شدید گرمی اور کھیل: دنیا بھر میں ایتھلیٹس کے لیے بڑھتا ہوا چیلنج، پاکستان میں بھی صورتحال تشویشناک مگر خاموشی



گرمیوں کی شدت اپنے عروج پر ہے اور دنیا کے کئی ایتھلیٹس کے لیے تربیتی سیزن بھی پورے جوش میں جاری ہے۔ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، حکومتیں اور کھیلوں کے ادارے کھلاڑیوں کو شدید گرمی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کر رہے ہیں۔

جرمنی کی وفاقی حکومت نے جون میں ہیٹ ویوز کے صحت پر اثرات سے نمٹنے کا منصوبہ پیش کیا، جس میں منظم کھیلوں کے لیے تحفظ کی حکمت عملی بھی شامل ہے۔ اس منصوبے میں اسٹیڈیمز، ایونٹس، کھلاڑیوں اور عملے کے لیے سفارشات درج ہیں۔ تاہم کچھ کلبز کا کہنا ہے کہ ان پر عمل درآمد ایک مشکل کام ہے۔ٹی ایس وی پینزبرگ کی چیئر پرسن مشائیلا شوٹ نے کہا کہ "یہ سفارشات بہت زیادہ ہیں"۔ ان کے مطابق کلب کچھ تجاویز پر عمل نہیں کر سکتا، جیسے توانائی بچانے والی تعمیرات یا گرمی کم کرنے والے رنگ اور فرش لگانا۔ "ہمارے پاس اپنی ہال نہیں ہے، اس لیے ہم ڈھانچے میں تبدیلی نہیں کر سکتے۔"

ٹی ایس وی وائل ہائم کے بیورن بارتنیک نے بھی اتفاق کیا۔ "ہم ہالز کو انسولیٹ کرنا چاہتے ہیں، مگر یہ ہمارے اختیار میں نہیں"۔ ان کا کہنا ہے کہ منصوبہ سوچا سمجھا ہے مگر کچھ باتیں عملی طور پر ممکن نہیں، جیسے بہت زیادہ گرم ہونے پر کسی اور اسپورٹس فیسلٹی میں منتقل ہونا۔ "ہمارے پاس پہلے ہی تربیتی جگہوں کی کمی ہے"۔کلب کے سربراہان نے کہا کہ کئی حفاظتی اقدامات پہلے ہی کوچنگ ٹریننگ کا حصہ ہیں۔ ٹی ایس وی شونگاؤ کے پیٹر مائل نے کہا: "ہیٹ پروٹیکشن سب کے لیے بڑا چیلنج ہوگا، مگر اس کی ضرورت ہے۔"

جاپان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ موسمی رجحان جاری رہا تو 2060 کی دہائی یا اس کے بعد گرمیوں میں زیادہ تر علاقوں میں طلبہ کا آؤٹ ڈور کھیلوں میں حصہ لینا ممکن نہیں ہوگا۔گارجین کے مطابق، اسکول اسپورٹس مقابلوں کے منتظمین پہلے ہی اقدامات کر رہے ہیں، جیسے درجہ حرارت بڑھنے پر میچ روکنا، ایونٹس کو ٹھنڈے علاقوں میں منتقل کرنا، میچ کا وقت کم کرنا، باقاعدہ پانی کے وقفے دینا، سایہ دار جگہیں فراہم کرنا اور آئس باتھ کا انتظام کرنا۔

تاہم، ٹیکیو یونیورسٹی اسپتال کے سابق ایمرجنسی میڈیکل ہیڈ یاسوفومی میاکے کا کہنا ہے کہ صرف ایونٹس منسوخ کر دینا حل نہیں، کیونکہ اس سے جسم گرمی کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت نہیں بنا پاتا، جو کھیل کا بنیادی مقصد ہے۔ انہوں نے منتظمین کو مشورہ دیا کہ ایک سال پہلے ہی ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی کمیٹی بنائیں، حفاظتی رہنما کتاب تیار کریں، اور مقامی اسپتالوں اور فائر بریگیڈ سے تعاون کریں۔ٹوکیو 2020 اولمپکس کی شدید گرمی کے بعد ورلڈ ایتھلیٹکس نے پیرس کے لیے ہیٹ پروٹوکول میں تبدیلی کی۔ میڈیکل عملے کی تربیت، ایتھلیٹس کے لیے آئس واٹر ہیٹ ڈیکس، اور گرمی کے مطابق ڈھلنے کے وسائل فراہم کیے گئے۔

سائیکلنگ ٹیمیں بھی گرمی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی اپنا رہی ہیں۔ ٹیم الپیسن ڈیکونینک کے اسپورٹس سائنسدان کرسٹوف ڈی کیگل کے مطابق "ہیٹ ٹریننگ ہماری تیاری میں اہم حصہ ہے"۔ یو اے ای ایمیریٹس کے کوچز بھی بلندی کی تربیت کے ساتھ گرمی کی تربیت کو مؤثر سمجھتے ہیں۔ان کا مقصد جسم کا درجہ حرارت 38.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھانا ہوتا ہے، جو ہلکا بخار سمجھا جاتا ہے۔ آسٹریا کے فیلکس گال کے مطابق یہ غیر فعال طور پر بھی ممکن ہے، جیسے تربیت کے بعد ساونا یا گرم پانی کا غسل، یا اضافی کپڑے پہن کر تربیت کرنا۔

پاکستان میں بھی یہی مسئلہ درپیش ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا سمیت تمام صوبوں میں کھلاڑی شدید گرمی میں تربیت اور مقابلوں کے دوران مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ نہ وفاقی اور صوبائی کھیلوں کے ادارے اور نہ ہی دیگر متعلقہ حکام اس پر کوئی سنجیدہ توجہ دے رہے ہیں۔ نہ حفاظتی پروٹوکولز بنائے گئے اور نہ کھلاڑیوں کی حفاظت کے لیے کوئی مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں، جس سے ان کی صحت اور کارکردگی دونوں خطرے میں ہیں۔

#kikxnow #heatwave #sports #players #pakistan #worldissue
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 733 Articles with 612739 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More