحریری معاہدہ کی رو سے ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم پر متفق ہیں''۔
متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے باشندگان کی طرف سے 15ویں آئینی ترامیم کے مسودے کو آزاد کشمیر کے خطے اور کشمیر کاز کے منافی قرار دیتے ہوئے سخت مخالفت دیکھنے میں آ رہی ہے اور اس صورتحال پر، ریاستی عوام میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔مجوزہ15ویں آئینی ترمیم سے ان عوامی خدشات کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ انڈیا کے مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق5اگست2019کے اقدام کے طرح آزاد کشمیر حکومت کے ڈھانچے اور آزاد کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔15ویں آئینی ترمیم کے مسودے سے واضح ہوتا ہے کہ اس ترمیم میں شامل نکات کے ذریعے13ویں ترمیم کوختم کرتے ہوئے کشمیر کونسل کو مزید مستحکم اور بالادست کرتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کو غیر موثر اور کمزور تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس سے آزاد کشمیر حکومت بے اختیار اور مالیاتی طورپر بھی بہت کمزور بلکہ قابل رحم صورتحال سے دوچار ہو جائے گی۔یہ بڑا سوال ہے کہ یہ آئینی ترمیم کرانے کے پس پرد ہ کو ن ہے؟ 13ویں ترمیم سے پہلے وزیر امور کشمیر، انچارج کشمیر کونسل اور کونسل کے فسران سالانہ کئی ارب روپے سے مستفید ہوتے تھے،13ویں ترمیم سے یہ سلسلہ بند ہو گیا۔اس15آئینی ترمیم میں دو طرح کے عناصر محرک ہیں، ایک تو وہ جو13ویں ترمیم سے پہلے کونسل میں اربوں روپے سے مستفید ہوتے تھے اور دوسرے وہ جنہیں کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر کا علامتی کردار بھی پسند نہیں اور وہ آزاد کشمیر کے سیاسی سیٹ اپ کو کمتر درجے پہ لانے کے متمنی ہیں۔ ہم یہاںحکومت پاکستان کی وزارت امور کشمیر کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت کو15ویں ترمیم کے لئے ارسال کردہ مسودے کے نکات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور اس معاملے کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے عبوری آئین 1974کے دیباچہ Preamble میں لکھا ہے کہ عبوری آئین کیوں ہے؟ اس میں لکھا گیا ہے کہ آزاد کشمیر میں حکومتی نظم و نسق چلانے کے لئے ریاستی سطح پر عبوری آئین کا ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے تا وقتکہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق اقوام متحدہ کی نگرانی میں جمہوری انداز میں استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کاحتمی حل ہو جائے۔اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ابھی اس کا سٹیٹس ابھی determeineنہیں ہوا،اوراس کا سٹیٹس ابھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابقdetermeineہونا ہے،اس لئے ابھی آزاد کشمیر میں بہتر نظم و نسق کے لئے یہ آئین حکومت پاکستان نے تجویز کیا ہے۔13ویں آئینی ترمیم میں آئین کے دیباچہ کے پیراگراف 5 میں متذکرہ بالا پس منظر کی روشنی میں حکومت آزاد کشمیر کے مقاصد میں ریاستی عوام کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کا تذکرہ کے علاوہ حکومت آزاد کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود خود ارادیت کے لئے جدوجہد کرنا بھی نصب العین میں شامل کیا گیا ہے۔لیکن وزارت امور کشمیر کے مسودے میں اس بات کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے الفاظ کو subject to recognitionلکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جس کا مقصد ماسوائے بدنیتی اور الجھائو پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے 15ویں ترمیم کے حوالے سے قائم کردہ کمیٹی نے دیباچہ میں تبدیلی کی تجویز کے برعکس واضح کیا ہے کہ preambleآئین کا آپریٹیو پارٹ نہیں ہوتا،آپریٹیو پارٹ سیکشنز، آرٹیکلز ہوتے ہیں، دوسرا یہ کہ حق خود ارادیت subject to recognition وہUNCIP reslolutions ہی ہیں، حالانکہ ان کو یہ بھی لکھنا چاہیئے تھا کہ sunject to resolution ،جو رائے شماری ہو گی، حق خود ارادیت کے لئے،وہrecognizeہو گی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق،وہ ابھی لینا ہے،وہ لینے کا طریقہ plebiscite ہے، فیئر اینڈ فری اینڈ ڈیموکریٹک plebiscite ہو،کون سا method ہے ؟ وہplebisciteہے، اب اقوا م متحدہ کی قرار دادیں یہ کہتی ہیں کہاقوام متحدہ کی نگرانی میں plebisciteہو گا،لوگوں کی آزادانہ،شفاف طریقے سے اور جمہوری انداز سے ان کی رائے لی جائے گی ۔
گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے اپوزیشن لیڈر چودھری لطیف اکبر نے کہا کہ مشیر رائے شماری کے لئے حکومت آزاد کشمیر کو، حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ سے درخواست کرنی چاہئے۔جموں کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے سربراہ اکٹر سید نزیر گیلانی نے ایک بیان میں اس حوالے سے ایک وضاحت میں کہا کہ آزاد کشمیر میں مشیر رائے شماری کا تقرر کراچی ایگریمنٹ کے تحت حکومت آزاد کشمیر کی ذمہ داری ہے جبکہ منتظم رائے شماری کا تقرر اقوام متحدہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے قائید حزب اختلاف آزاد کشمیر پیپلزپارٹی کے چوہدری لطیف اکبر نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں "مشیر برائے رائے شماری" تعینات کرے۔آزاد کشمیر کے ایک سیاست دان کی طرف سے اچھا بیان ہے، لیکن اس بیان کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ منتظم رائے شماری کی نامزدگی اقوام متحدہ کرے گا اور اس کی تعیناتی کا حکم سری نگر میں قائیم ریاست جموں وکشمیر کی حکومت جاری کرے گی۔ یہ منتظم پوری ریاست کے لئے ہوگا۔ ریاست کا ذکر سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 91 میں موجود ہے جبکہ مشیر رائے شماری کا تقرر کراچی ایگریمنٹ، ایکٹ 1970 اور ایکٹ 1974 کے تحت حکومت آزاد کشمیر کی ذمہ داری ہے، تاکہ وہ رائے شماری کے لئے انسٹیچیوشنل institutional فریم ورک، کے ذریعے عوام کو تیار کرے۔یہ انسٹیچیوشنل فریم ورک اس لئے وضع کیا گیا تھا، تاکہ آزاد کشمیر کی انتظامیہ(لوکل اتھارٹی)مجموعی تیاری سے لا تعلق یا کم اثر نہ ہو جائے۔کراچی ایگریمنٹ کے تحت مشیر رائے شماری کی تعیناتی 73 سال پہلے، ایکٹ 70 کے تحت یہ تعیناتی 52 سال پہلے، ایکٹ 74 کے تحت یہ تعیناتی 48 سال پہلے اور آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے حکم کے تحت یہ تعیناتی 23 سال پہلے ہونی چاہیے تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ جموں وکشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کی دسمبر 1992 کی آئینی درخواست پر ہائی کورٹ نے اپریل 1999، قریب 7 سال کی بحث کے بعد دیا تھا۔قائید حزب اختلاف کو مشیر رائے شماری کی آزاد کشمیر میں تعیناتی کا مطالبہ اپنی حکومت سے کرنا چاہیے اور اس انسٹیچیوشنل فریم ورک کی اطلاع اقوام متحدہ کو دے کر منتظم رائے شماری کی دوبارہ نامزدگی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔اقوام متحدہ کے منتظم برائے رائے شماری کی تعیناتی پہلے ایک بار ہو چکی ہے۔قائید حزب اختلاف کا بیان اہم بیان ہے، لیکن ان کا مطالبہ پہلے حکومت آزاد کشمیر سے بنتا ہے اور پھر اقوام متحدہ سے۔
یہ حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر حکومت قسم قسم کے مشیر متعین کرتی ہے لیکن آزاد کشمیر کے آئین میں درج مشیر رائے شماری کے تقرر کے حوالے سے کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔آزاد کشمیر حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان حکومت کو مشیر رائے شماری مقرر کئے جانے سے متعلق لکھے۔مشیر رائے شماری کے تقرر سے اس کیintention ظاہر ہو گی کہ رائے شماری چاہتے ہیں۔مشیر رائے شماری اقوام متحدہ سے رائے شماری کے حوالے سے رابطے کرے گا۔ اس مشیر رائے شماری کے تقرر کے لئے ایک اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بطروس غالی یا عالمی سطح کی کسی دوسری جیورسٹ شخصیت کاتقرر کیا جائے ، وہ مشیر رائے شماری خود اقوام متحدہ سے رابطے کرے گا کہ آپ نے رائے شماری کرانی ہے،اس کا انتظام کیا جائے،اس کے لئے منتظم رائے شماری مقرر کیا جائے۔ مشیر رائے شماری کے تقرر سے آزاد کشمیر حکومت کو بھی بڑا کردار مل سکتا ہے۔آزاد کشمیر حکومت گاڑیوں پہ کروڑوں روپے لگاتی ہے،اگر چالیس ،پچاس یا اسی لاکھ روپے ماہانہ پہ مشیر رائے شماری لگایا جاتا ہے تو یہ ایک بڑا کام ہو گا۔آزاد کشمیر حکومت نے کبھی بھی پاکستان حکومت کو اس بارے میں لکھا بھی نہیں کہ آزاد کشمیر کے آئین کے مطابق مشیر رائے شماری کا تقرر کیا جائے۔پاکستان کے سابق سینئرسفارت کار عبدالباسط نے بھی کہا تھا کہ بطرس غالی یا کسی اور عالمی سطح کی شخصیت کو کو مشیر رائے شماری مقرر کیا جائے تو یہ اہم اقدام ہو گا،اگر وزیر اعظم پاکستان کا مشیر رائے شماری اس سطح کی شخصیت ہو تو دنیا میں اس کا اثر ہو گا۔
15ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں اگلا پوائنٹ جائنٹ سٹنگ کا ہے۔ جب 13ویں ترمیم میں کشمیر کونسل کا جائنٹ سٹنگ میں شامل ہونے کا اختیار واپس لے لیا ہے، اب وہ15ویں ترمیم کے ذریعے 13ویں ترمیم سے پہلے والا جائنٹ سٹنگ کا نظام بحال کرنا چاہتے ہیں۔ جائنٹ سٹنگ صدر کے انتخاب اور آئین کی ترمیم کے لئے کی جاتی ہے۔13ویں ترمیم کے بعد صدر کا انتخاب آزاد کشمیر اسمبلی کر رہی ہے ، ایک تہائی کے بجائے د وتہائی اکثریت سے۔ 13ویں ترمیم میں کونسل کا کردار ہی ختم ہو گیا اور کونسل کا اختیار کا ویسے بھی جواز نہیں بنتا کہ قانون سازی آپ آزاد کشمیر کے لئے کر رہے ہیں،آزاد کشمیر کے منتخب نمائندے آزاد کشمیر اسمبلی میں بیٹھے ہیں،جب13ویں ترمیم میں جائنٹ سٹنگ کا اختیار کونسل سے لے لیا گیا، اب15ویں ترمیم کے ذریعے وہ کونسل کا قانون سازی میں کونسل کا کردار بحال کرنا چاہتے ہیں،قانون سازی کا اختیار بھی کونسل کو دینا چاہتے ہیں،اس لئے جائنٹ سٹنگ بحال کرنے کے الفاظ 15ویں ترمیم کے مسودے میں شامل کئے گئے ہیں۔
مسودے کے پوائنٹ نمبر 4 میںلکھا گیا ہے کہ آزاد کشمیر کیsoverinity ، یہ کہتا ہے کہ آپ نے آزاد کشمیر کے ساتھ soverenityکیوں لکھا ہے، کوئی بھی سیاسی جماعت بنا سکتا ہے وغیرہ لیکن پاکستان اور آزاد کشمیر کی سا لمیت اور خود مختاری، ( وہ soverenityکو خود مختاری کے طور پر لے رہے ہیں)خود مختاری پانچ ،چھ حوالوں سے ہوتی ہے،ایک علاقائی soverenityہوتی ہے،ایکsoverenityہوتی ہے جس سے ملک اقوام متحدہ کا رکن بنتا ہے یعنی فارن سٹیٹس، تیسرے وسائل، اقتصادی soverenity، کہ کوئی پاکستان ، آزاد کشمیر کی soverenityکے خلاف پروپیگنڈہ نہیں کرے گا، اس حوالے سے آزاد کشمیر کے آئین میں یاک پروویژن موجود ہے کہ کوئی بھی ،کوئی بھی سیاسی جماعت آزاد کشمیر، کشمیر کے پاکستان کے ساتھ نظرئیہ الحاق کے حوالے سے ایک اور بھی پابندی ہے، پروویژن میں لکھا ہے کہ پاکستان حکومت آزاد کشمیر حکومت کو یہ آئین دے رہی ہے کہ وہ عبوری سیٹ اپ کے طور پر اپنا نظم و نسق چلائے، اس میں آزاد کشمیر کے پاس دفاع بھی نہیں ہے،کرنسی حکومت پاکستان کو دی ہے،فارن افیئرز،امپورٹ ایکسپورٹ نہیں کر سکتے،تو پھر کون سیsoverenity کی بات کر رہے ہیں؟ ان کا کہنا ہے ، یہ کنفیوز کرنے والی بات ہے۔
مسودے کا پوائنٹ نمبر5 کہ جہاں اسمبلی لکھیں گے،وہاں جائنٹ سٹنگ لکھا جائے گا، یعنی پرانا نظام بحال13ویں ترمیم سے پہلے والا۔مسودے کا پوائنٹ نمبر6، یہاں وہ کہتے ہیں کہ اسمبلی کے بجائے جائنٹ سٹنگ،آرٹیکل6میں کہ صدر کے انتخاب میں،وہ کہتے ہیں کہ جائنٹ سٹنگ کا پرانا نظام بحال کریں۔وہ کونسل کا پرانا نظام بحال کرنا چاہتے ہیں جس کے پاس مالیات کے اختیارات بھی تھے،اس کے پاس ایگزیکٹیو اتھارٹی بھی تھی، 52موضوعات کی لسٹ بھی تھی،فنڈ ز بھی تھے۔وزارت امور کشمیر کے مشیرقمر الزمان قائرہ بنیادی طور پر پہلے وزیر امور کشمیر رہ چکے ہیں، اب انہوں نے وزارت امور کشمیر کا مشیر بنتے ہی ان ترامیم کے لئے متحرک کیوں ہوگئے ہیں؟ کیونکہ ٹیکسوں کے پرانے نظام میں ہر سال کم از کم پانچ ،چھ ارب روپے وزیر امور کشمیر کو ملتے تھے، اور کونسل ، امور کشمیر کے افسران اس کے ساتھ ہوتے تھے، ڈویلپمنٹ کی اے ڈی پی بھی سالانہ وہ بناتے تھے،سالانہ ترقیاتی سکیمیں، جھوٹی سچی بنا کر، دو ڈھائی ارب کی اے ڈی پی بناتے تھے، آزاد کشمیر حکومت کو کونسل سے جو پیسے دیتے تھے ،وہ آزاد کشمیر حکومت کو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ اصل میں آمدن ہے کتنی؟ اسی فیصد کے حساب سے آزاد کشمیر حکومت کو کتنا ملنا ہے؟ سو روپے میں سے اسی روپے ملنے ہیں کونسل سے یا ڈیڑھ سو روپے میں سے اسی روپے ملنے ہیں، کونسل کا بارہ سال سے کوئی آڈٹ ہی نہیں کرایا گیا۔منظور وٹو پاکستان کے تین چوتھائی حصے پر مشتمل پنجاب کے وزیر اعلی رہے، پھر وہ انڈسٹری کے فیڈرل منسٹر بھی رہے، اس کے باوجود وہ سب کچھ چھوڑ کر وہ ساڑھے چار سال وزارت امور کشمیر کے وزیر بنے ، اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کو وزارت امور کشمیر ،کونسل کے اربوں روپے کا مفاد ملتا رہا ہے، اب قمر الزمان قائرہ کے ساتھ وزارت امور کشمیر، کونسل کے پرانے افسران مل کر 15ویں ترمیم کے ذریعے کشمیر کونسل کا نہ صرف پرانا نظام بحال بلکہ مزید مضبوط قائم کرنا چاہتے ہیں۔
قانون سازی میں پارٹ اے اور پارٹ بی۔ پارٹ اے میں28سبجیکٹ ایسے ہیں جس میں آزاد کشمیر حکومت قانون سازی نہیں کر سکتی، دفاع، خارجہ وغیرہ۔ پارٹ بی میں الیکٹرسٹی وغیرہ ایسے سنجیکٹ ہیں جو آزاد کشمیر کے روزمرہ کے امور ہیں،اس میں آزاد کشمیر اسمبلی قانون سازی کرے گی حکومت پاکستان کی رضامندی کے ساتھ۔ اب 15ویں ترمیم کے مسودے میں کہا جار ہا ہے کہ پارٹ اے اور بی دونوں پاکستان حکومت اور آزاد کشمیر حکومت کے بجائے کونسل کو دے دیا جائے، یعنی پہلے ان کے بعد52سنجیکٹ تھے، اب اس کے پاس64سبجیکٹ ہو جائیں گے، قانونی سازی کے اختیارات، ٹیکسیشن کے اختیارات بھی کونسل کو مل جائیں گے۔ایمر جنسی لگانے کے لئے، اگر آزاد کشمیر میں ایمرجنسی لگانی ہے وہ آزاد کشمیر کا صدر اسمبلی کی قرار داد پر نہیں لگائے گا بلکہ کونسل وزیر اعظم پاکستان کی منظوری سے لگائے گی۔ہائیکورٹ ،سپریم کورٹ کے ججز، چیف الیکشن کمشنر، آڈیٹر جنرل ، چار اہم اعلی عہدے، انتظامیہ کا سربراہ چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس،پاکستان سے جا رہا ہے، مالیات پہ کنٹرول پاکستان کا ہے،مالیات کے بل منظور کرنے کاعہدیدار بھی پاکستان سے ہے، ایک لفظ سالمیت لکھا گیا ہے تو کیا وہ خود مختاری ہو گئی ہے؟ یہ ایک مائینڈ سیٹ ہے جسے آزاد کشمیر میں آزاد کا لفظ بھی قبو ل نہیں کہ بقول ان کے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے آزاد کشمیر میں آزاد کا لفظ کیوں ہے۔
اس میں ایک اور بات کی گئی ہے کہ جو پہلا قانون تھاکہ13ویں ترمیم سے پہلے اس میں کونسل سیکرٹریٹ کی پروویژن نہ تھی، اب ان کا کہنا ہے کہ کونسل کا سیکرٹریٹ بھی ہونا چاہئے جس طرح اسمبلی کا سیکرٹریٹ ہے، اور اس کے لیئے وسائل جس طرح اسمبلی کے لئے فنانس کمیٹی ہونی چاہئے جو بجٹ بناتی ہے، یعنی جب کونسل کے پاس ٹیکسیشن آ جائے گا،تو پھر وہ آزاد کشمیر کے لئے اسی فیصد اور کونسل کیلئے بیس فیصد کے فارمولے پہ نہیں رہیں گے، پھر وہ جو کونسل کے لئے بجٹ بنائیں گے، اب یہ کونسل کو مزید مضبوط و مستحکم کرنا چاہتے ہیں کہ پہلے آئین کے اندر کونسل سیکرٹریٹ کا کوئی وجود نہ تھا، اب یہ سینٹ سیکرٹریٹ کی طرح کونسل سیکر ٹریٹ بن جائے گا۔یعنی آزاد کشمیر حکومت سے بالاتر ایک حکومت، کونسل سیکرٹریٹ کے لئے فنانس کمیٹی بنائیں گے،جو فنڈز allocateکریں گے، کہ ہماری تو یہ ضرورت ہے،پھر اسی فیصد اور بیس فیصد کی مالیاتی تقسیم نہ رہے گی، ویسے بھی اسی اور بیس فیصد کا فارمولہ آئین میں نہیں لکھا گیا ہے بلکہ 1979کا حیات خان حکومت کا ایک انتظامی آڈر تھا، جب محکمے کونسل کو ٹرانسفر کئے تھے،اس انتظامی آڈر میں لکھ دیا کہ انکم ٹیکس کا محکمہ ان کو ٹرانسفر کیا جاتا ہے تاہم کونسل جو انکم ٹیکس وصول کریں گے،اس میں سے اخراجات نکال کر خالص نیٹ انکم ، ٹیکس کا بیس فیصد کونسل رکھے گی اور اسی فیصد آزاد کشمیر کو دیا جائے گا،یہ حیات خان کے ایگزیکٹیو آڈر میں لکھا گیا تھا۔ (آزاد کشمیر کے آئین کے اندر سبجیکٹ کونسل کاتھا،74ایکٹ میں انکم ٹیکس اور اے جی آفس کونسل کی legislativeلسٹ میں آ گیا تھا،عملا محکمہ آزاد کشمیر کے پاس ہی تھا،فیض علی چشتی وزیر امور کشمیر بنا تو اس کے کہنے پر حیات خان حکومت سے ایکسائیز،کسٹم، اے جی آفس، انکم ٹیکس کے محکمے، دفاتر، ملازمین ،اثاثوں سمیت کونسل کو منتقل کر دیئے گئے ، بیس فیصد اتنا تھا جتنی ان محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں بنتی تھیں)جب ٹیکس کی مقدار میں اضافہ ہوتا گیاتو اس اضافے پہ تعمیر و ترقی کا کام شروع کر دیاگیا،74سے79تک آزاد کشمیر حکومت کونسل کو انتظامی اخراجات کے لئے چھوٹا سے بجٹ دیتے تھے،)13ویں ترمیم سے44سال بعد یہ محکمے اور مالیاتی اختیارات آزاد کشمیر حکومت کو واپس ملے۔
کشمیر پراپرٹی اس میں لکھا تو گیا ہے لیکن عملا کشمیر پراپرٹی حکومت پاکستان نے1961کے ایکٹ( آرڈیننس) کے ذریعے وفاقی حکومت( وزارت امور کشمیر) کے اختیار میں دے دی گئی۔آزاد کشمیر کے آئین میں کشمیر پراپرٹی کا ضمنا ذکر ہے،پراپرٹی حکومت پاکستان کے پاس ہے جو پراپرٹی پاکستان میں واقع ہے،پاکستان پارلیمنٹ نے قانون بنایا کہ یہ پراپرٹی مہاراجہ کشمیر ، پونچھ کی پراپرٹی حکومت پاکستان کے زیر تسلط،زیر قبضہ، زیر انتظام لیا ہے، اس وقت تک کے لئے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ،کیونکہ آزاد کشمیر حکومت کی یہ صلاحیت نہیں ہے ، اس کی jourisdictionنہیں ہے،اس کا پاکستان کے اندر دائرہ کار نہیں ہے، ساتھ ہی کشمیر پراپرٹی کے قانون میں اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی کہ وہ کشمیر پراپرٹی فروخت بھی کر سکتے ہیں، لیز پہ بھی دے سکتے ہیں،جو مرضی کریں۔اگر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی امانتا محفوظ کرنی ہیں تو اس کو فروخت کا اختیار تو غلط ہے۔اور اس پراپرٹی کا کسی قسم کا کوئی حساب کتاب بھی آزاد کشمیر حکومت کو نہیں دیا جاتا جبکہ آزاد کشمیر کے آئین میں لکھا ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی جہاں بھی آزاد کشمیر کے باشندے رہتے ہیں، ان سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے۔
کونسل کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے13ویں ترمیم کا جو مسودہ منظور کیا تھا،اس سے آزاد کشمیر حکومت آگے چلی گئی ہے،یعنی غیر منظور شدہ پروویژنز کو بھی تبدیل کیا ہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان نے سٹیک ہولڈرز سے پوچھے بغیر منظوری دی13ویں ترمیم کے مسودے کی، اور یہ کہ منظور ی والے مسودے سے بڑھ کر ایسی ترامیم کیں جو مسودے میں شامل نہ تھیں۔ اس میں بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے آئین کے تحت تین ایسے سیکشنز، آرٹیکل ہیںجن کے تحت اگر تبدیلی کرنا ہو تو حکومت پاکستان سے پیشگی منظوری لینا پڑتی ہے، ایک ہے سیکشن 31، جو اب آرٹیکل31ہو گیا ہے،جس میں چار سبجیکٹ حکومت پاکستان کے پاس تھے،UNCIPکے تحت حکومت پاکستان کی ذمہ داریاں،ڈیفنس، سیکورٹی،کرنسی،اور فارن ریلیشنز، تقسیم کار یہ تھی کہ باقی 52موضوعات کونسل کے پاس تھے قانون سازی کی غرض سے، جو باقی بچ گیا ہے جسے remaning subjectsکہتے ہیں، وہ آزاد کشمیر اسمبلی کے پاس ہیں، کہ اگر آپ آرٹیکل 31میں ترمیم کرتے ہیں تو آپ کو حکومت پاکستان سے پوچھنا پڑے گا۔ایک آرٹیکل ہے33،اس بات کہتا ہے کہ اگر آئین میں ترمیم کرنا ہوتو آپ نے حکومت پاکستان سے پیشگی منظوری لینا ہے، پہلے طریقہ کار تھا کہ سادہ اکثریت سے کونسل اور اسمبلی مل کر ترمیم کر سکتی تھی، اب ہم 13ویں ترمیم میں کیا ترمیم کر رہے تھے کہ کونسل کو درمیان سے نکالنا ہے کہ اسمبلی کرے گی لیکن دو تہائی اکثریت سے کرے گی، اس کیلیئے بھی حکومت پاکستان سے منظوری لینا تھی۔تیسرا آرٹیکل ہے56، یہ کہتا ہے کہ اس آئین کے تحت پاکستان کو یہ اختیار ہے کہ اس کی ذمہ داریاںUNCIPریزولوشنز کے تحت ہیں، یا ڈیفنس سیکورٹی، کرنسی تحت جو اختیارات ہیں، اس کو پرفام کرتے ہوئے کوئی ایسی رکاوٹ پیدا نہیں کی جاسکتی ، اس میں کوئی مزاحم نہیں ہو سکتا، اور اگر ہو گا تو حکومت پاکستان کوئی بھی اقدام اٹھا سکتی ہے۔اس امور کے علاوہ حکومت پاکستان دفعہ 56سیاسی اختلافی امور پر لاگونہیں کر سکتی ، یہ ان کا دائرہ اختیار نہیں ہے، جب1977میں اسمبلی توڑی تھی تو اس وقت سردار ابراہیم سپریم کورٹ میں چلے گئے تھے اور اس وقت سپریم کورٹ نے کہا کہ دفعہ56ہر گز یہ نہیں کہ پاکستان آزاد کشمیر کی منتخب اسمبلی کو توڑے جبکہ وہ مقصد ہے جو اوپر چار امور بیان کئے گئے ہیں۔ کونسل افسران کہتے ہیں کہ جو 13ویں ترمیم کے مسودے میں نہیں لکھیں،اب تین چیزوں کے بارے میں ہم نے حکومت پاکستان سے منظوری لینی تھی،وہ وہی ہے جو حکومت پاکستان نے دی ہے، اس کے علاوہ 13ویں ترمیم میں مزید یہ ڈالا گیا کہ ہم نے آزاد کشمیر کے لوگوں کو وہی بنیادی حقوق دینے ہیں جو پاکستان کے آئین میں پاکستان کے شہریوں کو دیئے گئے ہیں، یہ ہم نے اضافی طور پر ڈالے ہیں، یہ بات تو پاکستان کے کریڈٹ کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کے شہریوں کو پاکستان کے شہریوں کے مساوی بنیادی، انسانی ،آئینی حقوق دیئے گئے ہیں، جس طرح گلگت بلتستان کے معاملے میں سپریم کورٹ پاکستان نے حکومت پاکستان کو کہا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ گلگت بلتستان کے شہریوںکو پاکستان کے شہریوں کے مقابلے مین کم حقوق دیں۔فریڈم آف سپیچ،بنیادی حقوق ، تعلیم کا حق، اطلاعات تک رسائی کا حق۔ پھر 13ویں ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر کے آئین میں پرنسپلز آف پالیسی کا ایک چیپٹر شامل کیا۔ پاکستان کے آئین میں پرنسپلز آف پالیسی کہ معاشرے کی سوشل اکنامک ڈویلپمنٹ کے لئے کون سے اصول ہوں گے کہ جن کی بنیاد پر آپ قانون سازی کریں گے،حکومت بنائیں گے، مثلا اس میںاس میں سب شہریوں کو برابر ٹریٹ کریں گے، یوں آزاد کشمیر اسمبلی درج بالا تین آرٹیکلز کے علاوہ کوئی بھی ترمیم کر سکتی ہے،اس میں یہ کیا کہ وزراء کی تعداد طے کر دی گئی،قائمقام وزیر اعظم کی شق ختم کر دی،ختم نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ اگر وزیر اعظم کی فزیکل پوزیشن یہ ہو کہ وہ کوئی کام نہیں کر سکتا،تب ہی قائمقام وزیر اعظم کام کرے گا،پہلے یہ تھا کہ وزیر اعظم بیرون ملک جاتا تھا تو سینئر وزیر قائمقام وزیر اعظم بن جاتا تھا،قائمقام بھی بیرون ملک جاتا تو تیسرا قائمقام وزیر اعظم بن جاتا تھا، جیسا ہو ابھی جب چودھری مجید بیرون ملک گئے تو چودھری یاسین قائمقام وزیر اعظم بن گئے،چودھری یاسین کو بھی اس دوران کسی کام سے بیرون ملک جانا پڑ گیا تو پرویز اشرف کو قائمقام وزیر اعظم بنا دیا گیا،یہ ایک کھیل بن گیا تھا، اسی طرح 13ویں ترمیم میں ایک شق کا اضافہ کیا گیا کہ اگر آزاد کشمیر میں ' اونر لیس' پراپرٹی ہو گی، پاکستان کے آئین میں بھی یہ شامل ہے کہ اونر لیس پراپرٹی جس کا کوئی اونر نہیں ہو گا،اس کی حکومت مالک ہے،بنکوں میں کئی ایسے اکائونٹ ہوتے ہیں جن کے مالک فوت ہو جاتے ہیں اور ان کا کوئی وارث، کوئی دعویدار نہیں ہوتا ،ان اکائونٹس کے پیسے بنک لے لیتا ہے، ( واضح رہے کہ ابھی 13ویں ترمیم کے تحت کئی امور پر عملدرآمد شروع نہیں ہوا، جیسا کہ بغیر وراثت والے بنک اکائونٹ)، اس کے علاوہ آزادکشمیرمیںقدرتی وسائل، پانی،معدنی وسائل وغیرہ کو استعمال میں لایاجائے گا،اکنامک فائدے کے لئے،لیکن ایسے استعمال کیا جائے گا کہ آزاد کشمیر کا قدرتی ماحول، انوائرمنٹ کومتاثر نہ کیا جائے، اور اس کے لئے ان وسائل کو استعمال کرنے کے لئے آزاد کشمیر حکومت خود استعمال کر سکتی ہے اور پاکستان کو بھی استعمال کرنے کی اجازت دے سکتی ہے، subject to the law made by the AJK assemblyیعنی جنگلات، پانی، اس کو اگر ہم کہتے ہیں کہ واپڈا ستعمال کرے لیکن واپڈا تب استعمال کرے گا کہ جب آزاد کشمیر اسمبلی سے قانون منظور ہو گا،اس میں جو شرائط عائید ہوں گی یعنی کیاچارجز دیئے جائیں گے،واٹر چارجز ،رائلٹی وغیرہ۔اس پرویژن کے لئے حکومت پاکستان سے پوچھنے کی ضرورت نہ تھی،حکومت پاکستان سے جو پوچھنے کی ضرورت تھی وہ سیکشن31،سیکشن33اور سیکشن56۔
اسی حوالے سے، مجوزہ ٹورازم اتھارٹی کا معاملہ، کہ جنگلا ت کی کٹائی، جنگلات کو تحفظ دینا،جنگلات کا رقبہ،فارسٹری پرپز کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا،یہ دفعہ7کے تحت پابندی ہے،ٹورازم اتھارٹی میں کہتے ہیں کہ ہمیں جو رقبہ پسند آئے گا،وہ اس کو تحویل میںلے لیں گے،جنگلات سے متعلق یہ شق اس پہ حاوی نہیں ہو گی،اس سے آئینی شق کی بھی خلاف ورزی ہو گی،آئین تو انوائرمنٹ کو پروٹیکٹ کر رہا ہے، آزاد کشمیر میں ٹورازم ہے کیا،Tourism is only forest,nothing but forest، آزاد کشمیر کا ٹورازم جنگلات ہی ہے۔وادی نیلم میںلیسوا اور کیرن بائی پاس سے سڑک نکالی گئی، بابون ویلی سے کارخہ تک بڑے بڑے پہاڑی میدان ہیں، چند سال پہلے کہا گیا کہ نیلم ویلی میںجو سیاح جا رہے ہیں وہ انڈین فائرنگ کی وجہ سے متاثر ہو تے ہیں،اس لئے بابون ویلی کے علاقے میں پاکستان کی بڑی کمپنیوں کو بڑے بڑے پہاڑی میدان دے دیں،وہاں اچھے ریسٹورنٹس، ہوٹلز قائم کر دیئے جائیں،یہ تصور پیش کیا گیا، اسی حوالے سے یہ علاقے لیز پہ لئے جانے کی بات کی گئی۔ اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بابون میں اس طرح کے سیاحتی اقدامات کئے جانے سے نیلم ویلی کے باقی علاقے سیاحت سے حوالے سے بہت ڈسٹرب ہو جائیں گے،نیلم ویلی کے نچلے علاقوںمیں سیاحت کے حوالے سے عام لوگوں کے کاروبار ہیں، وہ شدید متاثر ہوں گے، یوں بابون کا پروگرام ٹھپ ہو گیا۔ بعد ازاں پہلے والا بابون منصوبہ دوبارہ اٹھا دیا گیا۔ اس حوالے سے ایک اعلی سطحی اجلاس میں اس معاملے پہ بات کی گئی،جس میں سیکرٹری جنگلات نے بتایا کہ دفعہ7کے تحت فارسٹ کی زمین کسی نان فارسٹری مقاصد کے لئے نہیں دی جا سکتی، اس پہ فارسٹری کے اس قانون کا اس معاملے میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے، پھر منرلز کا معاملہ بھی آ جاتا ہے، ٹورازم اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے جنگلات ، منرلز،انوائرمنٹ کے قوانین سے مبرا قرار دیئے جانے کے لئے اتھارٹی کا مسودہ تیار کیا گیا، یہ آئین کی اس شق کے خلاف ہے، کہ آزاد کشمیر کوئی قدرتی وسیلہ استعمال کیا جائے تو اس میں آزاد کشمیر کا انوائرمنٹ کمپرومائیز نہیں ہونا چاہئے۔
یوں15ویں آئینی ترمیم آزاد کشمیر کے آئین کی13ویں ترمیم کو ختم کرتے ہوئے کونسل کے اختیارات کو بحال ہی نہیں بلکہ اس کے کردار کو مزید مضبوط اور مستحکم کر دے گا، 15ترمیم ہونے سے آزاد کشمیر کو ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا، کونسل بالادست آئینی اتھارٹی بن جائے گی،15ترمیم سے آزاد کشمیر حکومت کے لئے اپنا بجٹ پورا کرنا بھی ممکن نہ رہے گا۔پاکستان میں جتنے بھی محاصل آتے ہیں، ٹیکسز، فیسیں، جتنی آمدن وفاق کی ہے،اس کی آبادی اور غربت اور پسماندہ علاقوں کے حوالے سے ان کی تقسیم کے لئے نیشنل فنانس کمیشن بنا ہوا ہے، نیشنل اکنامک کونسل بنی ہوئی ہے، انٹر پرویشنل ہار مونی کے لئے بھی ایک فورم بنا ہوا ہے، پاکستان کے آئین میں لکھا گیا ہے کہ یہ محاصل صوبوں میں کس طرح تقسیم ہوں گے اور وفاق کیا رکھے گا۔ٹیکس کا شعبہ اگر کونسل کو دے دیا جائے تو آزاد کشمیر کے آئین میں یہ بات نہیں لکھی گئی کہ پیسے کس طرح تقسیم ہوں گے،کس حساب سے تقسیم کئے جائیں گے،یہ اگر پیسے اکٹھے کریں گے، قانون سازی یہ کریں گے تو یہ پیسہ جائے گا کدھر؟ کیا کونسل آئینی طور پر پابند ہے کہ وہ پیسہ آزاد کشمیر حکومت کو دیں گے، اس کا کوئی میکنزم نہیں ہے آئین میں، کوئی پروویژن نہیں ہے اس کیلئے، تو آزاد کشمیر حکومت کیسے کلیم کرے گی؟یا کلیم کر سکتی ہے؟حیات خان والے انتظامی آڈر کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے، کونسل تو آزاد کشمیر حکومت کو ایک روپیہ بھی نہ دے گی۔
اس وقت کی پوزیشن کے مطابق آزاد کشمیر اسمبلی ہی آئین میں ترمیم کر سکتی ہے، اور اصولی طور پر حکومت پاکستان یہاں سے کوئی مسودہ نہیں بھیج سکتی، 13ویں ترمیم کے بعد آزاد کشمیر اسمبلی، آزاد کشمیر حکومت ہی ترمیم کی تجویز کرے تو ہی وہ ترمیم کر سکتی ہے، پاکستان حکومت ایسا نہیں کر سکتی، پاکستان حکومت کا یہ طریقہ کار غیر آئینی ، غیر اخلاقی ہے، پاکستان کے آئین کے آرٹیکل257کے مغائرہے، یہ جو ترمیم کے مسودے یہاں سے ارسال کر رہے ہیں،انہیں اس کا آئینی ، اخلاقی طورپر کوئی حق حاصل نہیں ہے، قانون سازی کا ادارہ( آزاد کشمیر اسمبلی) ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ کون سے ترمیم کرنی ہے، حکومت پاکستان اس حوالے سے کوئی تجویز مسلط نہیں کر سکتی، آزاد کشمیر کے آئین کے آرٹیکل31،33اور56میں ترمیم کے لئے آزاد کشمیر حکومت پاکستان حکومت کو تجویز کر سکتی ہے کہ اس میں یہ ترمیم کرنی ہے، اس کی منظوری دی جائے، اس کے علاوہ کسی بھی سیکشن میں ترمیم کرنے کے لئے آزادکشمیر حکومت ،اسمبلی کو حکومت پاکستان کی اجازت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے عوامی نمائندوں نے دیکھنا ہے کہ کونسل کی کیا ہیت ترکیبی ہونی چاہئے، کونسل کو جو کردار دیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایڈوائزری باڈی ہے مسئلہ کشمیر پہ یا پاکستان کی ذمہ داریاں جو ہیں، ان پر حکومت پاکستان کے ساتھ ایک مشاورتی فورم ہے،جس میں آزاد کشمیرکا وزیر اعظم ہے ،آزاد کشمیر کا صدر ہے،چھ منتخب ممبر ہیں،پاکستان کا وزیر خارجہ ہے،پاکستان کا وزیر دفاع ہے،پاکستان کا وزارت امور کشمیر کا وزیر ہے،پاکستان کا وزیر خزانہ ہے، پاکستان کا وزیر اعظم اصولی طور پرکسی ایسے ادارے کا جس کا آئین اس کو اجازت نہیں دیتا،کیا پاکستان کے آئین کی ایسی کوئی شق ہے کہ وزیر اعظم پاکستان آزاد کشمیر کے کسی فورم کا ممبر بن سکتاہے؟ یہ تو پاکستان کے اپنے آئین کے خلاف ہے، کیا پاکستان کا کوئی فیڈرل منسٹر، آزاد کشمیر ،جو اس کا علاقہ ہی نہیں ہے،آئینی طور پر،کیا اس میں اپنے کوئی اختیار استعمال کر سکتاہے؟نہیں۔ یہ تو آزاد کشمیر ہے جو وزیر اعظم پاکستان کو کہتا ہے کہ آپ چیئرمین کونسل بنیں، یعنی وزیر اعظم پاکستان ایسے علاقے میں سپریم کورٹ ،ہائیکورٹ کے ججز کی تعیناتی کر رہا ہے، جو آئینی طور پر اس کا علاقہ ہی نہیں ہے،چیف الیکشن کمیشن وہ لگا رہا ہے،جو آئینی طورپر اس کا علاقہ ہی نہیں ہے۔
15ویں ترمیم کے لئے وزیر اعظم پاکستان کی بنائی گئی کمیٹی میں حکومت پاکستان کی طرف سے وزیر خارجہ ،وزیر دفاع، وزیر امور کشمیر اور وزیر خزانہ شامل ہیں۔ آزا کشمیر حکومت نے کمیٹی کیلئے تین افسران متعین کئے ہیں۔یہ کوئی ٹیکنیکل اشو نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی معاملہ ہے،یہ کوئی انتظامی مسئلہ نہیں ہے یا کوئی ٹیکنیکل فنی مسئلہ، انتظامی افسر تو ڈرافٹر ہوتے ہیں، کمیٹی میں پاکستان کے وزراء جو سیاسی نمائندے ہیں، کے سامنے آزاد کشمیر کے تین انتظامی افسران کیا کر سکتے ہیں؟ وہ تو آسانی سے ان سے دستخط لے سکتے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اس کمیٹی کے لئے اپنے نمائندوں کا تقرر نہ کرتی،صاف انکار کردیتے کہ ابھی ہمارا ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس میں ایسی کوئی پروویژن نہیں ہے جو ضروری ہے، یا تو ہمیں یہ بتائیں کہ کیا پاکستان کی سلامتی، پاکستان کا دفاع،اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کوئی خلاف ورزی ہو رہی ہو یا عبوری سیٹ اپ ، مستقل سیٹ اپ کا کوئی تصور نکل رہا ہو،یا خود مختاری کی کوئی بات نکل رہی ہو،جس سے پاکستان کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہو رہا ہو،پہلے وہ پوائنٹ بتائے جائیں، ایسے کوئی پوائنٹس ہے ہی نہیں، یا آزاد کشمیر حکومت کو کمیٹی کے لئے تین سیاسی نمائندے نہیں بھیجنے چاہئیں تھے،یہ آزاد کشمیر حکومت کی غلطی ہے اورآزاد کشمیر حکومت ا س معاملے میںکمزوری دکھاتے ہوئے ایک بڑی سیاسی غلطی کی مرتکب ہو رہی ہے۔مناسب تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت اس معاملے کو ایک سیاسی اشو کے طور پر ڈیل کرتی ۔ 15ویں ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت سے چار آنے کا اختیار بھی چھیننے کے درپے ہیں۔یوںآزاد کشمیر پر 15ویں آئینی ترمیم مسلط کئے جانے کی کوشش کے باوجود اس معاملے کو سیاسی طور پر کامیابی سے ڈیل کرتے ہوئے ناکام کیا جا سکتا ہے۔
جموں وکشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے سربراہ ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی طرف سے مجوزہ 15ویں آئینی ترمیم کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کی توثیق کرتے ہوئے پاکستان کی ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ کو یاد دلایا ہے کہ عالمی جنگیں لڑنے والے کئی سرکردہ فوجی جرنیلوں نے کشمیر پر اقوام متحدہ کے طریقہ کار کے فقہ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ڈاکٹر گیلانی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان 15ویں ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کو کمزور کرتے ہوئے اپنے اختیار میں اضافہ کرتی ہے تو ایسا اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان UNCIP کی قرار دادوںسے دستبرداری کے مترادف ہو گا اور اس سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچے گا۔ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے مزید کہا کہ پاکستان کی وزارت امور کشمیر کا یکم جولائی کو15ویں ترمیم کے حوالے سے آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری کو لکھا گیا خط حکومت پاکستان کی اس خود غرض اور کمزور ڈپلومیسی کی یاد دلاتا ہے کہ جب یکم نومبر1947کو حکومت پاکستان نے انڈیا کو کشمیر میں مشترکہ جنگ چھیڑنے کی تجویز پیش کی تھی۔اگر آزاد جموں وکشمیر کے ایکٹ1974کے سیکشن7 (2)، 19(2)، 31 (3) اور 56 میں حاصل اختیارات سے بھی کشمیر کی انچارج سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پیٹ نہیں بھرتا اور وہ آزاد کشمیر حکومت کا رہا سہا وقار بھی چھیننا چاہتے ہیں، تو خدا را وادی کے کشمیری کو قربان نہ کریں ۔پاکستان کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کا template سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان ، دوسرے ملکوں کے نمائندوں اور جنگ عظیم میں حصہ لینے والے نامور فوجی جرنیلوں نے تیار کیا ہے، یہ template کشمیر کیس کی بنیاد ہے۔
اطہر مسعود وانی
|