سپورٹس چند کھیلوں تک محدود ،مضبوط ہاتھ اور صحافیوں کی بند آنکھیں
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
اس تمام عمل میں کھیلوں سے وابستہ صحافی بھی آنکھیں بند کرکے کام کررہے ہیں ، اس شعبے سے وابستہ چند صحافی کھیلوں کی خبروں کو تفصیلات کے مطابق سے شروع کرکے کرلیا جائیگا اور ہو گیا ہے جیسے خبروں کی اشاعت کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کھیلوں کے شعبے میں بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ، کھیلوں کی صحافت صرف ایونٹس کی کوریج نہیں بلکہ اس سے وابستہ تمام ایشوز خواہ وہ ملازمین ہوں ، ایسوسی ایشنز ہوں یا کھلاڑیوں سے متعلق ہوں ان تمام ایشوز پر وقتا فوقتا لکھنے اور اس کی نشاندہی کرنے سے ہی کسی حد تک مسائل حل ہوسکتے ہیں اسی طرح کھیلوں کی بہتری کیلئے تجاویز بھی انہی کھیلوں سے وابستہ صحافیوں کی ذمہ دار ی ہے لیکن..
|
|
ایک طرف نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے اور ان کیلئے غیر نصابی سرگرمیوں کے دعوے حکومت کررہی ہیں تو دوسری طرف متعدد ایسے کھیل اب بھی صوبائی حکومت کے نظرانداز کھیلوں کی فہرست میں موجود ہیں جس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی حالانکہ ان کھیلوں میں ٹیلنٹ خیبر پختونخواہ میں بہت زیادہ ہے.کم و بیش سترہ مختلف کھیلوں پر مشتمل سپورٹس کمپلیکسز پورے صوبے کے مختلف علاقوں میں موجو د ہیں جبکہ اب ضم اضلاع میں بھی اس پر کام شروع کیا جارہا ہے لیکن ان تمام تر دعوئوں کے باوجود کچھ نہیں کیا جارہا.صرف چند مخصوص کھیلوں کی جانب سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ توجہ دے رہی ہیں جن کے سرکاری سطح پر کوچز بھی ہیں یہ الگ بات کہ بیشتر کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کو فنڈنگ سمیت تمام تر سہولیات حکومت فراہم کرری ہیں تاہم ان سب کے باوجود کھیلوں کی وزارت چند مخصوص کھیلوں پر ہی توجہ دے پا رہی ہیں اور یہ سب کچھ اس دور حکومت میں بھی ہو رہاہے جس کے کپتان نے پورے ملک میں تحصیل سطح پر کھیلوں کے فروغ کے دعوے بھی کئے اعلانات بھی کئے مگر یہ یہ اعلانات صرف کاغذی منصوبوں تک ہی محدود رہے.
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام صوبے میںمختلف جگہوں پرکئی کمپلیکسز کام کررہے ہیں جہاں پر مختلف کھیلوں کی سہولیات کھلاڑیوں کو فیس پر ہی مل رہی ہیں یہ فیس ممبرشپ کی صورت میں کھلاڑیوں سے وصول کی جاتی ہیں ہر سپورٹس کمپلیکس نے کمائی کیلئے الگ الگ طریقے بنائے ہوئے ہیں ، کہیں پراتھلیکٹس کا زور ہے تو کہیں پر کرکٹ اکیڈمی چل رہی ہے ، کہیں پر ہاکی ،سوئمنگ ، بیڈمنٹن ، ٹیبل ٹینس ، اور مارشل آرٹس کے مختلف سٹائل سے کھلاڑیوں کی تربیت ہوتی ہیں توکہیں پر خواتین کی جیم قائم ہیں .جہاں پر اب خواتین بھی کھیلوں کیلئے آرہی ہیں لیکن ان سب چیزوں کے باوجود والی بال ، آرچری ، ٹیبل ٹینس ، تھرو بال ، چک بال سمیت کئی کھیلوں کیلئے باقاعدہ کوئی جگہ نہیں یہ سلسلہ پشاور سپورٹس کمپلیکس جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی ہے سے لے کر حیات آباد سپورٹس کمپلیکس ، چارسدہ کے عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس اور صوابی ، مردان سمیت مختلف جگہوں پر بنائے گئے سپورٹس کمپلیکسز کی ہیں جہاں پر چند مخصوص کھیلوں کی اجارہ داری ہے جن کے کوچز بھی ہیں اور وہ تنخواہیں بھی لیتے ہیں اور اچھے گریڈوں پر تعینات ہیں . جبکہ بعض کھیل مکمل طور پر نظر انداز کئے جارہے ہیں حالانکہ ان کھیلوں میں ٹیلنٹ بھی بہت ہے اور ان کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو منوایا بھی ہے .
ایک زمانے میں وفاقی حکومت کا ایک ادارہ پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر نامی ادارہ تھا جو کہ اب بھی ہے تاہم اب غیر قانونی طور پر کام کررہا ہے کیونکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد اس کی کوئی حیثیت تو نہیں لیکن اس کے اثاثے اور ملنے والے فنڈز کی وجہ سے اسے رکھا جارہا ہے کچھ عرصہ قبل تک پاکستان سپورٹس بورڈ کے زیر انتظام مختلف کھیلوں کی سہولیات کیلئے الگ الگ گرائونڈ تھے کچھ کھیل وفاق کی سطح پر پروموٹ ہوتے تھے تو کچھ صوبائی سطح پر ، تواس طریقے سے ایک مخصوص کھیلوں کے بجائے مختلف کھیلوں میں نئے کھلاڑی سامنے آتے تھے ، لیکن پھر پاکستان سپورٹس بورڈ میں بیٹھے اور کھلاڑیوں کے پروموشن کے نام پر تنخواہیں لینے والوں کو بھی خیال آہی گیا اورانہوں نے بھی ان سہولیات کو کمائی کا ذریعہ سمجھ لیا اور کھلاڑیوں سے ڈیمانڈ شروع کردی جس کا اثر یہ ہوا کہ اب ان کے پاس کھیلوں کی سہولیات تو ہیں مگر کھلاڑی ندارد ہیں.حالانکہ ان اداروں میں کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی کیلئے ویٹر تک بھرتی ہیں جو ماہانہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں.
کم و بیش پینتیس سے زائد کھیلوں کے مختلف فیڈریشن و ایسوسی ایشنز اس وقت خیبر پختونخواہ میں کام کررہی ہیںان میں کتنے کاغذوں میں ہیں ، کتنے حقیقت میں ہیں ، کتنوں پر باپ بیٹے اور کتنوں پر چاچا اور مامے کا قبضہ ہے یہ یہ الگ بحث ہے جس کی طرف نہ تو ماضی میں کسی ادارے نے دی ، نہ کبھی وزارت سپورٹس کو اس کا خیال آیا اور نہ ہی کوئی امکان ہے کہ دیکھا جاسکے کہ کتنے سرکاری ملازمین ان کھیلوں کی آڑ میں کیا کچھ کررہے ہیں ،شعبہ تعلیم میں ٹیچر سے لیکر ہائیر ایجوکیشن تک کے لوگ اس کھیلوں کی ایسوسی ایشنز سے منسلک ہیں کوئی ایک جگہ پرسیکرٹری ہے تو دوسری جگہ پر چیئرمین اور تیسری جگہ پر بطور کام کررہا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود کوئی پاکستان سپورٹس بورڈ سے ایڈ اینڈ گرانٹ کی مد میں لاکھوں روپے وصول کررہا ہے اور کوئی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے ایڈ اینڈ گرانٹ کی مد میں رقمیں وصول کررہا ہے یہ الگ بات کہ کوئی بھی ایسوسی ایشن کسی بھی سرکاری ادارے کیساتھ رجسٹرڈ نہیں ، نہ ہی ان کا کوئی باقاعدہ کسی ادارے سے آڈٹ ہوتا ہے بس سال ختم ہوتے ہی کھمبی کی طرح کچھ ایسوسی ایشن اگ آتے ہیں . رسمی طور پر خبریں لگتی ہیں اور پھر گرانٹ اینڈ ایڈ ملتے ہی غائب ہو جاتے ہیں.
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے زیر انتظام کمپلیکس اور سنٹرز میں کرکٹ ، اتھلیٹکس ، بیڈمنٹن، ٹینس ، اور سکواش وہ کھیل ہیں جس کے مقابلے ہر ہفتے میں کہیں نہ کہیں پر ہوتے رہتے ہیں اوران کی ایسوسی ایشنز اور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز یہ مقابلے منعقد کرواتے رہتے ہیں اور یہ مقبول ترین کھیلو ں کی فہرست میں شامل ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کھیلوں سے وابستہ طاقتور لوگ بھی ہیں جبکہ پینتیس کھیلوں میں بیشتر دیگر کھیلوں کی سرگرمیاں تین سے چھ ماہ بعد ہوتی ہیں جبکہ بعض تو سال میں صرف مارچ اپریل میں منعقد کروائی جاتی ہیں او ر پھر اللہ اللہ خیر صلا ، والا حساب ہوتا ہے والی بال کا کورٹ پشاور سمیت کسی بھی جگہ پر نہیں ، اسی طرح ٹیبل ٹینس کیلئے ہال موجود ہیں وہ ایرینا ہال میں مقابلے منعقد کروانے پر مجبور ہیں.کہیں پر ایسوسی ایشنز مضبوط ہاتھوں میں ہیں تو کہیں پر مخصوص لوگوں کا ہاتھ ہونے کی وجہ سے پیسہ چند کھیلوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے اسی بناء پر نئے آنیوالے نوجوان بھی صرف ان چند کھیلوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں.
اس تمام عمل میں کھیلوں سے وابستہ صحافی بھی آنکھیں بند کرکے کام کررہے ہیں ، اس شعبے سے وابستہ چند صحافی کھیلوں کی خبروں کو تفصیلات کے مطابق سے شروع کرکے کرلیا جائیگا اور ہو گیا ہے جیسے خبروں کی اشاعت کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کھیلوں کے شعبے میں بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ، کھیلوں کی صحافت صرف ایونٹس کی کوریج نہیں بلکہ اس سے وابستہ تمام ایشوز خواہ وہ ملازمین ہوں ، ایسوسی ایشنز ہوں یا کھلاڑیوں سے متعلق ہوں ان تمام ایشوز پر وقتا فوقتا لکھنے اور اس کی نشاندہی کرنے سے ہی کسی حد تک مسائل حل ہوسکتے ہیں اسی طرح کھیلوں کی بہتری کیلئے تجاویز بھی انہی کھیلوں سے وابستہ صحافیوں کی ذمہ دار ی ہے لیکن..
وہ پشتو مثل کے مصداق " سہ دانے لوندے او سہ جرندہ خرابہ " یعنی کچھ گندم کے دانے خراب اور کچھ اسکی پسائی کرنے والے مشین خراب ہوں تو پھر صورتحال ایسی ہی نکلتی ہیں جس طرح کی آج بنی ہوئی ہیں اگر حکومت کی طرف سے کہیں پر غلط چیز ہورہی ہیں تو اس پر ایسوسی ایشنز بھی خاموش ہیں اور صحافیوں نے تو ویسے بھی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہیں ایسے میں صورتحال کیسی بہتر ہوگی یہ بڑا سوالیہ نشان ہے .
|