پاکستان ریئل اسٹیٹ کونسل کا قیام انتہائی ضروری ہے
(Shoaib Mukhtar, KARACHI)
|
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ
مزید بگڑتی جا رہی ہے مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے جمہوریت کے علمبردار
آ ج بھی اپنی ناکامیوں کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں
بحرانوں میں گھرا پاکستان آ ئے روز آ ئی ایم ایف کی ناقص پالیسیوں کے دلدل
میں پھنستاجا رہا ہے مگر حکومت آ ج بھی معیشت کے مستحکم ہونے کی داستان
سناتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر بات کی جائے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے
والے تعمیراتی شعبے کی تو حکومتی لاپرواہی کے باعث یہ شعبہ بھی زوال کی
جانب گامزن دکھائی دیتا ہے جس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاری کے نظام پر حکومت
کی عدم توجہ بتائی جاتی ہے سینکڑوں اوور سیز پاکستانی حالیہ دنوں پاکستان
میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں روشنیوں کا شہر سمجھا جانے والا کراچی
آہستہ آہستہ اندھیروں میں ڈوب رہا ہے مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں
رینگی ہے۔ایک جانب پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کی زندگیاں
اجیرن کر رکھی ہیں تو دوسری جانب ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے متعلق گزشتہ دنوں
حکومت کی جانب سے لیے گئے سخت فیصلوں نے بھی تعمیراتی شعبوں کا بھٹہ بٹھانے
میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جس کے تحت تعمیراتی شعبوں کی رونقیں
اچانک ماند پڑ گئی ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے والا شعبہ حالیہ دنوں مختلف مسائل میں جکڑا
دکھائی دیتا ہے جن کے مطالبات کی منظور ی پر حکومت انتہائی غیر سنجیدگی کا
مظاہرہ کر رہی ہے اس سلسلے میں چیئر مین آ ل کراچی ریئلٹرز ایسوسی ایشن
کاشف شاہ کا کہنا تھا کہ دنیا کے کسی ملک کا اگر آ پ جائزہ لیں تو وہاں
تعمیراتی شعبوں کو خاص ریلیف دیا جاتا ہے سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لینے
کی غرض سے انہیں شہریت دینے کی پیشکش کی جاتی ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان
میں ایساکوئی نظام تاحال اب تک وضع نہیں کیا جا سکا ہے۔بڑھتی مہنگائی کے
ساتھ ساتھ تعمیرات میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں دگنے اضافے
کے باعث بلڈرزکے لیے نئے پراجیکٹ کی لانچنگ ایک خواب بن چکی ہے۔
اگر ہم عالمی وبا کورونا وائرس کا جائزہ لیں تو پاکستان وہ واحد ملک ہے جس
کی معیشت کو اس دوران زیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے ہماری کامیاب حکمتِ عملی
کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس دوران
تعمیراتی شعبوں کو ریلیف دیا گیاتھا یہ وہ واحد شعبہ جس نے کورونا وائرس کے
دوران ملک کی معیشت مستحکم رکھنے میں نمایاں کردار اداکیا ہے۔ موجودہ حکومت
کی ناقص پالیسیوں نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے بات صرف
ریئل اسٹیٹ سیکٹر تک محدود نہیں یہاں بات تعمیراتی شعبے سے منسلک صنعتوں کی
بھی ہے کہ ان کا مسقبل کیا ہوگا کیا حکومت نے ان تمام تر افراد کی کفالت سے
متعلق کوئی منصوبہ بندی کر ررکھی ہے یا انہیں بھی پوری پاکستانی قوم کی طرح
2ہزار روپے کی رقم دیکر حکومت کی جانب سے خود کو بری الزماں قرار دیا جائے
گا جب نئے پراجیکٹ نہیں بنیں گے تو ٹیکسوں میں نمایاں کمی آ ئے گی جس سے
ملک کی معیشت آئندہ آ نے والے دنوں میں مزید کمزور ہوگی۔
اس وقت پاکستان میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ریئل اسٹیٹ کے شعبے سے وابستہ
ہیں یہ تمام تر افراد غیر رجسٹرڈ ہیں ان کی رجسٹریشن سے متعلق حکومت کی
جانب سے کسی قسم کی پھرتی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے ہم متعدد مرتبہ حکومت
کو تجویز دے چکے ہیں متعدد بار اس سلسلے میں خطوط بھی لکھ چکے ہیں کہ ان کی
رجسٹریشن سے متعلق ریئل اسٹیٹ کونسل کے قیام کو یقینی بنایا جائے مگر ہماری
باتوں پرعملدر آمد گزشتہ کئی برسوں میں نہیں ہو سکا ہے پاکستان میں اوور
سیز پاکستانی جو رقوم بھیجتے ہیں ان کا60سے 65فیصد حصہ ریئل اسٹیٹ میں لگتا
ہے پہلے ہی ان سے ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری پر دو فیصد ٹیکس وصول
کیاجا رہا تھا اب مزید تین فیصداضافہ کر دیا گیا ہے ہم بجائے ان کو ریلیف
دینے کے بھاری بھرکم ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا کر سرمایہ کاری سے دور کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں میں یہ سمجھتا ہوں حکومت کو سرمایہ کاری کے ایسے مواقع
فراہم کرنے چاہئیں جو ہر کسی کی دسترس میں ہوں۔حکومت کی جانب سے پاکستان کو
سب زیادہ ریونیو دینے والے شعبے کو مسلسل دیوار سے لگایا جا رہا ہے اگر اس
شعبے کو ریلیف دینے سے متعلق ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے تو ہم بہت جلد سڑکوں
پر آ ئیں گے۔ |
|